|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: ولید خان|
فروری 2025ء میں میونخ سکیورٹی کانفرنس (Munich Security Conference) میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے خطاب کو چھ ہفتے گزر چکے ہیں۔ اس کانفرنس میں نائب صدر نے یورپ کو واضح کر دیا تھا کہ امریکہ کے ساتھ دہائیوں پرانا تعلق اب ختم ہو چکا ہے۔ اس وقت سے یورپی قائدین ایک سربراہی کانفرنس سے دوسری سربراہی کانفرنس میں مارے مارے پھر رہے ہیں، ایک آن لائن میٹنگ سے ”رضامندوں کا اتحاد“ تک اور بوکھلائی ہوئی کیفیت میں ہر طرف دیکھ رہے ہیں کہ عالمی تعلقات میں اس دیوہیکل تبدیلی کا کیا کرنا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
امریکہ اور یورپ۔۔ اتحادیوں سے مخالفین؟
تقریباً 80 سال سے امریکی سامراج نے اپنے زیر تسلط یورپ کو سوویت یونین کے خلاف ایک بندھ بنا رکھا ہے۔ یورپی سرمایہ داری کے لیے یہ بہت معقول تھا کیونکہ اس نے اپنے عسکری اخراجات کا بھاری حصہ بحر اوقیانوس پار اپنے طاقتور کزن کو سونپ رکھا تھا۔
یہ کہانی اب ختم ہو چکی ہے۔ ٹرمپ کی صدارت میں امریکی سامراج نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے نسبتی زوال کو کسی طرح منظم کیا جائے اور اس کی پہلی سیڑھی روس کے ساتھ ایک معاہدہ ہے تاکہ عالمی سطح پر اپنے مرکزی حلیف چین کا مقابلہ کیا جا سکے۔ عالمی سیاست اور معیشت کا مرکز اب بحر اوقیانوس سے تبدیل ہو کر بحر الکاہل منتقل ہو چکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ تبدیلی سست روی سے جاری تھی لیکن اب یہ ایک دھماکے کے ساتھ اپنا اٹل اظہار کر رہی ہے۔
یہ عالمی تعلقات میں ایک دیوہیکل زلزلہ ہے جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اگر امریکہ روس کے ساتھ ایک سمجھوتہ کرناچاہتا ہے تو پھر یورپی سامراج کا کیا بنے گا؟ یقینا شدید کمزور پوزیشن میں ہے۔ امریکہ اب دوست ہے نہ اتحادی۔ کچھ کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ واشنگٹن اب یورپ کو مخالف یا دشمن کے طور پر دیکھ رہا ہے!
کم از کم ٹرمپ تو واضح کر چکا ہے کہ امریکہ اب مزید یورپی دفاعی اخراجات برداشت نہیں کرے گا۔ امریکی دفاعی چھتری بند ہونے کے بعد یورپی سامراج کی جمع شدہ کمزوریاں پھٹ کر سامنے آ چکی ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں کے انحطاط کا مجتمع شدہ نتیجہ ہیں۔
یورپی معیشت نحیف و لاغر ہے اور پیداواری بڑھوتری کے حوالے سے عرصہ دراز پہلے پچھڑ چکی ہے، یورپ ایک سرمایہ دار طبقے کے ساتھ کوئی ایک سرمایہ دارانہ معاشی اکائی نہیں ہے بلکہ یہ دوسرے اور تیسرے درجے کی طاقتوں کا ایک اکٹھ ہے جس میں ہر ایک کے اپنے مفادات ہیں اور سب کے مفادات باہمی متضاد ہیں۔
یورپ کو دوبارہ مسلح کرنے کی تمام تر بک بک، ”آزاد دنیا کا ایک نیا قائد درکار ہے“ کی شیخی (یورپی کمشنر برائے امور خارجہ کاجاس کالاس)، ”خرچو! خرچو! خرچو!“ کی چیخ و پکار (ڈنمارک وزیراعظم میتے فریڈرکسن) اور 800 ارب یورو کے دفاعی اخراجات کرنے کا ارسولا ون ڈر لین (Ursula von der Leyen) کا حیران کن اعلان۔۔ سب عالمی سطح پر یورپی انحطاط کی حقیقی حدود سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکا ہے۔
یورپ کا خصی پن
اس حقیقت کی ایک واضح مثال یوکرین کے لیے 50 ارب یورو کا ایک ایمرجنسی پیکج بنانے کی کوشش ہے جس کی سربراہی کالاس کر رہی تھی۔ یہ ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ یوکرین میں روس NATO اور مغربی سامراج کے خلاف پراکسی جنگ جیت چکا ہے لیکن یورپی سرمایہ دار قائدین حقیقت سے ہی انکاری ہو چکے ہیں کیونکہ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مشرق میں ایک انتہائی طاقتور سامراجی قوت موجود ہے جس کا وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
ان میں سے کئی (خاص طور پر جرمنی) کو منانا پڑا کہ اپنے مفادات کے برخلاف روس کے خلاف جنگ میں شامل ہوں۔ یہ ساری کارستانی بائیڈن کی ہے۔ اب واشنگٹن پیچھے ہٹ رہا ہے اور وہ جنگ جاری رکھنے میں بضد ہیں حالانکہ ان کی تمام کوششیں پوری دنیا پر ان کا خصی پن واضح کر رہی ہیں۔
یورپی قائدین کی سربراہی کانفرنس تک کالاس کا مشہور 50 ارب یورو کا پیکج سکڑ کر 5 ارب یورو رہ گیا تھا۔ یہ چہ مگوئیاں بھی رہیں کہ امریکی فنڈ کی جگہ یورپی بینکوں میں منجمد روسی اثاثوں کو یوکرین جنگ میں خرچ کیا جائے۔ روس پر اور بھی زیادہ پابندیاں لگانے کی باتیں ہو رہی تھیں۔
بالآخر سربراہی کانفرس میں کیا طے پایا؟ ٹھینگا! 5 ارب یورو کا گولہ بارود تک منظور نہیں ہو سکا۔ منجمد روسی اثاثے وہیں پڑے ہیں۔ مزید پابندیوں کی کہانی بھی دھری رہ گئی جن کا حقیقی نقصان روس سے زیادہ یورپ کو ہی ہونا تھا۔ ہاں، لیکن قیامت خیز نتائج کا کشت و خون سے بھرا دھمکی آمیز اعلامیہ لکھا گیا۔۔ جسے بعد میں کسی غیر طے شدہ تاریخ پر منظر عام پر لایا جائے گا۔ درحقیقت اصلی اعلامیہ بھی سربراہی کانفرنس کا سرکاری اعلان نہیں ہے کیونکہ اسے ہنگری پہلے ہی مسترد کر چکا ہے!
