|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|
پاکستان شدید معاشی بحران میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے اور اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر منتقل کیا جارہا ہے۔ پچھلے دو سال سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے احکامات پر ملک بھر کے مزدوروں، سرکاری ملازمین، کسانوں، نوجوانوں اور عام عوام کو معاشی طور پر برباد کیا جا چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایما پر تعلیم، صحت، واپڈا، ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے اہم عوامی اداروں کی نجکاری کی پالیسی پر تیزی سے عمل ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف صرف عام عوام سے رہی سہی عوامی سہولیات چھینی جا رہی ہیں تو دوسری طرف ان اداروں کے مزدوروں کو بے روزگاری کے عذاب میں دھکیلا جارہا ہے۔ اسی طرح ملک بھر کے سرکاری ملازمین سے پنشن کے بنیادی حق کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ نہ کر کے ملازمین کی بقاء کو انتہائی سنجیدہ خطرات لاحق کر دیے ہیں۔ سب سے بڑھ کر کرونا وبا میں بھی تمام تر بحران محنت کش طبقے پر منتقل کیا گیا۔
ان تمام تر ظالمانہ حملوں کے خلاف پاکستان بھر کا محنت کش طبقہ پچھلے دو سالوں سے نئے اتحاد تشکیل دے کر احتجاجی تحریکوں کا آغاز کر چکا ہے۔ پچھلے سال اکتوبر سے لے کر رواں سال فروری کے ماہ تک کئی احتجاجی تحریکیں بنیں۔ ان تمام احتجاجوں میں آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) کا 10 فروری کا دھرنا قابل ذکر ہے جس نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور ملازمین کی عظیم الشان جدوجہد کے نتیجے میں ان کے مطالبات کو تسلیم کروایا جن میں 25 فیصد تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن وفاقی ملازمین کو دیا گیا جبکہ صوبائی ملازمین کے حوالے سے اس فیصلے پر عمل درآمد کیلئے صوبوں کو ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
اس کے بعد صوبائی حکومتوں نے مذاکراتی کمیٹیوں کے نام پر ملازمین کے ساتھ آنکھ مچولی کا آغاز کیا۔ بلوچستان کے ملازمین نے صوبائی حکومت کے ساتھ کئی ناکام مذاکرات کے بعد 29 مارچ سے احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا جو 9 اپریل کو بلوچستان ہائی کورٹ کی طرف سے مطالبات تسلیم ہونے کی یقین دہانی پر ختم کیا گیا۔ ہائی کورٹ نے حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے ملازمین کے دھرنے کو غیر قانونی قرار دیا اور اس کو ختم کرنے کا حکم جاری کیا جس کے دباؤ میں آکر قیادت نے گیارہ روز بعد دھرنا ختم کردیا۔ جبکہ دوسری طرف خیبر پختونخواہ کے ملازمین نے مارچ کے مہینے میں کئی بار مذاکرات کی ناکامی کے نتیجے میں 6 اپریل کو حکومتی فریب اور تاخیری حربوں کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا۔
پانچ روز سے سرکاری ملازمین کی مختلف تنظیموں کا پشاور شہر میں صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا تا حال جاری ہے۔ حکومت نے جہاں ایک طرف ان کے مطالبات ماننے سے انکار کیا ہے وہیں دوسری طرف ملازمین کے اتحاد اور طاقت کو توڑنے کے لیے مختلف مذاکراتی ہتھکنڈوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ملازمین کے دھرنے کو ناکام بنانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ اس احتجاجی دھرنے میں شامل آل پاکستان کلرک ایسوسی ایشن کے ساتھ ساتھ دیگر کئی سرکاری ملازمین کی تنظیموں کو حکومت کی جانب سے مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور پولیس کے ذریعے دھرنا ختم کروانے کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ دھرنے کے دوسرے دن پولیس کے ذریعے دھرنے کے قائدین پر حملہ کروایا گیا جس میں کئی قائدین کے ساتھ ساتھ ملازمین کو بھی بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا جنہیں بعد میں ملازمین کے شدید ردعمل کے نتیجے میں دوبارہ رہا کرنا پڑا۔ جبکہ دھرنے کے تیسرے دن پھر سے دھرنے کے تقریباً 13 قائدین پر جھوٹی ایف آئی آر کاٹی گئیں جس کے خلاف ملازمین نے سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ ابھی تک دھرنہ اسی طرح جاری ہے اور حکومت و ملازمین کے درمیان مزاکراتی ڈیڈلاک برقرار ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ حکومت کے ان تمام ظالمانہ ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملازمین کے مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے اور ان کی اس جدوجہد میں شروع دن سے لے کر اب تک عملی طور پر شریک رہا ہے۔ یہ مزدوروں کی حقوق کی لڑائی ہے جس کی ریڈ ورکرز فرنٹ ہر وقت اور ہر میدان میں مکمل طور پر حمایت کرے گا اور جب بھی ملازمین اپنے حق کے لیے سراپا احتجاج ہوں گے ریڈ ورکرز فرنٹ ان کے کندھے سے کندھا ملائے ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
مزدور اتحاد زندہ باد!
جدوجہد زندہ باد!