|تحریر: صغیر امین|
”سوہنی دھرتی“ کے باقی شہروں کی طرح گوادر بھی مقامی آبادی کے لیے پریشانیوں اور مصائب کا سمندر ہے جہاں نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں، نہ ان کی ڈگریاں ان کے لیے تنکے کا سہارا بن پا رہی ہیں اور نہ ہنر پتوار بن کر انہیں پار لگا سکتے ہیں۔ غریب مہنگائی کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں سے نبرد آزما ہیں۔ صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ تعلیم زیر آب غرق ہو چکی ہے۔ ریاستی جبر کے بھنور نوجوانوں کو ڈبو رہے ہیں۔ لیکن عوام پر یہ اذیتیں اور مصائب یہاں رُکنے والے نہیں ہیں۔
اب ایک بار پھر گوادر میں باڑ کا منصوبہ شروع ہو چکا ہے۔ شہر کے گرد خار دار تاروں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ گوادر شہر کے 25 مربع کلومیٹر پر باڑ لگائی جائے گی اور صرف دو پوائنٹس ایسے ہوں گے جہاں سے لوگوں کو اخراج اور داخلے کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ لوگوں پر نظر رکھنے اور ”سیکورٹی“ خدشات کے پیش نظر 500 کیمرے بھی نصب کیے جائیں گے۔ اس باڑ سے گوادر ڈسٹرکٹ کی چار تحصیلوں میں سے تین تحصیلیں جیونی، پسنی اور اورماڑہ مکمل گوادر سٹی سے کٹ جائیں گی اور تحصیل گوادر کی تین یوسیز چھب کلمتی، پلیری اور سر بندن بھی سٹی سے باہر ہوں گی۔ ریاست اور اس کا میڈیا ان اقدامات کو ”سیف سٹی پروجیکٹ“ بتا رہے ہیں۔ جس کا مقصد گوادر کے عوام کو ”تحفظ“ اور شہر کو ”دہشت گرد“ حملوں سے محفوظ کرنا ہے۔
تو کیا یہ سب ”لوگوں“ کو تحفظ دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہاں! بالکل، کیوں کہ یہ حفاظتی حصار شہر کے اس حصے میں لگائے جارہے ہیں جہاں چین کی سرمایہ کاری موجود ہے۔ جس میں گوادر پورٹ سے لے کر انٹرنیشنل ائیر پورٹ اور دوسرے اہم سٹرٹیجک حصے آتے ہیں۔ مطلب سرمایہ داروں اور ان کے سرمائے کو محفوظ کرنے کے لیے یہ کیا جا رہا ہے۔ گوادر کے ننگے بھوکے لوگوں کو کسی بھی طرح کا تحفظ نہیں دیا جا رہا۔ جن کو دو وقت کی روٹی تک ملنا محال ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں ابھی تک آبادی کی بڑی تعداد سوئی گیس سے محروم ہے۔ جنہیں اس گرمی میں چودہ اور سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ جن کو صاف پینے کا پانی نہیں ملتا ہے اور سینکڑوں بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کبھی بارشیں ان کو بہا کر لے جاتی ہیں۔ کچے مکانات کے نیچے دب کر لقمہ اجل بنتے ہیں یا بے یار و مدد گار بھوکے پیاسے کھلے آسمان تلے سسکتے ہیں۔ پھر بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں۔ علاج کے لیے چندہ مہم شروع ہوتی ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی قابل علاج بیماریوں سے مر کھپ جاتے ہیں۔ شہر کے غریبوں کو اگر کسی دہشت گرد حملے سے خطرہ ہے تو وہ ریاستی جبر کا حملہ ہے۔ سمندر پر ٹرالروں کا حملہ ہے۔ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے حملے ہیں۔
گوادر کو باڑ میں محصور کرنا کالونائزیشن کی بد ترین شکل اور نو آبادیاتی منصوبہ ہے۔ اس کا مقصد جہاں ایک طرف سامراجی پراجیکٹس کو تحفظ فراہم کرنا ہے، وہیں مقامی آبادی کو ذلت و محرومیوں میں دھکیلنا ہے۔ لوگوں کو ان کے خاندانوں سمیت جیل میں بند کرنا ہے۔ ہزاروں لوگوں کے رشتہ دار دوسری تحصیلوں اور یوسیز میں رہتے ہیں۔ مضافات کی آبادیاں گوادر شہر کے دستِ نگر ہیں۔ ان کے علاج و تعلیم اور لین دین کے تمام تعلق شہر سے جڑے ہیں۔ اس طرح نہ صرف شہر محصور ہو گا بلکہ دیہاتوں کی آبادیاں بھی چھوٹی بڑی ضرورتوں کے لیے شہر آنے کے لیے کئی اذیتوں سے ہو کر گزریں گی۔
