|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، خیبر پختونخوا|
خیبر پختونخوا میں صحت کا شعبہ شدید ہیجانی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ کورونا وبا میں مریضوں کا دباؤ ناقابل بیان حد تک بڑھ چکا ہے۔ صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال ایل آر ایچ کو وبا کی تیسری لہر کے دوران صرف کورونا مریضوں کیلئے مختص کیا گیا ہے جبکہ باقی مریضوں کو کے ٹی ایچ اور ایچ ایم سی کی طرف ریفر کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں پہلے سے موجود بے تحاشا رش میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ مختصر یہ کہ اس وقت صوبے کے تمام ہسپتالوں میں مسلسل ہنگامی صورتحال بنی ہوئی ہے۔
ایسے میں ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈکس غرض یہ کہ تمام ہیلتھ سٹاف جان کی بازی لگاکر دن رات انتہائی سخت مشقت کرکے ہسپتالوں کو چلا رہے ہیں۔ کورونا وبا کے شروع ہونے سے لے کر آج تک کروڑوں انسانوں کی جانیں بچانے کیلئے بہادر ہیلتھ ورکرز اس خطرناک وبا کے سامنے اکیلے اور خالی ہاتھ ڈٹ کر لڑ رہے ہیں۔ صرف خیبر پختونخوا میں 100 سے زائد ہیلتھ ورکرز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں 67 ڈاکٹرز شامل ہیں۔
وبا کے آغاز سے ہی ہیلتھ سٹاف کو بنیادی ہتھیار یعنی پی پی ایز فراہم نہیں کی گئیں جس کیلئے وہ روز اول سے برسر پیکار رہے۔ ایک طرف صحت کے ملازمین کو جان لیوا وبا سے بغریر ہتھیار کے لڑنے پر مجبور کیا گیا تو وہیں دوسری جانب اربوں روپے کا اسلحہ خریدا گیا۔ پاکستان کھربوں روپے کا اسلحہ درآمد کرنے میں دنیا میں دسویں نمبر پر ہے مگر صحت اور علاج کے حوالے سے رپورٹس کے مطابق 153 ممالک سے بھی پیچھے ہے۔ ذرا سوچیں کہ 25 مارچ کو ٹیسٹ کیے گئے حالیہ میزائل کے بدلے میں کتنی ویکسینیں اور دیگر ضروری آلات خریدے جا سکتے تھے!
اب وبا کی تیسری لہر جب اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، اس کے ساتھ ہی ہیلتھ سٹاف کے اوپر کام کا پریشر ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ اس حال میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہیلتھ سٹاف کو مکمل حکومتی پروٹوکول دیا جاتا، ہسپتالوں میں ان کو مکمل سیکورٹی دی جاتی تاکہ وہ بحفاظت اور آسانی سے اپنے فرائض ادا کر سکیں، ان کو درکار تمام سہولیات فراہم کی جاتیں، حکومت ہنگامی بنیادوں پر متوازی آئیسولیشن سنٹرز بناتی، لاک ڈاؤن میں شہر کے مختلف مقامات پر غیر ضروری پلازوں اور ہوٹلوں کو حکومتی احکامات پر کورونا سنٹرز میں تبدیل کیا جاتا۔ مگر افسوفناک حقیقت ہے کہ حکومت نے نہ صرف ان تمام ذمہ داریوں سے آنکھیں چرائیں بلکہ اس کے برعکس پچھلے عرصے سے ایک طرف ہیلتھ ورکرز پر معاشی حملے کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف اراکین صوبائی اسمبلی اپنے پسماندہ قبائلی غرور دکھانے اور بدمعاشی کرنے کیلئے بھی ان ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں اور شعبہ صحت کے ملازمین پر رعب جھاڑتے ہیں اور انہیں زدو کوب کرتے ہیں۔ یہاں بھی حکومت ان ملازمین کو سیکورٹی تک دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
مگر خیبر پختونخوا کے تمام ہیلتھ ورکرز کی جرات داد کی مستحق ہے کہ وہ مستقل مزاجی کے ساتھ ہر حکومتی حملے کا جواب بھی دیتے آرہے ہیں اور اپنے جائز حقوق کیلئے جرات مندی سے لڑتے آرہے ہیں۔
30 اپریل 2021ء کو جب صوبائی اسمبلی کے رکن نگت اورکزئی اور شفیق آفریدی کے پشت پناہ سیاسی غنڈوں کی طرف سے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے سٹاف پر حملہ کیا گیا تو صوبے بھر کے ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈکس و دیگر تنظیموں نے فوری طور پر احتجاج کا اعلان کیا۔ بعد ازاں ہنگامی اجلاس بلاکر ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ یہ ہڑتال تین روز تک مسلسل جاری رہی اور اس کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے صوبے بھر کے دیگر ہسپتالوں میں بھی تمام ہیلتھ سٹاف نے کالی پٹیاں باندھ کر اس ناروا ظلم کے خلاف اور ایچ ایم سی سٹاف کے ساتھ یکجہتی کے طور پر علامتی احتجاج کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہزارہ ڈویژن کے پانچ اضلاع میں پہلے ہی سے رسک الاؤنس، شہدا پیکج اور دیگر کچھ مطالبات کیلئے ہیلتھ سٹاف برسر احتجاج تھے جس کو بعد میں ہڑتال میں تبدیل کیا گیا۔ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک ہڑتال کرنے کے بعد وقتی طور پر عید کے دوران ہڑتال ملتوی کی گئی مگر احتجاج جاری ہے۔ اس کے علاوہ خیبر ایجنسی کے ڈوگرہ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں پی ٹی ائی کے رکن اسمبلی اقبال آفریدی کی طرف سے سٹاف کو ہراساں کرنے کے خلاف بھی ہڑتال کی گئی۔ اس دوران 7 مئی کو ایبٹ آباد ڈی ایچ کیو ہسپتال میں کچھ عناصر نے ڈاکٹرز پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ڈاکٹرز کا احتجاج مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔
ہیلتھ سٹاف نے ان تمام واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے اور 2020ء سے منظور شدہ سیکورٹی ایکٹ کو عملی طور پر نافذ کروانے تک ہڑتال نہ صرف جاری رکھنے بلکہ صوبے کے تمام ہسپتالوں تک بڑھانے کا اعلان بھی کیا ہے۔
اس تمام صورتحال سے خوفزدہ ہوکر حکومت نے فوری طور پر رکن صوبائی اسمبلی نگت اورکزئی، شفیق آفریدی اور دیگر ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروا کر ہیلتھ ورکرز کے غصے کو قابو میں کرنے کی کوشش کی۔ ایبٹ آباد کے ہسپتال میں پیش آنے والے اس واقعہ میں ملوث چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا مگر اب سب بے سود ثابت ہوا جب کہ پانی سر سے گزر چکا تھا۔
ہیلتھ ورکرز نے اعلان کیا کہ جب انہیں احتجاج پر نکلنے پر مجبور کر ہی دیا گیا ہے تو اب پرانا اور نیا تمام حساب چکتا کرکے ہی وہ دم لیں گے۔ انہوں نے اب اپنے تمام سلگتے مسائل کا حل، بشمول سیکورٹی ایکٹ کے نفاذ کا مطالبہ سامنے رکھا ہے اور مطالبات حل ہونے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ مختصراََ اب بات صرف دو ملزمان کی گرفتاری یا ایف آئی آر تک محدود نہیں رہی۔
ہیلتھ ورکرز تنظیموں نے ان مطالبات میں اب سیکورٹی ایکٹ 2020ء کا عملی نفاذ، رسک الاؤنس، پروموشنز کا مسئلہ، شہدا پیکج، ہسپتالوں میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ جیسے اہم مطالبات کو شامل کرتے ہوئے باہمی طور پر کچھ ہسپتالوں میں علامتی احتجاج جبکہ کچھ اضلاع میں باقاعدہ ہڑتال پچھلے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے کیلئے جاری رکھی جس کو صرف عید کیلئے وقتی طور پر ملتوی کیا گیا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ہیلتھ ورکرز کے اس شاندار اور دلیرانہ جدوجہد پر تمام ہیلتھ ورکرز کو داد دیتا ہے اور ان کی جدوجہد میں عملی طور پر ان کا ساتھ دینے کا عزم کرتا ہے۔ ایچ ایم سی کے واقعہ سے پہلے ہیلتھ ورکرز کی جاری جدوجہد اور اس واقعہ کے بعد احتجاج سے لے کر اب تک صوبے بھر کے ہیلتھ ورکرز نے جو جرات دکھائی ہے وہ صوبے کے باقی تمام شعبوں کے ملازمین کیلئے ایک زندہ مثال ہے کہ اپنے حقوق کیلئے کس طرح سے ڈٹ کر، بغیر کسی خوف و ڈر اور شک و شبہ کے لڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے پچھلے سات سالوں سے شعبہ صحت کی نجکاری کا کالا قانون ایم ٹی ائی ایکٹ نافذ کرکے اس شعبے کو مکمل بربادی سے دوچار کر ڈالا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت جہاں ایک طرف بنیادی جمہوری و سیاسی حقوق سے محروم کرکے ہیلتھ ورکرز سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے تو وہیں دوسری طرف اصلاحات کے نام پر ہسپتالوں نجکاری کر کے منافع کمانے کی فیکٹریاں بنائی جا رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہیلتھ سٹاف کے شدید استحصال کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں سے رہی سہی سرکاری مفت علاج کی سہولت بھی چھینی جا رہی ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ہیلتھ ورکرز کی احتجاجی تحریک کی مکمل حمایت کا اعلان کرتا ہے اور ان کی آواز ملک بھر کے باقی محنت کشوں تک پہنچانے اور ہر پلیٹ فارم پر ان کی جدوجہد کا دفاع کرنے کا عزم کرتا ہے۔