|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
حق دو تحریک بلوچستان کی قیادت کی جانب سے غیرقانونی طور پر ماہی گیری کرنے والے ٹرالرز مافیا کے خلاف لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے والے لوگوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تحریک کی قیادت کی سرپرستی میں ٹرالرز کے خلاف مسلح کاروائی میں شامل ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرالرز کو روکنے کے لئے اب ہمیں فورسز کی ضرورت نہیں بلکہ اب ہم”مسلح عوامی جنگ“ کریں گے۔ یہ اعلان انہوں نے 13 نومبر کی رات کو کیا، جس میں انہوں نے 16 تاریخ بروز جمعہ کو اس اعلان پر عمل درآمد کا عندیہ دیا۔
واضح رہے کہ حق دو تحریک بلوچستان کے زیراہتمام گوادر میں شہید لالا حمید چوک پر پچھلے 50 دنوں سے احتجاجی دھرنا جاری ہے جس کے بنیادی مطالبات میں روزگار، صحت، پانی، بجلی، بلوچ مسنگ پرسنز کی رہائی، مچھلیوں کی نسل کشی کرنے والے ٹرالرز پر پابندی، اور بارڈر ٹریڈ میں آزادی شامل ہیں۔ اس احتجاجی دھرنے میں ریڈ ورکرز فرنٹ روزانہ کی بنیاد پر شریک ہوتا رہا ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ نے شروع دن سے اس احتجاجی دھرنے کے مطالبات کی غیر مشروط حمایت کی ہے جبکہ تحریک کی قیادت پر دوستانہ تنقید رکھی ہے۔ کیونکہ تحریک کے ساتھ ایک عوامی قوت موجود رہی ہے اور قیادت کی کال پر انہوں نے پورے گوادر کو جام بھی کیا ہے، بالخصوص 10 دسمبر کو عالمی انسانی حقوق کے دن کے موقع پر ہزاروں خواتین کی احتجاجی ریلی نے اس تحریک کی قوت کو ثابت بھی کیا تھا۔ بہرحال تحریک کی قیادت کے اس غیر سیاسی، غیر عوامی اور مہم جوئی پر منحصر موقف کو سمجھنے کے لیے احتجاجی دھرنے کا مختصر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
رواں احتجاجی دھرنے کا اگر ہم پچھلے سال کے دھرنے کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں، تو دونوں دھرنوں میں ایک واضح فرق محسوس کیا جا سکتا ہے جو کہ عوام کی دلچسپی اور بڑی تعداد میں شرکت کے حوالے سے ہے۔ یعنی پچھلے سال دھرنے میں لوگوں کی دلچسپی کافی زیادہ تھی جس کی وجہ سے شرکت بھی کہیں زیادہ ہوتی رہتی تھی۔ مگر اس سال کے احتجاجی دھرنے میں لوگوں کی دلچسپی اور شرکت کافی کم ہے جس پر تحریک کی قیادت نے کوئی غور فکر نہیں کیا ہے جبکہ احتجاجی دھرنے کے مینڈیٹ سے روگردانی کرتے ہوئے تحریک کی قیادت اس احتجاجی دھرنے کو اپنا انتخابی ووٹ بینک بنانے یا اس ووٹ بینک کو پکا کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے جس کے باعث تحریک بتدریج انتشار کا شکار ہو رہی ہے۔ اور لوگوں کا رجحان بھی اس احتجاجی دھرنے میں کم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے تحریک کی قیادت بھی دباؤ کا شکار ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ رواں احتجاجی دھرنے میں حق دو تحریک کی قیادت کی جانب سے اپنے مخصوص سیاسی عزائم کا کھل کر اظہار ہونے لگا جس سے بھی پچھلے احتجاجی دھرنے کی نسبت لوگوں کی اس بار احتجاجی دھرنے میں شرکت کم رہی۔
دوسری جانب قابض ریاست، نااہل صوبائی حکومت اور کرپٹ بیوروکریسی کی جانب سے بھی اس احتجاجی دھرنے کا اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اور نہ ہی اب تک کسی حکومتی نمائندے نے اس احتجاجی دھرنے کو سُننے کے حوالے سے کوئی رتی بھر تکلیف کی ہے۔ جس کی وجہ سے بھی تحریک کی قیادت میں فرسٹریشن کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے کیونکہ احتجاجی دھرنے کی ایک بڑی محدودیت یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ کو اپنی جدوجہد سے ہٹ کر حکومتی نمائندوں کے آنے کا انتظار رہتا ہے۔ اور جب حکومتی نمائندے نہیں آتے تو یہاں پر دو انتہائیں جنم لیتی ہیں۔ یا تو تحریک کی قیادت مایوسی کی طرف چلی جاتی ہے یا پھر وہ مہم جوئی کرنے کی طرف چلے جاتے ہیں بلکہ عمومی طور پر یہ دونوں عوامل ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور دوسرے کو تقویت بخشتے ہیں۔ اس وقت حق دو تحریک کی قیادت واضح طور پر مایوسی کی دلدل میں پھنسنے کے ساتھ ساتھ مہم جوئی کی انتہاء کو بھی چھونے لگی ہے۔
