|تحریر: عادل راؤ|
گزشتہ ہفتے بحریہ ٹاون کراچی کے مین گیٹ پر ہونے والے احتجاج نے سیاسی کارکنان، نوجوانوں اور محنت کشوں میں ایک بحث کا آغاز کیا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کی مقامی آبادی کی زمینوں پر قبضہ گیری، مقامی آبادی کی گھروں سے جبری بے دخلی اور ریاستی جبر کے خلاف ہونے والے احتجاج نے اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ بہرحال نوجوانوں اور محنت کشوں کی سب سے ایڈوانس پرتوں کو متاثر کیا ہے۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہے اور حکمران طبقہ اس بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں اور غریب عوام پر ڈال رہا ہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی اور بے روزگاری کا جن بے قابو ہو کر ہزاروں افراد کو خود کشیوں پر مجبور کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب کرونا وبا نے کروڑوں غریب عوام پر موت کی تلوار لٹکائی ہوئی ہے۔ دوسری طرف یہاں کے حکمران طبقہ کی لوٹ مار، استحصال اور عیاشیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، امارت اور غربت کی خلیج نئی بلندیوں کو پہنچ چکی ہے۔ ایسے حالات میں سرمایہ دارحکمرانوں کے خلاف کسی بھی قابل نفرت عمل کا عوام میں پذیرائی حاصل کرنا ناگزیر ہے۔
بحریہ ٹاون، جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی ملٹی بلین ہاوسنگ سوسائٹی ہے، نے 2013ء میں کراچی کا پراجیکٹ شروع کیا جس کے لیے غیر قانونی طور پر کرا چی کے مضافاتی علاقوں گڈاپ، کاٹھوڑ اور ضلع جامشورو کے گوٹھوں کی 16 ہزار 800 ایکڑ زمین پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کے نام ٹرانسفر کر دی، اس رقبہ میں سرکاری زمین جس پر سینکڑوں سالوں سے مقامی افراد آباد ہیں سمیت مقامی افراد کی مالکانہ حقوق کی زمین جو کہ کوڑیوں کے دام دھونس اور زبردستی کے ذریعے مقامی افراد سے ”خریدی“ گئی شامل ہے۔ جب سپریم کورٹ میں غیر قانونی ٹرانسفر کا یہ کیس چلا گیا تو حسب معمول ملک ریاض نے اپنا روایتی طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے سر عام سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے رشوت کی آفر کی جسے سپریم کورٹ نے ”مفاد عامہ“ کے لیے قبول کرتے ہوئے تمام غیر قانونی ٹرانسفر کو عین قانونی قرار دے دیا اور یہ ثابت کردیا کہ مملکت خداداد میں اگر آپ حسب توفیق رشوت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو آپ کو غریب عوام کی، بیوہ عورتوں کی، بزرگوں اور مجبوروں کے گھروں پر قبضہ کرنے کی، ان کی عزت پامال کرنے کی اور ان کے ذریعہ معاش تباہ کرنے کی اجازت ملک کی سب سے بڑی عدالت خود دے گی۔ دراصل اس سرمایہ دارانہ نظام میں آئین، قانون، عدالت، پولیس اور فوج کی یہی اوقات ہے؛ یہ سرمایہ داروں کے مفاد کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی کمیٹی ہے، یہ ان تمام آئین کے پجاریوں کے منہ پر بھی زور دار طمانچہ ہے جو صبح شام محنت کشوں اور غریب عوام کو آئین کا درس دیتے نہیں تھکتے۔