اس دھما چوکڑی نے واضح کر دیا ہے کہ یورپی طاقت کی حقیقی اوقات کیا ہے۔
یہی باتیں میکرون اور سٹارمر کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہیں جو پتا نہیں کونسا نشہ کر کے اپنے آپ کو ڈی گال اور چرچل سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ دونوں سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ یوکرین میں بھیجنے کے لیے کوئی ”پُر امن قوت“ تخلیق کی جائے۔ اس کا آغاز بڑے شادیانے بجا کر ہوا کہ 30 ہزار افواج کی ایک قوت فضائی، بری اور بحری تینوں پہلوؤں کا دفاع کریں گی، ایک ”رضامندوں کے اتحاد“ کا وعدہ (کیونکہ کوئی ایک ادارہ اس پر متفق نہیں تھا!)، ”آپریشنز کا مرحلہ“ شروع کرنے کا ایک وعدہ، سب بکواس! اب نیا خیال یہ اتارا جا رہا ہے کہ 10 ہزار سپاہیوں کی ایک فورس ہو گی، شایداقوام متحدہ کے جھنڈے تلے، جو حقیقی جنگی سرحد سے میلوں میل دور ہو گی اور مداخلت کے برعکس ”حوصلہ افزائی“ کرے گی۔
حقائق تو پھر حقائق ہیں۔ لندن اور پیرس (برلن واضح کر چکا ہے کہ اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے) امریکی حمایت (اس لیے کشکول پکڑ کر واشنگٹن کے عاجزانہ چکر لگائے جا رہے ہیں) اور روس کی اجازت (روس پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ یہ معاملہ کسی صورت زیر بحث نہیں ہے) کے بغیر یوکرین افواج نہیں بھیج سکتے۔ روس اور امریکہ کے حوالے سے یہ یورپ کی حقیقی خصی حالت ہے۔
لیکن ابھی ٹھہریے! دیکھنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے۔
یورپ کی مسلح ہونے کی کوششیں اور محدودیت
ون ڈر لین (Von der Leyen) کے منصوبے کا جائزہ لیتے ہیں جس کا ڈبل نام ”یورپی از سر نو مسلح پروگرام/ تیاری 2030ء“ رکھا گیا ہے۔ کچھ یورپی دارلحکومتوں کو ”از سر نو مسلح“ اصطلاح پر بخار چڑھ گیا ہے اس لیے انہوں نے ”تیاری“ کا اضافہ کر دیا ہے تاکہ اس منصوبے کو عوام کے لیے قابل ہضم بنایا جا سکے۔
اعلامیوں اور پریس کانفرنسوں میں 800 ارب یورو کی شہ سرخیاں استعمال کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک بڑی ایمرجنسی ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ اس رقم میں سے 150 ارب یورو ایک نئی یورپی یونین مالیاتی مد ہے۔۔ SAFE (سکیورٹی ایکشن برائے یورپ)۔ استعمال ہونے والا کچھ پیسہ نیا نہیں ہے بلکہ یورپی یونین کی کرونا وباء امداد کی مد میں بچی کچھی رقم ہے۔
SAFEکی مد میں پیسہ کسی گرانٹ کے برعکس قرضہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یورپی یونین ممبران میں سے جو بھی یہ پیسہ استعمال کرے گا اس پر نیا قرضہ چڑھ جائے گا۔ یہ پہلی رکاوٹ ہے۔ پہلے ہی اٹلی اور اسپین جیسی بڑی یورپی معیشتیں کہہ چکی ہیں کہ وہ اس تجویز سے خوش نہیں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ اخراجات گرانٹس کی مد میں ہوں۔ یہ بات قابل فہم ہے۔ ان ملکوں کی معیشتیں پہلے ہی قرضوں کے پہاڑ تلے دبی ہوئی ہیں (اٹلی 135 فیصد، اسپین 105 فیصد)۔ میڈرڈ اور روم کہہ رہے ہیں کہ ”ہمیں خیرات دو“ جس کا مطلب یہ ہے کہ یورپ کے امیر سرمایہ دار ممالک یہ خرچہ برداشت کریں۔ جرمنی اس کے حق میں نہیں ہے۔
ممالک SAFE کی مد میں پیسہ حاصل کرنے کے لیے آزاد ہیں یعنی ان میں سے اکثریت اس گلی کا سرے سے رخ ہی نہیں کرے گی۔
ون ڈر لین کے 800 ارب یورو کی کیا کہانی ہے؟ یہ بھی کوئی حقیقی پیسہ نہیں ہے بلکہ ”استحکام اور بڑھوتری معاہدہ کے تحت قومی فرار شق کو منظم طور پر متحرک کرنا ہے تاکہ ممبر ریاستیں یورپی یونین کے مالی قوانین کی خلاف ورزی کے بغیر لچکداری سے دفاعی اخراجات بڑھا سکیں“۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ ممالک کسی سزاء کے بغیر یورپی مالیاتی قوانین کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔ یورپی یونین بڑی فراغ دلی سے ممالک کو بتا رہی ہے کہ اپنا بجٹ خسارہ بڑھا کر خرچہ کرو اور مزید قرضوں میں ڈوب مرو۔
کئی یورپی یونین ممالک کے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ مثلاً فرانس یورپی یونین کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اس کا کل قومی قرضہ GDP کا 112 فیصد ہے اور بجٹ خسارہ GDP کا 6.2 فیصد ہے۔ بلکہ ملک پچھلے کئی مہینوں سے سیاسی بحران کا شکار ہے کیونکہ ایک پارلیمانی اکثریت تلاش کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے جو سماجی اخراجات میں دیوہیکل کٹوتیاں اور ٹیکسوں میں بھرمار کرنے کے لیے قابل اور آمادہ ہو جس کے ذریعے ہی بجٹ خسارہ کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
