|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
عالمی مارکسی رجحان کی ویب سائٹ (marxist.com) کے مدیر ایلن ووڈز 2021ء کے آغاز پر انتشار میں ڈوبی دنیا کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ سرمایہ داری شدید بحران کا شکار ہے۔ ایک طرف مٹھی بھر ارب پتی اپنی دولت میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف عوام کا سمندر کورونا وباء اور غربت میں غرق ہو رہا ہے۔ لیکن مارکس وادی پرامید ہیں۔ محنت کش طبقہ اور نوجوان آنے والی جنگوں کے لئے کمر بستہ ہو رہے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”ہنستا وہی ہے جس نے ابھی تک بری خبر نہ سنی ہو“ (برتولت بریخت)۔
”انسان کے دل میں امید کا چراغ ہمیشہ روشن رہتا ہے“۔ اٹھارہویں صدی کے عظیم انگریز شاعر الیگزینڈر پوپ کے ضرب المثل کا درجہ حاصل کر چکے یہ الفاظ، انسانی نفسیات کی بالکل درست عکاسی کرتے ہیں۔ حتمی تجزیئے میں امید ہی ہمیں زندہ رکھتی ہے۔ یہی ہمیں زندگی کے کٹھنائیوں اور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتی ہے۔
سیاہ ترین لمحات میں بھی جب پریشانیاں اور تکالیف ہمیں گھیرے ہوتی ہیں، تو یہ پختہ یقین کہ بالآخر حالات بہتر ہوجائیں گے، ہمیں وہ قوت عطا کرتا ہے جس کی بدولت ہم زندہ رہتے ہیں اور جدوجہد کرتے ہیں، چاہے حالات کتنے ہی غیر موافق ہوں۔
لیکن کیا ہو اگر ساری امیدوں پر پانی پھر جائے؟ امید کے بغیر دنیا واقعی ایک تاریک دنیا ہو گی۔ ایسی دنیا میں جینا ممکن نہ ہو گا۔ اور اگر آپ عوام سے ایک بہتر مستقبل کی امید چھین لیں گے تو آپ ان کی بچی کچھی انسانیت اور عزت دونوں کا گلا گھونٹ دیں گے۔
امید کا چشمہ سوکھ جائے تو ایک ہی چیز بچتی ہے۔۔مایوسی۔ اس مایوسی کا اظہار لوگ مختلف انداز میں کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ ایک راستہ غیر فعالیت، بے حسی اور حتمی طور پر یہ نتیجہ اخذ کرنا ہے کہ زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہیں۔ لیکن ایک اور بھی راستہ ہے۔ انسان بڑی ڈھیٹ مخلوق ہے اور وہ کبھی بھی آسانی سے یہ ماننے پر تیار نہیں ہوں گے کہ کوئی راہ باقی نہیں بچی۔ یہ دوسری راہ انقلاب کی راہ ہے۔
نیا سال مبارک؟
روایتی طور پر 31 دسمبر کی رات جب گھڑی بارہ بجاتی ہے، تو اپنے خاندان اور دوستوں کو نئے سال کی مبارک باد دی جاتی ہے۔ یہ سال بھی چنداں مختلف نہیں ہو گا۔ بڈھا پوپؔ یقینا درست تھا کہ انسان کے دل میں امید کا دیا صدا روشن رہتا ہے۔
اس لئے روایت کی پاسداری کرتے ہوئے ہم نے اپنے جام اٹھا کر سب کو ایک خوشگوار، صحت مند اورخوشحال سال کی مبارک باد پیش کی اس امید کے ساتھ کہ 2021ء کا سال، 2020ء سے بہتر ہو گا۔ ظاہر ہے اور زیادہ برا کیا ہو سکتا ہے!
لیکن، لیکن۔۔دل ہی دل میں ہم میں سے کتنوں کو اس امید افزا پیش گوئی پر واقعی یقین تھا؟ سچ تو یہ ہے کہ اس بات پر یقین کرنا خاصا مشکل ہے۔
وباء ابھی بھی بے قابو ہے اور کروڑوں افراد کو اذیتوں اور موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔ سال 2020ء کے اختتام پر پوری دنیا میں کورونا وائرس کے کیسوں کی تعداد 8 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور اموات 18لاکھ کا ہندسہ عبور کرنے کو ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سرکاری اعدادوشمار حقیقی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے۔ حقیقت کہیں مختلف ہے۔ کوئی بھی ذی ہوش شخص اس ہولناک بیماری کے حوالے سے ہندوستانی حکومت کی جانب سے بتائے گئے اعدادوشمار پر یقین نہیں کرسکتا۔
یہاں یہی نشاندہی کافی ہے کہ برطانیہ اور دیگر نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے اعدادوشمارمیں کمی کے لیے میں کتنی بڑی ہیرا پھیری کی گئی ہے۔
امیر ترین ممالک بھی اس وباء سے محفوظ نہیں کیونکہ وائرس قومی سرحدوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہولناک اعدادوشمار امریکہ کے ہیں جہاں فلوریڈا اس وقت وباء کا مرکز بنا ہوا ہے۔
لاس اینجلس میں ایک ہسپتال میں کورونا کیسوں کی اتنی بھرمار ہو گئی تھی کہ عملہ متاثرین کو ایک گفٹ شاپ میں طبی امداد دینے پر مجبور ہو گیا تھا۔ یہ دنیا کے امیر ترین ملک کا حال ہے۔
ایک طبقاتی سوال
ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ عظیم فلسفی اسپینوزا کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا کام ”رونا یا ہنسنا نہیں بلکہ سمجھنا ہے“۔
ایک بات مسلسل دہرائی جا رہی ہے کہ ہمیں ایک مشترکہ دشمن کے مقابلے کے لیے متحد ہونا ہوگا۔۔ایک بے رحم، غیر متزلزل اور پوشیدہ دشمن جس کا نام کورونا وائرس ہے۔ ”ہم سب اس میں برابر کے شریک ہیں“۔۔یہ ایک غلط اور منافقانہ نعرہ ہے جس کے ذریعے امیر اور طاقت ور کوشش کر رہے ہیں کہ موجودہ وباء کے طبقاتی پہلو سے دھیان ہٹا دیا جائے۔
”ہم سب اس میں برابر کے شریک ہیں“ سراسر جھوٹ ہے۔ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ وباء نے امیر اور غریب کے درمیان موجود خوفناک خلیج کو ننگا کر دیا ہے۔۔یہ وہ حقیقی تضاد ہے جو سماج کو تقسیم کرتے ہوئے تفریق کرتا ہے کہ کون بیمار ہو کر ذلت آمیز موت مرے گا اور کون نہیں۔
وباء کے ساتھ ساتھ جدید دور کے سب سے گہرے اور سنجیدہ معاشی بحران کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ عالمی معاشی بحران نے امریکہ پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ وباء کے دوران 4 کروڑ امریکیوں نے بیروزگاری الاؤنس کے لئے درخواست دی۔ ہمیشہ کی طرح سب سے زیادہ تکلیف کا شکار غرباء تھے۔
2019ء میں فیڈرل ریزرو بینک نے رپورٹ دی کہ 10 میں سے 4 امریکیوں کے پاس بینک اکاؤنٹ میں اتنے پیسے ہی موجود نہیں کہ صرف 400 ڈالر کے غیر متوقع اخراجات برداشت کر سکیں۔ اور سال 2020ء کے پہلے چند مہینوں میں صورتحال اور بھی زیادہ گھمبیر ہو چکی تھی۔
اس صورتحال میں پوشیدہ خطرات سے خوفزدہ ہو کر حکمران طبقہ ایمرجنسی اقدامات کرنے پر مجبور ہو گیا۔ آزاد منڈی کی نظریے کے مطابق ریاست کا معاشی زندگی میں انتہائی محدو د یا کوئی کردار نہیں ہوتا لیکن اسی ریاست نے سرمایہ دارانہ نظام کو اس مشکل گھڑی میں سہارا دیا۔
