لاہور: سروسز ہسپتال میں فارغ التحصیل ڈاکٹرز کی حالت زار

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، لاہور|

سروسز ہسپتال کا شمار پنجاب کے بڑے ہسپتالوں میں ہوتا ہے جو اب صوبہ بھر میں شعبہ صحت کی دگرگوں حالت کی ایک عبرتناک مثال بنا ہوا ہے۔ حکمران مسلم لیگ ن کا تمام جھوٹ فریب ایک طرف لیکن حقائق کو جھٹلانا ناممکن ہے۔ رواں مالی سال میں پنجاب کے لیے شعبہ صحت کا بجٹ 540 ارب روپے مختص کیا گیا تھا یعنی اگر عوامی قوت کا اندازہ 13 کروڑ ہے تو صحت کی مد میں فی کس خرچہ 4 ہزار 153 روپے ہے۔ اس میں سے 410 ارب روپے صرف تنخواہوں، موجودہ سہولیات اور انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال کے لیے مختص ہے جبکہ دیگر مختلف اعلانات اور اسکیموں کے تحت اخراجات ہیں۔ سرسری نظر ڈال کر بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس قسم کے اخراجات سے صوبہ بھر کی غریب عوام کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ تو بن سکتا ہے لیکن ایک صحت مند زندگی اور بیماری میں معیاری علاج کی ضمانت ناممکن ہے۔

ایسے حالات میں شعبہ صحت کا عملہ بہتر روزگار کی امید میں تیزی سے ملک چھوڑ رہا ہے۔ پاکستان بیورو برائے نقل مکانی اور بیرون ملک روزگار کے مطابق صرف 2022ء میں 2 ہزار 500 ڈاکٹر ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ اسی طرح نرسنگ اور پیرامیڈیکل اسٹاف بھی تیزی سے ملک چھوڑ رہا ہے۔ ان میں سے اکثریت کی منزل مشرق وسطیٰ ہے جہاں تجربہ کار میڈیکل اسٹاف کی سب سے زیادہ کھپت جاری ہے۔ 2023ء میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق سالانہ نئے گریجویٹ ڈاکڑوں کا 40 فیصد بیرون ملک منتقل ہو جاتا ہے۔ یقینا نئے اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ ہوشرباء ہوں گے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا شعبہ صحت حکومتی اخراجات میں مسلسل کٹوتیوں، پرانی سہولیات کی تباہ حالی اور نئی کی عدم دستیابی کے باعث تجربہ کار اور نووارد عملہ دونوں کی تیزی سے بیرون ملک ہجرت وغیرہ کی موجودگی میں مکمل طور پر منہدم ہو چکا ہے۔

ان حالات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ معیشت، ٹیکنالوجی اور عمومی صنعتی اور زرعی پیداوار کو کسی قسم کی ترقی دینے سے قاصر ہے۔ اس کے ساتھ معیشت کی ساخت پراپرٹی منڈی میں سٹے بازی، کرپشن، اسمگلنگ وغیرہ غرض ہر کالے دھن سے لتھڑ چکی ہے۔ اس کیفیت میں حکمران طبقے کو ایک تعلیم یافتہ، جدید تکنیک سے لیس محنت کش طبقے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے شعبہ صحت اور تعلیم کو مکمل طور پر نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کر دیا گیا ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے اس کا علاج ہو جائے اور ملک کی بھاری اکثریت جس کی پیداواری قوت کو استعمال کیا ہی نہیں جا سکتا وہ بے شک ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے۔

سب سے زیادہ قابل رحم حالت شعبہ صحت کے اس عملے کی ہے جو غلطی سے پاکستان میں رک کر اپنی اور عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کا خواب دیکھ بیٹھتا ہے۔ اس میں ایک بڑی تعداد ان نوجوانوں کی ہے جو وسطی ایشیاء اور چین میں میڈیکل کالجز سے تعلیم یافتہ ہو کر ملک واپس پہنچتے ہیں۔ انہیں FMGs (فارن میڈیکل گریجویٹس) کہا جاتا ہے جو کسی ممتاز پہچان سے زیادہ اب ایک گالی بن چکا ہے۔ ان کی زندگیاں کس قدر اجیرن ہیں اس کا اندازہ سروسز ہسپتال میں موجود ہاؤس آفیسرز (چار یا پانچ سال کی ماہرانہ/ شعبہ جاتی ٹریننگ سے پہلے عمومی تربیت کا ایک سال کرنے والے ڈاکٹر) کی حالت زار سے لگایا جا سکتا ہے۔