یہ واضح ہے کہ 800 ارب یورو کی رقم کبھی پوری نہیں ہو گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ یورپی معیشت اتنی مضبوط ہی نہیں کہ یورپی سرمایہ داری کی درکار پیمانے پر مسلح سازی ہو سکے۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ تیاری 2030ء (Readiness 2030) کے منصوبے کو یورپی یونین فعالیت معاہدے (Treaty on the Functioning of the European Union) کے آرٹیکل 122 کے تحت متحرک کیا گیا ہے جو یورپی کونسل کو ”قدرتی آفات یا غیر معمولی حالات“ میں ایمرجنسی اقدامات کا حق دیتا ہے اور اس طرح یورپی پارلیمنٹ سے منظوری کو بائی پاس کر لیا جاتا ہے۔ بڑا جمہوری عمل ہے! کسی جمہوری بحث مباحثے کا شائبہ بھی کیوں ہو جب تضادات اور اختلافات یقینی ہیں؟ ویسے بھی یورپی یونین افسر شاہی کو بہتر پتا ہے کہ براعظم کے لیے بہتر کیا ہے!
تیاری 2030ء کے منصوبے نے یورپ کو درپیش ”تشویشناک صلاحیتی خلاء“ کی نشاندہی کی ہے۔ اس کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ”فضائی اور میزائل دفاع؛ توپوں کا نظام؛ اسلحہ اور میزائل؛ ڈرون اور ڈرون کش نظام؛ عسکری نقل و حرکت؛ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، کوانٹم، سائیبر اور الیکٹرانک جنگ؛ اور تزویراتی صلاحیت اور اہم انفراسٹرکچر کے دفاع سمیت تزویراتی ائرلفٹ، فضائی فیولنگ، سمندر میں حدود و رقبہ پر نظر، اور خلاء میں موجود اثاثہ جات“ شامل ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسا سیکٹر موجود ہے جس میں یورپ کی دفاعی صلاحیتیں قابل ذکر ہیں؟
اٹلی نے اس لیے ایلون مسک کے ساتھ اس کے سٹار لنک سیٹلائیٹ کے استعمال پر مذاکرات شروع کیے کیونکہ یورپ کا اپنا متبادل، آئرس 2، 2030ء میں فعال ہو گا! اسی طرح کئی سیکٹر ہیں جن میں یہی صورتحال موجود ہے اور اس کا مطلب ہے کہ یورپ کو دفاعی میدان میں امریکی سہارے سے چھٹکارا حاصل کر کے تزویراتی خودمختاری کے لیے بے تحاشہ پیسہ پانی کی طرح بہانا پڑے گا۔
پھر اس منصوبے کی راہ میں مزید رکاوٹیں حائل ہیں۔ یورپ کی ایک مشترکہ فوج یا مشترکہ دفاعی صنعت موجود نہیں ہے۔ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ امریکی عسکری ڈھانچے اور عسکری صنعتی کمپلیکس میں پیوست ہے (اسے منحصر سمجھا جائے)۔ NATO انٹیلی جنس، فضائی ری فیولنگ، میزائل دفاع اور سب سے بڑھ کر جوہری دفاع کے لیے مکمل طور پر امریکہ پر منحصر ہے۔ اب انہیں سمجھ آ رہی ہے کہ ان اثاثوں پر مزید تکیہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ تیاری 2030ء کے منصوبے میں ہتھیاری نظاموں کی خریداری بھی شامل ہے ”جن کی برقراری، ترمیم یا کلیدی دفاعی نظاموں کی اپ گریڈیشن میں کسی بیرونی ہستی کی حدود و قیود نہ ہو“۔ یورپ میں بہت زیادہ بحث مباحثہ ہو رہا ہے کہ کیا امریکہ ساز F-35 جنگی ہوائی جہازوں میں کوئی ’معدوم سوئچ‘ (kill switch) بٹن موجود ہے جس کے ذریعے پینٹاگون ہوائی جہاز کی جنگی صلاحیتوں کو ختم یا محدود کر سکتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ F-35 میں ایسا کوئی معدوم سوئچ موجود نہیں ہے لیکن بہرحال یہ ”دفاعی ہتھیاروں کے سافٹ ویئر پر مبنی انتہائی پیچیدہ نیٹ ورک منسلک“ جنگی آلات ہیں جو مکمل طور پر امریکی کنٹرول میں موجود لاجسٹک اور سافٹ ویئر اپ ڈیٹ پر منحصر ہیں۔ پھر اسرائیل کو نکال کر تمام امریکی اتحادیوں کو واشنگٹن کی اجازت کے بغیر کسی بھی جنگی ہتھیار کو چلانے یا تجربہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ٹرمپ نے مزید نمک پاشی کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جدید ترین F-47 ہوائی جہازوں کی صلاحیت کو 10 فیصد کم کر کے اتحادیوں کو بیچا جائے گا۔ اس کے مطابق ”یہ منطقی ہے کیونکہ کسی دن وہ ہمارے اتحادی نہیں بھی ہو سکتے“۔ ایسے سوالات کا ابھرنا ہی امریکی اور یورپی سامراجیوں کے درمیان نئے تعلقات کا اظہار ہے۔
یوکرین جنگ نے امریکی ہتھیاروں پر یورپی انحصار بے تحاشہ بڑھا دیا ہے۔ 2014-19ء کے درمیان امریکی ہتھیاروں کی خرید 52 فیصد تھی جو 2020-24ء میں بڑھ کر 64 فیصد ہو گئی۔ تیاری 2030ء کے منصوبے میں ایک شق موجود ہے جس کے مطابق ہتھیاروں کا حصول ایسی کمپنیوں سے ہونا چاہیے جو ”ممبر ممالک، EEA، EFTA ریاستوں یا یوکرین کی حدود میں موجود ہوں“۔