مارچ میں امریکی ممبران کانگریس نے کاروباروں اور گھریلو صارفین کے لئے 2.4 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا امدادی پیکج منظور کیا تاکہ کروڑوں خاندانوں کو درپیش معاشی تنگی کا کچھ ازالہ کیا جا سکے۔ درحقیقت، اس پیسے کا بھاری حصہ دل کھول کر امراء پر نچھاور کیا گیا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بیروزگاروں کو ملنے والی امداد سے سماج کی کمزور ترین اور غریب ترین پرتوں کے لیے بحران کی شدت میں کچھ کمی ضرور واقع ہوئی۔
لیکن موسمِ گرما سے اس امداد میں کمی آتی جارہی ہے اور کئی کلیدی پروگرام، بشمول بیروزگار گِگ ورکرز اور 6 ماہ سے زائد عرصے سے بیروزگار افراد کو ملنے والی امداد، دسمبر کے اختتام پر ختم ہو جانے تھے۔ حکومتی امداد ختم ہونے کے ساتھ اشیاء خوردونوش کی کمی یا کرایہ اور دیگر بل ادا نہ کر سکنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکہ میں بھوک
کئی افراد کو اس وقت گھمبیر صورتحال کا سامنا ہے۔ اچانک بیروزگاری کے بعد اب گھر چھن جانے کا خطرہ بھی لاحق ہو چکا ہے۔ ان کی کوئی آمدن نہیں اور نہ ہی اتنے پیسے ہیں کہ دو وقت کی روٹی پوری کی جا سکے۔ باالفاظ دیگر، دنیا کے امیر ترین ملک میں کروڑوں خاندان بھوکے سو رہے ہیں۔
پچھلے سال کے مقابلے میں غذائی عدم تحفظ دگنا ہو چکا ہے۔ یہ عدم تحفظ 1998ء کے بعد تاریخی سطح پر پہنچ چکا ہے جب امریکی خاندانوں کی اشیاء خوردونوش کے حصول کے حوالے سے پہلی مرتبہ اعدادوشمار اکٹھے کئے جانے شروع ہوئے۔ ایک حالیہ رائے شماری کے مطابق آٹھ میں سے ایک امریکی کا کہنا تھا کہ نومبر میں اسے کبھی کبھار یا پھر اکثر اوقات کھانا میسر نہیں ہوتا تھا۔
سان فرانسسکو۔مارین فوڈ بینک جو سان فرانسسکو اور مارین جیسی امریکہ کی امیر ترین کاؤنٹیوں میں کام کرتا ہے، اس وقت وہ کورونا وائرس سے پہلے کے مقابلے میں دگنے خاندانوں، تقریباً 60 ہزار کو کھانا فراہم کر رہا ہے۔ 14 دسمبر کو بی بی سی نیوز نے خبر دی کہ:
”اگرچہ امریکہ میں بھوک کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن وباء کے تباہ کن اثرات برآمد ہوئے ہیں۔ غذائی عدم تحفظ ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے جس سے امیر ترین علاقے بھی محفوظ نہیں۔
”نومبر کے اوائل سے ورجینیا میں ٹرمپ نیشنل گالف کلب کے پاس ہی۔۔ایک ایسا علاقہ جہاں ملک میں سب سے کم بھوک تھی۔۔لوڈون ہنگر ریلیف نے ایک ہفتے میں 750-1100 خاندانوں کو ہفتہ وار کھانا فراہم کیا، یہ وباء سے پہلے کے مقابلے میں اوسطاً 225 فیصد اضافہ ہے۔
”ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جینیفر مونٹگمری کے مطابق ’ہم نے ایسے افراد بھی دیکھے جنہیں پہلے کبھی اس سہولت کی ضرورت نہیں ہوئی“۔
”یہ واضح تھا کہ ان کے اور شدید مسائل کے درمیان ایک یا دو تنخواہیں ہی حائل تھیں“۔
”میرا غرور ٹوٹ چکا ہے“
فلوریڈا کے رہائشی 42 سالہ ٹرک ڈرائیور عمر لائٹنر کی مثال موجود ہے۔ وباء کی وجہ سے وہ فروری میں بیروزگار ہو گیا۔ اس وقت سے وہ جیکسن وِل کے ایک ہوٹل میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ ان کے پاس موجود پیسہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ”جب ہم طویل قیام کے لئے پہنچے تو میری بچت 22 ہزار ڈالر تھی جس میں سے 17 ہزار 300 ڈالر خرچ ہو گئے۔ باقی فوڈ سٹامپ میں چلے گئے۔ اس سے ہماری کافی بچت ہو ئی۔ لیکن ہمارے دو بچے ہیں جو شدید آٹزم کی بیماری سے دوچار ہیں۔۔ہمیں ادویات اور علاج کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے“۔
لائٹنر مسلسل روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہے لیکن اس کی سب سے بڑی پریشانی اپنے خاندان کے لئے ایک گھر کا حصول ہے۔ انہوں نے چار ہفتوں سے کرایہ نہیں دیا اور اب انہیں جبری بے دخلی کا سامنا ہے۔
ہوٹل کی بے دخلی کی پالیسی کے مطابق سب سے پہلے ان سے غیر ضروری اشیاء واپس لے لی گئیں، جیسے کہ ٹی وی۔ ان کا بیٹا جمال، جو بیمار ہے، ٹی وی دیکھ کر ہی وقت گزارتا تھا اور مشغول رہتا تھا۔ اب ان سے وہ ٹی وی چھین لیا گیا ہے۔
”ہمارے خاندان کے پانچ افراد ہیں اور فی الحال کوئی پناہ گاہ ہمیں لینے کو تیار نہیں“۔
لائٹنر کا کہنا ہے کہ ”میری عزت نفس پامال ہو چکی ہے۔ ہم تقریباً بے گھر ہو چکے ہیں۔ اور میں وہ آدمی تھا جو بہت زیادہ فخر کیا کرتا تھا۔ میں نے ساری عمر کام کیا۔ ہمارے پاس ہمیشہ ایک اچھا گھر اور اچھی گاڑیاں ہوتی تھیں۔۔مجھے پتہ ہے کہ میں کیسے پلا بڑھا، مجھے یہ چیزیں حاصل کرنے کے لئے کام کرنا پڑا۔ اورمیری کسی غلطی کے بغیر یہ سب مجھ سے چھن چکا ہے“۔
یہ اکیسویں صدی کی سرمایہ داری کا حقیقی بھیانک چہرہ ہے۔ یہی حقیقت ہے۔ 2021ء کے پہلے روز تقریباً 12 لاکھ امریکیوں کے لئے ’نیا سال مبارک‘ کے الفاظ انتہائی تلخ اور کھوکھلے ہیں۔
امراء کو نیا سال مبارک
لیکن! بہت زیادہ اداس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ساری خبریں بری نہیں۔ بھوک، ذلت، افلاس اور موت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں کچھ افراد کی زندگی بہت ہی شاندار ہے۔
جب 4 کروڑ امریکی بیروزگاری الاؤنس کے لئے درخواستیں دے رہے تھے تو اس وقت ارب پتیوں کی دولت میں 500 بلین ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔ ان افراد کے لئے 2020ء کا سال، یقینا، بہت خوشی کا سال تھا۔ اور کوئی شک نہیں کہ سال 2021ء ان کے لئے اور بھی زیادہ خوشیاں لے کر آئے گا۔
ایمازون کے مالک جیف بیزوس کی ہی مثال لے لیں۔ وہ تاریخ میں پہلا شخص ہے جس کی ذاتی دولت 200 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ مارچ کے اوائل میں جب امریکہ میں کورونا وائرس سے ابتدائی اموات شروع ہوئیں، اس وقت سے اب تک مسٹر بیزوس کی دولت میں 74 ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس بات پر تو خوشی منانا بنتی ہے!