ہسپتال میں تقریباً 200 ہاؤس آفیسر بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں جن میں تقریباً ساری تعداد FMGs کی ہے۔ یہ صورتحال پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔ ایک طرف حکومت نے اجازت دے رکھی ہے کہ کوئی بھی نوجوان بیرون ملک میڈیکل کی تعلیم حاصل کر سکتا ہے لیکن دوسری طرف واپسی پر اس کے ساتھ کسی یتیم سے زیادہ بھیانک رویہ رکھا جاتا ہے۔ انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ ان کی مقامی گریجویشن یا رجسٹریشن نہیں ہے اس لیے تنخواہ ملنا ان کا حق نہیں ہے۔ لیکن FMGs بیگار کرنے پر اس لیے مجبور ہیں کیونکہ رجسٹریشن سے لے کر مخصوص شعبہ جات میں ٹریننگ اور بیرون ملک نوکری کے لیے درخواست بھیجنے تک اور عملی زندگی میں ہر پہلا قدم رکھنے کے لیے ہاؤس جاب بنیادی شرط ہے۔ ان سے ہر دو سے تین دن بعد 36 گھنٹی بغیر بریک شدید کمر توڑ کام لیا جاتا ہے جس کے بعد مزید 8 گھنٹے وارڈ ڈیوٹی کر کے گھر جانے کی اجازت ملتی ہے۔ پینے کے صاف پانی سے لے کر اشیاء خورد و نوش اور رہائش تک کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ ڈاکٹر مجبور ہیں کہ ہسپتال کے پاس ہاسٹلوں میں کمرے لیں اور اپنے کھانے پینے کا خود انتظام کریں۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں جس سے خاص طور پر خواتین ڈاکٹرز سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ اگر ہاسٹل کے اوسط کمرے، ایک فرد کے روزانہ کھانے، سفری اور دیگر ماہانہ اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ تقریباً 60-70 ہزار روپے ماہانہ بنتا ہے۔ یہ ان پانچ سالوں کے اخراجات کے علاوہ ہے جو والدین نے بیرون ملک ڈگری حاصل کرنے کے لیے اپنی اولاد پر خرچ کر رکھا ہے۔

بیگار غلامی کرانے سے زیادہ بڑا ظلم یہ ہے کہ تمام FMGs اس وقت بغیر اپائنٹمنٹ لیٹر کام کر رہے ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ سے لے کر YDA (ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن) تک سب یہی لارا لگا رہے ہیں کہ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں لیٹر آ جائے گا فی الحال کام کرو۔ YDA نے تو یہاں تک دعویٰ کر رکھا ہے کہ ہم صرف آپ کے لیے سیکریٹریٹ سے نئی تنخواہ دار سیٹیں جاری کروا رہے ہیں! حقیقت یہ ہے کہ ہاؤس آفیسر کے بغیر ہسپتال کا کوئی ایک شعبہ فعال کام نہیں کر سکتا۔ شعبہ صحت کو منظم اور فعال رکھنے کے لیے جونیئر ڈاکٹرز میں ہاؤس آفیسر پہلا مرحلہ ہے۔ یہ ہاؤس آفیسرز اور جونیئر ڈاکٹرز ہی تھے جنہوں نے آج سے کئی سال پہلے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اہلکاروں کے ہولناک استحصال کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے YDA کی بنیاد رکھی تھی۔ اگرچہ آج YDA اپنے تاسیسی مشن اور امنگوں سے کوسوں دور کھڑی ہے۔

FMGsکی پاکستان میں رجسٹریشن کے لیے سال میں دو مرتبہ لائسنس امتحان بھی ہوتا ہے، اس امتحان کے دو مراحل ہیں اور ہر مرحلے کی فیس 20 ہزار روپے ہے جو بیروزگار ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹروں پر مزید ایک تباہ کن بوجھ ہے۔ ہاؤس آفیسرز دیوہیکل اخراجات کے بعد ڈاکٹر بن کر گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتے یا پھر گھر والوں کی سکت ہی نہیں رہتی کہ مزید اخراجات اٹھا سکیں۔ روزانہ دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لیے غیر تنخواہ دار ہاؤس افسران اپنے ہی سینیئر ڈاکٹروں کے نجی کلینکس اور ہسپتالوں میں شدید استحصال کا شکار ہیں جہاں انہیں مجبوراً انتہائی کم اجرت پر کام کرنا پڑنا ہے۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ ابھی تمہارا لائسنس امتحان پاس نہیں ہوا، تم رجسٹرڈ نہیں، ہاؤس آفیسر تو ویسے ہی نجی سیکٹر میں کام نہیں کر سکتا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن استحصال کرتے وقت سب باتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اگر ایک ہاؤس آفیسر جنگل کے قانون کے مطابق زندہ رہنے کی کشمکش سے بچ نکلتا ہے اور کسی طرح شعبہ جاتی تربیت کے مرحلے تک پہنچ جاتا ہے تو CIP (سنٹرل انڈکشن پالیسی) کا اژدہا نووارد کو نگلنے کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ فی الحال یہ مسئلہ زیر بحث نہیں لیکن جلد اس پر بھی ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہو گی۔