اس شق کا مقصد امریکی کمپنیوں کے ساتھ برطانوی اور ترک کمپنیوں کا کردار محدود یا ختم کرنا ہے۔ اس شق کو فرانسیسی دباؤ کے تحت منظور کیا گیا تھا جو دیگر ممالک کے فوجی اخراجات کی بنیاد پر اپنی دفاعی صنعت کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ ایک مشترکہ دفاعی صنعت کی بجائے یورپ میں کئی قومی دفاعی صنعتیں ہیں جن میں فرانس، برطانیہ، سویڈن اور اٹلی شامل ہیں۔ ان سب کے اپنے مفادات ہیں جو ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔
مسلح ہو کر عالمی سطح پر آزادی سے کھیلنے کی یورپی خواہش کو اس وقت دو مختلف رکاوٹوں کا سامنا ہے؛ اندرونی تقسیم اور امریکہ پر انحصار۔ یورپ کے پاس کوئی ایک مشترکہ فوج، دفاعی صنعت یا عسکری قیادت موجود نہیں ہے۔ ایسا ناممکن ہے کیونکہ یورپ کی ایک مشترکہ معاشی منڈی یا مشترکہ حکمران طبقہ موجود نہیں ہے۔ یورپ میں اس وقت مختلف حجم اور قوتوں پر مبنی 27 حکمران طبقات موجود ہیں جو ایک وقت تک تعاون اور ادغام کو برداشت کرتے رہے ہیں لیکن اب بحران اور دباؤ میں مختلف اطراف میں کھینچا تانی پر لگے ہوئے ہیں۔
مثلاً فرانسیسوں کو اس وقت جنون چڑھا ہوا ہے کہ کسی طرح یورپ کی امریکی اور برطانوی ہتھیاروں سے لت چھڑوا کر اسے مکمل طور پر فرانس پر منحصر کر دیا جائے۔ لیکن جرمنی کو اس میں نقصان ہی نقصان نظر آ رہا ہے کیونکہ بہرحال وہ سمندر پار امریکہ کے برعکس یورپ میں بیٹھا مسابقت کر رہا ہے۔
جرمنی کا از سر نو مسلح ہونے کا پروگرام
یورپ میں ایک ملک ایسا موجود ہے جو لگتا ہے کہ از سر نو مسلح ہونے کے پروگرام پر بہت سنجیدہ ہے، وہ ہے جرمنی۔ نئے چانسلر میرز (Chancellor Merz) نے نئی حکومت کے قیام سے پہلے ہی پچھلی پارلیمنٹ میں بڑی چابک دستی سے از سر نو مسلح (تیاری) ہونے کا قانون منظور کروا لیا ہے۔ اس کے ساتھ اگلے 10 سالوں میں انفراسٹرکچر پر 500 ارب یورو کا خرچہ بھی شامل ہے اور یہ دونوں اخراجات مل کر کل 1 ہزار ارب یورو بنتے ہیں۔
یہاں جرمنی کو ایک سبقت یہ حاصل ہے کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ شدید جبری مالیاتی کٹوتیاں جاری رکھنے کے بعد کل قومی قرضہ باقی ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہے (GDP کا 63 فیصد)۔ اس لیے جرمنی کے پاس جنوب میں موجود اپنے اتحادیوں کے مقابلے میں منصوبہ بندی اور اخراجات کرنے کی زیادہ آزادی موجود ہے۔
جرمن حکمران طبقہ یہ حساب بھی لگائے بیٹھا ہے کہ قرضہ جات میں دیوہیکل اضافہ معیشت میں بڑھوتری کی بنیاد بنے گا جو اب کساد بازاری کے تیسرے سال میں داخل ہو رہی ہے۔ اس کا فیصلہ مستقبل کرے گا کہ یہ ترکیب کتنی کارآمد ہے۔ ٹرمپ کی لاگو کردہ محصولات نے حالات کو اور بھی گھمبیر کر دیا ہے۔ جرمن معیشت کو لاحق مسائل نئے ہیں نہ سطحی۔ اس لیے انہیں حل کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو گا، چاہے ریاست جتنا بھی خرچہ کر لے۔
جرمن پیداواری قوت اپنے حریفوں کے مقابلے میں کم تر ہے۔ دیگر معیشتیں نئے ٹیکنالوجی سیکٹروں میں سبقت حاصل کر چکی ہیں (الیکٹرک بیٹریاں، الیکٹرک گاڑیاں، سولر سسٹم وغیرہ)۔ روس کے خلاف یوکرین جنگ میں امریکی دم چھلہ بننے کے بعد روسی سستی گیس کی بندش نے بھی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
ابھی ان دیوہیکل قرضہ جات کا اعلان ہی ہوا ہے اور جرمنی میں قرضوں کا حصول مہنگا ہو گیا ہے جبکہ باقی یورپ بھی اسی راہ پر چل پڑا ہے۔ فوری طور پر نہیں لیکن مستقبل قریب میں جرمن سرمایہ داری کی ریاستی قرضوں کی بھرمار کے ذریعے درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش ملک کا وہی حشر کرے گی جو باقی یورپی یونین ممالک کا ہے یعنی دیوہیکل قرضے اور ان سے جڑا بے قابو افراط زر۔
بہرحال جرمنی اس وقت دیگر یورپی حکمران طبقات کی مدد کے برعکس ’سب سے پہلے جرمنی‘ منصوبہ پر کاربند ہے۔
پورے یورپ میں ہمیں عسکریت پسندی اور روس کو سب سے بڑا خطرہ بنا کر پیش کرنے کا ایک مسلسل بڑھتا ہوا رجحان نظر آ رہا ہے۔ یورپی یونین کمشنر برائے مساوات، تیاری اور بحران منیجمنٹ نے حال میں یورپی یونین شہریوں کے لیے ایک ”بقا کِٹ“ جاری کی ہے کہ بحران کی صورت میں 72 گھنٹوں تک زندہ کیسے رہنا ہے۔ پورے براعظم میں جبری فوجی بھرتی از سر نو متعار ف کرانے یا اسے توسیع دینے پر بحث مباحثہ ہو رہا ہے اور کچھ ممالک نے اس حوالے سے کچھ ٹھوس اقدامات بھی کیے ہیں۔