اس وقت بیزوس ایک سیکنڈ میں اتنا پیسہ کما رہا ہے جتنا ایک عام امریکی محنت کش ایک ہفتے میں کماتا ہے۔ ایک گریجویٹ ڈگری ہولڈر عام امریکی اپنی پوری زندگی میں لگ بھگ 22 لاکھ ڈالر کماپائے گا جبکہ بیزوس 15 منٹ میں 22 لاکھ ڈالر کماتا ہے۔
200 ارب ڈالر کی دولت کے ساتھ یہ اتنا امیر ہو چکا ہے کہ اگر ایک عام امریکی 1 ڈالر خرچتا ہے تو یہ ایمازون مالک کے 20 لاکھ ڈالر خرچنے کے مترادف ہے۔ اس کی دولت پورے برطانوی شاہی خاندان سے دوگنی اور کچھ ممالک کی کل مجموعی پیداوار (GDP) سے بھی بڑھ چکی ہے۔ اور وہ اس خوش قسمتی میں اکیلا نہیں ہے۔
کیسینو کے کاروبار سے منسلک شیلڈن ایڈلسن کی دولت میں 5 ارب ڈالر اضافہ ہوا ہے جبکہ ایلون مسک کی دولت میں 17.2 ارب ڈالر اضافہ ہوا ہے۔ اگر آپ تمام اعدادوشمار اکٹھے کریں تو کورونا وباء کے دوران اب تک امریکی ارب پتیوں کی کل دولت میں 637 ارب ڈالر اضافہ ہو چکا ہے۔
جیسا کہ ہم نے نشاندہی کی ہے کہ ان کی دولت میں ہونے والے اس اضافے کا ایک بڑا حصہ عوامی پیسے سے ملنے والے بیل آؤٹ پیکجز کا مرہون منت ہے۔ بحران سے مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کے امدادی پیکج کا دیو ہیکل حصہ سیدھا امیر ترین 1 فیصداشرافیہ کی جیب میں گیا ہے۔
امیردوست ٹیکس قوانین اور ان میں موجود کئی جھول، ان ارب پتیوں کی دولت میں مسلسل اضافے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اور یہ صرف قانونی راستے ہیں جو امراء ٹیکس بچانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ 2017ء میں محققین نے اندازہ لگایا کہ دنیا کی کل مجموعی پیداوار کا تقریباً 10 فیصد آف شور ٹیکس ہیونز میں پڑا ہوا ہے۔ 2012ء کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے امیر ترین افراد کا تقریباً 32 ٹریلین ڈالر آف شور پڑا ہوا ہے۔
امیر اور غریب کے درمیان خلیج ناقابلِ عبور ہو چکی ہے جس کی وجہ سے سماجی اور سیاسی پولرائزیشن مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور سماج ایک آتش فشاں بن چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس حقیقت کا ٹریلر ہم واشنگٹن میں دیکھ چکے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی آخری لڑائی
ڈونلڈ ٹرمپ کے پیچیدہ دماغ کی حرکیات کے تعقلی تجزیے کے لیے عظیم دماغ درکار ہیں اور کم از کم اس تحریرکا مصنف خود کو اس عظیم کام کے قابل نہیں گردانتا۔ لیکن سردست مدعے میں اس کے عزائم کے حوالے سے ایک بہتر اندازہ لگانا کوئی خاص مشکل کام نہیں۔
کانگریس موسمِ گرما سے ایک نئے کورونا بیل آؤٹ پیکج کے حوالے سے ڈیڈ لاک کا شکار ہے جس کا مقصد تو ان 1 کروڑ 20 لاکھ مزدوروں کی مدد تھا جن کی امداد 31 دسمبر کو ختم ہو جانی تھی۔
ری پبلیکنز اور ڈیموکریٹس نے بالآخر ایک سمجھوتہ کر ہی لیا جس کے تحت دیگر سہولیات کے ساتھ بیروزگاری امداد، مارچ کے اختتام تک جاری رہیں گی۔ لیکن سب لوگ حیران رہ گئے جب صدر نے قانون پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ ٹرمپ اب احتجاج کر رہا تھا کہ عام لوگوں کو ملنے والی امدادی رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔۔یہ بات بالکل درست ہے۔۔اور وہ کنجوس کانگریس کے خلاف غریب امریکیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔۔جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔
درحقیقت جس کم پیسے پر سمجھوتہ کیا گیا تھا وہ ری پبلکن پارٹی کی ہی ہٹ دھرمی کا نتیجہ تھاجو کہ ٹرمپ کی اپنی پارٹی ہے۔ اگر وہ اس کے خلاف تھا تو وہ بہت پہلے اپنے خیالات کا اظہار کر کے بہت سارا وقت بچاتے ہوئے مسئلہ حل کر سکتا تھا۔ لیکن اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔
درحقیقت، اس نے اصل مسودے کی حمایت کی تھی اور بل کے اپنی میز پر پہنچنے تک خاموش رہا۔ یعنی وائٹ ہاؤس خالی کرنے کا پروانہ موصول ہونے تک اس نے خاموشی سادھے رکھی، واضح طور پر ان دو معاملات کا آپس میں تعلق موجود ہے۔
یہاں دو پہلو بڑے واضح ہیں۔ پہلا یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی صدارت سے بہت پیار ہے اور اسے جانے کی کوئی خاص جلدی نہیں۔ اس کے برعکس، وہ آخری لمحے تک اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ڈوبتا ہوا شخص تنکے کے سہارے سے۔
بدقسمتی سے جب سے انتخابات ہوئے ہیں صدر صاحب کے یہ سہارے بڑی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ بالآخر شدید مایوسی کے عالم میں، امریکی خانہ جنگی کے دوران مقامی امریکی قبائلیوں کے ہاتھوں شکست کو سامنے دیکھ کر پسپا ہوتے جنرل کسٹر کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بقیہ ماندہ دستوں کو جھنڈے تلے جمع کرنے کی خاطر آخری نقارہ بجا دیا۔
صرف مٹھی بھر ری پبلیکنز نے ہی اس کی آواز پر لبیک کہا جس نے اس کو مزید طیش دلایا۔ یہاں تک کہ ری پبلیکن پارٹی مشینری میں سب سے زیادہ وفادار حامیوں نے بھی طاقتوں کا بدلتا توازن دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ خاموشی خودکشی سے بہتر ہے۔
