|رپورٹ:گل زادہ صافی، نمائندہ ورکرنامہ گوجرانوالہ|
پی ٹی آئی گوجرانوالہ کے رہنما مہر محمد صدیق کی گتہ فیکٹری میں 14 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر 12 گھنٹے کام کرنے والا 17 سالہ محنت کش زین العابدین جو میٹرک کا طالب علم بھی تھا، گزشتہ جمعہ کے دن فیکٹری میں بغیر حفاظتی سامان کے کام کرتے ہوئے مشین میں جسم آنے سے موقع پر جاں بحق ہوگیا۔
پاکستان بھر کی فیکٹریوں میں سیفٹی کے انتظامات سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ منافع کی ہوس میں تمام تر فیکٹری مالکان انڈسٹریل سیفٹی کے قوانین پر بالکل عمل درآمد نہیں کرتے۔ محکمہ لیبر سرمایہ داروں کی جیب میں ہے اور صوبائی حکومت کی جانب سے فیکٹری انسپکشن کو سرے سے ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی لیے ملک بھر میں آئے روز سیفٹی کے انتظامات کی عدم دستیابی میں مزدوروں کی اموات دیکھنے میں آتی ہیں۔
مالکان کی جانب سے زین کے گھر والوں کی کسی قسم کی کوئی مالی امداد نہیں کی گئی اور انہیں محض کفن خرید کر دے دیا گیا۔
17 سالہ زین العابدین کے والدین کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوگیا تھا اور وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں سمیت کامونکی کے علاقہ 7 نمبر چونگی، کسوکی روڑ پر اپنے محنت کش ماموں کے گھر رہتا تھا۔
زین العابدین کے چھوٹے بھائی زاہد اور اہل علاقہ کے مطابق زین العابدین گورنمنٹ ہائی سکول کورٹ رفیق میں میٹرک کا طالب علم تھا اور کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی چھٹیوں کے دوران وہ اپنا اور اپنے دو چھوٹے بھائیوں کا پیٹ پالنے کے لئے پی ٹی آئی کے رہنما مہر صدیق کی فیکٹری میں 14 ہزاور روپے کے عوض کام پر لگ گیا۔
مہر محمد صدیق کے تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات ہیں اور حکمرانوں سے اچھے تعلقات ہونے کی وجہ سے زین العابدین جیسے کئی محنت کشوں کے قتل عام کے باوجود اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
یہی صورت حال پورے پاکستان کے تمام سرمایہ داروں کی ہے۔ یہ سب کے سب محنت کشوں کے قاتل ہیں۔ ان قاتلوں اور ان کے نظام یعنی سرمایہ داری کے خلاف پورے ملک کے محنت کش طبقے کو منظم ہو کر جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا۔