|تحریر: راشد خالد|
خواجہ آصف کے امریکہ میں بنیاد پرست دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے دیے جانے والے بیان کے بعد پاکستان میں سیاسی منظرنامے میں نئی بحث دیکھنے میں آئی ہے۔ وفاقی وزیر خارجہ نے نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کی ایک تقریب میں ان دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو نہ صرف واضح الفاظ میں مانا بلکہ یہ بھی کہا کہ یہ حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید جیسے عناصر پاکستانی ریاست پر ایک بوجھ ہیں اور مگر ان سے جان چھڑانے کے لئے پاکستان کو وقت درکار ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ان بنیاد پرست دہشت گرد تنظیموں کو ’سٹریٹیجک اثاثے‘ کہا جاتا تھا۔ اس بیان کے بعد سب سے پہلا اور شدید رد عمل ان مذہبی تنظیموں کی طرف سے آنے کی بجائے تحریک انصاف کی طرف سے آیا ہے اور اس کے بعد میڈیا پر کافی گہما گہمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ لیکن اس سارے ڈرامے کا مزاحیہ پہلو یہ ہے کہ نظر بند حافظ سعید کی جانب سے وفاقی وزیرداخلہ کو ہتک عزت کا دعویٰ کرتے ہوئے 10کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا گیا ہے۔ اسی نوٹس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وزیر خارجہ چودہ دنوں میں حافظ سعید کی ملکی اور عالمی سطح پر ہتک عزت کی معافی مانگیں۔
خواجہ آصف کی اس بیان بازی میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کی ذمہ داری محض پاکستان پر نہیں ڈالی جا سکتی اور جن بنیاد پرست گروپوں کی پرورش کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی جا رہی ہے کل تک یہ گروپ واشنگٹن کے نورِ نظر بھی رہ چکے ہیں۔ کچھ ایسی ہی بیان بازی پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی کی تھی۔ یہ تمام تر صورتحال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی میں تبدیلی کے بعد منظر عام پر آ رہی ہے جس کے بعد پاکستان کو عالمی سطح پر کافی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے قبل افغانستان میں امریکی جنگ میں ایک کلیدی اتحادی کے طور پر چلی آنے والی پاکستانی ریاست نے افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے امریکہ سے بالا تر انہی بنیاد پرست گروہوں کو ناصرف پال رکھا تھا بلکہ اس جنگ کو جاری رکھنے کے نام پر امریکی سامراج سے بڑے پیمانے پر امداد بھی بٹوری جارہی تھی۔ لیکن حال ہی میں امریکہ کی سامراجی پالیسی میں آنے والی تبدیلی کے بعد معاملات پہلے جیسے نہیں رہے۔ گزشتہ ماہ فنانشل ٹائمز نے اپنے ایک مضمون میں اس پالیسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے ایک اتحادی کے درجے کو ختم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہے۔ اس کی بجائے وہ اسے دہشت گرد گروپوں کو سپورٹ اور فنڈنگ کرنے والی ریاست کی کیٹیگری میں رکھنے کی طرف جا رہی ہے۔
امریکی پالیسی میں اس تبدیلی کے پیش نظر ہی پاکستان کی 225ملین ڈالر کی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ مگر یہ محض ایک اقدام ہے، اس کے علاوہ پاکستان کو مزید خدشات بھی درپیش ہیں جن میں سویلین امداد کا خاتمہ، پاکستان میں مزید امریکی ڈرون حملے اور حتیٰ کہ آئی ایس آئی کے کچھ اعلیٰ عہدیداران پر سفری پابندیوں کا امکان بھی ہے۔ اس صورت میں پاکستانی ریاست جو پہلے ہی شدید معاشی بحران میں مبتلا ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مزید قرضے لینے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، اس کی عالمی مالیاتی اداروں اور نئے قرضوں تک رسائی کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے یہ حکمران داخلی تضادات کے باوجود اپنے پالے پوسے ہوئے بنیاد پرست دہشت گرد گروہوں کے خلاف لفاظی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ لیکن یہیں پر ہمیں اس ریاست کی پالیسی اور لفاظی میں کھلا تضاد نظر آتا ہے، ایک طرف ان دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے کیلفاظی کی جاتی ہے تو وہیں ان دہشت گرد تنظیموں کے نمائندگان این اے 120کے ضمنی انتخابات میں نہ صرف موجود ہوتے ہیں بلکہ سرعام حافظ سعید کی تصویروں والے بڑے بڑے بینرز پورے شہر میں آویزاں بھی کرتے ہیں۔ یہ وہی حافظ سعید ہے جسے امریکہ کے شدید دباؤ کے بعد نام نہاد نظربندی میں رکھا گیا ہے، گو کہ الیکشن کمیشن اس کی پارٹی کو رجسٹر نہیں کر رہا لیکن ان امیدواران کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے سے روکا بھی نہیں جاتا۔ یہ لفاظی کوئی نئی نہیں اور مشرف دور سے یہ باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ لیکن حالیہ عرصے میں امریکی سامراج کی جانب سے ممکنہ پابندیوں کے باعث ان میں وقتی طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ان دہشت گرد تنظیموں کی ریاست کے مختلف حصوں کی جانب سے پشت پناہی نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے جو حکمران طبقے کے بڑھتے ہوئے تضادات کو واضح کرتا ہے۔
پاناما کیس، نون لیگ اور تحریک انصاف کی نورا کشتی، نااہلی اور نااہلی کے خلاف عدالتوں میں مقدمات، پارٹیوں کے مالیاتی اثاثوں کی بازپرس اور اسی طرح کے دیگر کئی ایک ڈراموں کے پس منظر میں اس وقت پاکستانی ریاست سیاسی، معاشی او ر سفارتی ہر لحاظ سے تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے۔ پاکستانی ریاست یوں تو اپنے جنم دن سے ہی ایک کھوکھلی ریاست ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بالخصوص عالمی سطح پر ہونے والی تیز ترین تبدیلیوں، ان تبدیلیوں کے اس خطے پر پڑنے والے اثرات اور ان اثرات کی بدولت علاقائی طاقتوں میں بدلتے توازن نے اسے مزید کھوکھلا کر دیا ہے۔ اور یہ کھوکھلا پن اس ریاست کے تمام تر شعبوں میں دن بدن کھل کر عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ کل تک کچھ رہی سہی کسر موجود تھی اور یہی تضادات اپنا اظہار کچھ ڈھکے چھپے انداز میں کرتے تھے جس کی بدولت اس ریاست اور ریاست کو چلانے والوں کو کسی قدر منہ چھپانے کا موقع میسر آ جاتا تھا مگر اب یہ اس قدر واضح اور دو ٹوک ہے کہ چھپائے بھی چھپانا ممکن نہیں رہا۔ اور ناصرف یہ کہ یہ تضادات ختم نہیں ہو رہے بلکہ دن بدن حکمرانوں کی آپسی لڑائیوں میں ان کی اصلیت عوام کے سامنے واضح ہوتی جا رہی ہے۔
معیشت کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ وزیرخزانہ کی آئی ایم ایف کی غلامی سے آزادی کے بیان اور پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کے 24ارب ڈالر تک پہنچ جانے کے دعوے ابھی پرانے نہیں ہوئے تھے کہ سٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے ذخائر کا کم ترین سطح پر ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس وقت سٹیٹ بینک کے پاس 14ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جبکہ ان میں سے بھی 4ارب ڈالر کمرشل بینکوں سے تین ماہ کی مختصر مدت کے لئے مستعار لئے گئے ہیں تاکہ مصنوعی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر کو بلند سطح پر رکھا جا سکے۔ گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں یہی ذخائر 19ارب ڈالر کے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ 32ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ مالی سال 2016-17ء میں درآمدی بل 55ارب ڈالر کا رہا جب کہ برآمدات کا حجم 20ارب ڈالر (پچھلے پانچ سالوں میں یہ 25 ارب ڈالر سے کم ہوتا ہوا20ارب ڈالر تک سکڑ گیا ہے)۔ مالی سال 2017-18ء کے پہلے دو ماہ جولائی اگست میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ سال کی اسی مدت کی نسبت 102فیصد اضافے کے ساتھ 2.6 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12.09ارب ڈالر رہا ہے جو کے GDPکے تقریباً4فیصد کے برابر ہے اور اس کے علاوہ جاری مالی سال میں مالیاتی خسارے کا تخمینہ 2ہزار ارب روپے کے لگ بھگ لگایا گیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا اندازہ ہے کہ رواں مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 15ارب ڈالر تک جا سکتا ہے۔
معیشت کو کسی حد تک سہارا دینے کے لئے ریاست کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں کہ مزید قرضے لئے جائیں۔ پہلے ہی یہ حکومت اپنے چار سالوں میں 35ارب ڈالر کے قرضے حاصل کر چکی ہے اور ان قرضوں کے بعد حکومتی اعدادو شمار کے مطابق بیرونی قرضے 79.2 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان قرضوں میں سے 17 ارب ڈالر کے قرضے پہلے سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے حاصلکیے گئے ہیں اور نیشنل ڈیٹ کلاک ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کو ان قرضوں پر ہر سال 5.8ارب ڈالر کا سود ادا کرنا پڑتا ہے اور یاد رہے کہ یہ صرف بیرونی قرضے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اس وقت ریاست کے اندرونی قرضے 14ہزار800 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ان اندرونی قرضوں میں بہت سے واجبات شامل نہیں کیے گئے جن میں 900ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ بھی شامل ہے۔ مزید قرضوں کے لئے آئی ایم ایف کی شرائط پہلے کی نسبت کہیں سخت ہوں گی۔ گزشتہ کچھ وقت سے آئی ایم ایف سے قرضوں کی بجائے پاکستانی ریاست نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے چینی کمرشل بینکوں سے بلند شرح سود پر قرضے حاصل کیے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف سے گزشتہ قرضے جن شرائط پر حاصل کئے تھے پاکستانی ریاست وہ شرائط پوری کرنے میں ناکام رہی تھی۔ آئی ایم ایف کی پہلی شرط تھی کہ مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لئے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے۔ جس ضمن میں پاکستانی ریاست نے مختلف بینکوں میں موجود اپنے حصص تو فروخت کئے لیکن نجکاری کے لئے منتخب کئے گئے اداروں کی نجکاری نہ کی جا سکی۔ اس کی ایک اہم وجہ ان اداروں کے محنت کشوں کی مزاحمت تھی جبکہ آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ مزدور تحریک کو سختی سے کچلا جائے۔ گوکہ حکمران ان احکامات کی تعمیل کے لیے ہر حد پھلانگ چکے ہیں جس میں گزشتہ سال پی آئی اے کے دو ملازمین کو شہید بھی کیا گیا لیکن اس کے باوجود اپنے داخلی تضادات اور محنت کشوں کی مزاحمت کی بنا پر مزدور تحریک کو مکمل طور پر کچلا نہیں جا سکا۔ اسی لیے آئی ایم ایف سے مزید قرضے لینے میں مشکلات ہوں گی۔ لیکن اسی دوران پاکستانی حکمرانوں نے انتہائی بلند شرح سود پر5اور 10سال کی مدت کے سکوک اور دیگر بانڈز کے ذریعے عالمی مالیاتی منڈی سے آسان قرضے لییجن سے وقتی طور پر تو معاملات چلائے جا سکتے ہیں لیکن طویل مدت کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کرنا ممکن نہیں۔ دوسری طرف سی پیک سے منسلک منصوبوں کے لئے چین اور چینی بینکوں سے حاصل کیے جانے والے قرضوں نے بھی حکومت کو کچھ وقت دیا کہ وہ آئی ایم ایف سے مزید قرضے نہ لے لیکن یہ عمل بھی کوئی دیرپا عمل ثابت نہیں ہو سکا۔
