|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، اسلام آباد|
10 فروری کو آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کی کال پر ملک بھر سے مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں سرکاری ملازمین و محنت کش پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا دینے کے لئے اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے۔ مظاہرین کے بنیادی مطالبات میں تنخواہوں میں اضافہ اور تفریق کا خاتمہ، سکیل اپ گریڈیشن اورسروس سٹرکچر کا اجرا وغیرہ شامل تھے، جن کے لئے وہ پچھلے 8 ماہ سے وقتاً فوقتاً سراپا احتجاج رہے تھے اور اس سے قبل 6 اکتوبر 2020ء کو بھی پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کر چکے تھے، جو تقریباً 20 ہزار ملازمین و محنت کشوں کی شرکت کے ساتھ پچھلی دو دہائیوں کا سب سے بڑا مزدور اکٹھ تھا۔
6اکتوبر کے احتجاج کو روکنے کے لئے بھی حکومت نے ریاستی جبر اور اوچھے ہتھکنڈوں کا بھرپور استعمال کیا تھا لیکن اس مرتبہ تو حکمرانوں نے ریاستی غنڈہ گردی کی انتہا کر دی۔ احتجاجی دھرنے سے دو روز قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے اگیگا کے قائدین کو کھلے عام دھمکیاں دیں اور احتجاج کو بزور طاقت کچلنے کا عندیہ دیا۔ 9 اور 10 فروری کی درمیانی رات کو اچانک چھاپہ مار کر اگیگا کے مرکزی قائد رحمان باجوہ کو کئی ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن ان سب بزدلانہ ریاستی ہتھکنڈوں کا الٹا اثر ہوا اور ملک کے طول و عرض سے ہزاروں کی تعداد میں محنت کش اپنا حق لینے اسلام آباد کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھتے ہوئے حکومت نے جی ٹی روڈ اور موٹر ویز بند کر دیں۔ اسلام آباد میں داخلے کے تمام راستے سیل کر دیے گئے۔ مختلف علاقائی و صوبائی قائدین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسلام آباد میں وفاقی سیکریٹریٹ اور دیگر سرکاری محکموں کو سیل کر کے وہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔ مگر ان تمام تر رکاوٹوں اور جبر وتشدد کے باوجود تقریباً 10 ہزار محنت کش اسلام آباد میں اکٹھے ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ جب مظاہرین نے پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف پیش قدمی شروع کی تو وہاں پر تعینات پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے اندھا دھند آنسو گیس کی شیلنگ شروع کر دی جو کہ کئی گھنٹے جاری رہی۔ شائد پاکستان کی پوری تاریخ میں کسی ایک احتجاج پر اتنی آنسو گیس نہیں پھینکی گئی جتنی 10 فروری کو اس عوام دشمن سامراجی گماشتہ حکومت نے ان محنت کشوں پر پھینکی۔ پورا علاقہ کئی گھنٹوں تک دھوئیں کے گہرے بادلوں کی لپیٹ میں رہا اور محنت کشوں کے ساتھ ساتھ علاقے کے رہائشیوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شیلنگ اتنی شدید تھی کہ پولیس خود بھی اس سے متاثر ہوئی اور ایک پولیس کانسٹیبل کی موت بھی واقع ہوئی۔ اس کے علاوہ لاٹھی چارج اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن یہ تمام تر ریاستی جبر ملازمین و محنت کشوں کے حوصلے توڑنے میں مکمل طور پر ناکام رہا اور وہ میدان میں ڈٹے رہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اپنے کئی مرکزی قائدین کے گرفتار، زخمی اور شدید شیلنگ کی وجہ سے تتر بتر ہو جانے کے بعد عام محنت کشوں نے خود آگے بڑھ کر احتجاج کی قیادت سنبھالی اور برستے شیلز کے سامنے سینہ تان کر کھڑے رہے۔ بالآخر محنت کشوں کی جرات و ہمت کے سامنے حکومت کی بس ہو گئی اور جابر ریاستی مشینری کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ محنت کشوں نے ڈی چوک پر ڈیرا جما لیا اور حکومت اور آئی ایم ایف کے خلاف زبردست نعرے بازی شروع ہو گئی جو پھر مسلسل جاری رہی۔ بالآخر حکومت کو رات گئے رحمان باجوہ سمیت دیگر گرفتار قائدین کو رہا کرنا پڑا اور اگلے روز فیصلہ کن مذاکرات کا آغاز ہواجبکہ اس تمام عرصے میں ملازمین و محنت کش مسلسل ڈی چوک پر موجود رہے۔
