|تحریر: انقلابی کمیونسٹ تنظیم، آر سی آئی یونان، ترجمہ: انعم خان|
درج ذیل تحریر انقلابی کیمونسٹ انٹرنیشنل کے یونان سیکشن، انقلابی کیمونسٹ آرگنائزیشن کی جانب سے 28 فروری بروز جمعہ کو ہونے والی تاریخی عوامی ریلیوں کے سیاسی تجزیے پر مشتمل ہے جو کہ ٹمپی (Tempi) ریل سانحے (جس میں 57 لوگ مارے گئے تھے) کی دوسری برسی کے موقع پر منعقد ہوئی ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
”میرے لوگو، میں تمہارے وقار کے لیے دعا گو ہوں،
میں تمہاری تکالیف کے آگے سرنگوں ہوں اور
میں تمہارے اعمال پر فخر کرتا ہوں۔۔ میرے لوگو!
ہم 28 فروری 2025ء جمعہ کے روز یونان میں ہونے والے واقعات کے جوہر کو بیان کرنے کے لیے میخالیس سٹاوراکاکس (Michalis Stavrakakis) کے جاندار اور معروف گیت کے یہ بول پیش کرنے میں حق بجانب ہیں، جس کی دھن عظیم موسیقار یانس مارکوپولس (Yannis Markopoulos) نے ترتیب دی تھی۔
تاریخی توازن
جمعہ کے دن ملک بھر کے کروڑوں لوگوں نے 260 سے زائد شہروں، قصبوں اور بیرون ملک 125 شہروں میں یونان کی جدید تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کیے۔ ایتھنز (Athens) میں دس لاکھ سے زائد افراد جمع ہوئے، تھسالوئنکی (Thessaloniki) میں جمع ہونے والے افراد کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہو گئی تھی، جبکہ یونان بھر کے دیگر علاقوں میں بھی کئی سو ہزار افراد سڑکوں پر امڈ آئے۔
ملک میں ہونے والی چوبیس گھنٹوں پر مبنی دیگر انتہائی محدود ”عام ہڑتالوں“ کی نسبت یہ ہڑتال واقعتا ’عمومی‘ تھی (یونان میں 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے محدود عام ہڑتالیں ہونا معمول بن چکا ہے)۔ جس سے ریاست مفلوج ہو گئی اور ملک بھر کی تمام تر معاشی سرگرمیاں واضح طور پر بندش کا شکار ہو کر رہ گئیں، ان حالات نے 2021-2022ء میں کرونا وباء کے وقت ہونے والے لاک ڈاؤن کی یاد تازہ کر دی۔ ٹریڈ یونینز (جن کا وجود نہ ہونے کے برابر سے لے کر اکا دکا ہونے تک محدود ہو چکا ہے) کی جانب سے ہڑتال کی کال دینے اور تیاریوں کے عمل نے ہڑتال کے مکمل کامیاب ہونے میں بطور اہم عنصر کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا۔ در حقیقت، محنت کش طبقے کی آفاقی و بے ساختہ کر گزرنے کی چاہ اس ہڑتال میں ان کی شرکت اور کامیابی کا موجب بنی۔
اسی سبب ہزاروں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباریوں نے اپنے دروازے بند کر دیے، ان میں کچھ تو واقعتا سچائی سے احتجاج کا حصہ بننا چاہتے تھے اور دیگر نے محنت کشوں اور عوام کے ٹھاٹھیں مارتے وسیع، پُر جوش اور خود رو دریا کے برخلاف ٹھہرنے کے اپنے خوف، نااہلی اور یہاں تک کہ شرمندگی کے باعث اپنے کاروبار کے دروازے بند کر دیے۔
26جنوری کو بھی بڑے احتجاج ہوئے لیکن ان کے حجم کا موازنہ محض 2010-2015ء کے سالوں کی معیارِ زندگی میں کٹوتیوں کی مخالفت پر مبنی تحریک کے دوران ہونے والے بڑے احتجاجی مظاہروں کے حجم سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ جمعہ کے روز ہونے والے احتجاجی مظاہرے اپنے حجم میں ان سے بھی کہیں بڑے تھے۔ مزید برآں، یہ احتجاجی مظاہرے اپنے حجم میں کسی بھی اور بڑے عوامی مظاہروں کی نسبت زیادہ وسیع تھے، یہاں تک کہ اس احتجاج میں شریک کوئی بھی اوسطاََ بوڑھا انسان یاد کر سکتا ہے کہ یہ مظاہرے، 24 جولائی 1974ء کے دن فوجی آمریت کے خاتمے اور سابقہ صدر کرامالیس کے ملک واپس آنے کی خوشی میں ہونے والے مشہورِ زمانہ مظاہروں کے بعد سب سے بڑے تھے۔
