|تحریر: عرفان منصور|
زیادہ تفصیل نہیں سیدھی اور کھری بات یہ ہے کہ ٹال ٹیکسوں، این ایل سی، عسکری بینکوں، فوجی فاؤنڈیشن جیسے لگ بھگ پچاس کاروباروں سے جب یار لوگوں کا پیٹ نہیں بھرا تو انہوں نے تعمیر کیا اس آئی ایف سی کا ادارہ جو ماتحت ہو گا آرمی چیف صاحب کے اور جو کوئی بھی انویسٹمنٹ آئے گی وہ اسی کے ذریعے سے ہو گی۔ اور اب اسی ادارے کے ذریعے سے گلگت کے پانی و معدنیات سمیت مختلف ریجنز میں لوٹ مار جاری ہے مگر ان کے نزدیک یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریباً پچیس فیصد حصہ زراعت پر مشتمل ہے اور تقریباً 37 فی صد لوگوں کا روزگار بھی اسی شعبے سے جڑا ہوا ہے۔ تو بھلا اتنا بڑا سیکٹر نظروں سے کیسے بچ سکتا تھا؟ ریاست کے پنڈی میں بیٹھے آقا نے چند ارسطو بٹھائے۔ کیسی پارلیمنٹ، کیسی کونسل فار کامن انٹرسٹ اور کیسی جمہوریت۔
نگران حکومت نے اعلان کر دیا کہ حکیمِ دوراں حضرت حافظ عاصم منیر برکاتہم کی راہنمائی میں اور فوجی ادارے گرین کارپوریٹ اینیشی ایٹو کی نگرانی میں تقریباً ساٹھ لاکھ (یا چھیاسٹھ لاکھ) ایکڑ صحرائی زمین کو Modernize، Mechanize اور Maximize کر کے پاکستان کا غذائی بحران ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا۔ مگر کیسے؟ چل چکی دانہ نکال بول کر؟ نگران حکومت گئی، فارم سینتالیس کی حکومت آئی گویا حافظ صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کا بوجھ بھی خود ہی سہنا پڑا اور خانیوال میں تقریب ہوئی اور مریم نواز کے ساتھ مل کر گرین پاکستان انیشی ایٹو کا اعلان ہوا کہ ہم نے اڑتالیس لاکھ ایکڑ بنجر زمین ڈھونڈ لی ہے۔ عوام تو کچھ نہیں کرتے ہیں مگر ہم اس کو آباد کریں گے اور پہلے مرحلے میں چولستان کی بارہ لاکھ ایکڑ زمین آباد کریں گے اور اس کے بعد گلف ریاستوں کے شہزادے درہم و دینار لے کر آئیں گے اور ہم اس پیسہ کو ڈبل کر کے کچھ ان کو دے دیں گے اور کچھ اپنے پاس رکھ کر ملک کا سب بحران ختم کر دیں گے۔ کیسی مست سکیم ہے۔ صحرا کے بارے میں کوئی کچھ نہ جانتا ہو، اتنا تو جانتا ہے کہ وہاں پانی نہیں ہوتا ہے۔ سائلین نے پوچھا کہ پانی کیسے آئے گا؟ جواب زرداری صاحب نے ایک سکیم پر دستخط کر کے دیا جس کے تحت چھ نئی نہریں بنائی جائیں گی مبلغ 783 ملین ڈالر کی رقم سے۔ یہاں آ کر ہم کو تھوڑا سا سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ اس سارے پلان کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو پانی کی تقسیم اور نہروں کی تعمیر ہے جس پر کافی بات ہو رہی ہے جبکہ دوسرا کارپوریٹ فارمنگ کا پہلو ہے جس پر بہت ہی کم بات کی جا رہی ہے۔ تو آئیے پانی سے شروع کرتے ہیں اور کارپوریٹ فارمنگ کی کسان دشمنی پر ختم کرتے ہیں۔
طلسمِ انہار کی سیر