کیا یورپ کو روس سے خطرہ ہے؟
کیا یہ سب ایک پروپیگنڈہ ہے؟ کیا یورپ کو واقعی روس سے خطرہ ہے؟ کیا روسی ٹینک بالٹک ریاستوں اور پولینڈ کو روندتے ہوئے یورپ پر چڑھ دوڑنے کو تیار کھڑے ہیں؟
IISS(انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے سٹریٹیجک سٹڈیز) کے مطابق 2024ء میں کل روسی عسکری اخراجات 13.1 ٹریلین روبلز (145.9 ارب ڈالر) تھے جو قومی GDP کا 6.7 فیصد بنتا ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس میں 40 فیصد اضافہ ہے۔ قوت خرید سے ہم آہنگی کے بعد یہ رقم 462 ارب ڈالر بنتی ہے۔ یورپ نے 2014ء کے بعد اپنے عسکری اخراجات میں 50 فیصد اضافہ کیا ہے جو 2024ء میں مجموعی طور پر 457 ارب ڈالر بنتا ہے۔ اس حوالے سے روسی اخراجات کو قوت خرید سے ہم آہنگ کر کے تخمینہ لگانا منطقی ہے کیونکہ ہم ٹینکوں، توپوں یا اسلحے کا تخمینہ لگا رہے ہیں کہ ان کی روس اور یورپ میں کیا خرید ہے۔
اگر ٹینکوں، راکٹوں اور اسلحہ وغیرہ کے حوالے سے موازنہ کیا جائے تو اس وقت روس یورپ سے زیادہ اخراجات کرنے کے ساتھ پورے NATO بشمول امریکہ سے بھی زیادہ خرچہ کر رہا ہے۔ NATO انٹیلی جنس اندازوں کے مطابق روس اس وقت توپوں کے لیے سالانہ 30 لاکھ گولہ بارود پیدا کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں NATO سمیت امریکہ کی کل مجموعی پیداواری قوت محض 12 لاکھ ہے جو روسی اعداد و شمار کا نصف سے بھی کم بنتا ہے۔ یوکرین میں جنگ نے روس کو ایک مربوط اور فعال عسکری صنعت منظم کرنے کے قابل بنا دیا ہے جو مکمل طور پر ریاستی کنٹرول میں ہے جبکہ مغرب کا تمام دار و مدار نجی کمپنیوں سے عسکری سامان خریدنے کے ایک افسر شاہانہ دقیانوسی نظام پر ہے جس میں پچھلے کئی سالوں سے مسلسل کمی آ رہی ہے۔
کچھ اندازوں کے مطابق 2024ء میں روس نے 1 ہزار 550 ٹینک، 5 ہزار 700 بکتر بند گاڑیاں اور ہر قسم کی 450 توپیں نئی بنائیں یا پرانوں کو قابل استعمال بنایا۔ ٹینک پیداوار میں 220 فیصد، بکتر بند گاڑیوں اور توپوں کی پیداوار میں 150 فیصد جبکہ طویل فاصلہ خود کش ڈرونز کی پیداوار میں 435 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پھر یوکرین جنگ نے مکمل طور پر جنگ لڑنے کا روایتی طریقہ کار تبدیل کر دیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس جنگ میں بھی نئی ٹیکنالوجیوں اور تکنیکوں کو براہ راست میدان جنگ میں استعمال کیا گیا اور نکھارا گیا ہے۔ اس صورتحال میں جنگی ارتقائی عمل تیز تر اور میدان جنگ سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے جبکہ مد مقابل افواج مسلسل مجبور ہوتی ہیں کہ تیزی کے ساتھ ان کا توڑ بھی جاری رہے۔ کئی چیزوں مثلاً ڈرونز کی بڑی تعداد (فضائی، بری، بحری)، الیکٹرانک نگرانی اور جامنگ وغیرہ کے نئے طریقہ کار متعار ف ہوئے ہیں۔
ڈرونز نے تو جنگ کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے اور اب جنگجو تقریباً چوبیس گھنٹے دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے دباؤ برقرار رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں جنگی حکمت عملی مجبوراً تبدیل ہوئی ہے۔ ٹینک جنگوں کے برعکس ہمیں خود کش ڈرونز کی جنگ نظر آ رہی ہے۔ اگر پیادہ فوج کو FPV (فرسٹ پرسن ویو) سے بچنا ہے تو تندہی اور تیزی خاصہ بن چکے ہیں اس لیے ٹینکوں اور ٹرکوں کی جگہ موٹر سائیکل اور الیکٹرک اسکوٹر تک سپاہیوں کے چھوٹے گروہ مختصر سفر کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ الیکٹرانک جامنگ ڈرونز کا روسیوں نے اب ایسے ڈرونز متعارف کرا کر توڑ نکالا ہے جو دس یہاں تک کہ بیس کلومیٹر کی انتہائی باریک فائبر آپٹک کیبل کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ یوکرینی فوج اب اس میں بھی تیزی سے مہارت حاصل کر رہی ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں ان نئی ٹیکنالوجیوں اور طریقہ کار سے جنگ لڑنے کا تجربہ صرف دو افواج کے پاس ہے؛ روس اور یوکرین۔ اگرچہ NATO افواج یوکرین جنگ سے کچھ معلومات اور تجربہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور کچھ تجربہ شدہ ہتھیار نظام مغرب کا پیدا کردہ ہے (جیسے آبدوز ڈرونز) لیکن ان تمام میدانوں میں مغرب بہت پیچھے ہے۔ جدید ترین مغربی ٹینک، درمیانے فاصلے اور طویل فاصلے توپ اور فضائی دفاعی نظام یوکرین میں تجربہ ہوئے ہیں اور ان کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ یوکرین جنگ میں طاقتوں کا عسکری توازن فیصلہ کن طور پر روس کے حق میں جا چکا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ روس کو یورپ یا اس کے کسی اور حصے پر فوج کشی کا شوق چڑھا ہوا ہے۔ اس نام نہاد خطرے کا سب سے زیادہ شور حکمران طبقے نے مچایا ہوا ہے تاکہ عسکری اخراجات میں دیوہیکل اضافہ کیا جائے اور ممکنہ طور پر آبادی کی جانب سے اٹھنے والی مخالفت کا سدباب کیا جائے۔ روس کو مغربی یوکرین پر فوج کشی کا کوئی شوق نہیں ہے کیونکہ یہ مہم جوئی موجودہ عسکری مہم سے زیادہ مہنگی اور اعصاب شکن ہو گی، NATO ممالک پر فوج کشی تو دور کی بات ہے۔
امریکہ یوکرین سے کنارہ کشی اور مشرقی یورپ میں اپنی موجودگی کو کم کر رہا ہے۔ اس مستقبل نے خطے میں یورپی سامراج کے سفارتی اور معاشی اثر و رسوخ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ وہ اصل مفادات ہیں جن کے ”تحفظ“ کے لیے یورپ مسلح ہو رہا ہے۔ درحقیقت، مسلح ہونے کا جنون اور یوکرین کی جنگ میں جاری حمایت اور فنڈنگ ہی وہ عناصر ہیں جو روس کے ساتھ تصادم کو ہوا دے رہے ہیں۔ ڈنمارک کی وزیراعظم اسی مقصد کا اظہار کر رہی ہے جب وہ زور دیتی ہے کہ یوکرین کو روس کی تمام ”سرخ لکیریں“ مسترد کر دینی چاہییں۔
اپنے آغاز سے یوکرین جنگ NATO کی روس مخالف جنگ ہے۔ روسی سرمایہ دار حکمران طبقے کے نکتہ نظر میں وہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔
اس کے لیے روس کا اپنے مفادات کے تحت ایک خودمختار ریاست کے طور پر برقرار اور کسی بیرونی قوت کے تسلط سے آزاد رہنا داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اگر حکمران طبقے کو لگتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی معاملہ خطرے میں ہے تو وہ ان کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھائے گا جیسے 2008ء میں جارجیا NATO میں شمولیت کا خواب دیکھ رہا تھا اور پھر یوکرین امریکی سامراج کی آماجگاہ بن گیا جس میں مغربی ہتھیاروں اور فوجیوں کی بھرمار ہو گئی۔ NATO میں شمولیت کو یقینی سمجھا جانے لگا۔
ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات میں پیوٹن مطالبہ کر رہا ہے کہ NATO افواج، فوجی اڈوں اور میزائل کی مشرقی یورپ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یوکرین جنگ سے پہلے روس کا مطالبہ تھا کہ ایک نیا ”یورپی دفاعی ڈھانچہ“ بنایا جائے جس میں روس کے ”قومی دفاعی مفادات“ کو مدنظر رکھا جائے گا۔ روسی سامراج کہہ رہا ہے کہ ”ہم اس خطے میں ایک قوت ہیں اور ہمارے مفادات کو مدنظر رکھنا ناگزیر ہے“۔ یوکرین میں مغرب کی شرمناک شکست کے بعد اس کی پوزیشن اور بھی زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔
یورپ کے سامراجی مفادات
سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں سٹالنزم کے انہدام کے بعد جرمن سامراج زیادہ تر معاشی طریقہ کار سے وسطی اور مشرقی یورپ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا رہا ہے۔ ہر قدم پر اس کی امریکی سامراج نے معاونت کی جس نے NATO کی مشرق کی جانب وسعت مسلسل جاری رکھی کیونکہ اولین ہدف روس کو خطے میں ثانوی درجے کی زیر تسلط قوت بنانا تھا۔ اب امریکہ اپنی مداخلت ختم کرنے کا عندیہ دے رہا ہے اور جرمن سامراج مجبور ہو گیا ہے کہ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مسلح ہو۔
فرانس کے نکتہ نظر سے روس افریقہ میں حریف ہے جہاں پچھلے کچھ عرصے میں اس کی سامراجی دسترس میں موجود کچھ نام نہاد فرانسیسی نواز ممالک اب روسی عسکری امداد کے ذریعے آزاد ہو گئے ہیں [یعنی فرانسیسی سامراج سے آزاد ہو کر روسی سامراج کے زیر تسلط ہو گئے ہیں۔ مترجم] اگر روس یوکرین جنگ میں فاتح ہوتا ہے تو فرانسیسی سامراج کے زیر تسلط افریقی ممالک میں روسی سامراج کی اپیل بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ یہ پریشانی فرانس کو از سر نو مسلح ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔
