|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، لاہور|
گزشتہ مہینے خانیوال کے ایک سرکاری ہسپتال میں چلڈرن وارڈ میں تین بچوں کی مبینہ طور پر غلط انجکشن لگنے سے موت واقع ہو گئی اور ان بچوں کی موت کے الزام میں انجکشن لگانے والی اقصیٰ نامی نرس کو گرفتار کر لیا گیا۔ نرس کی گرفتاری کے بعد پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں نرسوں نے احتجاجوں کا آغاز کیا۔ ان احتجاجوں میں نرسوں نے اقصیٰ کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کیا اور اس کی رہائی ہونے تک احتجاجی سلسلے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
خانیوال کے واقعہ سے چند روز پہلے ساہیوال کے ٹیچنگ ہسپتال میں بھی چلڈرن وارڈ میں آگ لگنے کی خبر سامنے آئی جس میں گیارہ بچوں کی موت واقع ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد ٹک ٹاکر وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ہسپتال کا دورہ کیا اور اپنی مخصوص شعبدے بازی دکھاتے ہوئے محض مشہوری کی خاطر ہسپتال کے پرنسپل، ایم ایس وغیرہ کو گرفتار کروایا گیا۔ لیکن اس تمام صورتحال میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ واقعات اس وقت رونما ہوئے ہیں جب حکومت پنجاب بھر کے ہسپتالوں کی نجکاری کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔
خانیوال اور ساہیوال کے واقعات سے چند ماہ پہلے گجرات میں عزیز بھٹی ہسپتال کے سرجیکل وارڈ کی چھت گر گئی تھی جس کے نتیجے میں کئی مریض ملبے تلے دب گئے تھے۔ اس طرح کے واقعات کو جواز بناتے ہوئے حکومت ہسپتالوں کی نجکاری کے عمل کو تیز تر کرنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ ہسپتالوں میں ایسے تمام واقعات کے اصل ذمہ دار عام ڈاکٹر، پیرامیڈکس اور نرسیں نہیں ہیں۔ بلکہ اس کی اصل ذمہ دار ریاست، حکومت اور محکمہ صحت کی افسر شاہی ہے۔ اس کے بعد اگر اس کی ذمہ داری کسی پر آتی ہے تو وہ ہسپتال کے سی ای او، پرنسپل اور ہسپتالوں کی انتظامیہ ہے۔
ہسپتال میں جو بھی ادویات آتی ہیں اس میں محکمہ صحت کے وزراء اور افسر شاہی کے ساتھ ساتھ ہسپتال کی انتظامیہ، جس میں ہسپتال کے سی ای او، پرنسپل اور ایم ایس شامل ہیں، کی منظوری بھی شامل ہوتی ہے۔ ہسپتالوں میں بیٹھے ڈین، سی ای او، ایم ایس، پرنسپل اور سینئر ڈاکٹر حضرات بھی حکومت کی کٹھ پتلی ہونے کا مکمل کردار ادا کرتے ہیں جو حکومت کو نجکاری کرنے اور ہسپتال کے عملے میں پھوٹ ڈالنے کے نئے نئے طریقے بتاتے رہتے ہیں اور کسی حادثے کی صورت میں اگر وقتی طور پر زیر حراست آ بھی جائیں لیکن بعد ازاں انہی افسران کو کوئی نہ کوئی بڑا عہدہ چاپلوسی اور دلالی کے انعام کے طور پر مل جاتا ہے۔
لیکن سب سے بڑھ عوام کی صحت کو اپنی ترجیحات کی فہرست میں سب سے نچلے نمبر پر رکھنے والی یہ سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کی حکومت ان واقعات کی ذمہ دار ہے۔ جس نے پچھلے دسیوں سالوں سے نہ تو پاکستان میں کوئی خاص نئے سرکاری ہسپتال بنائے ہیں اور نہ ہی نرسوں، پیرامیڈکس اور ڈاکٹروں کی کوئی نئی بھرتیاں کی گئی ہیں۔ ساہیوال کے ٹیچنگ ہسپتال میں بجلی کے کام کی مرمت کروائی جاتی (کیونکہ آگ شارٹ سرکٹ سے لگی تھی) تو وہ حادثہ کبھی پیش نہ آتا اور گیارہ بچوں کو مرنے سے بچایا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اگر خانیوال کے ٹیچنگ ہسپتال میں معیاری ادویات میسر ہوتیں تو ان تین بچوں کی موت بھی واقع نہیں ہوتی۔