ان وسیع عوامی احتجاجوں نے کیا ثابت کیا ہے؟
جمعے کو ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا بے مثال حجم اس بات کا اظہار ہے کہ یونانی معاشرے کے محنت کش اور غریب عوام فیصلہ کن انداز میں تاریخ کے منظر نامے پر ظاہر ہو چکے ہیں اور ملک کے معمولات کا تعین کر رہے ہیں۔ سیاسی منظر نامے پر عوام کی یہ آمد ملک کی موجودہ حکومت اور گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف انتہائی مستعد اور خطرناک حزب اختلاف ثابت ہو رہی ہے۔ یہ واحد حقیقی سیاسی حزب اختلاف ہے۔ خاص کر پارلیمنٹ کی سرکاری حزب اختلاف کی علامتی گفت و شنید کے مقابلے میں یہ ایک ناقابلِ تسخیر قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ جس نے، بظاہر طاقتور، نیو ڈیموکریسی کی حکومت کو دفاعی پوزیشن اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
معروضی طور پر کہا جائے تو جمعے کی یہ احتجاجی ریلیاں، یونان کے معاشرے کے قبل از انقلاب کے ایک نئے طوفانی عہد میں داخل ہونے کا اظہار ہیں۔ بہرحال، ایسا لگ رہا ہے کہ بطور پہلا مرحلہ اس تحریک کی بنیاد، مارچ 2023ء میں ٹمپی میں ہونے والے ریل حادثے کے سانحے کی تباہی کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریک میں بن گئی تھی۔ پہلے مرحلے کے قبل از وقت اختتام نے حکومت کو عارضی استحکام فراہم کیا، جس کے بعد نیو ڈیموکریسی حکومت کے باآسانی دوبادہ منتخب ہونے کے عمل نے شدید مایوسی کو جنم دیا، اسی مایوسی کے عمل نے تحریک کے اس نئے مرحلے کو 2024ء کے آغاز تک مؤخر کیے رکھا جس کا اب دوبارہ آغاز ہو چکا ہے۔
جمعے کو ہونے والی تاریخی احتجاجی ریلیوں نے تباہی کے ان تمام تجزیہ کاروں کو واضح انداز میں رد کر دیا ہے، جو نیو ڈیموکریسی کی پے در پے انتخابی فتح اور سائریزا کی شکست کو ’یونان کے معاشرے کا رجعتی موڑ‘قرار دے رہے تھے۔ ان احتجاجوں نے عام طور پر ان پاگل، بد گمان اور وہمی افراد کو بھی حیران کن انداز میں کھلے عام مسترد کر کے رکھ دیا ہے جو سال 2010-15ء کی معیار زندگی میں کٹوتی مخالف عوامی تحریک کی ناکامی کی ذمہ دار، محنت کش طبقے کی سوشل ڈیموکریٹک اور سٹالنسٹ سیاسی قیادت کا براہ راست یا بلاواسطہ بھاگ بھاگ کر دفاع کیا کرتے تھے۔ کٹوتی مخالف اس تحریک کی ناکامی کے نتیجے میں دائیں بازو کے عارضی انتخابی احیاء کا الزام عام محنت کش طبقے اور غریب عوام پر ڈالنے والوں کے لیے موجودہ تحریک ایک کرارا جواب ہے۔
محنت کش عوام کے اسی جمِ غفیر نے جمعے کے دن متحد ہو کر اپنے کام کی ایسی جگہوں پر دھاوا بول دیا، جہاں یونینز بھی ناپید ہیں، انہوں نے موجودہ حکومت کے جانے پہچانے اُن نمائندوں کی جانب سے دی جانے والی برطرفیوں اور جسمانی تشدد کی دھمکیوں کو ہوا میں اڑا کر دکھ دیا، جو کہ ”آگے ہونے والے پرتشدد واقعات“ کی بات کرتے تھے اور وہ واقعات رونما ہوئے بھی۔ وہ محنت کش کسی معاشی مطالبے کے حصول کی خاطر متحرک نہیں ہوئے تھے، بلکہ یہ حکومت کے بد اخلاق اور اشتعال انگیز اعمال کے خلاف ’انصاف‘لینے کے لیے متحرک ہوئے تھے۔ پولیس کی جانب سے کیمیکلز پر مبنی آنسو گیس شیلنگ کی شدید بمباری کے باوجود بھی وہ قابلِ تحسین انداز میں استقامت اور اطمینان سے کئی گھنٹوں تک سڑکوں پر ڈٹے رہے۔ اس طرح انہوں نے معاشرے کو بدلنے کی جستجو کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کے لیے انتہائی اعلیٰ درجے کی پختگی اور خواہش کا اظہار کیا۔