ہم اس سامراجی منصوبہ کی مذمت کرتے ہیں اور مزاحمت میں گوادر کے عوام کے ساتھ ہیں۔ لیکن اس کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ حل کی طرف جانے سے پہلے پاکستانی ریاست کا چین سے تعلق، پاکستان کا سامراجی کردار اور بلوچ سیاست پر بات کریں گے۔
پاک چین تعلقات
ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کوئی فطری ریاست نہیں جو ایک خاص ارتقائی عمل سے گزری ہو بلکہ برطانوی سامراج کی ایما پر مذہب کے نام پر مسلمان نودولتیوں کے لیے ان کے سامراجی آقاؤں نے ایک نیا ملک بنایا۔ بھیانک، خون میں لتھڑے ہوئے ماضی کی کوکھ سے ایسا ملک نکلا جس نے مصنوعی مذہبی نظریے کو ایک ایسے سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کی جو کثیر القومی اور کثیر اللسانی تھا۔ تعلیمی نصاب کو مکمل طور پر ریاست کے سرکاری مذہبی نظریے کے مطابق تشکیل دیا گیا۔ سرکاری نقطہ نظر کو رائج کرنے کے لیے تاریخ کے چہرے کو مسخ کر دیا گیا۔ اردو کو قومی زبان قرار دے کر مسلط کر دیا گیا۔ چھوٹی قومیتوں پر جبر کا بازار گرم کر دیا گیا۔ جہاں بے سروپا سیاست نے جنم لیا۔ جس کی افسر شاہی ایک ریاست، ایک وسیع منڈی، بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ اور افرادی قوت کا بے شمار ذخیرہ ہونے کے باوجود اپنی صلاحیت اور اہلیت ثابت نہیں کر پائی۔ شروع دن سے اس کا کردار دلالی، جی حضوری اور اور سامراجی آقاؤں کی مخلصانہ اطاعت پر مبنی ہے۔ اس نے اپنی 76 سالہ تاریخ میں سامراجی طاقتوں کے در پر ماتھا رگڑ کر، جھولی پھیلا کر، چاپلوسی کرکے اور جنگوں میں اپنی زمینیں دے کر ڈالر بٹورے ہیں۔ آج بھی یہی ان کی حقیقت ہے۔ خطے میں پاکستان کی اہمیت اور اس کے خوشامدی، چاپلوسانہ اور سامراج نواز کردار پر ہماری ویب سائٹ پر کئی تحریریں ملیں گی۔ ہم صرف یہاں پاکستان اور چین کے تعلق کے حوالے سے بات رکھیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کی بیساکھیوں کے سہارے کے بغیر نہیں چل سکتا اور ان اداروں میں امریکہ ایک فیصلہ کن وزن رکھتا ہے۔ لیکن ان عالمی مالیاتی اداروں پر پاکستان کا انحصار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سرد جنگ میں بالعموم اور سرد جنگ کے اختتام کے بعد سے لے کر آج تک بالخصوص یہی صورتحال رہی ہے۔ لیکن پچھلی ایک دہائی میں پاکستان میں جس عالمی سامراجی قوت کا مالیاتی و معاشی اثر و رسوخ انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھا ہے وہ بلاشبہ چین ہے۔
چین کے اپنے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک چین سی پیک کی مد میں پاکستان میں تقریباً 26 ارب ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کر چکا ہے (سی پیک پراجیکٹس کی مد میں لئے گئے قرضے اس کے علاوہ ہیں)۔ اگرچہ اس میں سے زیادہ تر سرمایہ کاری پاور جنریشن کے شعبے میں ہوئی ہے اور حکومت پاکستان نے ان پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کے ساتھ دہائیوں تک ہوش رُبا نرخوں پر بجلی خریدنے اور کپیسٹی پیمنٹس کرنے کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ یعنی کہ بالواسطہ طور پر قرضہ ہی اٹھا رکھا ہے۔ مزید برآں 6.5 ارب ڈالر مالیت کے سٹریٹیجک اہمیت کے حامل ایم ایل ون منصوبے سمیت کچھ دیگر منصوبوں پر معاہدے طے ہونے کے فائنل مراحل میں ہیں۔ جن میں ابھی تک ہونے والی تاخیر کی وجہ پاکستان کی انتہائی کمزور معیشت پر خود چینی تحفظات ہیں۔