شعبہ صحت کے عملے اور محنت کش عوام کو درپیش ان گھمبیر مسائل کا حل کسی حکومت یا سیاسی پارٹی کے پاس موجود نہیں اور نہ ہی ان کی اس حوالے سے کوئی دلچسپی ہے۔ اس وقت ریاست IMF (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) کی طے کردہ پالیسی کے تحت قومی اثاثہ جات کی مکمل نجکاری کی پالیسی پر کاربند ہے جس کے تحت تمام ہسپتال، ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہسپتال، بنیادی صحت یونٹس وغیرہ بیچے جا رہے ہیں۔ شعبہ صحت کے محنت کشوں اور عوام کے لیے سب سے پہلے یہ ادراک حاصل کرنا ضروری ہے کہ ان کی جدوجہد صرف حکومت وقت کے خلاف نہیں بلکہ IMF کی انسان دشمن پالیسیوں کے خلاف بھی ہے۔ اگر ایسا کرنا کوئی معجزہ یا خیالی پلاؤ لگتا ہے تو YDA، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو اپنی تاریخ سے رجوع کرنا چاہیے جب تمام صوبوں میں شعبہ صحت کے ملازمین نے گرینڈ ہیلتھ الائنس کا ملک گیر پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا اور کئی مرتبہ حکومت کی نجکاری پالیسی کو منہ توڑ جواب دیا تھا۔ اس سلسلے کا پہلا قدم شعبے کی تمام یونینز کا ایک مرتبہ پھر اندرونی اتحاد اور باہمی جڑت ہے جس میں ہاؤس آفیسرز اور جونیئر ڈاکٹرز کا لڑاکا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ دیگر نجکاری کے شکار اداروں کے محنت کشوں اور خاص طور پر ایک عوام کے ساتھ رابطہ کاری پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں نجکاری، بیروزگاری اور شعبہ صحت کی بربادی کا متبادل پروگرام دیا جائے۔ یہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ شعبہ صحت کے لیے کم از کم 15-20 فیصد بجٹ مختص ہونا چاہیے جس کے تحت شعبہ صحت کو فوری طور پر از سر نو منظم کیا جائے تاکہ ملازمین اور عوام دونوں کے مسائل فوری طور پر حل ہوں۔ فوری درپش مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کے دوران مکمل تصویر ذہن سے اوجھل نہ ہو تو جدوجہد اور طریقہ کار دونوں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی (RCP) کا سیاسی، معاشی اور سماجی پروگرام مکمل طور پر محنت کشوں، کسانوں، نوجوانوں اور مظلوم اقلیتوں کے مسائل اور ان کے حل سے ہم آہنگ ہے۔ اس حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ اب پرانے روایتی ”غیر سیاسی“ طریقہ کار کے ساتھ جدوجہد کرنے کا وقت گزر چکا ہے اور اب ہر مطالبہ اپنی اصل میں ایک سیاسی مطالبہ بن چکا ہے۔ اگر شعبہ صحت کے نوجوان اپنے مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے عوام کے ساتھ جڑت بنانے کی جانب بڑھتے ہیں تو دیگر معاشی سیکٹروں کو درپیش مسائل کے شکار محنت کشوں کے ساتھ اتحاد کا ایک ایسا راستہ کھل سکتا ہے جس سے ملک کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو درپیش عمومی مسائل کو تیزی کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے محنت کشوں اور نوجوانوں کو RCP کی معاونت ہر سطح پر حاصل ہو گی اور اگر آپ اس جدوجہد میں عملی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو RCP آپ کو شمولیت کی دعوت دیتی ہے۔

Comments are closed.