اور آخر کار ملک بھر میں عوام کے اس متاثر کن تحرک نے معاشرے میں طاقت کے توازن کو حقیقت میں سب پر واشگاف کر دیا ہے، طاقت کا وہی توازن جسے محنت کش طبقے کی سیاسی اور ٹریڈ یونین اشرافیہ اپنے ڈھکے چھپے اور تخریبی ہتھکنڈوں کی مدد سے گلی سڑی حکومت کے ساتھ محتاط انداز میں کیے گئے خفیہ سمجھوتوں کے تحت چھپاتی چلی آئی ہے۔ اس توازن کا جھکاؤ واضح طور پر محنت کش طبقے کی قوتوں اور معاشرے کی ترقی پسند قوتوں کے حق میں اور سرمایہ دارانہ نظام کی رجعتی اور پسماندہ قوتوں کے خلاف ہے۔
ریاست کی بے رحم اشتعال انگیزی اور تشدد
حکومت نے عوامی غیض و غضب کے اس ٹھاٹھیں مارتے دریا کے خلاف وہی رد عمل دیا، جو ایک آمرانہ حکومت دیتی ہے، یعنی اشتعال، ریاستی تشدد اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اس طرح ایتھنز میں ہونے والے اس بے مثال تاریخی عوامی اجتماع کے شروع کے محض دو گھنٹے بعد ہی اور ٹمپی (Tempi) سانحے کے متاثرہ خاندانوں کے لواحقین کی جرأت مند تقریروں کے اختتام سے قبل ہی حکومت عوام کو منتشر کرنے کا اپنا روایتی طریقہ عمل میں لے لائی۔
موقع پر موجود سینکڑوں عینی شاہدین کی گواہیوں، سوشل میڈیا پر شائع کی جانے والی اور بڑے میڈیا گروپس کی رپورٹس کے مطابق، سیتگاما اسکوائر (Syntagma Square) کے مختلف حصوں سے نقاب پوش اشتعال انگیز عناصر احتجاج میں حملہ آور ہوئے۔ انہوں نے پتھر توڑنے والے ہتھوڑوں سے اینٹیں توڑیں اور دستی بموں سمیت انہیں پولیس پر مارنا شروع کر دیا، ان کے دیکھا دیکھی مجمع میں موجود کچھ غیر ذمہ دار، متشدد ذہنیت والے اور لمپن عناصر نے بھی یہی حرکت شروع کر دی۔ اس سب سے پولیس کو وہ موقع مل گیا کہ وہ عوامی مجمع کو منتشر کرے۔ دیگر درجنوں مظاہرین کے ساتھ ساتھ فوٹو جرنسلسٹ ارسٹس پنایووٹو (Orestis Panayiotou) کو بھی پولیس کے بہیمانہ تشدد کے سبب سر پر چوٹ آئی۔
اسی ہفتے پولیس چیف کی جانب سے ”ایتھنز کے شہریوں کے احتجاج کے حق کا دفاع کر نے کے لیے بڑے آپریشن“ والے بیان کا اصل مطلب سمجھ میں آ جاتا ہے جو کہ انتہائی پرُ ہجوم مجمع پر دنگے فساد کو کنٹرول کرنے والی مخصوص پولیس فورس کی جانب سے آنسو گیس اور منتشر کرنے کے لیے استعمال ہونے والے چھوٹے بموں کا استعمال تھا۔ اصل منصوبہ تو عوام کو منتشر کر کے حکومت کا دفاع کرنا تھا۔
اس پیمانے کی منصوبہ بندی سے جنم لینے والے پُر انتشار حالات میں، جہاں ایسے موقع پر عام حالات کی نسبت کہیں زیادہ غفلت برتی گئی ہو، کسی بھی موت کا نہ ہونا واقعی ’معجزہ‘ ہے۔ اس ’معجزے‘کا سارا سہرا وہاں جمع ہونے والی عوام کی جڑت اور پختگی کو جاتا ہے، جنہوں نے انتہائی دیوہیکل مجمع میں ہوتے ہوئے بھی بڑی دلیری سے کیمیکلز کا سامنا کیا اور بڑے سلیقے اور محفوظ انداز میں پہلے بچوں اور بزگوں کو ریاستی جبر کے اس جلتے میدان سے باہر نکالا۔ سوشل میڈیا پر لگنے والی ایتھنز اور تھیسالونیکی کے احتجاجوں کی کئی ویڈیوز خاص توجہ کی حامل ہیں جن میں احتجاج کرنے والے لوگ اِن اشتعال انگیز عناصر پر حملہ کرتے اِن کے نقاب اتارتے اور انہیں بھاگنے پر مجبور کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ناقابلِ شکست انداز میں لڑتے نوجوان