اسی طرح 2023ء میں کراچی اور چشمہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں نئے ریکٹرز کی تنصیب کے لئے سی پیک سے باہر ہونے والے 4.8 اور 3.5 ارب ڈالرز کے معاہدے (یہ واضح نہیں کہ یہ قرضے ہیں یا سرمایہ کاری)، اور اسی طرح سی پیک کے علاوہ 14 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے زیر تعمیر دیامر بھاشا ڈیم کی فنڈنگ کا ایک بڑا حصہ بھی چین سے قرضوں کے ذریعے حاصل کیا جا رہا ہے۔
یہاں یاد رہے کہ پاکستان میں پاور جنریشن جیسے انتہائی کلیدی شعبے میں چین نہایت اہم کھلاڑی بن چکا ہے اور صرف سی پیک کے تحت ہی 8000 میگاواٹ کپیسٹی کے منصوبے مکمل کر چکا ہے۔
مزید برآں پچھلی ایک دہائی میں، حال میں اور مستقبل میں بھی پاکستان میں بننے والے 90 فیصد بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کا ٹھیکہ چین کے پاس ہے۔ چاہے ان منصوبوں کی فنانسنگ میں چین کا بڑا حصہ نہ بھی ہو (جیسے کہ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور تربیلا پانچواں تو سیعی منصوبہ)۔ مگر پاکستان صرف انفراسٹرکچر منصوبوں کے لئے ہی چین سے قرضہ نہیں لیتا بلکہ یہ اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کے لئے بھی چین سے اندھا دھند قرض لیتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 2012ء سے2021ء کے عرصے میں پاکستان نے ہر سال ادائیگیوں کے توازن کو دباؤ سے بچانے کے لئے چین سے کم از کم ایک ایمرجنسی بیل آؤٹ قرضہ لیا ہے۔ جبکہ پچھلے قرضوں کا رول اوور اس کے علاوہ ہے۔
اس وقت پاکستان کا کل بیرونی قرضہ تقریباً 130 ارب ڈالر ہے جس میں سے لگ بھگ 30 فیصد یعنی 39 ارب ڈالر چین کا ہے۔ یوں چین اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا واحد قرض دہندہ بن چکا ہے۔ یہاں واضح رہے کہ یہ صرف چین کے قرضے کی بات ہو رہی ہے، چین کی پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اس کے علاوہ ہے۔
مگر پاکستان ان چینی قرضوں کا استعمال صرف بعض انفراسٹرکچر منصوبوں، بجٹ خسارے وغیرہ کو فنڈ کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کے لئے ہی نہیں کرتا، ان کا ایک اور انتہائی اہم استعمال بھی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ملک تو ڈیفالٹ کے کنارے کھڑا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے پاس مسلسل نت نئے جدید ترین چینی ہتھیار کیسے آ رہے ہیں؟ ان میں سے بعض ویپن سسٹم تو اتنے کٹنگ ایج ہیں کہ اس نوعیت کے ہتھیار پاکستان کو کبھی خواب میں بھی یورپ اور امریکہ سے نہیں مل سکتے تھے۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ مقداری اور معیاری دونوں حوالوں سے پاکستان کی روایتی فوجی صلاحیتوں میں جتنا تیز ترین پھیلاؤ پچھلی ایک دہائی میں ہوا ہے اتنا اس سے پہلے کی پوری ملکی تاریخ میں نہیں ہوا اور یہ سب چین کے مرہون منت ہے۔