اگر یہ مختص کردہ زمین زرخیز ہو تو لگ بھگ پانچ ملین ایکڑ فٹ پانی چاہیے ہو گا۔ مگر ادھر تو صحرا ہے۔ کیا اتنا پانی ہو گا؟ ارسا نے کہا کہ اگر سیلاب آ جائیں تو چھ مہینوں کے لیے اتنا پانی دستیاب ہو گا۔ بہترین ہو گیا، اضافی چھ مہینے جنرل صاحب خود پورا کر لیں گے کیونکہ پانی کی کیا مجال کے ان کی بات نہ سنے۔ اعلان ہوا کہ ہم چھ نہریں بنا رہے ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی اور آبی مسائل کے ماہر نصیر میمن کے مطابق ان چھ میں سے چار نہریں پہلے سے موجود ہیں۔ بلوچستان کی طرف جانے والی کچھی کینال مشرف کے وقت ہی بن چکی تھی، چشمہ رائٹ بینک کینال موجود ہے، رینی کینال موجود ہے، ہاں ان کی مزید توسیع کی جائے گی۔ جس کے حوالے سے سب سے زیادہ گفتگو ہو رہی ہے وہ سلیمانکی سے نکالی جانے والی نہر ہے جس کی لمبائی 176 کلو میٹر ہے۔ اس نہر کی کیپیسٹی 4120 کیوسک یعنی 116665 لیٹر فی سیکنڈ ہو گی اور اسی سے ایک نہر نکلے گی جو مروٹ کی طرف جائے گی جبکہ یہ آگے جا کر ڈیروار اور دیگر علاقوں میں موجود کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مختص زمین کو سیراب کرے گی۔
اسی کے ساتھ ساتھ چناب پر کل ملا کر 3.5 ملین ایکڑ فٹ کے تین نئے پانی کے ذخیرے، ستلج پر دو نئے بیراج اور گریٹر تھل کینال کی توسیع بھی اس منصوبے میں شامل ہے۔ اگر وسعت کو دیکھا جائے تو یہ صرف چند نہریں نہیں بلکہ ایک پورا سسٹم ہے۔ مگر یہ تو تھیں باتیں، محض باتیں۔ ان سب میں پانی کہاں سے آئے گا؟ پنجاب کے وفاقی وزراء کا کہنا ہے کہ سندھ سے ایک قطرہ بھی نہیں لیا جائے گا تو سوال بنتا ہے کہ پنجاب میں کہاں سے لیا جائے گا؟ ستلج سے۔ ستلج کے پانی کا بہاؤ ڈھونڈیں تو وہاں صرف ریت ہی ریت ہے۔ مون سون کے موسم میں تھوڑا بہت پانی رینگتا نظر آتا ہے یا جب بھارت میں سیلابی صورتحال جنم لے۔ اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ آپ 3.3 ارب ڈالر کا منصوبہ بنا کر، کھیت اور نہریں نکال کر اللہ میاں سے دعا کریں کہ ربّا مینہ برسا۔ اور ہرسال برسا۔ مستقل برسا۔ پھر کیا کِیا جائے گا؟ اس کا حکومت یا ایس آئی ایف سی کوئی جواب نہیں دے رہا۔ مگر عوام جانتے ہیں۔ آئیے تھوڑا انڈس واٹر سسٹم گھومتے ہیں۔
انڈس واٹر سسٹم میں پانی کی تقسیم
رسولپور کے مقام پر جہلم سے ایک لنک کینال نکلتی ہے جو جہلم کے پانی کو تقسیم کر کے چناب میں ڈالتی ہے قادر آباد میں۔ وہاں سے پھر ایک اور لنک کینال نکلتی ہے جو بلوکی کے مقام پر راوی میں پانی ڈالتی ہے۔ اور بلوکی سے پھر ایک اور کینال نکلتی ہے جو سلیمانکی تک جاتی ہے اور ستلج کو پانی دیتی ہے اور وہاں سے مختلف نہروں میں پانی جاتا ہے۔ یہ سلیمانکی ہی وہ جگہ ہے جہاں سے چولستان جانے والی نہریں بننی ہیں۔ اب مزید جمع نفی ہم خود کر سکتے ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قادرآباد-بلوکی اور بلوکی-سلیمانکی لنک کینالز کی کیپسیٹی کو بڑھایا جائے گا تاکہ جہلم، چناب کا پانی زیادہ اس طرف لایا جائے اور جہلم اور چناب کے پانی کو تھوڑا بہت پورا کرنے کے لیے چشمہ-جہلم کینال سے اور تونسہ پنجند کینال سے سندھ کا پانی نکالا جائے اور چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ سے منافع کمانے والوں کا پیٹ بھرا جائے۔
