|رپورٹ: ورکر نامہ|
21مئی بروز سوموار کی میڈیا رپورٹوں کے مطابق کراچی شہر میں گرمی کی حالیہ شدید لہر سے کم از کم 65لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔رپورٹ کے مطابق حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ رپورٹ کسی سرکاری ذرائع سے موصول نہیں ہوئی بلکہ صرف دو علاقوں میں قائم نجی فلاحی اداروں کی مصدقہ رپورٹ ہے۔ اس تناسب سے اندازہ لگایا جائے تو صرف ایک دن میں سینکڑوں افراد گرمی کی شدت کے باعث ہلاک ہوئے جبکہ گرمی کی یہ شدید لہر نہ صرف جاری ہے بلکہ اس کی شدت میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ اس حساب سے آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں کراچی میں ہزاروں افراد گرمی کی شدت کے باعث ہلاک ہو جائیں گے جبکہ حکمران اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے عوام کو صبر کی تلقین کرتے رہیں گے۔
گرمی کی شدت سے ہلاک ہونے والے تمام افراد انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ دولت مند افراد شدید گرمی میں بھی ٹائی اور گرم سوٹ پہنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سے لے کر تمام وزیروں اور مشیروں کے لباس دیکھ لیں یا پھر ٹی وی پر نظر آنے والی تمام سیاسی قیادتوں کے لباس کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ شاید یہ لوگ کسی ٹھنڈے علاقے کے باسی ہیں جہاں برف باری ہو رہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ، پانی کی قلت اور ان سے متعلقہ بیماریوں سے لا علم یہ افراد اس ملک کے کروڑوں غریب افراد کی زندگیوں کے فیصلے کرنے پر مامور ہیں۔وہی کروڑوں افراد جو کیڑے مکوڑوں سے بد تر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کوئی قدرتی آفات ہو وہ ان غریب افراد پر ہی حملہ آور ہوتی ہے۔سیلاب، زلزلے اور طوفانوں کی زد میں یہی غریب عوام آتے ہیں۔ گرمی اور سردی کی شدت ہو یا تند و تیز بارشیں ہوں غریبوں کی زندگیاں ہی اجیرن ہوتی ہیں اور ان کے گھر اجڑتے ہیں۔
اس دفعہ کراچی میں ہونے والی ہلاکتیں کوئی نئی نہیں ہیں بلکہ یہ اب ہرسال کا معمول بن چکا ہے جب گرمی کے مہینوں میں ہزاروں افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ لیکن حکمران طبقات اپنی غلیظ سیاست اور مکروہ دھندوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور غریبوں کے لیے محض ایک آدھ جعلی بیان داغ دیا جاتا ہے۔ اس سال بھی یہی کچھ ہو رہا ہے اور موت کا یہ خونی چکر اس سال ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اموات کا باعث بن رہا ہے۔
روزنامہ ڈیلی ٹائمز کی 21مئی کی رپورٹ کے مطابق 65ہلاکتیں صرف سہراب گوٹھ اور کورنگی کے علاقوں میں رپورٹ ہوئیں جبکہ دیگر علاقوں سے ابھی تک تفصیلات موصول نہیں ہوئیں۔رپورٹ کے مطابق یہ افراد اپنے گھروں میں ہی ہلاک ہوئے اور انہیں ہسپتال تک نہیں لیجایا جاسکا۔کراچی سمیت پورے ملک کے ہسپتالوں کی حالت بھی انتہائی مخدوش ہے جہاں علاج کے بجائے دھکے ہی مریضوں کے نصیب میں آتے ہیں۔ دوائیوں اور علاج خریدنے کی سکت نہ ہو سکنے کے باعث ویسے ہی بہت سے لوگ اپنے قریبی عزیز کو مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہسپتالوں میں بھی عملے کی غفلت سے لے کر دوائیوں کی عدم دستیابی کے باعث ہزاروں لوگ ہر روز ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود گھر والوں کو ایک تسلی ، ایک امید پھر بھی رہتی ہے کہ شاید ان کے جگر کا ٹکڑاصحت یاب ہو جائے۔ لیکن اس رپورٹ میں نظر آتا ہے کہ یہ امید اور فریب بھی لوگوں میں ختم ہو چکا ہے اور وہ اس عوام دشمن اور گماشتہ ریاست سے بالکل نا امید ہو چکے ہیں۔