ظاہر ہے کہ اس حوالے سے سرکاری اعداد و شمار تو میسر نہیں لیکن محتاط اندازے کے مطابق 2015ء سے لے کر اب تک پاکستان نے چین سے جدید ترین جنگی بحری جہازوں، لڑاکا طیاروں، آبدوزوں، ٹینکوں، انواع اقسام کے میزائیلوں، ریڈارز، ڈرونز اور الیکٹرانک وار فئیر ساز و سامان سمیت تقریباً 17 سے 20 ارب ڈالر کے ہتھیار قرض اٹھا کر حاصل کئے ہیں۔ مزید برآں یاد رہے کہ یہ سب ہتھیار خلا میں معلق نہیں ہوتے بلکہ ان کی دیکھ بھال کے لئے بڑی تعداد میں چین کے فوجی انجئینرز اور ٹیکنیشینز کی پاکستان آمد و رفت رہتی ہے اور ان کے استعمال میں مہارت حاصل کرنے کے لئے پاکستان کی افواج چینی افواج کے ساتھ بڑے پیمانے کی فوجی مشقیں کرتی رہتی ہیں۔ یاد رہے کہ ان مشقوں اور ٹریننگ پروگرامز میں صرف فوجی مہارت کا ہی تبادلہ نہیں ہوتا بلکہ سیاسی تعلقات بھی بنتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستان کے ایٹمی اور میزائیل پروگرام کا دار و مدار تو ہمیشہ سے ہی چین پر رہا ہے لیکن اس وقت روایتی فوجی صلاحیت میں بھی پاکستان کا مقداری اور معیاری انحصار فیصلہ کن انداز میں چین پر ہو چکا ہے۔
اب یقینی طور پر چین پاکستان پر یہ سب ”کرم فرمائی“ نہ تو اللہ واسطے کر رہا ہے اور نہ ہی اس کا کارن کوئی نام نہاد دوستی ہے۔ بلاشبہ اس تمام سرمایہ کاری اور قرض خواہی سے منافع حاصل کرنا بھی چین کا ایک مطمع نظر ہے لیکن ہماری نظر میں اس پہلو کی اہمیت ثانوی ہے کیونکہ چین بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت اتنی پتلی ہے کہ وہ کبھی بھی بھاری بھر کم چینی قرضوں کی طے شدہ شیڈول کے مطابق ادائیگی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے چین آئے روز پاکستان کو نئے قرضے دینے کے ساتھ ساتھ اس کے پرانے قرضے بھی رول اوور کرتا رہتا ہے۔
تو پھر چین یہ سب کچھ کیوں کرتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین کے نزدیک پاکستان کی اہمیت بنیادی طور پر سٹریٹیجک نوعیت کی ہے اور پاکستان جنوبی ایشیا اور بحیرہ عرب میں اس کا اہم ترین سٹریٹیجک اتحادی ہے۔ چین سب سے پہلے اپنے علاقائی سٹریٹیجک مخالف انڈیا کی توجہ اس کی مغربی سرحدوں کی جانب مبذول کئے رکھنے کی خاطر پاکستان کو انڈیا کے مقابلے (وضع کردہ حدود) میں ایک فوجی کاؤنٹر ویٹ کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اس میں وہ خاصا کامیاب بھی ہے۔ انڈیا کے شاؤنسٹ دانشورانہ حلقوں کی پاکستان کی پتلی معاشی حالت کے متعلق تمام تر مغرورانہ رائے زنی کے باوجود زمینی حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کی بری فوج کا تین چوتھائی اور فضائی اور بحری افواج کا دو تہائی آج بھی اس کی مغربی حدود کی طرف ہی تعینات ہے۔
اسی طرح سی پیک اور گوادر بندرگاہ بھی چین کے لئے سب سے پہلے معاشی نہیں بلکہ سٹریٹیجک نوعیت کے منصوبے ہیں۔ چین کے خام تیل کی سپلائی کا ایک بڑا حصہ خلیج فارس سے بحیرہ عرب اور پھر خلیج بنگال کے جنوب مشرق میں واقع تنگ مالاکا سٹریٹ سے گزر کر جنوبی چینی سمندر تک پہنچتا ہے۔ کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں امریکہ، انڈیا اور آسٹریلیا وغیرہ با آسانی مالاکا سٹریٹ کی بحری ناکہ بندی کر کے اس سپلائی روٹ کو کاٹ سکتے ہیں۔ یمنی حوثیوں کی جانب سے حالیہ عرصے میں بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں تجارتی جہاز رانی کو نشانہ بنانے کے بعد تو مستقبل میں دیگر قوتوں کی جانب سے ایسے حربوں کے استعمال کے امکانات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