ملک ریاض کا کردار داراصل پاکستان کی طفیلہ سرمایہ داری اور خصی سرمایہ دار طبقے کا عین شخصی اظہار ہے جس میں رتی بھر بھی ترقی پسندی کی رمق نہیں اور جس کا سارا منافع کسی پیداواری سرگرمی سے نہیں بلکہ کک بیکس، ٹیکس چوری، رشوت، قبضہ اور دیگر طرح کے فراڈ سے بنتا ہے۔ ملک ریاض کی شخصیت ریاست کی مارکسی تشریح کی درستگی کا بھی سرٹیفیکیٹ ہے کہ کس طرح ریاست محض سرمایہ داروں کی لونڈی ہے اور ریاست کا واحد مقصد سرمایہ داروں کی نجی ملکیت کا تحفظ کرنا، ان کے منافع کے لیے سازگار ماحول تیار کرنا اور محنت کشوں اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کو کچلنا ہے۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ محض قانون اور آئین کی پاسداری کا مطالبہ نہ صرف ناکافی ہے بلکہ سرمایہ داروں کے مفاد کا مطالبہ ہے۔ خود ملک ریاض نے ریوٹر (Reuters) سے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ وہ پاکستان کے کسی بھی ادارے کو خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے حتیٰ کہ اس نے یہ تک کہا کہ وہ آئی ایس آئی، جو ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے، کے افسران سمیت ججوں اور سیاستدانوں کو خرید چکا ہے۔ ملک ریاض کا سر عام میڈیا پر ان تمام جرائم کا اقرار کرنا اس ریاست کا عوام دشمن چہرہ عیاں کرنے کے لیے کافی ہے۔
لیکن ملک ریاض کے ظلم کی داستان 16 ہزار 800 ایکڑ پر قناعت کرنے کو راضی نہیں تھی اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے تجاوز کرتے ہوئے مزید 32 ہزار ایکڑ پر قبضہ کیا گیا، اور قبضے کے دوران ظلم کی انتہا کر دی گئی۔ رات کے پچھلے پہر آبادیوں پر بلڈوزر چلائے گئے، گولیاں چلائی گئیں، غریب عوام کے کھیت، گھر، ڈیری فارمز اور جانوروں کے فارمز تباہ کیے گئے۔ اس سارے ظلم میں ”ترقی پسند“ اور ”جمہوریت کی چیمپئین“ پیپلز پارٹی ملک ریاض کے دلال کا کردار ادا کرتی رہی۔
مزاحمت کرنے والے عام لوگوں اور سیاسی کارکنان پر دہشت گردی کے پرچے کیے گئے، گرفتاریاں ہوئیں، عدالتوں میں گھسیٹا گیا، دھمکیاں دی گئیں، لیکن مقامی افراد نے بہادری کے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت مزاحمت جاری رکھی اور میٹنگز، احتجاج، ریلیوں وغیرہ کا سلسلہ جاری رہا۔ بحریہ ٹاؤن کے خلاف کو ہونے والا احتجاج پچھلے سات آٹھ سالوں سے جاری تحریک کا ہی تسلسل تھا۔ ایک طرف تمام ریاستی ادارے، دولت، طاقت، ظلم اور نا انصافی ہے تو دوسری طرف بغاوت، مزاحمت، بہادری اور حقوق کی جنگ۔
مورخہ 6 جون 2021ء بروز اتوار کو ہونے والے احتجاج کی کال سندھ ایکشن کمیٹی کی جانب سے دی گئی جس کی حمایت ایک ماہ قبل سندھ انڈیجینس الائنس کی جانب سے منعقد کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی کی گئی۔ اس کانفرنس میں ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس نے بھی شرکت کی اور اپنا اصولی موقف اختیار کیا۔ احتجاج والے دن مقامی افراد سے زیادہ قوم پرست جماعتیں ہی احتجاج پر حاوی رہیں، اور اسے ملک ریاض بمقابلہ غریب عوام کی بجائے سندھی بمقابلہ پنجابی اور مہاجر مسئلہ بنا کر قومی رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پچھلے سات سالوں میں جب یہ سب ظلم ہو رہا تھا تو سندھ دھرتی کے نام پر سیاست کرنے والی یہ جماعتیں خاموش تماشائی کی طرح سارا کھیل دیکھتی رہیں اور اچانک سے سندھ دھرتی لٹنے کا درد لیے ظلم کے خلاف اس لڑائی کو جانے یا انجانے نقصان پہنچانے والے عمل کا حصہ بنیں۔ احتجاج کے دوران جلاؤ گھیراؤ کے مختلف زاویے سامنے آرہے ہیں؛ رینجرز، ایس ایس یو، پولیس اور بحریہ کی اندرونی سیکیورٹی سمیت بھاری تعداد میں ریاستی اداروں کی موجودگی میں جس آسانی سے املاک کو جلایا گیا ہے اس واقعے نے کئی شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ یہ محض غم و غصے کا اظہار نہیں بلکہ مقامی آبادی کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف پر امن سیاسی تحریک کو بدنام کرنے کی بھونڈی سازش ہی کا حصہ ہے، اور اس سازش میں احتجاج کرنے والی جماعتوں کے ایک حصے نے لازمی طور پر ریاست اور بحریہ انتظامیہ کا ساتھ دیا ہے۔ احتجاج کے اس طریقہ کے بعد ساری بحث کا مدعا یہی بن گیا ہے کہ آگ لگانا ٹھیک تھا یا غلط، آگ کس نے لگائی، جبکہ ریاست کو سیاسی کارکنان اور انڈیجینس آبادی پر کریک ڈاؤن اور جبر کا ایک نیا جواز مل گیا ہے جبکہ حقیقی مسئلہ، جو زمینوں پر قبضے کا ہے، وہ کہیں پیچھے دب گیا ہے۔ اس طرح منظم انداز میں اس پوری تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ احتجاج کے بعد جس طرح ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور قوم پرستوں کی جانب سے اسے لسانی رنگ دینے کی کوشش گئی، اس سے یہ تمام شکوک و شبہات مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں بحریہ ٹاؤن کا مقامی آبادیوں پر قبضہ قومی مسئلہ نہیں ہے، اسے قومی یا لسانی رنگ دینا خود مقامی آبادی کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ بحریہ ٹاؤن نہ صرف کراچی بلکہ ملک کے دیگر علاقوں، جن میں اسلام آباد، مری، لاہور وغیرہ شامل ہیں، میں بھی اسی طرز پر قبضہ کرتا آیا ہے اور کراچی قبضہ کیس کی طرح دیگر کیسز بھی سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں۔ درحقیقت بحریہ ٹاون کی ”کامیابی“ کا فارمولہ ہی یہی ہے کہ شہر سے دور مضافاتی علاقوں میں موجود آبادی کی کو مقامی اور مرکزی انتظامیہ کی ملی بھگت کے ساتھ کوڑیوں کے دام زمین ”خریدی“ جائے، اور پھر اس زمین پر انویسٹمنٹ کر کے اسے سونے کے دام بیچا جائے۔ یہی فارمولا کراچی میں بھی لاگو کیا گیا۔ کراچی میں بحریہ انتظامیہ نے 70 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے زمین خریدی جبکہ اس علاقے یعنی تیسر ٹاون میں آج سے بارہ سال قبل 120 گز کا پلاٹ ایک لاکھ بیس ہزار میں فروخت ہو رہا تھا، یعنی آج سے 12 سال پہلے بھی فی ایکڑ کی مارکیٹ پرائس 40 لاکھ بنتی ہے جو بحریہ نے 70 ہزار روپے میں خریدی۔ لہٰذا کاٹھوڑ، گڈاپ اور جامشورو کا انتخاب کسی قومیت کا انتخاب نہیں بلکہ ”کاروباری“ مجبوری ہے۔
اسی کے ساتھ اس پورے عمل میں جس طرح حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں، میڈیا، فوج اور دیگر ریاستی ادارے ملک ریاض کی حمایت میں سامنے آئے ہیں اس سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو گئی ہے کہ یہ واضح طور پر دو طبقات کا آپس میں تضاد ہے۔ ہر رنگ، فرقہ، نسل اور قوم سے تعلق رکھنے والا شخص حکمران اشرافیہ کا حصہ ہے۔ خود سندھی وڈیرے اور پیپلز پارٹی میں موجود سندھی حکمران بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں معاونت کے مرتکب ہوئے ہیں بلکہ ملک ریاض کے بزنس پارٹنرز بھی ہیں۔ عمران خان کی اس سارے معاملے پر خاموشی بھی اس کے عوام دشمن کردار کو عیاں کرتی ہے۔ نام نہاد جمہوریت کی چیمپئین مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں الغرض سارا حکمران طبقہ اپنے تمام تر فروعی اور جعلی اختلافات کے خول سے باہر نکل آیا ہے، محنت کش اور مظلوم یہ تمام کھیل دیکھ رہے ہیں اور اس سے ضروری اسباق بھی حاصل کر رہے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا حکمران طبقہ اپنے ظلم کو برقرار رکھنے کے لیے جہاں فوج، پولیس اور عدالتوں کا استعمال کرتا ہے وہیں وہ ایسے نظریات، جو تحریکوں کو کمزور کریں، محنت کش طبقے کو تقسیم کریں اور حقوق کی لڑائی کو غلط سمت دیں، بھی استعمال کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں ایک طرف تو اس سارے ظلم کے خلاف تحریک کو منظم کرنے کی ضرورت ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں متحرک کرنے کے لیے باقاعدہ ڈھانچے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک کو ایسے نظریات سے لیس کرنا بھی انتہائی ضروری ہے جو مسئلے کا سائنسی حل بتاتے ہوں، جو ریاست اور سرمایہ دارانہ استحصال کا حقیقی تجزیہ کرتے ہوں اور محنت کش اور مظلوم عوام میں اتحاد کو ممکن بنائیں۔
آج سرمایہ دارانہ نظام نے ملک کے تمام حصوں میں محنت کشوں پر جو حملے کیے ہیں اس کے رد عمل میں تحریکیں بن رہی ہیں، محنت کش اتحاد کے پلیٹ فارم تشکیل پا رہے ہیں، ڈاکٹر، نرسز، ٹیچرز، کلرکس، طلبہ، نوجوان اور سرکاری ملازمین سڑکوں پر ہیں۔ ہمیں ان تحریکوں کو مقامی آبادی کی تحریک سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ محنت کش ہی وہ طبقہ ہے جو اپنا ہاتھ روک کر سرمایہ دار کا منافع بند کر سکتا ہے، اس ریاست کو جام کر سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ طلبہ تحریک میں یہ طاقت ہے کہ وہ ملک کے تمام تعلیمی ادارے بند کر سکتی ہے، اور اس ملک گیر طلبہ، مزدور اور مظلوم کے اتحاد کی طاقت سے ہی ہم اس حکمران طبقے کو نہ صرف مقامی آبادیوں پر قبضہ کرنے سے روک سکتے ہیں بلکہ مہنگائی، لا علاجی، بے روزگاری اور مہنگی تعلیم جیسی عفریت سے بھی چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اتحاد قومی بنیادوں پر تشکیل نہیں پا سکتا، یہی وجہ ہے کہ قوم پرست اس تحریک کو مظبوط کرنے کی بجائے کمزور کرنے کا موجب بنے ہیں کیونکہ وہ ”سندھی“ محنت کشوں کے احتجاجوں میں جانا پسند نہیں کرتے، وہ محنت کشوں کو اس لیے حقارت سے دیکھتے ہیں کہ سندھی محنت کش سندھی وڈیروں اور سرمایہ داروں کا ساتھ نہ دے کر قومی یکجہتی میں رکاوٹ بنتے ہیں، جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ محنت کشوں کا بلند شعور ہے اسی لیے سوشلزم ہی وہ واحد نظریہ ہے اور طبقاتی پروگرام ہی وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں محنت کش سماج کی دیگر مظلوم پرتوں سے اتحاد بناتے ہوئے نہ صرف فوری مسائل حل کر سکتے ہیں بلکہ اس پورے ظالم سرمایہ دارانہ نظام کو ہی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔ اس موقف کے ساتھ ہم سندھ انڈیجینس الائنس کی جانب سے 27 جون کو سندھ کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں احتجاجی کال کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