کسی بدتمیز بھیدی (ان کی تعداد میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے) نے آڈیو ریکارڈنگ لیک کر دی جس میں صدر جارجیا ریاست کے سیکرٹری خارجہ بریڈ رافینسپرجر کو دھمکی لگا رہا ہے کہ کسی طرح بھی 11 ہزار 780 ووٹ ”پیدا“ کر کے جو بائڈن کی فتح کو شکست میں بدل دو۔ یہ ٹرمپ کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔ شاید یہ بھی ایک واقعہ تھا جس نے ری پبلیکن سنیٹرز کو فیصلے تک پہنچنے میں مدد دی۔ انہوں نے ٹرمپ کو ڈوبتی کشتی سے بھاگتے چوہوں کی طرح تنہا چھوڑ دیا۔
اس طرح کی بزدلی اور بے وفا ئی ایک ایسے شخص کے لئے بہت زیادہ تکلیف دہ ہے جو عرصہ دراز سے کسی قسم کی حکم عدولی سے ناآشنا ہو چکا ہے۔ یہ بچگانہ سوچ تھی کہ اس سنگین غداری کی کوئی سزا نہیں ملے گی۔ اور پھر ہوا یوں کہ جب عوام اپنے کرسمس تحائف بنا سجا رہے تھے تو ہمارا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سابقہ دوستوں اور حامیوں کے لئے ایک آخری حیرت انگیز کرسمس کا تحفہ تیار کر رہا تھ۔۔ایسا تحفہ جسے وہ اس قدر آسانی سے بھلا نہیں پائیں گے۔
بے شک کروڑوں امریکی بھوکے سوئیں گے لیکن تاریخ ٹرمپ کو یاد رکھے گے کہ یہ صدر غرباء کو زیادہ پیسے دینا چاہتا تھا۔ یقینا یہ ایک جھوٹ تھا اور اس صدر نے جھوٹ بولنے کے ”فن“ کو نئی انتہاؤں تک پہنچا دیا ہے۔
لیکن اصل بات یہ نہیں ہے کہ سچ کیا ہے بلکہ یہ ہے کہ عوام کسے سچ سمجھتی ہے۔ اور عوام جو سچ سمجھتی ہے اگلے انتخابات میں کارآمد ثابت ہو گا جب جنرل کسٹر کے برعکس، ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی کرے گا۔
تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ بدلے کی آگ میں جھلستے صدر نے کس قدر مسرت کے عالم میں اچانک ناگوار قانون پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور کانگریس میں براجمان ری پبلیکنز میں کہرام مچ گیا۔
”یہ لو میرے پیارے دوستو! کرسمس مبارک اور نیا سال مبارک!“ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات پر بہت اطمینان تھا کہ اگرچہ اسے وائٹ ہاؤس چھوڑنا پڑ رہا ہے لیکن وہ خاموشی سے بوریا بستر سمیٹنے کی بجائے ایک دل دہلا دینے والا دھماکہ کر کے جا رہا ہے۔ اس حرکت سے کانگریس مضطرب تھی لیکن جو کچھ ان کا منتظر تھااس کے آگے یہ ہیچ تھا۔
آخری معرکہ
بورژوا جمہوریت بڑا ہی نازک اندام پودا ہے جو چند مخصوص زرخیز مٹی میں ہی پنپ سکتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور امیر سرمایہ دار ممالک کا استحقاق رہا ہے جہاں حکمران طبقے کے پاس محنت کش طبقے کو مراعات دینے کے لئے درکار قدرِ زائد موجود تھی تاکہ طبقاتی جدوجہد کو کند کرتے ہوئے امراء اور غرباء کے درمیان کھلی جنگ کو ٹالا جاسکے۔
ایک طویل عرصے تک، امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں تو 100 سال سے بھی زیادہ عرصے تک،حکمران طبقے نے کامیابی کے ساتھ ایک مخصوص سیاسی اور سماجی توازن کو برقرار رکھا جس میں حکمرانی براہِ راست جبر کے ذریعے نہیں تھی بلکہ دو شرفاء کے درمیان ایک معاہدے کی مانند دو متحارب طبقات کے درمیان ایک مصالحت تھی۔
برطانیہ کے معاملے میں دو پارٹی نظام کے ذریعے یہ مقصد حاصل کیا گیا۔۔کنزرویٹیو اور لیبر پارٹی۔۔جو باقاعدگی کے ساتھ باریاں لیتے رہے اور سرمائے کی حاکمیت کو کبھی کسی چیلنج کا سامنا نہیں رہا۔ امریکہ میں بھی اسی طرز کا ایک معاہدہ ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کے درمیان رہا جو باری باری اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں۔
درحقیقت، یہ مصالحت ایک سیاہ چادر تھی جس نے سماج کے بنیادی تضادات کو چھپائے رکھا اور سٹیٹس کو کوئی سنگین خطرہ لاحق نہ ہوا۔ عظیم امریکی ادیب گور ویڈال کے مطابق ”ہماری جمہوریہ میں ایک پارٹی ہے۔۔دولت مندوں کی پارٹی۔۔جس کے دو دائیں بازو ہیں“۔ لیکن سرمایہ داری کے بحران نے سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی بھیانک خلیج نے اس قدیم سمجھوتے کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔
ہر جگہ ظاہری سکون کے نیچے خوفناک بے چینی پنپ رہی ہے جو پرانے نظام، اس کے اداروں، اس کی سیاسی پارٹیوں، اس کے قائدین، اس کی اخلاقیات اور روایات کے خلاف وقتاً فوقتاً پھٹ کر اپنا اظہار کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس بے چینی کے پاس فی الحال ایک واضح سیاسی اظہار موجود نہیں۔ یہ تذبذب کا شکار ہے، ربط سے عاری ہے اور کبھی کبھی اس کا اظہار رجعتی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے۔
واضح اظہار کی عدم موجودگی کوئی حیران کن پہلو نہیں ہے۔ یہ موضوعی عنصر کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔۔یہ حقیقت کہ ایک پورے تاریخی عہد میں حقیقی مارکسی قوتیں پسپا ئی کا شکار ہوکر پیچھے دھکیلی گئیں اور جس کی وجہ سے پورا میدان ہر رنگ و نسل کے متذبذب اصلاح پسند اور بائیں بازوکے اصلا ح پسندوں کے لیے خالی ہوگیا تھا جو خود واضح نظریات نہ ہونے کی وجہ سے سلگتے عوامی مسائل کا کوئی حل پیش کرنے کی نامیاتی صلاحیت سے ہی عاری ہیں۔