تحریک کی قیادت کی جانب سے اس طرح کے غیر سیاسی اور غیر عوامی بیانات پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل آرہے ہیں، جس سے تحریک کی قیادت کی سیاسی و نظریاتی قابلیت پر سوالات اٹھنے کے ساتھ ساتھ ان کے حوالے سے کئی شکوک و شبہات بھی جنم لے رہے ہیں۔ قیادت کی اس رویے پر سب سے پہلی تنقید یہ بنتی ہے کہ اس احتجاجی تحریک کے پاس گوادر سمیت پورے مکران ڈویژن کی ایک عوامی حمایت اور عوامی قوت موجود رہی ہے، جس نے اب تک اس تحریک کو زندہ رکھا ہے۔ اور اس تحریک کی بنیاد درحقیقت قیادت کی بجائے عوام نے خود رکھی تھی، جنہوں نے سامراجی منصوبے سی پیک کے آغاز سے لے کر آج تک ہونے والی تمام تر مصنوعی ترقی کی وجہ سے ہونے والی گوادر کے عوام کی تباہ کاریوں کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی ہے۔ مگر اس تحریک کی سب سے بڑی کمزوری یہی رہی کہ محنت کش عوام اپنی تمام تر جرات و ہمت کے باوجود تحریک کے لیے ایک نئی قیادت تراشنے میں ناکام رہے اور اس وجہ سے بوسیدہ اور مشکوک قیادت کو تحریک پر مسلط ہونے کا موقع ملا، جس کا آج تک عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اپنی انتہائی غلط نظریاتی اپروچ کے کارن قیادت کے پاس طبقاتی بنیادوں پر استوار کردہ کوئی واضح، درست اور جامع سیاسی پروگرام نہیں ہے جس کی وجہ سے اسے ایسے غیر سیاسی و مہم جوئیانہ بیانات دینے پڑ رہے ہیں جو پوری تحریک پر ننگے ریاستی جبر کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ تحریک کی قیادت عوامی قوت پر مکمل طور پر اعتماد کھو چکی ہے اور مایوسی کے عالم میں الٹے سیدھے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔
اس کے علاوہ قیادت کے حوالے سے شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص اس تحریک کو شعوری طریقے سے مسلح مہم جوئی کی جانب لے جانے کے حوالے سے جو بیانات سامنے آرہے ہیں کہ کہیں ان کا شعوری مقصد بھی یہی تو نہیں کہ ریاست کو کریک ڈاؤن کا جواز فراہم کیا جا سکے۔ ان خدشات کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بلوچستان میں عوامی جدوجہد کا گلا گھونٹنے کیلئے عوامی مزاحمتی تحریکوں کو مسلح مہم جوئی کی جانب دھکیلنے سے یقیناً ریاست کے لئے انہیں کچلنے میں بہت آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اب یہی حربہ گوادر کے ماہی گیروں اور عام لوگوں کی اس نمائندہ تحریک کے ساتھ بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جوکہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ کیونکہ عوامی سیاسی جدوجہد کو اس طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے مسلح مہم جوئی کی جانب راغب کرنے سے ایک طرف اگر عوامی طاقت کی توہین ہوتی ہے تو دوسری جانب ایسا کرنا عوامی مزاحمت کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ”حق دو تحریک“ ایک نمائندہ عوامی سیاسی تحریک ہے جس کے اہم اور بنیادی مطالبات ہیں۔ اور ان مطالبات کی بنیاد پر ہی انہوں نے عوامی حمایت سمیٹی ہے جس کی بدولت انہیں بلدیاتی الیکشن میں بھی خاطرخواہ کامیابی ملی۔ مگر رواں احتجاجی دھرنے اور قیادت کے مایوسی اور مہم جوئی کے مابین جھولنے والے موقف کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو ہم نے اس احتجاجی دھرنے کے سٹیج پر یہ بات واضح کی ہے کہ طبقاتی بنیادوں پر مرتب کردہ ایک درست و جامع سیاسی پروگرام کے ساتھ اس عوامی جدوجہد کو پورے ملک کے محنت کش طبقے کیساتھ جوڑے اور ان کی حمایت لئے بغیر یہ احتجاجی دھرنا اپنی سیاسی اور عملی محدودیت کی وجہ سے اب علاقے کے عوام کو اپنے ساتھ جوڑنے کے بجائے انہیں بیزار کر نا شروع ہو گیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے تحریک کی قیادت کو بالعموم پاکستان اور بالخصوص سندھ کے محنت کشوں، ماہی گیروں، ملازمین کی نمائندہ ٹریڈ یونینز اور اور ایسوسی ایشنز سے نہ صرف اظہار یکجہتی کی اپیل کرنی چاہیے، بلکہ ان سے اس احتجاجی دھرنے میں مختلف طریقوں سے شرکت کی اپیل بھی کی جانی چاہیے۔۔تاکہ حکمرانوں کو محنت کش عوام کی متحد طبقاتی قوت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے۔
دوسری جانب بلوچستان کے محنت کشوں، ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز سے دھرنے میں شرکت کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر عام ہڑتال کی کال دینے کی اپیل کی جا سکتی ہے۔ مگر اس سب کے لئے ایک درست طبقاتی سیاسی پروگرام و مطالبات کا ہونا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ احتجاجی دھرنے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے عوامی سطح پر کمیٹیوں کا انتخاب عمل میں لانا چاہیے اور منتخب عوامی کمیٹیوں کے ذریعے احتجاجی دھرنے کے اہم اور بنیادی مطالبات کے گرد کمپئین کرنی چاہیے اور گوادر اور گردو نواح کے تمام عوام کو اس دھرنے کے مطالبات کے گرد جوڑنا چاہیے۔
صرف اور صرف ایک درست پروگرام اور طریقہ کار کے گرد منظم عوامی سیاسی جدوجہد ہی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ باقی ہر راستہ مایوسی اور مہم جوئی کی جانب ہی جاتا ہے۔