حکومت کی جانب سے جاری رہنے والے ریاستی تشدد کے ننگے ناچ کے باوجود بھی دسیوں ہزار نوجوان سیتگاما اسکوائر کے گرد گلیوں میں موجود رہے اور انہوں نے پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے دوبارہ جمع ہونا شروع کیا۔ ان میں سے کچھ طلبہ نے آسمان کی جانب اپنے ہاتھ اٹھا کر واپس آنا شروع کر دیا تاکہ وہ خود کو وہاں موجود انتشاری ٹولے سے الگ ظاہر کر سکیں اور یہ پیغام دے سکیں کہ پولیس کا بہیمانہ تشدد اجتماعی حقِ احتجاج کے لیے ان کی جرأت اور دلیری کو ختم نہیں کر سکتا۔ طاقتور پولیس کے سامنے، فضاؤں میں ہاتھ لہراتے ان نوجوانوں کے اسکوائر میں دوبارہ داخل ہونے کے مناظر ان کے شعور میں رونما ہونے والی معیاری تبدیلی کا واضح اظہار تھے جو کہ اس عوامی تحریک میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔
عوامی تحریک کے ان لڑاکا نوجوانوں کو اسکوائر سے باہر نکالنے کے لیے پولیس کو دو مرتبہ کیمیکلز، گرنیڈز اور پولیس کے مسلح واٹر کینن ’اجیکس‘ کے ساتھ بڑے اور پرُانتشار حملے کرنے پڑے۔ پولیس کی جانب سے عوام کو منتشر کرنے کی آٹھ گھنٹوں پر مشتمل ناکام کوشش کے بعد آخر کار، وزیراعظم میٹسوٹاکس (Mitsotakis) کے شاہی گارڈز کے دستوں نے اسکوائر کا کنٹرول سنبھالا۔ انہی آٹھ گھنٹوں میں ہی لاکھوں کی تعداد میں موجود احتجاجی عوام کو ایک زندہ سیاسی سبق سیکھنے کو ملا کہ رجعتی نوعیت کی ریاستی طاقت جو کہ آخری تجزیے میں مسلح افراد کے جتھوں پر مشتمل ہوتی ہے، اس کا حتمی مقصد حکمران طبقے کی خدمت گزاری ہی ہوتا ہے۔
شعور کی تبدیلی: ”استعفیٰ دو!“
جمعے کے روز ہونے والی احتجاجی ریلیوں نے کسی بھی عوامی تحریک میں شریک عوام کے شعور پر مرتب ہونے والے فیصلہ کن اور براہ راست اثرات کا اظہار کیا۔ 26 جنوری کو سیتگاما اسکوائر میں ہونے والے احتجاج میں خود رو انداز میں لگنے والا نعرہ ”قاتل!“ تھا، ایک ایسا نعرہ جو کہ دو سال پہلے ٹمپی سانحے کے جرم کا ذمہ دار حکومت کو قرار دے رہا تھا، لیکن یہ نعرہ اقتدار میں موجود حکومت کو چیلنج نہیں کر رہا تھا۔
اس سوال کو غیر سیاسی بنانے کی حکومت کی خفیہ اور تباہ کن مہم کے اثرات کے نتیجے میں اور اس کی پارلیمانی اپوزیشن کی منافقانہ اور بزدلانہ تشہیر کے سبب جمعے کی احتجاجی ریلیوں کی ابتداء میں صرف ”قاتل!“ کا نعرہ ہی نہیں لگا۔ بلکہ جوں جوں ریلی آگے بڑھتی رہی، اس میں شامل ہونے والے عوام کے دیوہیکل حجم، اس کی طاقت کے ادراک اور پولیس کی جانب سے ریلی کو توڑنے کی کاوش کی بدولت نہ صرف ”قاتل!“ کا نعرہ دوبارہ اٹھا بلکہ خود رو انداز میں ”استعفیٰ دو!“ کا نعرہ بھی بلند ہونے لگا۔ اس نعرے نے بے حد سادہ طریقے سے جمعے کے دن کی اس دیو ہیکل تحریک کے جوہر کا اظہار کر دیا تھا اور ان تمام ’غیر سیاسی‘ مقررین کو بے نقاب کر دیا، در حقیقت اس نعرے نے طاقت کے سوال کو ابھارا تھا۔
حکومت اور حکمران طبقے کا کچھ نہ سمجھ پانے کا ڈھونگ
جمعے کی تاریخی ریلیوں نے حکومت اور حکمران طبقے کے حلقوں میں موجود خوف کو مزید بڑھا دیا۔ 26 جنوری کے احتجاج کے بعد جنم لینے والے اس خوف کے سبب حکومت پہلے ہی بوکھلاہٹ میں متضاد بیانات دے رہی تھی۔ ان کے پبلک بیانات احتجاج میں شریک ہونے والے لوگوں کو کھلے عام ”ملک کو عدم استحکام کا شکار“ کرنے والوں سے لے کرہڑتال کے دن ”احتجاج کے حق کا دفاع اور ضمانت فراہم کرنے کے وعدے“ کی گردان کے درمیان جھول رہے تھے۔
28فروری کی رات ڈھلتے ہی حکومتی ترجمان نے پولیس کو ”ذمہ دارانہ“ (درحقیقت قاتلانہ) رویہ اختیار کرنے پر مبارکباد دی۔ اسٹیبلشمنٹ کے معذرت خواہان جیسا کہ شدید رجعتی اور حکومت کے شدید حامی بیانیے پر مبنی ’نیوز بلیٹن‘ چلانے والے مشہور صحافیوں کے پبلک بیانات شدید سیاسی بے چینی کی غمازی کر رہے تھے، کیونکہ اصل میں یہ لوگ احتجاجی ریلیوں سے جنم لینے والی ایک نئی حقیقت کے سامنے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کی پالیسی ہے کہ”ایسے ظاہر کرو، جیسا کہ تمہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا“۔ انہیں کاوشوں میں سب سے خاص کاوش کیتھی مرینی (Kathimerini) اخبار کے ڈاریکٹر الیکسس پاپاکیلس(Alexis Papachelas) کا بیان تھا، جس نے ان احتجاجی ریلیوں کی تاریخی اہمیت کا مجبوراََ اعتراف کرنے کے بعد حکومت کو مشورہ دیا کہ انہیں عوام کے پاس ”انصاف اور جدید ریاست کی تخلیق کے کام کی ضمانت“ کا پیغام لے کر جانا چاہیے۔