پاکستان میں آنے والی ہر حکومت کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ کسی بھی عوامی ادارے کو بیچنے سے پہلے اس ادارے اور وہاں کے عملے کو عوام میں مکمل طور پر بدنام کر دیا جائے تاکہ جب اس ادارے کو بیچا جائے تو عوام کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ متعلقہ ادارے کا عملہ اگر مزاحمت کرے بھی تو اسے عوام کی ہمدردیاں اور حمایت حاصل نہ ہوں۔ جس سے ادارے کی نجکاری کا عمل آسان بنایا جا سکے۔ اس بار بھی ہم نے یہی دیکھا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اپنے طبقے کے نظریات کو بروئے کار لاتے ہوئے خانیوال اور ساہیوال جیسے واقعات کا استعمال کر کے عوام کے اندر سے عام ڈاکٹروں، پیرامیڈکس اور نرسوں کو بری طرح بدنام کیا اور اس بات کو پھیلایا گیا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری ہونا ہی بہتر ہے۔ ان حالات میں حکومت سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کا راستہ بالکل صاف کر رہی ہے اور یہ ہسپتالوں میں کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی بہت بڑا حملہ ہے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی خانیوال، ساہیوال اور اس نوعیت کے تمام واقعات کی پُر زور مذمت کرتی ہے اور پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں کے تمام محنت کشوں و ملازمین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ انہیں حکومت کے تمام مذموم اور عوام دشمن اقدامات کا سامنا کرنے اور نجکاری کے حملے کو روکنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام مطالبات کو منوانے کے لیے عوام کی ہمدردیاں جیتنی ہوں گی۔ خانیوال اور ساہیوال والے واقعات پہ مریم نواز شریف نے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ہیلتھ کے شعبے پہ اربوں روپے خرچ کرتی ہے، کروڑوں کی مشینیں، ادویات مہیا کرتی ہے۔
مریم نواز شریف کا یہ بیان سراسر بکواس ہے۔ آج سرکاری ہسپتال میں علاج کے لیے جانے والا کوئی بھی انسان اس بیان کی حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہے، جس کو سرکاری ہسپتال میں علاج کے لیے نہ کوئی جدید مشینری نظر آتی ہے، نہ معیاری ادویات ملتی ہیں اور عملے کی قلت کے باعث لائنوں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہسپتالوں میں کسی بھی انسان کی موت اگر معیاری ادویات کی عدم دستیابی، جدید مشینری کی عدم دستیابی یا عملے کی قلت کے باعث ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار کوئی عام ڈاکٹر، پیرامیڈکس یا نرس نہیں بلکہ ریاست، حکومت، وزارت صحت، افسر شاہی، حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں، ہسپتال کی انتظامیہ، پرنسپل اور سی ای او وغیرہ ہیں۔
ان واقعات سے ایک اور چیز بھی واضح ہوتی ہے کہ حکومت اور اس کے پٹھو اپنے غلیظ ارادوں کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ انہیں مریضوں کی جان جانے، ان کی موت واقع ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کی دلالی کرنے اور قرضوں کی اگلی قسط حاصل کرنے کے لیے انہیں کسی انسان کی جان لینی پڑے تو یہ اس سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
یہ در حقیقت اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی اور محنت کش طبقے سے دشمنی کا ہی اظہار ہے۔ اس نظام کی غلاظت ختم کرنے کے لیے اس نظام کو ہی جڑ سے ختم کرنا پڑے گا۔ ینگ ڈاکٹروں، پیرامیڈکس اور نرسوں کو اپنے مطالبات پر مشتمل ایک لیف لیٹ تیار کرنا ہو گا اور اس میں اپنے دیگر مطالبات کے ساتھ وہ مطالبات بھی شامل کرنے ہوں گے جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔ یعنی کہ صحت کے بجٹ میں کم از کم پانچ گنا اضافہ، ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے مفت اور معیاری علاج کی فراہمی، جدید مشینری کی فراہمی، نئے میڈیکل سٹاف کی بھرتی اور عوام کی ضرورت کے مطابق ہر شہر میں نئے سرکاری ہسپتالوں کی تعمیر وغیرہ۔
مزید برآں اس لیف لیٹ کو ہسپتال میں آنے والے ہر مریض اور اس کے لواحقین تک پہنچانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ صحت کے محنت کشوں کو نجکاری کے نشانے پر موجود دیگر تمام عوامی اداروں جیسے کہ سرکاری سکولز، واپڈا، ریلوے، پی آئی اے وغیرہ کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ نجکاری مخالف تحریک شروع کرنا ہو گی۔ صرف محنت کش طبقے کی اس طبقاتی جڑت کے ذریعے ہی نجکاری کے اس خونی وار کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