لہٰذا کسی غیر معمولی صورتحال میں گوادر پورٹ اور سی پیک ٹرانسپورٹ روٹ چین کو خلیج فارس سے خام تیل چین تک لے جانے کا ایک متبادل راستہ فراہم کرتا ہے۔ مزید برآں اگرچہ گودار میں چین کی مسلح بحری موجودگی نہیں لیکن چین گوادر کو مستقبل میں خلیج فارس اور بحیرہ عرب کی بحری مانیٹرنگ کے لئے لازمی استعمال کرے گا یا شاید پہلے ہی ایسا کر رہا ہے۔
مندرجہ بالا تمام بحث کے نتیجے میں یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ چین معاشی طور پر انتہائی کمزور پاکستان کو اپنے قرضوں اور سرمایہ کاری کے جال میں بری طرح پھنسا چکا ہے اور اپنے ان ”احسانات“ کے بدلے میں ریاست پاکستان کا بھرپور سٹریٹیجک استعمال کر رہا ہے۔ گوادر اسی سٹریٹیجک پالیسیوں کی نتیجے میں جیل بننے جا رہا ہے۔
سامراجی اور نوآبادیاتی پالیسیوں کا اکھاڑہ
نہ پاکستان کوئی وفاق ہے اور نہ یہاں کوئی ایسا قانون ہے جس کی نظر میں سب برابر ہوں۔ نہ ایسا کوئی پرچم ہے جس کے سائے تلے سب ایک ہیں۔ جہاں پاکستانی ایلیٹ امریکہ اور دوسرے سامراجوں کے دست نگر میں ہے، وہیں اپنی چھوٹی قومیتوں کے لیے وہ خود سامراجی کردار رکھتا ہے۔ اس کی بہترین مثال بلوچستان ہے۔
ریاست قلات پر بزور طاقت قبضہ کرنا اور پاکستان کے ساتھ جبری الحاق نے شروع سے ہی بلوچ سیاست کو دو انتہاؤں میں بانٹ دیا، پارلیمانی سیاست اور گوریلہ جنگ۔ اس تحریر میں پارلیمانی سیاست پر بات نہیں کی جائے گی، کیونکہ آج ویسے ہی پورے پاکستان کے سامنے عیاں ہو چکا ہے کہ بلوچ سماج کی اکثریت پاکستان کے پارلیمان پر اعتبار نہیں کرتی۔ جو اتنا متعفن اور گل سڑ چکا ہے کہ کوئی بھلا مانس اس طرف گزرنے سے بھی گریز کرے گا۔ دوسری جانب مسلح جنگ ہے۔ پچھلے 75 سالوں سے صوبے کے وسائل کی لوٹ مار اور قومی محرومی نے بلوچ جوانوں کے دلوں میں پاکستان سے نفرت کا لاوا تیار کیا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک صوبے میں نہ کوئی خاص صنعت کاری ہوئی، نہ انفرا سٹرکچر اور نہ بنیادی ضرورتیں دستیاب ہیں۔ لیکن صوبہ معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ جسے مقامی اشرافیہ کے کندھے پر بیٹھ کر پاکستان کی ریاست بے دریغ لوٹ رہی ہے۔ وسائل کی لوٹ مار، زندگی کی بنیادی سہولتوں کا فقدان اور قومی محرومی، بلوچ نوجوانوں میں پاکستان سے نفرت کا ایک فطری رد عمل بنتے ہیں۔ جس کے اظہار میں بلوچستان میں مختلف ادوار میں آزادی کی مسلح تحریکیں چلی ہیں۔ جس کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے۔
گوریلا جنگ کا تسلسل کسی نہ کسی صورت چلتا رہا۔ لیکن اکیسویں صدی کے ساتھ شروع ہونے والی مسلح جدوجہد اب تک برقرار ہے۔ یہ کئی صورتوں میں پہلے والوں سے مختلف تھی۔ اس کی قیادت سرداروں اور نوابوں کے پاس نہیں بلکہ عام مڈل کلاس بلوچوں کے ہاتھ میں ہے (لیکن یہاں پر ایک بات قابل غور ہے کہ جس وقت کے گوریلا وار فیئر کی قیادت سردار یا نواب کر رہے تھے اس وقت سوویت یونین کی موجودگی کی وجہ سے ان تحریکوں کے اندر ترقی پسندانہ رجحانات پائے جاتے تھے جبکہ موجودہ مسلح جدوجہد میں ترقی پسندی کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی)۔ اس سے پہلے کی تحریکوں نے پورے بلوچستان میں اپنے پاؤں نہیں جمائے تھے۔ اس نے کوہلو، ڈیرہ بگٹی سے لے کر گوادر تک تمام بلوچستان اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس نے دیہاتوں کے ساتھ شہروں میں بھی اپنے کارکن پیدا کر لیے تھے۔ یہاں تک کہ کراچی کے بلوچ آبادی والے علاقے اس کے گھیرے میں آ گئے تھے۔ شہروں کے محنت کشوں کی کچھ پرتیں بھی اس میں شامل ہو گئی تھیں۔