بحران سے باہر نکلنے کی ہیجانی کوششوں میں عوام ایک اظہار تلاش کر رہی ہے جس کے ذریعے بدنامِ زمانہ اور رسوا سیاسی و سماجی نظام کی نا انصافیوں کے خلاف غم و غصے کا کھل کر اظہار کیا جا سکے۔ اس بے چینی سے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے انتہائی دائیں بازو کے بدمعاش اور گھٹیا افراد فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
لیکن تذبذب کا شکار اس طرح کی متفاوت تحریکوں میں یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ہم رجعتیت اور سٹیٹس کو کے خلاف ہونے والے ایک غیر مربوط احتجاج میں تمیز کرنا سیکھیں اور ثانوی نوعیت کے عناصر اور جذباتیتاثریت کی رو میں نہ بہہ جائیں۔
برطانیہ میں پال میسن جیسے سطحی تاثریت پسند اور عالمی طور پر دیگر نام نہاد بائیں بازو کے لوگ ٹرمپ کے مظہر میں صرف رجعتی عناصر کو ہی دیکھ پاتے ہیں اور بے وقوفی کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے فاشزم کا شور مچانا شروع کر دیتے ہیں،جبکہ انہیں حقیقی فاشزم کی الف ب کا بھی پتہ نہیں۔ اس قسم کی تذبذب کی کیفیت میں ہم کبھی بھی اہم مظاہر کی حقیقی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے۔
یہ حماقت ان کو براہِ راست طبقاتی مفاہمت پر مبنی پالیسیوں کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ ”کم تر برائی“ کے بھونڈے خیال کی ترویج کر کے وہ محنت کش طبقے اور اس کی تنظیموں کو اپنے طبقاتی دشمن کے ساتھ اتحاد کی تلقین کرتے ہیں یعنی وہ نام نہاد بورژوا لبرلز جو”جمہوریت“ کے ساتھ کھڑے ہیں۔اس سے بھی زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ نام نہاد فاشزم کے خطرات کا مسلسل ڈھنڈورا پیٹ کر وہ محنت کش طبقے کے شعور کو مستقبل میں ممکنہ حقیقی فاشسٹ مظاہر کا مقابلہ کرنے کی اہلیت سے شعوری طور پر غیر مسلح کر رہے ہیں۔ آگے چل کر ہم بات کریں گے کہ سرمائے کے سنجیدہ حکمت کاروں کو جاہل جعلی لیفٹ اور پال میسن جیسے سابقہ مارکس وادیوں سے بہت بہتر ادراک ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔
لیکن فی الحال واشنگٹن میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف واپس چلتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ واقعات اس حقیقت کا اظہار ہیں کہ سماج میں پولرائزیشن اس نکتے پر پہنچ چکی ہے جہاں بورژوا جمہوریت کے ادارے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس لئے حکمران طبقہ اور ہر جگہ اس کے سیاسی نمائندے ڈونلڈ ٹرمپ کے طرز عمل سے شدید خوفزدہ ہیں۔
ایک سیاسی حکمت کار کے طور پر ٹرمپ کو سنجیدہ نہیں لیا جا سکتا۔ وہ ایک جاہل تجربیت پسند ہے جس کی زندگی کا واحد مقصد خود نمائی اور اقتدار اور وقار سے چمٹے رہنا ہے۔ یہ ایک ایسے انسان کے لئے بڑا سادہ فارمولہ ہے جس کی زندگی کے کوئی اصول نہیں ہیں۔ اور اگرچہ وہ کچھ زیادہ عقل مند نہیں ہے لیکن بہرحال خدا نے اس کو لومڑی سے بھی زیادہ مکاری سے نوازا ہے۔
کم از کم انتخابات جیسے بیہودہ عمل کے نتیجے میں اقتدار چھوڑنے کا خیال ٹرمپ کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ اس نے پہلے ہی ذہن بنا لیا تھا کہ نتائج دھاندلی زدہ ہوں گے (ناکامی کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟)۔ اس لئے اس کے بعد میں اٹھائے جانے والے اقدامات قطعاً حیران کن نہیں ہیں۔
وہ سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھی ری پبلیکن قائدین نے اسے دھوکہ دیا ہے (ان میں سے کئی اس سے نفرت کرتے ہیں لیکن سب اس سے ڈرتے ہیں) اور نتیجتاً وہ اس سہارے کی جانب مبذول ہوا جس پر اسے اعتماد تھا یعنی اس کی عوامی حمایت جو تمام تر نقائص و مسائل کے باوجوداس شخص کی شدید وفادار ہے جسے وہ کرپٹ اور سفاک واشنگٹن میں اپنی آواز اور آخری امید سمجھتے ہیں۔
اس لئے یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ اس نے ہارے ہوئے جواری کی طرح اس عوامی حمایت کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک پر خطر چال تھی لیکن ہمارا ڈونلڈ تمام جواریوں کی طرح پر خطر چالوں کا کھلاڑی ہے۔ خاص طور پر جب بازی اقتدار کی ہو۔
لیکن اس حرکت سے کئی نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ جس شخص نے اپنے اقدامات سے امریکی سماج میں موجود تمام تضادات کو گہرا کر دیا ہے اور ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کے درمیان خانہ جنگی شروع کروا دی ہے اب اپنی پارٹی کے خلاف اعلانِ جنگ کر چکا ہے اور پارٹی کو اوپر سے نیچے تک تقسیم کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
اس کی مجنونانہ تقریروں کا واضح مقصد وائٹ ہاؤس کے باہر موجود مشتعل ہجوم کو کانگریس پر حملے کے لیے اکسانا تھاتاکہ جو بائڈن کی انتخابی فتح کی تصدیق کو روکا جاسکے۔ لیکن یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ اس کا نشانہ ڈیموکریٹس کے بجائے کانگریس میں بیٹھے ری پبلیکنز تھے اور خاص طور پر نائب صدر مائیک پینس جسے اس نے اجلاس روکنے کی تلقین کی۔
