حکومت کی کسان دشمنی اور گندم کی کم ہوتی کاشت

پچھلے سیزن میں چودہ ہزار روپے فی تھیلا والی ڈی اے پی، پینتالیس سو روپے فی تھیلا والی یوریا، دو اسپرے، دو ہزار سے پانچ ہزار روپے فی گھنٹہ پانی لگانے کے بعد کسان نے جو گندم اگائی اس کی صورتحال یہ تھی کہ کسان کو اٹھائیس سو روپے کے لگ بھگ بیچنی پڑی اور بیوپاریوں اور فلور ملز نے دونوں ہاتھوں سے کسان کو لوٹا اور جب قیمت بڑھانے کے لیے احتجاج ہوئے تو کسان دشمن مریم نواز نے بیچارے کسانوں کو مافیا کہا اور ان پر تشدد کرایا۔

محتاط اندازوں کے مطابق کسانوں کو ایک ٹریلین روپے کا نقصان سہنا پڑا۔ یہ تھا پچھلے سال کی گندم کا انتہائی مختصر سا احوال۔

اس سال جب گندم کی کاشت کا موسم آیا تو وہی مافیا کی بکواس کرنے والی وزیراعلیٰ میڈیا کے ذریعے کسانوں سے اپیل کرنے لگی کہ گندم اگائیں اور پچیس ہزار ٹریکٹر، سولر پینلز وغیرہ جیسی اسکیمیں متعارف کروائیں تاکہ کسانوں کو گندم اگانے کا لالچ دیا جاسکے۔ اگلے ماہ کے آخر میں گندم کی کٹائی شروع ہونے والی ہے تو یہ سوال ہر ایک کسان کے ذہن میں ابھر رہا ہے کہ اس سال گندم کا ریٹ کیا ہو گا؟

حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سال گندم کی کاشت کم نہیں ہوئی بلکہ ہماری شاندار پالیسیوں کے نتیجے میں گزشتہ سال سے صرف ایک فی صد کم رقبے پر کسانوں نے گندم کاشت کی ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ ہمیشہ سے ہی کاشت کے یہ اعداد وشمار اے سی والے بند کمروں میں بیٹھ کر ترتیب دیے جاتے ہیں اور اس سال بھی حکومت کے پریشر کے سبب یہ جھوٹے اعداد وشمار بنائے گئے ہیں۔

اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ پنجاب سیڈ کارپوریشن کے ایک عہدیدار نے ہمیں بتایا کہ گزشتہ سال کی بیج کی فروخت کے مقابلے میں اس سال کم از کم تیس فی صد کم بیج فروخت ہوا ہے اور جب کاشت شدہ رقبے کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے انتہائی محتاط اندازے کے مطابق بھی گندم کی کاشت بیس سے تیس فی صد کم ہوئی ہے جبکہ سچ یہی ہے کہ کاشت اس سے بھی کہیں زیادہ کم ہے۔

ایک طرف تو کل پیداوار کم ہوگی تو دوسری طرف ناقص بیج، کھاد، ڈیزل اور اسپرے کی کسان کی پہنچ سے باہر ہوئی قیمتوں کے سبب فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہوگی۔ اور یہ کم پیداوار ملک میں فصل کٹنے کے چند ماہ بعد ایک نئے بحران کو جنم دے گی جس کے لیے حکومت کو پھر سے مہنگے داموں گندم امپورٹ کرنی پڑے گی۔

اب اگر بات کریں قیمت کی تو اس کا قصہ یوں ہے کہ گزشتہ برس پنجاب حکومت نے انتالیس سو روپے فی من بیس پرائس مقرر کی تھی اور خریداری نہیں کی۔ اس سال بیس پرائس ہی اٹھائیس سو مقرر کی ہے اور اس سال بھی پنجاب حکومت کا خریداری کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور پاسکو کی بھی نجکاری کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسان پھر سے آڑھتیوں اور ملوں کے شکنجوں میں پھنس جائے گا اور وہ انتہائی سستے داموں اس سے گندم خرید کریں گے اور پھر گدھوں کی طرح انتظار کریں گے کہ بحران پیدا ہو تے ہی قیمت میں اضافہ کرکے اپنے منافعوں میں مزید اضافہ کر سکیں۔ اور یہ ممکن ہے کہ اگلے موسم سرما میں گندم کی قیمت پانچ ہزار کے لگ بھگ جاپہنچے۔

یہاں ہمیں یہ دلیل بھی سننے کو ملتی ہے کہ اگر گندم کی قیمت چار ہزار روپے فی من یا اس سے زیادہ مقرر کی جائے تو شہری آبادی کے لیے روٹی کا حصول مشکل ہوجائے گا۔ مگر اس سوال کی آڑ میں جہاں کسان کو لالچی کہا جارہا ہوتا ہے وہیں حکومت کی نااہلی بھی چھپائی جارہی ہوتی ہے۔ اگر کھاد کی، ڈیزل کی، اسپرے کی، بجلی کی قیمت بڑھ رہی ہے تو گندم کی بیس پرائس کم مقرر کرکے کسان کا قتل کیوں کیا جارہا ہے؟

اگر گندم سستی کرنی ہے تو کھاد سستی کرو، اور باقی ان پٹس سستی کرو، گندم کی قیمت خود بخود کم ہو جائے گی اور کسان کو بھی نقصان نہیں ہوگا مگر یہ سرمایہ داروں کی حکومت سرمایہ داروں کے منافعوں پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہے بلکہ اس کو اور بڑھائے گی چاہے اسے کسان کے جسم سے لباس ہی کیوں نہ اتار پھینکنا پڑے اور وہ ایسا آسانی سے اس لیے کر پارہی ہے کیونکہ کسانوں کا کوئی منظم پلیٹ فارم ہی موجود نہیں ہے۔

اگر کسانوں کو اپنی محنت کی لوٹ مار کو روکنا ہے تو انہیں منظم ہونا ہوگا اور منظم ہوکر سرمائے کا تحفظ کرنے والی اس حکومت سمیت اس نظام کے خاتمے کا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا تاکہ زراعت کو بچایا جاسکے، کسان کو بچایا جاسکے۔

Comments are closed.