یقینا کچھ ایسے علاقے موجود ہیں جہاں کسی بھی وقت کوئی نئی جنگ یا جھڑپ ہو سکتی ہے جیسے یوکرین اور مولدووا (Moldova) کے درمیان ایک پتلی زمینی پٹی جسے ٹرانس نستیریا (Transnistria) کہا جاتا ہے اور بیلاروس اور روسی علاقے کالن گراڈ (Kaliningrad) کے درمیان سب سے چھوٹا راستہ سوالکی (Suwalki) راہداری جو لتھوینیا (Lithuania) اور پولینڈ کی سرحد پر موجود ہے۔ پھر بالٹک (Baltic) ریاستوں میں روسی اقلیت بھی موجود ہے جو اپنی زبان اور جمہوری حقوق کے حوالے سے مسلسل بڑھتا دباؤ برداشت کرنے پر مجبور ہے۔
یورپی سامراج کو یہ مسئلہ نہیں ہے کہ روس فوج کشی کر دے گا یا روسی اور یورپی افواج کے درمیان اعلانیہ جنگ شروع ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو فاتح کوئی بھی ہو، اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ پھر سب سے بڑا خوف و خطرہ یہ ہے کہ دونوں حریف جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور اس آپشن کے استعمال کے بعد کوئی بھی نہیں بچے گا۔
بحران زدہ یورپی سامراج کے نکتہ نظر سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی قوت نے اس کو تنہاء چھوڑ دیا ہے یا کم از کم اس کی اوقات کا جنازہ نکال دیا ہے جبکہ اس کے ہمسائے میں ایک اور طاقتور سامراجی قوت موجود ہے جو ایک جنگ سے بے پناہ مضبوط ہو کر دوبارہ اپنے حلقہ اثر و رسوخ کا تعین کر رہی ہے۔ روس کا دیوہیکل اثر و رسوخ ہے (عسکری اور توانائی وسائل) اور ابھی سے یورپی سیاسی میدان میں اس کا وزن محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ کچھ ممالک (ہنگری، سلوواکیہ) غالب یورپی قوتوں کی بحیرہ اوقیانوس کی جانب سمت سے ناطہ توڑ چکے ہیں۔ دیگر میں ابھرتی سیاسی قوتیں اسی راستے پر چلنا شروع ہو گئی ہیں چاہے اس عمل کی شدت جو بھی ہے (جرمنی، آسٹریا، رومانیہ، چیک جمہوریہ، اٹلی)۔
یورپی سامراج یورپی عوام کی زندگیوں اور گھروں کا تحفظ نہیں کر رہا بلکہ اپنی بین الاقوامی اجارہ داریوں کے منافعوں اور اپنے حکمران طبقات کے بھیڑیا صفت سامراجی مفادات کا دفاع کر رہا ہے۔
یورپی سرمایہ داری ایک طویل عرصے سے بحران کا شکار ہے اور ایک مرتبہ امریکی سامراج کا خوشگوار سایہ ختم ہو گیا تو یہ اپنے پیروں پر کھڑی نہیں رہ سکتی، دو قدم چلنا تو دور کی بات ہے۔ اس وقت حقیقی خطرہ یہ لاحق ہے کہ امریکی اور روسی سامراج اس کو مفادات سمیت کچا چبا جائیں گے۔ مرکز کش رجحانات کا غلبہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
یورپ کی عسکریت پسندی۔۔ فلاح و بہبود نہیں جنگی جنون!
یورپ میں از سر نو مسلح ہونے اور عسکریت پسندی کا جنون سماجی اخراجات میں خوفناک کٹوتیاں کر کے ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے NATO کا جنرل سیکرٹری مارک روتے (Mark Rutte) مسلسل اس مطالبے پر زور دے رہا ہے کہ یورپ کو ہر صورت اپنا دفاعی خرچہ GDP کے 5 فیصد تک لے کر جانا ہے۔ آج سے دس سال پہلے یہ ہدف GDP کا 2 فیصد تھا۔
پہلے ہی پچھلے دو سالوں میں یورپ کے NATO ممالک اور کینیڈا کا دفاعی خرچہ بے تحاشہ بڑھ چکا ہے۔۔ 2023ء میں 9.3 فیصد اور 2024ء میں 17 فیصد۔ پھر بھی 9 ممبر ممالک 2 فیصد کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے جن میں اٹلی، بلجیئم، اسپین اور کینیڈا جیسی قابل ذکر معیشتیں شامل ہیں۔
روتے دو ٹوک الفاظ میں یورپی پارلیمنٹ کو بتا چکا ہے کہ ”عسکری اخراجات بڑھانے کے لیے تمہیں دیگر شعبہ جات میں کٹوتیاں کرنی ہوں گی“۔ اس نے نشاندہی کی ہے کہ: ”اوسطاً یورپی ممالک اپنی قومی آمدنی کا ایک چوتھائی حصہ پینشنوں، صحت اور سماجی تحفظاتی نظاموں پر خرچ کر رہے ہیں اور ہمیں ان تمام اخراجات کا ایک چھوٹا حصہ ہی چاہیے تاکہ دفاع کو کئی گنا مضبوط کیا جا سکے۔“
فنانشل ٹائمز میگزین میں ایسوسی ایٹ ایڈیٹر جانان گنیش (Janan Ganesh) نے ایک طویل مضمون لکھا ہے جس کی شہ سرخی میں ”یورپ کو ہر صورت فلاح و بہبود کی ریاست محدود کر کے ایک جنگی ریاست بنانی ہے“ کا مطالبہ واضح تھا۔ اگر کسی کے ذہن میں کوئی ابہام تھا تو اس کے لیے ذیلی سرخی اور بھی واضح تھی کہ: ”براعظم کی حفاظت کرنے کے لیے سماجی اخراجات میں کٹوتیاں کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔“ مضمون میں تفصیلی بیان کیا گیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جس خوشحالی کے دور میں یورپ نے فلاحی ریاست بنائی ہے وہ ”فطری امر نہیں ہے“ بلکہ ایک تاریخی غیر معمول ہے۔ اس کا ایک ستون ”NATO کے ذریعے کھلی امریکی سبسڈی تھی جس نے یورپی حکومتوں کو ایک مخصوص رقم بندوقوں پر خرچنے کے بجائے روٹی پر خرچنے کا موقع دیا۔“