لیکن اس وقت تک پینس سمیت ری پبلیکن پارٹی کے دیگر قائدین فیصلہ کر چکے تھے کہ بس اب بہت ہو گیا۔ عملی طور پر وہ ٹرمپ سے اور ٹرمپ ان سے ناطہ توڑ چکا تھا۔ ان اقدامات سے ری پبلیکن پارٹی گھائل ہو چکی ہے اور یہ زخم اتنی آسانی سے مندمل نہیں ہوں گے۔ ری پبلیکن پارٹی میں کھلی تقسیم کو خاج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کیا نئے صدر کی حلف برداری سے قبل مسٹر ٹرمپ کے پاس اور چالیں بھی موجود ہیں، اس سوال کا جواب دینا خاصا مشکل کام ہے۔ اس کے ابتدائی ردِ عمل سے تو لگ رہا ہے کہ چاروں اطراف سے حملوں نے اسے بوکھلا کر رکھ دیا ہے اور وہ پسپائی اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس عمل سے اس کی عوامی حمایت بھی تذبذب کا شکار ہوجائے گی لیکن کانگریس میں موجود اس کے دشمنوں کی تشفی نہیں ہو گی جو اسے فوری طور پر صدارت سے برخاست کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک بات واضح ہے۔ حکمران طبقہ اس کی حالیہ تخریب کاری پر بالکل محظوظ نہیں ہواجس کے لئے پولیس بھی تیار نہیں تھی (ابھی تک وجوہات واضح نہیں کہ ایسا کیوں ہوا)۔ لیکن ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ حلف برداری کے دن امن و امان کی ذمہ دار تمام قوتیں پوری طرح متحرک ہوں گے تاکہ یہ انتشار دوبارہ نہ ہو اور جو کوئی رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کرے گا ڈنڈا کھائے گا۔
بالآخر ٹرمپ کو سمجھ لگ گئی ہے کہ کھیل ختم ہو چکا ہے اور اب وہ خاموشی سے رخصت ہونے کی یقین دہانی کروا رہا ہے۔ وہ یہ کام اس لئے کر رہا ہے کیونکہ اسے سمجھ لگ گئی ہے کہ اگر ایسا نہیں کرے گا تو اسے پولیس کی حفاظت میں سب سے قریبی پولیس گاڑی میں بٹھا لے جایا جائے گا۔ یہ بھی اس بنیاد پر قیاس ہے کہ اس پر جمہوریہ کے خلاف ”بغاوت“ کے جرم میں مواخذے کی کاروائی کر کے پہلے ہی ہٹا نہیں دیا جاتا۔
ظاہر ہے کہ معاملہ یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جائے گا۔ کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے۔ جارجیامیں سینٹ کی دو سیٹیں جیتنے کے بعد کانگریس کا کنٹرول اب جو بائڈن کے ہاتھوں میں ہے۔ اب وہ اپنے حامیوں کی امیدوں کے برعکس کوئی بہانہ نہیں بنا سکتا۔
لیکن شدت اختیار کرتا معاشی بحران، جسے قرضوں کے پہاڑ نے مزید سنگین بنا ڈالا ہے، جلد ہی جو بائڈن کی حکومت کو ان کروڑوں افراد کو مایوس کرنے پر مجبور کر دے گا جنہوں نے ”کم تر برائی“ کو ووٹ ڈالا ہے۔ طبقاتی جنگ کا ایک نیا اور ہنگامہ خیز دور طلوع ہو رہا ہے جو امریکی سماج کو اوپر سے نیچے تک تبدیل کر دے گا اور نئے انقلابی امکانات کو روشن گا۔
سرمائے کے حکمت کاروں کے اخذ کردہ نتائج
اس تمام تر صورتحال کے اثرات ہر گزرتے دن کے ساتھ حکمران طبقے کے دور اندیش نمائندوں کو واضح ہو رہے ہیں جنہیں بے وقوف، کوتاہ نظر اور تاثریت پسند ”بائیں بازو“ سے زیادہ بہتر تناظر کا ادراک ہے۔
29 دسمبر کو فنانشل ٹائمز نے ”سرمایہ داری کی بہتر شکل ممکن ہے“ کے نام سے ایک مضمون شائع کیا۔ اس پر پورے ادارتی بورڈ کے دستخط تھے جس کا مطلب ہے کہ بورژوازی کے انتہائی اہم جریدوں میں سے ایک کا پورا ادارتی بورڈ اس مضمون پر متفق ہے۔
مضمون کے مطابق:
”پرسکون کرسمس کی چھٹیاں وہ لمحہ ہے جس میں ہمیں یسوع مسیح کے خاندان کے حوالے سے کہانی کو یاد رکھنا چاہیے۔ مضحکہ خیز انتظامی قوانین سے مجبور سڑک پر در بدر، سر پر کوئی چھت نہیں اور غیر انسانی حالات میں بچے کی پیدائش۔
”ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی کسمپرسی کو انسانی تاریخ کے امیر ترین سماج میں ایک پسماندہ طبقے کے حالات کو بیان کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وباء نے امیر ممالک کی محنت کی منڈیوں کے کمزور حصوں پر ایک تلخ روشنی ڈالی ہے۔
”ہم میں سے زیادہ تر۔۔بسا اوقات اپنی زندگیوں کے لئے۔۔ان لوگوں پر منحصر ہوتے ہیں جو شیلف بھر رہے ہیں، اشیائے خوردونوش سپلائی کر رہے ہیں، ہسپتال صاف کر رہے ہیں، ضعیفوں اور معذوروں کی نگہداشت کر رہے ہیں۔ لیکن ان گمنام ہیروز میں سے اکثریت کی تنخواہیں کم ہیں، کام بہت زیادہ ہے اور نوکریوں کے حوالے سے مواقع اور تحفظ غیر یقینی ہے۔
”ایک نیا لفظ۔۔’پریکاریہ‘ (غیر یقینی صورتحال سے دوچار محنت کش۔مترجم)ان کی صورتحال پر صادر آتا ہے۔ پچھلی چار دہائیوں میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد روزگار کے ذریعے مستحکم اور مناسب اجرت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا اظہار منجمد اجرت، غیر یقینی کمائی، ایمرجنسی کے لئے فنانشل بفرز کی عدم موجودگی، غیر یقینی روزگار اور سخت کام کے حالات میں ہو رہا ہے اور صورتحال اتنی حقارت انگیز ہو چکی ہے کہ ایک عورت کو اپنی شفٹ چھوٹ جانے کے خوف سے ایک بیت الخلاء میں بچہ جننا پڑا۔
”کئی افراد کو بے گھری کے خطرات، منشیات اور شراب کی لت جیسی بے قابو وباؤں کا سامنا ہے۔ سماجی سہولیات مدد کر سکتی ہیں لیکن یہ پہلے ہی کمزور افراد کو انتظامی گھمن گھیریوں میں پھنسا لیتی ہیں۔
