|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
بلوچستان کے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر مچھ کے علاقے گیشتری میں سیکیورٹی اداروں کے حصار میں کوئلہ فیلڈ میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں کم از کم 10 کان کن ہلاک ہو گئے ہیں۔ جس کے بعد سے ہزارہ برادری نے میتیں شاہراہ پر رکھ کر احتجاج کیا۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی قادر نائل نے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد میتوں کو کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن کے ولی العصر امام بارگاہ منتقل کر دیا۔ بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ حافظ عبدالباسط نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے 9 افراد کی شناخت ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن افراد کی شناخت ہوئی ہے ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔ مچھ میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس علاقے پنڈل گڈ نامی لیز پر مسلح افراد نے کان کنوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھنے کے علاوہ ان کے ہاتھ بھی باندھے اور بعد میں ان پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے۔ جبکہ تصاویر اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں اُنکو زبح کرکے دکھایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے مچھ میں ہزارہ کان کنوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ روئٹرز کے مطابق شدت پسند تنظیم سے منسلک اعماق نیوز ایجنسی پر شائع ہونے والے بیان میں 10 کان کنوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق مرنے والے کان کن پاکستانی نہیں بلکہ افغان شیعہ ہزارہ ہیں۔ چنانچہ ان کے لواحقین کو معاوضہ ملنے کی امید کم ہی ہے۔ صوبائی حکومت معاوضے کا اعلان کرنے سے پہلے یہ جانچ رہی ہے کہ مرنے والے پاکستانی ہیں کہ غیر پاکستانی۔ غیر پاکستانی ہیں تو وہ قانونی طور پر یہاں رہ رہے تھے یا چھپ چھپا کے برسر روزگار تھے۔
بلوچستان میں دہشتگردی کے اس طرح کے واقعات ایک معمول بن چکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف اگر ریاستی سیکورٹی پر نظر دوڑائی جائے تو ہر جگہ سیکیورٹی فورسز کی چوکیاں نظر آتی ہیں، مگر اس کے باوجود اس طرح کے واقعات ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ پورے صوبے میں یہ بات مقبول عام کہ جہاں سیکیورٹی ادارے زیادہ سرگرم ہوتے ہیں وہاں اس طرح کی بربریت لازمی ہوتی ہے۔ لوگ ان چوکیوں کو اپنے لیے حفاظت کی بجائے وحشت کی علامت سمجھتے ہیں۔
بلوچستان میں ویسے کوئلے کی کانوں کے اندر کام کرنا خودکشی سے کم نہیں ہے، جہاں پر کوئی بھی جدید تقاضوں سے ہم اہنگ سہولت میسر نہیں ہے۔ یہاں پر وہ لوگ آتے ہیں جن پر اس مروجہ ظالم اور قاتل نظام نے گھر کا چولہا جلانے کے لیے سارے دروازے بند کر دیے ہوں۔ کوئلے کی کانوں میں روزانہ کی بنیاد پر ایسے اندوہناک واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے کوئی بھی سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔ رہائش، کھانا پینا اور علاج وغیرہ تو کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدورون کیلئے عیاشی ہے۔ سرکاری کاغذوں میں ان کان کنوں کے لیے طبی سہولیات بھی موجود ہیں مگرآج تک کسی زخمی مزدور کو وہاں سے کوئی ابتدائی طبی امداد نہیں ملی۔ سرکاری سطح پر کاغذوں میں کان مزدوروں کو سوشل سیکورٹی کا تحفظ بھی حاصل ہے۔ اس مد میں جو رقم جمع ہوتی ہے وہ سرکاری نمائندوں اور کانوں کے مالکان و ٹریڈ یونین اشرافیہ کے درمیان کہیں فائلوں کی دلدل میں غتربود ہو جاتی ہے۔ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے مطابق بلوچستان میں کُل ملا کر 3 لاکھ کے قریب کان کن کام کرتے ہیں مگر اُن میں بمشکل 4 ہزار سے 6 ہزار کے قریب کان کنوں کو سوشل سیکورٹی مہیا کی گئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کان کنوں کے مزدوروں کی فلاح کے نام پر کام کرنے والی تنظیموں کا کیا پھر کیا قردار ہے؟
کوئلے کی کانوں میں مختلف ناموں سے محنت کشوں کو ورغلانے اور سرمایہ داروں کی دلالی کرنے کے لیے این جی اوز کی سربراہی میں ایسی بے شمار لیبر یونینز اور فیڈریشنز بنائی گئی ہیں جن کا کام سرمایہ داروں کے سرمائے میں اضافے کے لیے محنت کشوں کو تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ پورے بلوچستان میں کوئلے کی کانوں کے محنت کشوں کی کوئی حقیقی نمائندہ یونین یا تنظیم موجود نہیں ہے۔ ٹھیکیداروں، این جی اوز اور دیگر ایسے دلالوں کی طرف سے مائن ورکرز کو اپنے ذاتی و گروہی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی اکثریت ملک کے دیگر علاقوں بالخصوص خیبرپختونخواہ اور ہمسایہ ملک افغانستان سے تعلق رکھتی ہے اور ان محنت کشوں کی اکثریت ناخواندہ ہونے کی وجہ سے ان بھیڑیوں کے چنگل میں آسانی سے پھنس جاتی ہے۔ آج تک جو بھی حادثہ ہوا ہے اس پر تمام تر نااہل و مفاد پرست ٹریڈ یونین قیادت خاموش ہوتی ہے جب کہ کسی بڑے حادثے کی صورت میں محنت کش طبقے کو ورغلانے اور ان کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے ایک آدھ مظاہرے اور اخباری بیان بازی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ جبکہ محنت کشوں کے تحفظ اور کوئلے کی کانوں کے اندر حفاظتی تدابیر مہیا کرنے کے لیے کوئلے کی کانوں کی ٹریڈ یونینز نے آج تک کوئی لڑائی نہیں لڑی ہے، جس کی وجہ سے روزانہ بلوچستان میں ایسے المناک حادثات پیش آتے ہیں۔ اس المناک حادثے پر تادمِ تحریر بلوچستان بھر کی ٹریڈ یونینز کی جانب سے مجرمانہ خاموشی برقرار ہے، جوکہ ٹریڈ یونینز کی ان نام نہاد قیادتوں کے اوپر ایک بہت بڑا سوال ہے۔ ہم اس مجرمانہ خاموشی کو ایک المیہ سمجھتے ہیں۔
سیاسی حوالے سے حالیہ واقعے کے اوپر ہزارہ قوم پرست اور مذہبی بنیاد پرست تنظیموں کا ملا جلا ردِ عمل ایک انہونی بات نہیں ہے، کیونکہ ریاست سمیت ان دلال ٹولوں کا اس طرح کے المناک واقعات پر کاروبار چلتا ہے۔
ہمارا یہ موقف رہا ہے کہ بلوچستان میں مختلف قومیتیں، زبانیں اور ثقافتیں تاریخی طور پر یگانگی کے ساتھ رہتی آئی ہیں اور ان قومیتوں کے سماجی ارتقاء اور سماجی ساخت میں کبھی بھی فرقہ وایت اور نسل پرستی نہیں رہی ہے۔ نسل پرستی اور فرقہ واریت بلوچستان کے داخلی معاشرتی ارتقاء کی پیداوار نہیں بلکہ یہ بلوچستان پر اوپر سے مسلط کیے گئے رجحانات ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ چند عرصے کے دوران مختلف حالات و واقعات کے تناظر میں سیاسی موبلائزیشن میں تیزی آئی ہے، جن سے توجہ ہٹانے کے لیے منصوبہ بندی کے ذریعے ایسے واقعات کرانا حکمرانوں کی نمائندہ ریاست کا شیوہ رہا ہے۔ ایک لمبے عرصے سے ریاست نے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو مسخ کرنے کیلئے فرقہ وارانہ فسادات کو متعارف کروایا اور اس آگ کیلئے مظلوم ہزارہ عوام کو ایندھن بنایا گیا۔ پوری ہزارہ آبادی کو کوئٹہ اور بلوچستان سے کاٹ کر ان کو بیس سال سے اپنے گھروں میں محصور کیا گیا اور ان کے علاقوں کو ’نو گو ایریاز‘ بنا کر ان کو کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور کیا گیا۔ اسی طرح، ریاست کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ بلوچستان میں قومیتوں اور نسلوں کے درمیان نفرت کے بیج بوکر اپنے سامراجی تسلط کو مضبوط کیا جائے اور اس عمل میں وہ تمام لوگ شریک ہیں جو قومیتوں کے درمیان نفرت کے زہر پر پلتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے موجودہ حالات میں جو لوگ کسی مخصوص قومیت یا زبان سے نفرت کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقے کی نمائندہ ریاست کے ایجنڈے کو تقویت دے رہے ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے دوران ہزارہ برادری کو فرقہ واریت کا نشانہ بنایا گیا اور اس قتل عام میں ریاستی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے ان تمام تر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ اس تمام تر فرقہ واریت کی آڑ میں بلوچستان میں جاری سیاسی مزاحمت کو زائل کیا گیا اور یہ ایران اور سعودی عرب کے سامراجی عزائم اور آپسی تضادات کاایک اور میدان جنگ بھی تھا۔
اس وقت سرمایہ دارانہ نظام اپنی آخری سسکیاں لے رہا ہے، جس کو کورونا وباء نے مزید تیز کر دیا ہے، اورکورونا وباء کے بعد نہ صرف بلوچستان یا پاکستان بلکہ پوری دنیا کے اندر اس ظالم نظام کے دلال حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے خلاف محنت کش عوام کے غصے کا لاوا پھٹنے کو ہے، جس کا اظہار ہم ملکی و عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی چھوٹی بڑی احتجاجی تحریکوں کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ محنت کش طبقے کے اتحاد کو توڑنے کے لئے دنیا بھر کے دلال حکمران اور سرمایہ دار اس طرح کے حربوں کے استعمال سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مزید زوال کیساتھ آئے روز اس طرح کے اندوہناک واقعات بڑھتے چلے جائیں گے، جن میں قومی جبر، لسانیت، فرقہ واریت کو مصنوعی طور پر ہوا دینے کی کوششیں کی جائیں گی۔ مگر حکمران طبقے کے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے اب محنت کش طبقے اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کو بے وقوف بنانا ممکن نہیں رہا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے نتیجے میں عالمی سطح پر سماج کے بالعموم شعور میں بھی معیاری تبدیلی جنم لے چکی ہے، جس کے نتیجے میں حکمران طبقے اور اسکی ریاست کی فرقہ بازی کو فروغ دینے کی تمام چال بازیوں کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ سانحہ مچھ ہو یا اس طرح کے دوسرے واقعات، سوشل میڈیا پر مظلوم اقوام کے درمیان اتحاد پر زور دیا جارہا ہے، جوکہ انتہائی قابل تحسین اقدام ہے اور ان کے بلند شعور کی غمازی ہے۔ لیکن صرف اقوام کے درمیان اتحاد اور یگانگت کی اپیلیں کافی نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں ایک انقلابی نظریات سے لیس ایسی سیاسی قوت کی تشکیل کیلئے جدوجہد کی جائے جو اپنے سیاسی او انقلابی پروگرام میں تمام قومیتوں کے محنت کشوں اور عوام کیلئے قابل قبول ہو اور اس سیاسی قوت کا دامن اتنا وسیع ہو کہ جس میں تمام قومیتوں، ثقافتوں اور زبانوں کے محنت کش و مظلوم عوام متحد ہو کر ان تفریقوں کو تقویت اور ان پر پلنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر سکیں۔