گرمی سے ہلاک ہونے والی ایک خاتون طیبہ شیراز تھیں جو ایک بچے کی ماں اور اورنگی ٹاؤن میں بدر چوک کی رہائشی تھیں۔ ان کے خاوند نے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ باورچی خانے میں افطاری کی تیاری کر رہی تھیں کہ اچانک بے ہوش ہو کر گر پڑیں اور وہیں پر ان کی موت واقع ہو گئی۔ انہیں ہسپتال لیجانے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔گرمی کی وجہ سے ایک اور موت لیاری ٹاؤن کے 87سالہ شبیر احمد کی ہوئی ۔ ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ ہیٹ سٹروک کی وجہ سے وہ گھر پر ہی گر پڑے۔ انہیں بھی ہسپتال پہنچنا نصیب نہیں ہو سکا اور رستے میں ہی وفات پا گئے۔ اسی طرح عامر حبیب ، چھ بچوں کا باپ اور پیشے کے لحاظ سے درزی تھا۔ اس کے بھائی نے رپورٹر کو بتایا کہ لوڈ شیڈنگ کے دوران بھی وہ گھر میں ہی دیر تک اپنا کام کرتے رہے جس کی وجہ سے وہ ہیٹ سٹروک کا شکار ہو گئے ۔ انہیں بھی ہسپتال نہیں لیجایا جا سکا۔ اور یہ محض چند ایک واقعات کی تفصیلات ہیں۔
2015ء میں بھی گرمی کی لہر کے باعث بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ سرکار کے جھوٹے اعداد و شمار کے مطابق اس سال 1200افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق تقریباً پندرہ ہزار افراد اس سال ہلاک ہوئے تھے۔اس سال یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ان تمام ہلاکتوں کی ذمہ داری براہ راست کے الیکٹرک اور پاکستان کے حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے۔ سندھ میں گزشتہ ایک دہائی سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جس نے بد ترین لوٹ مار کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔اس حکومت کے بہت سے وزیر کراچی میں پانی کی بلیک میں فروخت کے غلیظ دھندے میں ملوث ہیں جس کی ’’پرسنٹیج‘‘ اوپر تک پہنچتی ہے۔لوڈ شیڈنگ کے باعث جہاں بجلی بند ہو جاتی ہے وہاں پانی کی سپلائی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق گرمی کی اس شدید لہر کے دوران ایک شخص کو دن میں تقریباً نو لیٹر پانی پینا چاہیے ۔ لیکن اتنی وافر مقدار میں صاف پانی کی قیمت صرف ایک فیصد افراد ہی ادا کر سکتے ہیں۔ آبادی کی وسیع اکثریت اتنا مہنگا پانی اتنی وافر مقدار میں افورڈ ہی نہیں کر سکتی۔ آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ تو گندا اور مضر صحت پانی پینے پر ہی مجبور ہے۔لیکن شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ کے باعث وہ پانی بھی دستیا ب نہیں ہوتا۔ جس کے باعث جہاں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوتی ہیں وہاں بیمار ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ ہوتا ہے۔ 2015ء میں تقریباً چالیس ہزار سے زائد افراد گرمی کے باعث شدید بیماریوں میں مبتلا ہوئے تھے۔
یہ تمام تر قیامت محنت کشوں پر ٹوٹتی ہے تو بھی حکمرانوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ وہ پانی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کے باعث جنریٹروں ، بیٹریوں وغیرہ کی زائد قیمتوں سے بے تحاشا منافع کماتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی ’’پرسنٹیج‘‘ بھی اوپر تک پہنچتی ہے۔کے الیکٹرک تسلی بھرے بیانات دے کر اپنی ذمہ داریوں سے بری ہو جاتی ہے۔ اسی کے الیکٹرک کے تمام اعلیٰ عہدوں پر حکمران طبقات کے افراد فائز ہیں جنہیں بھاری بھرکم، لاکھوں میں، تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے افراد اورجرنیلوں و ججوں کی اولادوں کو لاکھوں روپے تنخواہیں دینے کا مقصد اس قیامت برپا کرنے میں معاونت حاصل کرناہے۔ اپنے تعلقات کے باعث کمپنی کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس کا معاہدہ منسوخ ہوتا ہے۔جیسے ہی طلب میں شدت آتی ہے کوئی نہ کوئی اہم پرزہ یا لائن زمین بوس ہو جاتی ہے جس کی مرمت میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ اس دوران لاکھوں لوگ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن حکمران طبقات کے ماتھے پر بل تک نہیں آتا۔