”یہ دیرینہ مسائل ہیں لیکن 2020ء میں ان میں اور زیادہ شدت آ گئی۔ پریکاریہ کی زیادہ تر نوکریوں میں ہاتھ سے کام کرنے کے لئے جسمانی موجودگی ضروری ہے جس سے مزدوروں کو کورنا وباء اور لاک ڈاؤن میں کمائی کے نقصان، دونوں کا خطرہ ہے۔“
تحریر میں بنیادی مسائل کی شاندار طریقے سے نشاندہی کی گئی ہے۔ لیکن حل کیا ہے؟ مصنف ہمیں بتاتا ہے کہ:
”سب سے زیادہ امداد کے حق داروں کی مدد ایک اخلاقی فریضہ ہے۔ لیکن عوام کو معاشی غیر یقینی سے باہر نکالنے میں امراء کا بھی فائدہ ہے۔“
کیا قابلِ تعریف جذبات ہیں! اس تحریر سے چارلس ڈکنز کی مشہور کہانی ”اے کرسمس کارول“ ذہن میں آ جاتی ہے۔ اس کہانی میں ایک کنجوس پیسے کا پجاری سرمایہ دار سکرووج بالآخر قائل ہو جاتا ہے کہ اپنے طور طریقے درست کر لے، اپنی کچھ دولت غرباء اور کمزوروں کے ساتھ بانٹ لے اور عمومی طور پر ایک اچھا اور رحمدل شریف بوڑھا بن جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جذباتی اختتام کہانی کا سب سے کمزور حصہ ہے اور اس میں صرف مصنف کی نیک خواہشات اور خواب ہی شامل ہیں۔ سب سے اہم حصہ اس کا آغاز ہے جو درست طور پر سرمایہ داری کی حقیقی اخلاقیات بیان کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فنانشل ٹائمز کے مصنفوں کو درست طور پر اندازہ ہے کہ غلیظ مٹھی بھر امراء سے بہتری کی اپیل کرنا وقت کا ضیاع ہے جو سماج پر اس بنیاد پر قبضہ کئے بیٹھی ہے کہ ”سب سے زیادہ ضرورت مند وں کی مدد اخلاقی فرض ہے“۔ یہ بات چارلس ڈکنز کو بھی واضح تھی جس نے کہانی میں نیک نیت افراد کی سکرووج سے ایک کرسمس کے صدقے کے لئے گفتگو کی منظر کشی کی ہے۔ سکرووج کہتا ہے کہ:
”کیا قید خانے موجود نہیں ہیں؟ کیا ورک ہاؤس (جبری مشقت۔مترجم) ختم ہو گئے ہیں؟ “۔ شریف آدمی کہتا ہے کہ ”وہ تو ہیں۔ لیکن میری خواہش ہے کہ میں کہتا وہ موجود نہیں ہیں۔ کئی وہاں جا نہیں سکتے اور کئی موت کو ترجیح دیتے ہیں“۔ سکرووج جواب دیتا ہے کہ ”اگر وہ موت کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر انہیں یہ کام فوری طور پر کرنا چاہیے اور زائد آبادی گھٹا دینی چاہیے“۔
یہ ہے سرمایہ داری کی حقیقی آواز۔ منڈی کی معیشت کی سرد مہر اور نپی تلی آواز، رجعتی مالتھس کی آواز۔ پیسے والے مردوخواتین کی غلیظ روح، جھپٹنے والی، خود غرض اور ظالم آواز۔ یہ آواز ڈکنز کے زمانے سے اب تک تبدیل نہیں ہوئی۔
یہ جانتے ہوئے کہ سرمایہ داروں کی اخلاقیات کو اپیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، مضمون میں ان کے مفادات سے اپیل کی گئی ہے (ان کی لالچ اور خود غرضی)۔ یہاں اب ٹھوس بحث ہو رہی ہے!
”اگر جاری معاشی پولرائزیشن کے نتیجے میں سرمایہ داری کو رد کر دیا جاتا ہے تو صرف یہی خطرہ نہیں ہے کہ امراء سب سے زیادہ نقصان میں ہوں گے۔ ان مسائل کے حل سے انہیں بہت فائدہ بھی ہو گا۔“
لیکن ان جانوروں پر کسی قسم کی اخلاقی اپیلوں کا اثر نہیں ہو گا جس طرح ان کا سکرووج پر اثر نہیں ہوا تھا۔ بالآخر سکرووج کی سوچ اخلاقی فرائض کے احساس کے بجائے خوف نے تبدیل کی تھی۔۔وہ خوف اور پریشانی جو ڈکنز کے بھیجے گئے بھوتوں نے اس میں پیدا کی تھی۔
اس لئے فنانشل ٹائمز کے مصنف نے دانا فیصلہ کیا ہے کہ بورژوازی کو موجودہ حالات کے نتائج سے ڈرایا جائے۔ یہ خوف اور بھی بھیانک ہے:
”معاشی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیچھے رہ جانے والے گروہ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ ذمہ داران کو ان کی حالتِ زار سے کوئی سروکار نہیں۔۔اور اس سے بھی زیادہ گھمبیر کہ غریب و لاچار کے خلاف یہ پورا نظام ہی ان کے حق میں دھاندلی زدہ ہے۔
”سست روی سے لیکن حتمی طور پر سرمایہ داری اور جمہوریت ایک دوسرے کے مدِ مقابل آ رہے ہیں۔ عالمی معاشی بحران کے آغاز سے دھوکے کے اس احساس نے عالمگیریت اور لبرل جمہوری اداروں کے خلاف غم و غصے کے اظہار کو تقویت دی ہے۔
”دائیاں بازو کا پاپولزم سرمائے کی منڈیوں کو قائم رکھتے ہوئے اس غم و غصے پر نشونما حاصل کر رہا ہے۔ لیکن کیونکہ یہ معاشی بحران کے باعث کئے گئے وعدے پورے نہیں کر سکتا، آج نہیں تو کل خود سرمایہ داری اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی دولت کے خلاف درانتیاں باہر نکل آئیں گی۔“
جی ہاں! سنجیدہ بورژوا حکمت کار، تنگ نظر اصلاح پسندوں کے مقابلے میں انقلابی مضمرات سے کہیں بہترآگاہی رکھتے ہیں۔ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ عوامی رائے کا دائیں بازو کی جانب جھکاؤ زیادہ تیزی کے ساتھ بائیں بازو کی جانب بھی مڑ سکتا ہے، پریشان حال عوام (درانتیوں سے لیس، فرانسیسی انقلاب یا کسان بغاوت سے تشبیہ) سرمایہ داری مخالف راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔
مضمون میں مزید لکھا ہے کہ:
”کم اجرتی غیر مستحکم نوکریوں کی وباء اس بات کی غمازی ہے کہ معاشی بلندیوں پر موجود سب سے زیادہ ترقی یافتہ پیداواری طریقوں کی نیچے منتقلی ناکام رہی ہے۔ پریکاریہ کی موجودگی ہی ثابت کرتی ہے کہ وسائل۔۔انسانی، جسمانی اور تنظیمی۔۔ضائع ہو رہے ہیں“۔۔”ایک پولرائزڈ معیشت صرف غیر منصفانہ ہی نہیں بلکہ ناکارہ بھی ہے۔“