مشہور نعرے ”استعفیٰ دو!“ کی گرج کے سامنے حکومت اب چاہے کتنا ہی اپنے کان بند کرنے کی کوشش کر لے، یہ عوامی نفرت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو واپس قید نہیں کر سکتے۔ جمعے کی ریلیوں نے سب کو یہ دکھا دیا ہے کہ محنت کش طبقہ جب جدوجہد کے میدان میں اترتا ہے تو وہ کتنا طاقتور ہوتا ہے۔ یہ عنصر اور اسی کی آمیزش میں عوامی تحریک کے سیاسی ہونے کا عمل، جس کا اظہار اس کے بنیادی مطالبات کی صورت میں ہو رہا ہے، اب فیصلہ کن عنصر بن چکے ہیں۔ حکومت اور حکمران طبقہ چاہے جتنی بھی کوششیں کر لیں اب اس حقیت سے انکار نہیں کر سکتے۔
پہلے ہی گزشتہ ماہ میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ٹمپی سانحے کے جرم اور اس سے جنم لینے والی عوامی تحریک کے متعلق حکومت نے جس طرح سے سرمایہ دارانہ میڈیا میں ہونے والی کوریج کو سنبھالنے کی کوشش کی، اس کے نتیجے میں حکومت کے خلاف کھلی عوامی نفرت پیدا ہو گئی تھی اور یہاں تک کہ احتجاج بھی ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کس حد تک معاشرے سے کٹ چکی ہے اور حکمران طبقہ، اجتماعی طور پر اپنے موجودہ حکمرانوں کے فوری سیاسی مستقبل کے متعلق کس حد تک بے چینی کا شکار ہو چکا ہے۔
در حقیقت، حکمران طبقہ اور اس کے عوامی نمائندے اب وزیر اعظم میٹسوٹاکس اور اس کی حکومت کو نظام کے سیاسی استحکام کے لیے خطرناک سمجھ رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں یونان کے سرمایہ دارانہ نظام کے نسبتی معاشی استحکام کے باوجود حکومت کی جانب سے ٹمپی سانحے کے جرم کو سنبھالنے کے سیاسی طریقے ہی وہ سب بڑی وجہ بنے جنہوں نے ’کامیابی‘ کے ساتھ ملک بھر میں لوگوں کو سڑکوں پر لا کر بے مثال پیمانے کی عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اگر حکمران طبقے کے پاس ایسی پارٹیاں یا لیڈر ہوتے جو نظام کو اس سب سے نکلنے کا راستہ فراہم کر پاتے تو یہ حکمران موجودہ حکومت کو فوری طور پر فارغ کرتے اور ان پر نئے انتخابات کروانے کا دباؤ ڈال کر عوامی تحریک کو ختم کر دیتے۔
لیکن اس وقت ان کے پاس ایسا کوئی سیاسی حل موجود نہیں ہے۔ انتہائی دایاں بازو (گریک سلوشن، وکٹری، وائس آف ریزن) اور کٹوتی مخالف تحریک کی حمایت کرنے والے (پاسوک، سائریزہ اور نیو لیفٹ)، دونوں کا ہی انتخابی اثر و رسوخ بہت کمزور ہے، اور یہ بات انتہائی مشکوک ہے کہ یہ مستقبل کے سیاسی استحکام میں بطور نیو ڈیموکریسی کے حکومتی اتحادی کا کردار ادا کر سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بورژوا طبقہ جدوجہد کرتے محنت کش طبقے اور غریب عوام کی سیاسی جرأت کو بری طرح نظر انداز کرنے پر مجبور ہے، اور یہ ”اگلے نوٹس تک“ میٹسوٹاکس حکومت کی حمایت جاری رکھے گا۔ ان کی منطق وہی ہے کہ جس کے تحت یونان کے ریلوے نظام کو چلایا جاتا ہے، جو کہ ٹمپی سانحے جیسے جرم کا باعث بنا، یہ وہی منطق ہے جو یونان کے گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کی عمومی خاصیت ہے؛ ”یعنی آنکھیں بند کر کے میٹسوٹاکس حکومت کے پیچھے پیچھے چلتے جاؤ، اور بعد میں دیکھی جائے گی کہ یہ کہاں ختم ہوتی ہے“۔