جب مالیاتی اشاعتوں میں سرمائے کے حکمت کار کچھ لکھتے ہیں تو وہ واضح اور لگی لپٹی کے بغیر باتیں لکھتے ہیں کیونکہ ان کے قائرین زیادہ تر خود بورژوا ہوتے ہیں۔ گنیش واضح کہہ رہا ہے کہ ”ہمیں جس فلاحی ریاست کا پتا ہے اب اسے ختم کرنا ہو گا، کم از کم اتنا کہ یہ عمل تکلیف دہ ہو۔“ اس کی کیا وجہ بتائی گئی ہے؟ یورپ کی بقا (یعنی یورپی سامراج) داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ”ہدف بقا ہے۔ یورپ کو دوبارہ کبھی ایسی پوزیشن پر نہیں آنا چاہیے کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس جیسے لوگ اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کر رہے ہوں۔ باقی تمام ترجیحات ثانوی ہیں۔“
ہم یہاں صرف یورپی یونین کی بات نہیں کر رہے۔ اس کا اطلاق برطانیہ پر بھی ہوتا ہے جہاں سٹارمر پہلے ہی معذوری سہولیات اور ضعیف العمر پینشن خواہوں کی سردیوں میں توانائی سبسڈیوں پر چھری پھیر چکا ہے تاکہ یوکرین جنگ میں اپنے وعدے پورے کرے اور عسکری اخراجات میں اضافہ کر کے واشنگٹن میں نمبر بنا سکے۔
اس وقت یورپ کا محنت کش طبقہ اپنے معیار زندگی اور ماضی میں جیتی گئی حاصلات پر اعلانیہ جنگ کا سامنا کر رہا ہے تاکہ یورپی سامراج کی جارحانہ ضروریات کو پورا کیا جائے۔ آپشن واضح ہیں۔۔ صحت عامہ یا میزیائل، تعلیم عامہ یا ڈرونز، پینشن یا توپیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسی یورپی سرمایہ داری کے لیے کیا جا رہا ہے جو پہلے ہی پوری دنیا میں برباد ہو چکی ہے، تاکہ یورپی کمپنیاں منڈیوں میں اجارہ داری حاصل کر سکیں اور یورپی سرمائے کا کمزور اور غریب ممالک پر سامراجی تسلط قائم رہے۔
اگلے دور میں یہ سوالات طبقاتی جدوجہد میں مرکزی شکل اختیار کریں گے اور تمام سیاسی قوتوں اور رجحانات کو ان پر اپنی پوزیشن واضح کرنی ہو گی۔ حکمران طبقے کے مفادات یورپ کے محنت کشوں سے یکسر مختلف، متضاد اور متصادم ہیں۔
جواب واضح ہے اور اگر نہیں ہے تو اب تک واضح ہو جانا چاہیے۔ پورے براعظم میں موجود محنت کش تنظیموں، سیاسی اور ٹریڈ یونینز کو تمام سماجی حاصلات کے دفاع اور جنگ اور عسکریت پسندی کی مخالفت میں متحرک ہو جانا چاہیے۔ اس کے برعکس ہم سوشل ڈیموکریٹک اور نام نہاد لیفٹ پارٹیوں کا حکومتیں بنانے یا ان میں شمولیت کا شرمناک اور غلیظ تماشہ دیکھ رہے ہیں (اسپین، جرمنی، برطانیہ، سویڈن، ڈنمارک، ناروے) جو گرم جوشی سے یورپی سامراج کی تمام پالیسیاں فخریہ طور پر لاگو کر رہے ہیں۔ برطانیہ کی دوسری بڑی یونین یونائیٹ کی جنرل سیکرٹری عسکری اخراجات میں سٹارمر کے اعلان کردہ اضافوں پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے کہ اس طرح نئی نوکریاں پیدا ہوں گی۔
اس سے بھی زیادہ گھٹیا کردار وہ پارٹیاں ادا کر رہی ہیں جن کا سیاسی رجحان واجبی طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں سے زیادہ بائیں طرف ہے۔ یعنی جرمن لیفٹ پارٹی (Die Linke) نے بندس رات (Bundesrat) (علاقائی نمائندہ کونسل) میں دو ریاستوں میں موجود اپنے نمائندوں کے ذریعے لامحدود عسکری اخراجات کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اسپین میں کمیونسٹ پارٹی نے پیڈرو سانچیز (Pedro Sanchez) کی حکومت میں وزراء دے رکھے ہیں۔ یہ حکومت دفاعی اخراجات میں اضافے کی کوشش کر رہی ہے اگرچہ اس کو ”از سر نو مسلح“ ہونے کے بجائے ”سیکیورٹی میں بہتری“ کا نام دیا جا رہا ہے۔
بطور کمیونسٹ ہمیں بالکل واضح ہونا چاہیے۔ یورپی ممالک کے محنت کشوں کا حقیقی دشمن گھر بیٹھا ہوا ہے۔ ہمارا حقیقی دشمن ہمارا پنا حکمران طبقہ ہے۔ پینشنوں، تعلیم، صحت اور ماضی کی تمام حاصلات کا دفاع ہمارا نکتہ آغاز ہے۔
لیکن ہمیں اس سے مزید آگے بڑھنا ہے۔ یہ یورپی سرمایہ داری کا بحران ہے جو از سر نو مسلح ہونے کے رجحان اور عسکریت پسندی کو جنم دے رہا ہے تاکہ عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو برقرار رکھا جا سکے۔ محنت کش طبقے کو اندرون ملک اور بیرون ملک لازمی طور پر حکمران طبقے کے مفادات سے علیحدہ اور آزاد کھڑے ہونا ہے۔ حتمی تجزیے میں اگر ہم نے جنگ اور جبری سماجی کٹوتیوں کے خلاف لڑنا ہے تو ہمیں سامراجیت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے پوری سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہو گا۔