کیا انڈس واٹر سسٹم میں اتنا پانی ہے؟
جواب ہے نہیں۔ مگر کتنا نہیں؟ اگر صرف ارسا کے اعداد و شمار دیکھیں تو پنجاب کو 13.7 فی صد اور سندھ کو 19.4 فی صد پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ منگلا ڈیم اپنے ڈیڈ لیول پر ہے جبکہ تربیلا ڈیم کم ترین آپریشنل سرحد کو چھو رہا ہے۔
1947ء میں 5000 کیوبک فٹ فی کس پانی کی دستیابی اس وقت 1000 کیوبک فٹ فی کس تک آ پہنچی ہے اور پاکستان کو خشک سالی کا سامنا ہے۔ تو انڈس واٹر سسٹم میں پہلے سے موجود زمین کو ہی سیراب کرنے کا پانی موجود نہیں ہے تو اس کارپوریٹ فارمنگ کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟
اس کارپوریٹ فارمنگ کی قیمت کون چکائے گا؟
یہ جاننے کے لیے الجبرا کی ضرورت نہیں ہے۔ جب جہلم چناب کا پانی نکالا جائے گا تو ہیڈ تریموں اور ہیڈ پنجند کا پانی کم ہو گا۔ یہ ہیڈز لاکھوں ایکڑ زمین سیراب کرتے ہیں۔ ان زمینوں کا پانی کم ہو گا، سندھ سے پانی نکالا جائے گا جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہو جائے گی اور سب سے زیادہ خطرہ سندھ کو ہو گا۔
عام کسان کا زریعہ آمدن زد میں ہو گا اور روزگار اور فوڈ سیکیورٹی کے جو سہانے خواب دکھائے جا رہے ہیں یہ سب کے سب بھیانک عفریت بن کر ہمارے سامنے موجود ہوں گے۔ اور یہ ایسانہیں کہ اب ہو گا۔ سندھ میں تو پانی کی قلت کی تباہ کاریاں پہلے سے ہی جاری ہیں۔
پانی تو سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے والی دانش!
جب بھی اس معاملے پر بات کی جائے تو کوئی نہ کوئی دانشگرد یہ بات ضرور کرتا ہے کہ سمندر میں جا کر ویسے بھی تو پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر کسی بھی ماحولیات کے ماہر کو یہ رائے دی جائے تو اسے یہ لطیفہ لگے گا کیونکہ یہ لطیفہ ہی ہے۔ اگر سندھ کے پانی کا ایک مخصوص حصہ تقریباً بیس ملین ایکڑ فٹ سمندر کو نہ دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سمندر ڈیلٹا کو خراب کرنا شروع کرے گا اور سمندر آگے بڑھتا چلے آئے گا۔ 1976-1998ء تک کوٹری بیراج سے 40.69 ملین ایکڑ فٹ خارج ہونے والا پانی 1999-2023ء تک کم ہو کر 14.04 ملین ایکڑ فٹ کی اوسط تک گر چکا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 92 فی صد ڈیلٹا تباہ ہو چکا ہے۔ یوں اندازہ لگائیں کہ ہزاروں سالوں میں بننے والا سندھ کا ڈیلٹا جو دو سو سال پہلے 14000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا کم ہو کر صرف 1100 مربع کلو میٹر تک رہ چکا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ بحیرہ عرب کے سائیکلونز کا ڈر بڑھ رہا ہے، مینگرووز کے جنگل تباہ ہو چکے ہیں۔
کچھ اور باتیں!
ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر کسان کا پیٹ کاٹ کر آپ پانی چولستان لے بھی جاتے ہیں تب بھی اس دشت میں کئی امتحان آئیں گے۔ نہری پانی کا معیار بہت ہی پست ہے اور سلٹنگ سے بھرپور ہوتا ہے۔ صحرا میں کھالوں سے پانی کی بجائے سپرنکلنگ اور ڈرپ ایریگیشن جیسے جدید طریقے استعمال ہوں گے اور یہ سلٹنگ والے پانی کے لیے استعمال نہیں کیے جا سکتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ 3.3 ارب ڈالر کی یہ رقم بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور جب یہ بڑھ جائے گی تو لاگت بڑھنے کی وجہ سے انسویٹرز کم آئیں گے اور بابا فرید کی کافیوں کے سوا کوئی نفع آپ کے ہاتھ نہیں لگے گا۔
کارپوریٹ فارمنگ عام آدمی کو خوشحال کیسے کرے گی؟
یہ وہ پہلو ہے جس پر بہت کم بات کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں زراعت کو نیو لبرل خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ جس طرح پہلے عوامی اداروں کی نجکاری کر کے عوام کی زندگی مزید اذیت ناک بنائی گئی ہے اسی طرح یہاں پر بھی عوام کے لیے کچھ ہو گا تو وہ مزید درد کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ اس وقت فاطمہ فرٹیلائزرز جیسے کئی گروپس ہیں جو انویسٹمنٹ کے معاہدے کرچکے ہیں اور یہ گروپس عام کسان کے تو ہیں نہیں۔ ایک طرف تو عام کسان کا پانی کاٹا جائے گا جس پر ہم پہلے ہی بات کرچکے ہیں، دوسری طرف کارپوریٹ فارمنگ کا اولین مقصد ضرورت پوری کرنا نہیں بلکہ منافع کمانا ہوتا ہے۔ فوڈ پراڈکٹس بنانے والے بڑے بڑے گروپس اپنی ضرورت کی اشیاء پیدا کریں گے اور ان سے منافع کمائیں گے، ریاست عام کسان کو سبسڈی دینے کی بجائے ان کو سبسڈیاں دے گی کیونکہ یہی تو سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی وصف ہوتا ہے۔ غذائی ضرورت پوری نہیں ہو گی بلکہ کیش کراپس اگائی جائیں گی تاکہ پیسہ بنایا جا سکے۔ چولستان کا مکین زمین سے محروم ہی رہے گا جبکہ اسی کے علاقے میں باہر سے لوگ آ کر منافع نچوڑیں گے، وسائل لوٹیں گے اور امیر تر ہوتے جائیں گے۔
تو کیا زراعت کو جدید خطوط پر استوار نہیں ہونا چاہیے؟
ہاں، یہ بات درست ہے کہ پاکستان کا زرعی نظام فرسودہ ہے، پاکستان کا نہری نظام اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہے اور پانی کا ضیاع بہت زیادہ ہے۔ مگر زرخیز ترین علاقوں کے مسائل دور کرنے کے، عام کسان کو سستی ٹیکنالوجی اور سستی کھاد اسپرے، اچھے بیج مہیا کرنے کے، ایک بنجر علاقے کو ان زرخیر زمینوں کی قیمت پر آباد کرنا کونسی دانشمندی ہے؟
پاکستان کے نہری نظام کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے، چالیس فی صد کے قریب ہونے والے ضیاع کو روکنے کی ضرورت ہے، ماحولیاتی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے نئے بیجوں پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے، کسان کو منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے اسے زمین دینے، بڑی جاگیروں کا خاتمہ کرنے، سستی کھاد، اسپرے اور پانی مہیا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ خود دیکھتے ہی دیکھتے غذائی ضروریات سے زیادہ پیدا کر کے دے سکتا ہے مگر یہ ریاست اس کو یہ سب مہیا کرنے کی بجائے اس کو بے یار و مددگار چھوڑ کر اور اسی کی قیمت پر بڑے سرمایہ داروں کو سبسڈیاں مہیا کر رہی ہے، ان کو منافع کمانے، کسان کو لوٹنے اور عوام کو لوٹنے میں مدد کر رہی ہے۔ ایک امیروں کی ریاست سے اس کے سوا اور توقع ہی کیا کی جاسکتی ہے؟ اور یہ سب کچھ تب تک چلتا رہے گا جب تک امیروں کی یہ ریاست موجود رہتی ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت ہے جو اس منافع کی ہوس کے نظام کو ختم کرے اور زرعی ترقی کے ساتھ ساتھ کسان اور عام لوگوں کی خوشحالی کو یقینی بنائے نہ کہ چند سرمایہ داروں کو عوام کے وسائل کی لوٹ مار کر کے امیر سے امیر تر کرنے کی اجازت دے۔ اس کے لیے ملک بھر کے کسانوں اور مزدوروں کو متحد ہوتے ہوئے منظم جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا۔