یہ جنگ ابھی تک کسی نہ کسی صورت برقرار ہے۔ اب کوئی بلوچ قوم پرست دانشور، ادیب یا جنگ کی قیادت کرنے والے بتا سکتے ہیں کہ بلوچوں نے اس گوریلا وارفیئر کے رواں بیس سالوں کے دوران کیا کھویا کیا پایا ہے۔ بیس سال ایک لمبا عرصہ ہے جس پر تجزیہ ممکن ہے۔ اس جنگ کے دوران بلوچستان کی پوری کی پوری آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ لوگوں نے جبری ہجرتیں کی ہیں۔ نئی زندگی کی تلاش میں گلی گلی صدا دیتے رہے۔ کراچی، حب، تربت اور دوسرے شہروں میں جنگ سے متاثر اور زندگی کی ضرورتوں سے محروم لوگوں نے پرانی یادیں لیے نئی زندگی شروع کی۔ ہزاروں نوجوان جنگ میں کام آئے۔ ہزاروں پاکستان کے زندانوں میں گئے اور مسخ ہوئی لاشیں بن کر نکلے۔ کئی سیاسی کارکن دس دس سالوں سے کال کوٹھڑیوں میں بند ہیں۔ جن کے گھر والوں کو یہ نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہیں کہ نہیں۔ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے بچوں کا بچپن پریس کلبوں کے احتجاجوں میں گزرا اور ان کی جوانیاں گلی چوراہوں کی ریلیوں میں بینر لیے آئیں۔ بلوچستان میں اجتماعی قبریں ملیں۔ پورا بلوچستان ایک فوجی چھاؤنی میں بدل گیا۔ ڈیتھ سکواڈ کی شکل میں بلوچوں کو بلوچوں کے سامنے لا کر کھڑا کیا گیا۔
اس آگ اور خون کی بارش میں مذہبی شدت پسندی کو بلوچ سماج میں لانے کے لیے صوبے کے طول و عرض میں مدرسے کھمبیوں کی طرح ابھرے۔ کئی بلوچ سیاسی کارکنان کو ریاست نے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ یہ سب صرف پچھلے پندرہ، بیس سالوں میں جنگ زدہ بلوچستان میں ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب ریاست پاکستان کی درندگی کا ثبوت ہے۔ دراصل ریاست حکمران طبقے کے ہاتھ میں محنت کش طبقے پر جبر کرنے کا آلہ ہی ہوتی ہے۔ بہرحال ریاست کی اس سفاکیت پر وقتاً فوقتاً عوام نے سڑکوں پر نکل کر اس کو للکارا بھی ہے۔
ایسا کیوں ہوا کہ بلوچ گراؤنڈ ریاست سے کنارہ کش ہو گیا۔ کیوں بلوچ مائیں سیاست سے ڈری ہوئی ہیں اور اپنے بچوں کو اس سے روکتی ہیں۔ اس جنگ میں دلالی اور مخبری کا لیبل لگا کر کتنے معصوم بلوچ صرف ذاتی دشمنیوں میں مار دیے گئے۔ کتنے ایسے بلوچ ہیں جنہوں نے صرف بہتر مستقبل کے لیے مظلومیت کا رونا رویا اور یورپ پدھار گئے۔ کتنے نوجوانوں نے مسلح تنظیم کی چھتر چھایا میں رہ کر عام بلوچوں سے بھتا خوری کی۔ اغوا برائے تاوان کے نام پر کتنے بلوچوں کو تنظیمیں اٹھا کر لے گئیں یا تنظیم کے نام پر اٹھائے گئے۔ کتنے آپسی لڑائیوں میں مرے۔ کتنے فدائی جو صرف بیس، بائیس سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ جنہوں نے صرف ایک سال کا عرصہ تنظیم میں گزارا یعنی سال پہلے نوجوان نے جوائننگ دی اور اگلے سال بیان آیا کہ فلاں محاذ میں کام آیا ہے۔ ان سب کا حساب بھی بلوچ قیادت پر ہے۔ ممکن ہے یہاں کچھ دانشور یہ کہیں کہ یہ جنگ ہے، جنگ تو نسلیں مانگتی ہے۔ ممکن ہے مزید دو سو سال تک چلے۔