ہاں یہ سب درست ہے۔ سرمایہ داری واقعی موجبِ ضیاع اور ناکارہ ہے۔ ہمیں عرصہ دراز سے اس حقیقت کا ادراک ہے۔ اس لئے اسے ایک مختلف نظام سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔۔ایک ایسا نظام جس کی بنیاد ہم آہنگ منطقی منصوبہ بند معیشت ہو، جس میں قوتِ محرکہ مٹھی بھر امراء کے لئے ہوشرباء دولت کے حصول کے بجائے اکثریت کی ضروریات پوری کرنا ہو۔
اس نتیجے سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ بات ہمارے بھلے مانس مصنف کی گرفت سے کوسوں دور ہے جو یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ (بغیر کسی ثبوت یا وجہ کے) ”سب کے لئے متبادل زیادہ خوفناک ہے“۔
ایسا کیوں ہے یہ کبھی بیان نہیں کیا جاتا۔ مصنف موجودہ سرمایہ دارانہ نظام سے آگے دیکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا اور اس وجہ سے اس میں اصلاحات کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ لیکن بے وقوف اصلاح پسندوں کی تمام تر خواہشات کے برعکس سرمایہ داری کی اصلاح نہیں کی جا سکتی۔ وہ اپنے آپ کو حقیقت پسند کہتے ہیں۔ درحقیقت وہ غلیظ ترین یوٹوپیائی ہیں۔
مصنف کا کہنا ہے کہ سرمایہ داری کو بچانے کے لئے اس کے پیروکاروں کو چاہیے کہ وہ ”اس کی تیز دھار کو کند کریں“۔ وہ فاتحانہ اعلان کرتا ہے کہ ”ہواؤں کا رخ تبدیل ہو رہا ہے“۔۔”جو بائڈن سے لے کر بورس جانسن تک سیاست دانوں کو ’بہتر تعمیر نو‘ کا مینڈیٹ ملا ہے۔ معاشی بنیاد پرستوں نے یہ خیال ترک کر دیا ہے کہ (معاشی) بڑھوتری کی قیمت عدم مساوات ہے۔ سرمایہ داری کے ذریعے سب کی عزت کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔“
واہ! واہ! کیا خوبصورت منظر کشی ہے!
یعنی تما م بحث مباحثے کے بعد نتیجہ یہ ہے کہ اب بیٹھ کر ایک مختلف سرمایہ داری کا خواب دیکھو۔۔زیادہ اچھی، زیادہ رحم دل، زیادہ انسان دوست سرمایہ داری جیسے ڈکنز نے زیادہ اچھے، رحم دل اور انسان دوست سکرووج کا خواب دیکھا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ خواب بھی دوسرے خواب کی طرح بے فائدہ اور یوٹوپیائی ہی ہے۔
ہم کیوں رجائیت پسند ہیں
”اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بحران چھچھوندر کی طرح کھدائی کیے جا رہا ہے“ (مارکس کا اینگلز کو خط، 22 فروری 1858ء)۔
سرمایہ داری بیمار اور قریب المرگ ہے۔ اس کی علامات واضح ہیں۔ موجودہ نظام کی دوغلی اخلاقیات، نا انصافی، ناقابلِ برداشت عدم مساوات اور انسانی تکالیف پر بے حسی کے خلاف زیرِ سطح ہر جگہ خوفناک غم و غصہ، تلخی اور نفرت پنپ رہی ہیں۔
دھوکہ دہی اور مسلسل نظر اندازی کے شدید جذبات سے لبریز عوام ایک زمانے میں قابلِ عزت اداروں کو اب شدید نفرت سے دیکھتی ہے۔ سیاست دان، جج، پولیس، میڈیا، چرچ۔۔عوام کے لئے سب اجنبی اور کرپٹ ہیں۔
رسمی بورژوا جمہوریت کے ادارے اس بنیاد پر تعمیر کئے گئے تھے کہ امراء اور غرباء کے درمیان خلیج کو منظم حدود کے درمیان قید کیا جا سکے۔ لیکن مسلسل بڑھتی عدم مساوات نے بے مثال سماجی پولرائزیشن کو جنم دیا ہے۔
اس سے روایتی بورژوا جمہوریت کی نہ صرف حدود آزمائش کا شکار ہو چکی ہیں بلکہ ان حدود کو توڑا بھی جا رہا ہے۔ پچھلے سال امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات اسی حقیقت کے غماز تھے۔
جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد اچانک اٹھنے والی بغاوت پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی اور صدارتی انتخابات سے پہلے اور بعد میں رونما ہونے والے واقعات پوری صورتحال میں ایک معیاری تبدیلی ہیں۔ یہاں ہمیں انقلابی مستقبل کے ابتدائی خدوخال وضع ہوتے نظر آرہے ہیں۔
سال 2021ء ایک بے مثال سال ہو گا۔ کیا یہ خوشی کا ایک نیا سال ہو گا جیسے رجائیت پسند پیش گوئی کر رہے ہیں؟ ظاہر ہے یہ سال ایک مٹھی بھر اقلیت کے لئے تو خوشیوں بھرا سال ہو گا۔۔آبادی کے 1 فیصد سے کم جو اکثریت کی پیدا کردہ دولت پر مکمل قبضہ کئے بیٹھی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثریت کے لئے یہ کوئی خوشی کا سال نہیں ہو گا۔ ان کے لئے سرمایہ داری میں مستقبل تاریک ہے۔ لیکن مستقبل کے حوالے سے ہم ڈھٹائی اور سرکشی سے رجائیت پسند ہیں۔۔سرمایہ داری کے مستقبل کے برعکس مستقبل میں انقلابی طبقاتی جنگ کے حوالے سے جو اس نظام کو ہمیشہ کے لئے اکھاڑ پھینکے گی۔
ایک خوشحال مستقبل کا راستہ ماضی سے مکمل قطع تعلقی سے گزرتا ہے۔ ہمارے سامنے مستقبل مشکل ہے۔ محنت کش طبقے کو انتہائی سخت تجربات سے گزرنا ہو گا۔ لیکن ان تجربات سے درکار نتائج اخذ ہوں گے۔ ایک طویل عرصے میں عدم تحرک کے بعد محنت کش طبقہ اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے، بالکل ایک کھلاڑی کی مانند جو ایک فیصلہ کن معرکے میں اتر رہا ہو۔ یہ، اور صرف یہی وہ وجہ ہے جو ہمیں انسانیت کے مستقبل میں امید اور رجائیت فراہم کرتی ہے۔