اس تمام عمل میں کے الیکٹرک کے منافعوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور اس کی دولت بیرون ملک تجوریوں میں منتقل ہو رہی ہے۔ ان منافعوں کی وجہ یہ ہے کہ عوام پر مہنگی بجلی کی اذیت مسلط کی گئی ہے اور انتہائی مہنگے داموں بجلی فروخت کی جاتی ہے۔ کسی بھی قسم کی مرمت یا نئی مشینری نہیں لگائی جاتی اور انتہائی بوسیدہ آلات کو ہی پھر سے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ منافع خوری کے اس دھندے میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ۔ اگر ہزاروں افراد گرمی سے مرتے ہیں تو مر جائیں لیکن کمپنی اپنے منافعوں میں کوئی کمی برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر پورے شہر کو بجلی نہ بھی ملے تو کوئی پوچھنے والا نہیں وہ جھوٹ بول کر میڈیا میں اچھا تاثر بنا لیں گے اور تمام سیاسی پارٹیاں، عدالتیں اور جرنیل ان کا مکمل ساتھ دیں گے۔
اسی طرح منافعوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ڈاؤن سائزنگ ہے جس کے نتیجے میں دس ہزار سے زائد محنت کشوں کو جبری طور پر برطرف کیا گیا۔ جو باقی بچے ہیں وہ بھی انتہائی کم اجرتوں اور حقوق کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ عملے کی کمی کے باعث بھی بہت سے نقائص جنم لیتے ہیں اور بجلی کی فراہمی میں تعطل آتا ہے لیکن کمپنی کے منافعوں کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پورا شہر جہنم کے اندر زندگی گزارے۔
یہ سب ہلاکتیں نجکاری کی پالیسی کا پھل ہیں جس پر اس ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں۔ وفاق اورتمام صوبوں میں اقتدار پر براجمان پارٹیاں اسی پالیسی کو زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جنرل مشرف کی آمریت میں بھی اسی پالیسی پر عمل درآمد کیا گیا اور پی ٹی سی ایل سمیت بہت سے اہم اداروں کی نجکاری کی گئی جس میں خوب کمیشن بھی کھایا گیا۔ آج اسی پالیسی کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب عوام بھگت رہے ہیں اور اپنی زندگیوں سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اس سامراجی پالیسی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ جب ان اہم اداروں کی نجکاری کی گئی تھی تو عوام سے یہ جھوٹ بولا گیا تھا کہ اس طرح ان اداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی اور حکومت پر قرضوں کا بوجھ بھی کم ہو گا۔ لیکن اس پالیسی پر عملدرآمد کے بعد نہ تو قرضوں کا بوجھ کم ہوا اور نہ ہی ان اداروں کی کارکردگی بہتر ہوئی۔
کے الیکٹرک کی نجکاری کے وقت کہا گیا کہ نجی کمپنی اس ادارے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرے گی جس سے کراچی پھر سے روشنیوں کا شہر بن جائے گا۔ جب ہزاروں ملازمین کو جبری برطرف کیا جارہا تھا اس وقت کہا گیا کہ یہ ملازمین ادارے پر بوجھ ہیں اور ان کو نکالنے کے باعث ادارہ ترقی کرے گا اور اپنا سرمایہ بہتری کے منصوبوں پر خرچ کر سکے گا۔ لیکن ان عوام دشمن حکمرانوں کے غلیظ جھوٹ بے نقاب ہو چکے ہیں۔ کے الیکٹرک کے منافعوں میں تو بہت بڑا ضافہ ہوا ہے اور ان تمام حکمرانوں کی تجوریوں میں بھی دولت کے انبار لگ گئے ہیں لیکن عوام کی اکثریت بھوک اور بیماری کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ صرف کے الیکٹرک ہی نہیں بلکہ جس بھی ادارے کی نجکاری کی گئی اس کی یہی حالت ہے۔ بینکوں کی نجکاری کے بعد مالکان کے منافع تو کئی گنا بڑھ چکے ہیں لیکن کھاتہ داروں کو سہولیات دینے کی بجائے تمام بینک کھلم کھلا فراڈ کر رہے ہیں اور دھوکہ دہی سے اربوں روپے نچوڑ رہے ہیں۔ بینک ملازمین جو کبھی سماج میں متمول شمار ہوتے تھے آج اس سماج میں سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہیں۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے بعد سے حکومت کو ملنے والا اربوں روپے سالانہ منافع ختم ہو چکا ہے اور ستر ہزار سے زیادہ خاندان کسمپرسی کی زندگی میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ ٹیلی فون کال انتہائی مہنگی ہو چکی ہے اور سروس کا معیار انتہائی گراوٹ کا شکار ہے۔