کیا کِیا جائے؟
تو اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ کوئی شخص اگر یہ سوچتا ہے کہ جمعے کی عوامی احتجاجی ریلیاں، جو کہ ملک کی جدید تاریخ کی سب سے بڑی ریلیاں تھیں، ان میں جنم لینے والے ”استعفیٰ دو!“ کے نعرے کے مرکزی ہدف کے اظہار کے لیے کافی ہیں تو یہ ایک مہلک غلطی ہے۔ حکومت اب پہلے سے کہیں زیارہ سختی سے اقتدار سے چمٹے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ اب جدوجہد کے دائر کار کو مزید وسیع کرتے ہوئے ہی عوامی تحریک، حکومت کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کر سکتی ہے۔
بہرحال واقعات نے واضح کر دیا ہے کہ پہلے پہل عوامی تحریک کی حمایت کرنے والی ٹریڈ یونین یا سیاسی قیادت میں سے کوئی بھی اب صورتحال کو اس سمت میں نہیں بڑھانا چاہتا۔ سائریزہ (SYRIZA)، پاسوک (PASOK) اور نیو لیفٹ (New Left) کے قائدین، حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی قرار داد لانے کی مناسب تاریخ کا تعین کرنے کے لیے آپس میں مقابلے بازی کر رہے ہیں، ان میں سے آخرالذکر کی پارلیمانی نمائندگی کو شمار کیا جا سکتا ہے لیکن وہ عوامی اثر و رسوخ کے حوالے سے بہت کم ہے۔ اس وقت ایسے اقدام کا کردار محض علامتی ہی ہے کیونکہ حکومت اپنی سادہ اکثریت ثابت کر دے گی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جنرل کنفیڈریشن آف گریک ورکرز (GSEE) میں موجود ٹریڈ یونین بیوروکریسی کی اکثریتی اشرافیہ نے محنت کش طبقے کے خود رو غصے کے دباؤ کے تحت ہی آخری لمحے میں 28 فروری کو چوبیس گھنٹے کی عام ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ ظاہر ہے حالات کو بڑھاوا دینے کی ان کی بھی کوئی نیت نہیں ہے۔
آخر میں بس یونان کی کیمونسٹ پارٹی (KKE) کی سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادت ہی تحریک کو آگے بڑھانے کے ”جارحانہ تکرار“ کے پردے میں چھپاتے ہوئے اسے ختم کرنے کی نیت اور صلاحیت کی حامل ہے، ٹمپی کے گرد موجود عوامی تحریک کی پوری تاریخ بھی اسی بات کا اظہار کرتی ہے، جس میں مارچ 2023ء کا پہلا مرحلہ اور خاص کر 24 جنوری کے بعد کا تحریک کا فیصلہ کن مرحلہ بھی شامل ہے۔ پارٹی نے اپنی صلاحیت کو مکمل طور پر دکھا دیا ہے کہ یہ ”زیادہ سے زیادہ“ غیر منظم احتجاجوں کی شروعات یا پھر کیمونسٹ پارٹی کے ٹریڈ یونین فرنٹ کی کنٹرول کردہ ٹریڈ یونینز کی جانب سے ایک نئی چوبیس گھنٹوں پر مشتمل عام ہڑتال کی کال دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس طرح کے احتجاج جمعے کے دن متحرک ہونے والی عوام کے ایک چھوٹے سے حصے کی حمایت اور شرکت کو ہی متحرک کر پائیں گے۔ لہٰذا وہ تحریک کے آگے بڑھنے کا نہیں بلکہ پسپا ہونے کا باعث بنیں گے۔
ٹریڈ یونین اور سیاسی قائدین کا اس طرح کا رویہ تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے ”استعفیٰ دو“ کے مطالبے پر عملدر آمد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ٹمپی سانحے کا شکار ہونے والوں کے رشتہ داروں کی ایسوسی ایشن اور خاص کر ایسوسی ایشن کی لڑاکا صدر ماریہ کرسٹیانوو (Maria Karystianou) کا کردار تحریک کو فوری طور پر آگے بڑھانے کے لیے فیصلہ کن کردار کا حامل بن چکا ہے۔