بلوچستان کی آزادی اور بلوچ قوم کی حق خودارادیت کی ہم حمایت کرتے ہیں۔ لیکن یہ آزادی کیسی ہوگی۔ آزاد بلوچستان میں، افغانستان، ایران، سندھ (خاص کر کراچی) اور پنجاب کے بلوچوں کا کیا مقدر بننا ہے، جو صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ اس لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ بلوچستان کو ایک سوشلسٹ پروگرام کے تحت آزاد کرایا جائے جو دنیا بھر میں رہنے والوں مظلوموں اور بلوچوں کی آزادی ہوگی۔
اب کون ہیں جو یہ آزادی لے کر دیں گے؟ کون ہیں جو سامراجی منصوبوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے؟ کون ہیں جو بلوچستان کو فوجی چھاؤنی سے ایک آزاد وطن بنائے گا؟ گوادر کی باڑ کو کون اکھاڑ پھینک سکتا ہے؟ وہ ہیں بلوچستان کے عام لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
پوری دنیا کے حالات پہلے کی طرح نہیں ہیں۔ کچھ سالوں میں دنیا بھر میں ایک ایک کر کے ہر ملک میں انقلابی بغاوتیں پھوٹ رہی ہیں۔ خاص کر کرونا کے بعد پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہم لاکھوں لوگوں کی تحریکیں دیکھ رہے ہیں۔ لوگ کیسے متحرک ہیں، سرحدوں اور حکمرانوں کی تقسیم کرنے کے باوجود مظلوم اپنے مظلوم بہن بھائیوں کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ ایسا ہی بلوچ معاشرے کی حقیقت ہے۔ لمبی نیند کے بعد سماج کروٹیں لے کر جاگ گیا ہے۔ اس کو نئی قیادت کی تلاش ہے۔ گوادر میں ایک مولانا نے جب لوگوں کے مسائل پر بات کی تو انہوں نے اسے آسمان میں اٹھا دیا۔ غریب ماہی گیر اس کے ہاتھ چومتے گلے لگاتے۔ لاکھوں لوگوں نے اسے اتنی محبتیں دیں کہ کبھی اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا۔ کئی گانے اس پر بنے۔ نوجوانوں کا لیڈر بنا۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں افراد کی آئی ڈی سے اسے شیئر کیا گیا۔ شیرِ بلوچستان کا لقب دیا گیا۔
اس پزیرائی کو دیکھ کر ہی اس نے ”حق دو تحریک“ کا آغاز کیا اور پھر پاکستان کی بدبودار پارلیمان میں جا بیٹھا۔ جب وہ عوام کی آواز تھا تو لوگوں نے بھی اسے سر آنکھوں پر بٹھایا، مگر جب وہ ایوان میں جا بیٹھا تو لوگوں نے بھی اسے آسمان سے زمین پر پھینک دیا۔ اب وہ اسی جرات مند لڑاکا عوام کو ”جاہل عوام“ کہتا ہے۔
اسی طرح بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو بلوچ لانگ مارچ کے بعد انتہائی پذیرائی ملی، اور بلوچ لانگ مارچ کی پاکستان بھر کے تمام محنت کش عوام نے کھل کر نہ صرف بھرپور حمایت کی بلکہ یہی حمایت ریاست کو اس لانگ مارچ کے شرکا پر جبر ختم کرنے کا موجب بنی، بالخصوص جب لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد میں داخل ہوئے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس قیادت کو عوام نے جو مینڈیٹ دیا تھا وہی قیادت ایک غیر واضح پروگرام اور لائن آف ایکشن کی عدم موجودگی کی بنیاد پر عوامی مینڈیٹ کی ٹھیک سے ترجمانی نہیں کر رہی اور مستقبل قریب میں اسی قیادت کو بھی عوام کی جانب سے بام عروج سے فرش پر لانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسی بنیاد پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بلوچ لانگ مارچ کے بعد بلوچ عوام کی شاندار بغاوت کو ایک بار پھر اقوامِ متحدہ اور مغربی سامراج کی دہلیز پر قربان کیا جا رہا ہے۔ نظریاتی طور پر اپاہج قیادت اور کر بھی کیا سکتی ہے۔ غزہ کے معصوم عوام کی نسل کشی پر اقوامِ متحدہ جیسے اداروں اور مغربی سامراجی ریاستوں کا کردار اندھے بھی نظر آتا ہے مگر وہ شخص جو نظریاتی دیوالیہ پن کا شکار ہو، اس سے بڑا اندھا کوئی نہیں ہو سکتا۔ بلوچ عوام کی پیٹھ میں ایک دفعہ پھر چھرا گھونپ کر شہدا کے خون سے غداری کی جا رہی ہے۔ بلوچ نوجوان ایسے ہار نہیں مانیں گے۔ انہیں سمجھنا ہو گا نہ صرف بلوچ بلکہ دنیا بھر کا محنت کش طبقہ ہی ان کا حقیقی اتحادی اور نجات دہندہ ہو سکتا ہے۔ بلوچ حکمرانوں سمیت، اس جابر پاکستانی ریاست اور دنیا بھر کے حکمران طبقات وہ گدھ ہیں جو بلوچ عوام ہی نہیں بلکہ غزہ سمیت دنیا بھر کے مظلوم عوام، محکوم اقوام اور غریبوں کا گوشت نوچ کر ہی زندہ ہیں اور ان کے چہروں کی لالی در اصل انہی محکوموں کے لہو کے جام پینے کے باعث قائم ہے اور مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
مسلح جدوجہد اور عوامی مزاحمت
اسی طرح فدائی سربلند نے اگست 2021ء میں بلوچ وارڈ گوادر میں ایکسپریس روڈ پر چینی انجنیئرز کی گاڑی پر خود کش حملہ کیا۔ اس حملے میں بھلا کتنے چینی مرے، پاکستان کا کتنا نقصان ہوا یا چین کتنا ڈرا! لیکن گوادر اور خاص کر بلوچ وارڈ میں جیسے ریاست کو دہشت گردی کی سند مل گئی۔ لوگوں کو ہراساں کرنا، محلے میں کرفیو لگانا، گھروں کے سامنے ڈرونز کا اڑنا، گھروں میں گھسنا، گھروں کی چھت پر فوجیوں کو رکھنا، ماہی گیروں کو سمندر جانے سے روکنا۔ جتنا ظلم ریاست کر سکتی تھی اس نے کیا۔
اب اہم بات یہ ہے کہ عام لوگوں کے شعور پر اس حملے کا کیا اثر پڑا؟ کیا گوادریوں (خاص کر بلوچ وارڈ والوں) نے اسے اپنا ہیرو مانا؟ نہیں! محلے میں تو یہ بات چھڑ گئی تھی کہ یہاں تو سیکورٹی بہت سخت ہے۔ یہ کیسے آیا؟ کہیں پاکستان نے خود تو نہیں بھیجا ہے؟ اس کا پورا پس منظر یہ ہے کہ ایکسپریس روڈ بننے کی وجہ سے مشرقی کنارے پر سمندر میں اترنے کے دو تین راستے تھے، جن میں ایک بلوچ وارڈ میں پڑتا تھا۔ جون جولائی سے اس راستے سے ایران سے ٹریڈ ہو رہی تھی۔
مختصراً یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اس وقت بلوچستان کے اندر بالخصوص بلوچ نوجوانوں میں مسلح جدوجہد سے زیادہ یہاں پر سڑکوں پر احتجاجوں، ہڑتالوں، مظاہروں اور عوامی مزاحمت کی دیگر شکلیں فروغ پا چکی ہیں اور وہ عوامی مزاحمت کے رنگ کو ہی اپنا رنگ سمجھتی ہیں۔ اس لیے بلوچ نوجوان ریاستی پراپیگنڈے اور ان تمام تر غیر عوامی قوتوں کو مسترد کر چکے ہیں جوکہ اپنی زندگی سہل بنانا چاہتے ہیں، جبکہ بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق دینا ان کا مقصد ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک سوال بھی ابھرتا ہے کہ جس آزادی کی ہم بات کر رہے ہیں یا جو آزادی بلوچ قوم کے لیے قابل قبول ہوگی وہ آزادی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر بالکل بھی نہیں ہو سکتی۔ اور بلوچ قوم کے لیے قابل قبول آزادی سوشلسٹ بلوچستان ہوگا جو کہ یہاں پر اس خطے کے اندر ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے اندر اکائی کے طور پر بھی ابھر سکتا ہے۔
لہٰذا ہم ان تمام تر بلوچ نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس رواں ظلم اور جبر کے خلاف ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور کمیونسٹ نظریات کی واضح شناخت کے اوپر جدوجہد کرتے ہوئے اس نظام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیں۔