واضح رہے کہ اس تمام تر ریاستی جبر سے قبل حکومت نے اس احتجاج کو رکوانے اور اگیگا کو توڑنے کے لئے ہر طرح کی سازشیں بھی رچائیں۔ کبھی بار بار سنجیدہ مذاکرات کا جھانسا دیا گیا تو کبھی نام و نمود اور اپنی دکانداری چمکانے کی خواہش رکھنے والے بعض لیڈروں کو استعمال کر کے مزدور اتحاد میں پھوٹ ڈلوانے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔ فیڈرل گرینڈ ہیلتھ الائنس پمز ہسپتال، جو وفاقی ایم ٹی آئی ایکٹ کے خلاف 71 روز سے سراپا احتجاج تھا، کواگیگا کے احتجاج کا حصہ بننے سے روکنے کے لئے 9 فروری کو حکومت کی جانب سے بھاگم بھاگ اس ایکٹ میں سروس رولز کے حوالے سے بعض مطالبات تسلیم کرنے کا زبانی اعلان کیا گیاجسے انتہائی موقع پرستی اور عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جی ایچ اے کی قیادت نے تسلیم کر لیا اور اپنے آپ کو اگیگا احتجاج میں محض علامتی شرکت تک محدود کر لیا حالانکہ وفاقی ایم ٹی آئی ایکٹ کا خاتمہ فگیگا (اگیگا کا فیڈرل ملازمین پر مشتمل حصہ) کے بنیادی مطالبات میں شامل تھا اور واضح نظر آ رہا تھا کہ حکمران ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اسی طرح احتجاج کے دوران بھی شیلنگ ختم ہونے کے بعد مرکزی قائدین کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھا کر اگیگا میں شامل بعض دائیں بازو کے رجعتی عناصر نے اپنے روایتی طریقہ وار دات کے تحت موبائل سٹیج پر قبضہ کر لیا اور اپنے بینر آویزاں کر کے احتجاج کو اپنا مخصوص رنگ دینے کی کوشش کی لیکن انہیں محنت کشوں کی جانب سے ذرا بھی پذیرائی نہیں ملی اور وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ جبکہ ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان ریاستی رکاوٹیں عبور کرنے سے لے کر آنسو گیس کی شدید شیلنگ تک، احتجاج کے ہر ایک مرحلے میں محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور اپنی دلائل سے بھرپور تقاریر، پر جوش نعرے بازی اور صف اول میں کھڑے رہنے کی جرات کے باعث محنت کشوں کی بھرپور توجہ، محبت اور پذیرائی کا مرکز بنے رہے۔
اس احتجاج کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس نے پورے ملک کے محنت کشوں و ملازمین کی توجہ و حمایت حاصل کر لی اور جب اسلام آباد میں محنت کشوں پر شیلنگ ہوئی تو پورے ملک کے محنت کش طبقے میں غم وغصے کی ایک لہر دوڑ گئی اورکئی مزدور تنظیموں، ٹریڈ یونینز اور مزدور اتحادوں نے اپنی گروہی تنگ نظری و فرقہ پروری سے بالاتر ہو کر 11 فروری کو اس ریاستی جبر کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی کال دی۔ اس سلسلے میں لاہور میں ریل مزدور اتحاد کے زیر اہتمام ہونے والا احتجاجی مظاہرہ، لاہور اور کوئٹہ میں واپڈا ہائیڈرو یونین کے تحت ہونے والے احتجاج، کراچی یونیورسٹی اور کوئٹہ میں سکول اساتذہ کی طرف سے ہونے والے احتجاجی مظاہرے اور پشاور میں آل گورنمنٹ ایمپلائز کو آرڈینیشن کونسل خیبر پختونخواہ کی جانب سے ہونے والا احتجاج اور قلم چھوڑ ہڑتال اہم ہیں۔
11 فروری کو حکومتی کمیٹی اور اگیگا قائدین کے مابین ہونے والے فائنل مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والا معاہدہ بلاشبہ پورے ملک کے ملازمین و محنت کشوں کی جیت ہے اورمزدور تحریک کی ایک اہم کامیابی ہے۔ معاہدے کے تحت حکومت نے گریڈ 1 سے 19 کے وفاقی ملازمین (صرف وہ وفاقی ملازمین جو پہلے ہی اپنی بنیادی تنخواہ کے 100 فیصد یا اس سے زائد کے برابر کوئی اضافی الاؤنس نہیں لے رہے) کی تنخواہوں میں 2017ء کی بنیادی تنخواہ کے 25 فیصد کے برابر ایڈہاک ریلیف اضافہ کرنے کی منظوری دی ہے جس کا اطلاق یکم مارچ سے ہو گا۔ یہاں پر حکومت نے 18 ویں ترمیم کی آڑ لے کرصوبائی ملازمین کی تنخواہ براہ راست بڑھانے سے معذوری کا اظہار کیا لیکن معاہدے میں صوبائی حکومتوں کو اس معاملے میں وفاق کی پیروی کرنے کی تلقین ضرور کی گئی ہے۔ اسی طرح معاہدے کے مطابق اگلے وفاقی بجٹ میں اس ایڈہاک ریلیف الاؤنس کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنے کے متعلق بھی غور کیا جائے گا۔ اسی طرح اگلے مالی سال میں وفاقی ملازمین کو ٹائم سکیل بیسڈ سروس سٹرکچر دینے پر بھی غور کیا جائے گا اور صوبوں کو بھی اس بارے میں تلقین کی جائے گی۔ معاہدے کے تحت سکیل ایک سے سولہ تک کے وفاقی ملازمین کی خیبر پختونخواہ کی طرز پر سکیل اپ گریڈیشن کی منظوری دے دی گئی ہے۔ ایک دیرینہ مسئلہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا تھا جن کے سروس سٹرکچر اور اپ گریڈیشن کے بارے میں 2019ء میں طے شدہ معاہدے کے تحت نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ہدایات کر دی گئی ہیں۔ بلاشبہ اس معاہدے سے ہر کوئی مطمئن نہیں ہے اور کئی جگہوں سے یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ محنت کشوں نے جتنی بے جگری سے ریاستی جبر کا مقابلہ کیا تو لازم تھا کہ اس سے بہتر معاہدہ کیا جاتا۔ یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے لیکن آئی ایم ایف کے گماشتہ حکمرانوں کی طرف سے جاری پے در پے معاشی حملوں اور کھلے جبر کے ماحول میں یہ مزدور تحریک کی پہلی بڑی کامیابی ہے۔ مزید برآں یہ ایک لمبی لڑائی کا آغاز ہے، نہ کہ اس کا اختتام اور اگر اس نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھا جائے تو آئی ایم ایف اور اس کے گماشتہ حکمرانوں کے دانت کھٹے کر کے طے پانے والا یہ معاہدہ بلاشبہ ایک انتہائی حوصلہ افزا پیش رفت ہے جو مستقبل میں اس سے بھی بڑی کامیابیوں کی بنیاد بنے گی۔ لیکن دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کو شارٹ ٹرم میں بھی تیاری رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا مقابلہ ایک انتہائی جھوٹی اور یو ٹرن لینے کی ماہر سامراجی گماشتہ حکومت سے ہے اور غالب امکانات ہیں کہ اگیگا کو عنقریب صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے اور دیگر معاملات پر عمل درآمد کروانے کے لئے ایک اور احتجاج کی کال دینا پڑے گی۔
مزید برآں اب وقت ہے کہ اگیگا اپنی داخلی کمزوریوں پر توجہ دے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرے۔ اس حوالے سے ہر سطح پر مضبوط تنظیم کاری کرنے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ فی الحال اگیگا اس معاملے میں اتنی کمزور ہے کہ اس کا کوئی مرکزی ترجمان تو دور کی بات، ملازمین و محنت کشوں کو معلومات کی بلا تعطل فراہمی کے لئے کوئی مرکزی سوشل میڈیا پیج تک نہیں ہے۔ اسی طرح اگیگا کو اپنے مطالبات کے پروگرام کا دائرہ وسیع کرنے اور خصوصاً عوامی اداروں کی نجکاری و جبری برطرفیوں کے خاتمے کو اس میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ محدود پیمانے (وفاقی ایم ٹی آئی ایکٹ اور آئیسکو کی نجکاری کا خاتمہ) پر نجکاری مخالف مطالبات فگیگا (اگیگا کا فیڈرل حصہ) کے پروگرام میں شامل ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلاتے ہوئے انہیں اگیگا کے عمومی مطالبات کا حصہ بنایا جائے اور اولین ترجیح کے طور پر ان کے لئے جدوجہد کی جائے۔ ہماری رائے میں اگیگا کی جانب سے 15 فروری کو واپڈا کی نجکاری کے خلاف آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین کے اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج، جس میں عمومی نجکاری مخالف ایجنڈے پر آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز و لیبر تحریک اور دیگر مزدور تنظیمیں بھی شرکت کریں گی، کی بھرپور حمایت اور عملی شرکت ایک زبردست آغاز ثابت ہو سکتا جو کہ مستقبل میں تمام موجودہ مزدور اتحادوں اور دیگر ٹریڈ یونینز و ایسوسی ایشنز کے ایک انتہائی طاقتور متحدہ محاذ کی بنیاد بن سکتا ہے جو نہ صرف کہیں بڑے پیمانے پر احتجاج منظم کرنے کا اہل ہو گا بلکہ ریاست، معیشت و سماج کو ہوا میں معلق کر دینے والی ایک ملک گیر عام ہڑتال کی کال دینے کی طاقت اور جرات بھی حاصل کرلے گا۔ نہ صرف اگیگا بلکہ پورے ملک کی مزدور تحریک کے سامنے آگے بڑھنے کے لئے فی الوقت یہی واحد راستہ ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ روز اول سے اگیگا کی ہر جدوجہد میں ملازمین و محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی کرنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