ایسوسی ایشن نے اپنے لڑاکا مؤقف کے سبب محنت کشوں اور نوجوانوں کی وسیع پرتوں میں اپنی بہترین ساکھ بنائی ہے، جس میں گزشتہ کئی سالوں میں دوالیہ پن کا شکار سوشل ڈیموکریٹک اور سٹالنسٹوں کی سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادتیں بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ صرف منافق فرقہ پرست یا ”دوست“ کے بھیس میں چھپے تحریک کے دشمن ہی اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں، یا پھر اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ یہ لوگ تحریک کو بڑھانے کے ”لڑاکا عمل“ کے منصوبے کے نام پر عوامی تحریک میں ایسوسی ایشن کے فیصلہ کن کردار کو خاطر میں ہی نہ لائیں۔
”ایسوسی ایشن کے بغیر ہی تحریک کو لڑاکا بنیادوں پر آگے بڑھانے“ کی سوچ (جس پر کیمونسٹ پارٹی کے ٹریڈ یونین فرنٹ اور بائیں بازو کی کچھ غیر پارلیمانی تنظیمیں عمل کرتی آئی ہیں) تحریک کو نقصان پہنچاتی ہے۔ کوئی بھی ٹریڈ یونین یا سیاسی تنظیم جو اس بات کا پرچار کرے گی، وہ عوام کے اندر اپنی پارٹی اور سیاست کے خلاف ایک رجعتی رد عمل کو پھیلانے کا باعث بنے گی۔ اس پالیسی کو بہت چالاکی سے حکومت اور حکمران طبقے کے تمام نمائندوں کی جانب سے عمل میں لایا جا رہا ہے۔
آج اگر یونان کی کیمونسٹ پارٹی کی قیادت واقعی انقلابی خصوصیات کی حامل ہوتی تو یہ اپنے زیر کنٹرول ٹریڈ یونینز اور طلبہ ایسوسی ایشنز کو متاثرین کے خاندانوں کی ایسوسی ایشن کے ہمراہ مشترکہ لائحہ عمل میں لا کر تحریک کے اس وقت کے مرکزی مطالبے کے حصول کے لیے تحریک کو آگے بڑھاتی۔ ایسی حکمت عملی کے ذریعے سانحے کا شکار ہونے والے بچوں کے ان دلیر اور جرأت مند والدین اور رشتہ داروں پر بھی واضح ہو جاتا کہ اس حکومت کے فوری خاتمے سے ہی ان کی یاد داشت میں موجود اذیت سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے، ایک ایسی حکومت جس نے ان متاثرین کے بچوں کے جلے ہوئے اعضاء کو چھپانے اور انہیں دھوکہ دینے کے لیے مافیائی طرز اپنانے اور اپنے جرم کو چھپانے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کی۔
اس سے تحریک میں موجود خود لواحقین اور محنت کش عوام و نوجوانوں دونوں کو بڑی سچائی اور وضاحت سے یہ سمجھ آ جائے گا کہ حکومت کے افسران چاہے وہ ریاست کے ہوں یا کمپنی کے، ان کو گھناؤنے جرم کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ”انصاف“ کا مطالبہ کرنا خود ایک سیاسی سوال ہے۔ یہ ایک سیاسی پروگرام پر عملدر آمد کا سوال ہے جس ذریعے سب سے زیادہ کلیدی اور مؤثر انداز میں ریلوے کی محفوظ اور عوامی سہولت کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ایسے پروگرام کے اندر محنت کشوں اور سماجی کنٹرول کے ماتحت ریلوے کی نیشنلائزیشن لازمی شامل ہو گی اور اس سے 28 فروری 2023ء جیسے سانحات کو ریاستی مافیا کے انداز میں دبانے اور چھپانے والے گلے سڑے ریاستی انتظام کو جڑوں سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے پروگرام پر مشتمل محنت کشوں کی ایک انقلابی حکومت ہی اس پر عملدر آمد کر سکتی ہے، جس کی محافظ ایک حقیقی انقلابی کیمونسٹ پارٹی ہو۔
بدقسمتی سے یونان کی کیمونسٹ پارٹی (KKE) کی قیادت ایسے انقلابی پروگرام کو اختیار کرنے کی متحمل نہیں ہے، گزشتہ پندرہ سالوں میں جنم لینے والی عظیم تحریکوں کے دوران بار ہا اس پارٹی نے اس بات کا واضح اظہار کیا ہے کہ یہ ایسی کسی تحریک سے جنم لینے والے ذمہ داریاں ادا نہیں کرنا چاہتی۔ اس پارٹی نے دکھا دیا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی گلی سڑی حاکمیت کے خلاف کوئی حقیقی جدوجہد کرنے کی خواہش نہیں رکھتی ہے۔