29ستمبر کے دی نیوز کے مطابق سی پیک کے تحت توانائی کے شعبے میں مختلف منصوبوں کے لیے چینی بینکوں سے جو 18.5ارب ڈالر کے قرضے حاصل کیے گئے ان کے عوض پاکستان کو 2024ء تک 100ارب ڈالر لوٹانے ہوں گے۔ اسی خبر کے مطابق جب چینی حکام سے اس کی بابت رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ چین نے پاکستان کو رعایتی قرضے فراہم کیے ہیں اور یہ قرضے پاکستانی معیشت کے لئے کوئی خاص بوجھ نہیں ہیں کیونکہ یہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا صرف 1.1فیصد ہیں۔ اس خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذرائع کے مطابق یہ قرضے پاکستان میں مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں نے حاصل کئے ہیں اور ان کی ادائیگی پاکستانی حکومت نے نہیں بلکہ ان کمپنیوں نے کرنی ہے۔ یہ سی پیک سے پاکستان میں آنے والی خوشحالی کی محض ایک مثال ہے اور یہیں سے چین اور چینی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چینی سامراج عالمی منڈی میں گراوٹ کی وجہ سے شدید معاشی دباؤ کا شکار ہے جس کی وجہ سے وہ کسی چھوٹے موٹے ملک کو بھی نچوڑنے کے لئے ہر حد تک جا سکتا ہے اور پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا بھی یہی کردار ہے۔ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ قرضے چینی کمپنیوں نے حاصل کئے ہیں اور ان کی ادائیگی کی ذمہ داری بھی چینی کمپنیوں نے ہی کرنی ہے تو بھی ایسا ممکن نہیں کہ یہ کمپنیاں قرضے اپنی جیب سے ادا کریں بلکہ ان کی ادائیگی پاکستان کے 20کروڑ عوام کا خون چوس کر ہی کی جائے گی۔
دوسری طرف پاکستانی ریاست کو اپنے خساروں کو کم کرنے کے لئے جہاں ایک طرف مزید قرضے لینے کی طرف جانا ہو گا وہیں انہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سخت شرائط کو بھی پورا کرنا ہو گا، اور یہ معاملہ اب محض معاشی اشاریوں تک نہیں رہا بلکہ امریکہ کے ساتھ پاکستانی تعلقات میں خرابی کے باعث ان کا حصول مزید مشکل ہو سکتا ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ وہ پاکستان کو بجٹ سپورٹ سے منسلک قرضے فراہم نہیں کر سکیں گے جس کی وجہ پاکستان کے انتہائی خراب میکرواکانومک اشاریے ہیں۔ ورلڈ بینک نے مزید کہا ہے کہ وہ پاکستان کو کسی بھی قسم کی مالیاتی سپورٹ کو آئی ایم ایف کی گارنٹی کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں۔ اسی دوران ایشین ڈیویلپمنٹ بینک نے بھی پاکستان کے مالیاتی اور تجارتی خسارے کو مہلک قرار دیا ہے۔ اے ڈی بی نے کہا ہے کہ یہ وہ بنیادی اشاریے ہیں جن سے کسی معیشت کی صحت کو جانچا جاتا ہے۔
اس ساری صورتحال میں پاکستانی معیشت مزید زبوں حالی کی طرف جائے گی۔ حکومت نے ایک بار پھر مختلف اداروں کی نجکاری کے عمل کو مکمل کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس میں بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں سرفہرست ہیں۔ آئی ایم ایف کے بتائے جانے والے نسخے نجکاری کو ہی نسخۂ کیمیا بتایا جا رہا ہے۔ جبکہ ماضی میں نجکاری کئے جانے والے اداروں کے بارے میں عوام سے سب کچھ چھپایا گیا ہے کہ کن شرائط پر یہ نجکاری کی گئی۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے راستے ہموار کرنے کی باتیں بھی سنائی دیتی ہیں لیکن یہ بیرونی سرمایہ کاری کیا گل کھلا رہی ہے اس کے بارے میں تمام تر تفصیلات چھپا دی جاتی ہیں۔ حال ہی میں کچھ سکینڈل کھل کر سامنے آئے ہیں جن میں بجلی پیدا کرنے والے رینٹل پاور پلانٹس اور IPPs کے ساتھ پاکستان کے تنازعات ہیں۔ انہی IPPsکے ساتھ ایک مقدمے میں لندن کورٹ آف انٹرنیشنل اٹریبیوشن (LCIA) نے پاکستانی حکومت کو ان IPPsکو 11ارب روپے کی ادائیگی کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ توانائی کے بحران کو کم کرنے کے لئے رینٹل پاور پلانٹس کے لئے جن کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کئے گئے ان میں سے ایک ترکش کمپنی Karkey Karadeniz Elektrik Uretimتھی، جس کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو پاکستانی سپریم کورٹ نے 2012ء میں کالعدم قرار دے کر منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن اس کمپنی نے پاکستان کے خلاف انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSIDs) میں دعویٰ دائر کر دیا جس کے بعد کیس کا فیصلہ کمپنی کے حق میں ہوا اور پاکستان کو 700ملین ڈالر کی ادائیگی کمپنی کو کرنے کے لئے کہا گیا۔ گو کہ اس مقدمے اور کمپنی کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی تمام تر تفصیلات خفیہ رکھی گئی ہیں اور اس کمپنی کو بھی تمام تر تفصیلات خفیہ رکھنے کی استدعا کی گئی ہے۔ لیکن منظر عام پر آنے والی خبروں میں یہ بات واضح ہے کہ کمپنی کو 30سے 55میگا واٹ تک بجلی پیدا کرنے کے لئے 41روپے فی یونٹ ادائیگی کا معاہدہ کیا گیا تھا۔ اور ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ ترکی کے رینٹل کے پلانٹس کراچی پورٹ میں جہازوں پر نصب تو رہے مگر انہوں نے بجلی کا ایک یونٹ بھی پیدا نہیں کیا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ حکمران خواہ فوجی ہوں یا غیر فوجی ان کی بد عنوانی کے قصوں کی فہرست کافی طویل ہے۔ اس کے علاوہ بھی عالمی تنازعوں میں معاونت اور کیسوں کو جاری رکھنے کے لئے اربوں روپے خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ ریکوڈک پراجیکٹ کا ٹھیکہ جن کمپنیوں کو دیا گیا تھا ان کی طرف سے بھی پاکستان کو 11.5ارب ڈالر کے ہرجانے کے کیس میں ورلڈ بینک کے ٹریبیونل نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس طرح کے مقدمات کو جاری رکھنے کے لئے 2013ء سے اب تک پاکستان 3ارب روپے وکلا اور قانونی مشاورت فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ادا کر چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مختلف مقدمات میں پاکستان کو بڑے پیمانے پر ہرجانے ادا کرنے کے امکانات ہیں۔ ان تمام تر معاہدوں میں ایک طرف حکمران طبقے کے افراد جو وزارتوں اور کلیدی عہدوں پر براجمان تھے انہوں نے خوب کمیشن بنایا اور ان کمپنیوں کے منافعوں میں کئی گنا اضافہ کیا لیکن دوسری جانب ان عوام دشمن معاہدوں کا خمیازہ عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ ان معاہدوں سے محنت کش عوام کو رتی بھر بھی فائدہ نہیں پہنچا لیکن ان کا بل انہی محنت کشوں سے وصول کیا جا تاہے۔ پھر ان بد عنوان حکمرانوں کے کیے گئے معاہدوں میں کمیشن اور ٹھیکوں کی لڑائی کا اضافی بل بھی عوام کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ان سرمایہ دارانہ معاہدوں کو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے اور معیشت کے تمام کلیدی شعبوں کو ان منافع خور کمپنیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکال کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جا سکتا ہے۔