بجلی کی پیداوار کی کمپنیوں IPPsکی نجکاری کے باعث پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا زہر پھیل چکا ہے جس سے صنعتیں بھی تباہ ہوئی ہیں جبکہ ملکی خزانے پر سرکلر قرضے کا پھندا سخت ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت سرکلر قرضہ ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ نواز شریف کی حکومت نے آتے ہیں تقریباًچار سو ارب روپے اس مد میں ادا کیے تھے۔ ان اربوں روپے کی رقوم کی ادائیگی میں جہاں بد ترین کرپشن کی جاتی ہے وہاں وصول کرنے والے بھی یہ حکمران خود ہی ہوتے ہیں جو مختلف کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہوتے ہیں۔ پی آئی اے کو خسارے میں دھکیلا جا رہا ہے جبکہ وزیر اعظم کی ذاتی ائیر لائن کمپنی بلیو ائیر کے منافع بڑھتے جا رہے ہیں۔اب پاکستان کے دیگر بڑے لٹیرے سرمایہ دار بھی اس شعبے میں داخل ہو رہے ہیں جس میں عسکری ائیر لائن کا اجرا بھی شامل ہے۔
آج کراچی میں ہزاروں افراد کی ہلاکتوں کا مداوا کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کے الیکٹرک کو نیشنلائز کر کے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے۔ نجی کمپنی کے منافع خور مالکان کی تمام جائیدادیں اور اثاثے قبضے میں لے لیے جائیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز تمام افراد کو ہزاروں افراد کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔ مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں ہونے والی نیشنلائزیشن بھٹو دور میں ہونے والی نیشنلائیزیشن سے بالکل مختلف ہو گی۔ اس وقت بیوروکریٹوں کو صنعتوں اور اداروں پر مسلط کر دیا گیا تھا۔ گو کہ ان اداروں کی کارکردگی نجی کمپنیوں سے ہزار گنا بہتر تھی اور ان کا مقصد منافع نچوڑنے کی بجائے سماج کی خدمت تھا۔لیکن بتدریج اس میں کرپشن حاوی ہوتی گئی اور حکمران طبقات نے اپنی لوٹ مار کے لیے ان اداروں کو خساروں کی جانب دھکیل دیا۔اس لیے ضروری ہے کہ آج کی نیشنلائزیشن مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دی جائے۔ اس طرح نہ صرف تمام تکنیکی نقائص بر وقت دور کیے جا سکیں گے اور ادارہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو گا بلکہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بھی نجات ملے گی۔ کمپنی کی منافع خوری سے نجات ملنے کے بعد بجلی کی قیمت بھی انتہائی کم ہو جائے گی اور ہر شخص اے سی کی ٹھنڈک حاصل کر سکے گا۔
ٹھنڈے کمروں میں رہنے والے دولت مند افراد اور اس ملک کے حکمران اس عمل کی شدید مخالفت کریں گے کیونکہ اس سے ان کے مفادات کو براہ راست ٹھیس پہنچے گی۔ منافع خوری کے نظام پر جونکوں کی طرح زندگیاں گزارنے والے یہ افراد کبھی بھی اپنی آمدن اور حکمرانی سے رضاکارانہ طور پر دستبردار نہیں ہو ں گے۔اس قیامت کے برپا ہونے کے بعد بھی وہ نجکاری کے فضائل و برکات بیان کرتے چلے جائیں گے لیکن اس پالیسی کی حقیقت آج سب کے سامنے ہے۔ان حکمرانوں سے اپنے زندہ رہنے کا حق چھیننے کے لیے عوام کو جدوجہد کے میدان میں اترنا ہو گا۔ اس میدان میں بھی ہر طرف رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس وقت حکمران طبقے کی رکھیل بن چکی ہیں جبکہ عوام کو کراچی پریس کلب کے سامنے جائز مطالبات کے لیے احتجاج کرنے پر بھی اغوا کر لیا جاتا ہے اور بد ترین تشدد کیا جاتا ہے۔کسی بھی حقیقی عوامی تحریک کو ابھرنے سے پہلے ہی کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن آج زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام اس میدان میں قدم رکھیں اور اپنی زندگی کا حق ان خونخوار لٹیروں سے چھین کر حاصل کریں۔
کے الیکٹرک کی نیشنلائزیشن دیگر تمام اداروں کی نیشنلائزیشن کی جانب پہلا قدم ہو گی جو اس ملک میں منافع خوری پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا آغاز ہوگا۔