تاہم اس معروضی سیاسی حقیقت کا مطلب قطعاََ یہ نہیں ہے کہ محنت کش اور نوجوان اپنے ہاتھ باندھ کر بیٹھ جائیں اور تحریک کی جدوجہد کے آگے بڑھنے کو مقدر پر چھوڑ دیں۔ مزدور تحریک اور نوجوانوں میں موجود تمام لڑاکا قوتوں کو انتہائی منظم اور مربوط انداز میں کام کی ہر جگہ، محلے، سکول اور کالج تک فوری طور پر جدوجہد کو آگے بڑھانے کے مقصد کو پھیلا دینا چاہیے۔
ہم انقلابی کمیونسٹ، یونان کی گلی سڑی بورژوا حاکمیت کو اس کی بنیادوں تک ہلا دینے والی اس عوامی تحریک کے کلیدی محافظ کے طور پر تحریک کے ہمارے ہزاروں ساتھیوں کو مخاطب کریں اور انہیں درج ذیل نقاط کے لیے جدوجہد کرنے کی دعوت دیں:
1۔ نیو ڈیموکریسی کی حکومت مردہ باد! جو کہ ٹمپی پر ہونے والے جرم اور اسے مافیا کے انداز میں چھپانے کی ذمہ دار ہے۔ 28 فروری کی ریلیوں میں بلند ہونے والے ”استعفیٰ دو“ کے نعرے کو وسیع جدوجہد کے ذریعے عمل میں لایا جائے، جس کی ٹھوس بنیادی شرط عوام، محنت کشوں اور ملک کی ترقی پسندانہ بڑھوتری کے حق میں ہی ہو۔
2۔ ایک مزدور حکومت کا قیام جو کہ جرم میں ملوث تمام پارٹیوں کو سزا دے اور جو ریلوے کو محنت کشوں اور عوامی کنٹرول کے تحت ایک بار پھر نیشنلائز کرے، جو اس طرح کی مجرمانہ غفلت کی وجوہات کا احاطہ کر کے انہیں درست کرے اور ایک ”نئے ٹمپی“ سانحے کے رونما ہونے سے بچا جا سکے۔
3۔ محنت کش عوام کے مستقل جمہوری کنٹرول اور متحرک شرکت پر مبنی ایک نئی ریاستی طاقت کا قیام جو کہ ریاست کی جانب سے جرائم کو چھپانے کے بھیانک مظہر کے خاتمے کے لیے مکمل اور مستقل ضمانت فراہم کرے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم انقلابی کیمونسٹ، ہمارے ساتھ اس جدوجہد میں شامل ساتھیوں کے سامنے عوامی تحریک کی فتح کی جدوجہد کے لیے لائحہ عمل اور طریقہ کار کی مندرجہ ذیل تجاویز رکھتے ہیں کہ:
1۔ تحریک کو فوری طور پر آگے بڑھاتے ہوئے 48 گھنٹوں پر مشتمل ایک مکمل سیاسی عام ہڑتال کی کال دی جائے۔
2۔ پارلیمانی اپوزیشن کی ٹریڈ یونین یا سیاسی قیادت پر کسی قسم کا اطمینان یا اعتماد نہ کرو، یہ لوگ تحریک سے ہوا نکال کر اسے اپنے ہی پارلیمانی اور بیوروکریٹک مقاصد اور عزائم کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔
3۔ کام کی تمام جگہوں، گلی محلوں، سکولوں اور کالجوں میں عوامی اسمبلیوں کے ذریعے واپس بلائے جانے کے حق سمیت جدوجہد کی کمیٹیوں کا انتخاب کیا جائے، جو جدوجہد کے فوری پھیلاؤ اور تنظیم کاری کے ذریعے حتمی فتح کے لیے کاربند ہوں۔ ہر برانچ، گلی محلے، میونسپلٹی، شہر، خطے اور ملک گیر سطح پر متحد اور مشترکہ لڑاکا عمل کے لیے ان کے مابین وسیع ترین ممکنہ جڑت قائم کی جائے۔
آج کل نہ صرف ہر احتجاج کے سیاسی نعرے بلکہ موجودہ تمام متعلقہ رائے شماریاں بھی اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ یونان کے عوام کا مزاج اسٹیبلشمنٹ مخالف ہو چکا ہے، ہر لڑاکا انسان یا عوامی تحریک کے حامی شخص کو اس بات کا ادراک ہے کہ معاشرے کے مسائل گہرے اور اس نظام میں پیوست ہیں۔ اسی لیے ہم تحریک میں موجود اپنے تمام لڑاکا ساتھیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ انقلابی کیمونسٹ انٹرنیشنل کے یونانی سیکشن انقلابی کیمونسٹ آرگنائزیشن کے ممبر بنیں تاکہ ہمارے ساتھ مل کر ایک وسیع انقلابی پارٹی کی تعمیر کر سکیں، ایک عمل انگیز عنصر کی تعمیر کریں جو اگر آج موجود ہوتا تو یہ آگے بڑھتی ہوئی تحریک کی کامیابی کے مقصد کو اتنا سادہ اور آسان بنا دیتا جتنا کہ اس کا تاریخی پیمانہ متقاضی ہے۔