آنے والے عرصے میں معیشت کی یہ تباہ کن صورتحال پاکستان میں مزید عدم استحکام کو جنم دے گی۔ سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک کے ریاستی و معاشی بحران کے اثرات بھی براہ راست پاکستان کی معیشت اور ریاست پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ان ممالک میں روزگار سے پاکستان کے لگ بھگ چالیس لاکھ کے قریب خاندانوں کا معاش وابستہ ہے۔ ان ممالک سے تارکین وطن محنت کشوں کی بھیجی جانے والی رقوم بھی ملکی آمدن کا اہم ستون ہیں۔لیکن آنے والے عرصے میں یہاں بھی معاشی بحران شدت اختیار کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2016ء میں سعودی عرب کی جی ڈی پی کی شرح ترقی 1.7فیصد تھی جو 2017ء میں 0.1فیصد متوقع ہے۔ اس سے نظر آتا ہے کہ وہاں روزگار کے مواقع بڑھنے کی بجائے سکڑ رہے ہیں۔ گزشتہ دو سہ ماہیوں کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب کی معیشت شدید زوال کا شکار ہے۔ ایسے میں پاکستانی معیشت اور سیاست پراس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور بیروزگاروں کی تعداد میں تیز ترین اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ ایسے میں پاکستان کی کرنسی بھی اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے اور کابینہ میں بحث کی جارہی ہے کہ کب اس کو ڈالر کے مقابلے میں 120روپے یا اس سے بھی زیادہ تک لیجایا جائے۔ اس سارے عمل میں سرمایہ داروں کے لیے مزید مراعات کا اضافہ کیا جا رہا ہے اور برآمد ات کے لیے سرمائے کے حصول پر سود کو 8.4فیصد سے بتدریج کم کر کے 3فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ عوام پر ہر روز مہنگائی سمیت دیگر معاشی حملے کیے جا رہے ہیں۔
یہ معاشی بحران ریاست اور سیاست کے بحرانوں کے ساتھ مل کر مزید گہرا ہوتا جارہا ہے جس سے باہر نکلنے کے امکانات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی افق پر ہونے والی تمام تر ہلچل بھی بنیادی طور پر ریاست کے مختلف دھڑوں میں مالیاتی حصے داری کی لڑائی ہی ہے۔ یہ تمام تر دھڑے کسی بھی صورت میں اپنے حصے میں کٹوتی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن دن بدن کمزور ہوتی معیشت ان حصے داروں کے مابین تضادات کو مزید گہرا کیے جا رہی ہے۔ ایسے میں پرانے آقا امریکہ کے ساتھ تعلقات کی خرابی، چین پر حد سے بڑھ کر انحصار اور عالمی سطح پر ہونے والی تیز ترین تبدیلیاں بھی پاکستان کو مزید عدم استحکام کی طرف لے کر جا رہی ہیں ۔ اس سارے عمل میں یہ گماشتہ ریاست اور اس کا حکمران طبقہ اپنے وجود کا جواز کھو رہا ہے۔ یہ حکمران اپنی جمع پونجی پہلے ہی بیرون ملک محفوظ مقامات پر منتقل کر چکے ہیں اور یہاں ان کا مقصد صرف لوٹ مار کو جاری رکھنا ہے۔ ایسے میں یہ اس ٹوٹتے اور بکھرتے ہوئے سماج کا آخری ٹکڑا بھی نوچنے کی کوشش کریں گے اور یہاں رہنے والے کروڑوں لوگوں کو آگ اور خون کی دلدل میں مزید دھکیلتے چلے جائیں گے۔ اپنے زیادہ سے زیادہ کمیشنوں اور منافعوں کی ہوس میں محنت کشوں پر مزید حملے کرنے کی طرف جائیں گے۔ ایک بار پھر کر نجکاری کے عمل کے آغاز کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود ملکی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر بنیادی ضرورت کی اشیا اور سہولیات پر بھی ٹیکس بڑھائے جا رہے ہیں۔ حکمران طبقے کی لڑائیوں نے، جو نیوز چینلز اور اخبارات کی بدولت مسخ شدہ شکل میں عوام تک پہنچ رہی ہیں، یہ واضح کر دیا ہے کہ ان حکمرانوں میں سے کوئی بھی عوامی مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں بلکہ یہ تو سرے سے عوام کے مسائل پر بات کرنا گوارا ہی نہیں کرتے۔ ایسے میں پاکستان کے محنت کش طبقے کے پاس اب اس ریاست سے ایک دو ٹوک لڑائی کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ موجود نہیں۔ اس لڑائی میں محنت کشوں کی حتمی جیت صرف اسی وقت ہو گی جب وہ ا ن تمام بحرانوں کی جڑاس بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک کر سوشلسٹ نظام کا قیام عمل میں لائیں گے۔