|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ |
بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کی جانب سے تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے سمیت 18 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے منظوری کے لیے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ریلوے ہاکی چوک پر 29 مارچ سے احتجاجی دھرنا جاری ہے جس میں ہزاروں ملازمین شریک ہیں۔ گذشتہ روز مطالبات کی منظوری اور حکومتی ہٹ دھرمی کے خلاف صوبے بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی گئی اور صوبے کی تمام بڑی شاہراؤں کو بلاک کر دیا گیا۔ اس احتجاجی دھرنے میں مذکورہ الائنس میں شامل 32 تنظیموں کے علاوہ دیگر مزدور تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ ان مزدور تنظیموں کے نمائندگان صوبے بھر سے اس احتجاجی دھرنے میں شریک ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک اس دھرنے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کر چکے ہیں جبکہ دھرنے کے مطالبات اور چارٹر آف ڈیمانڈ کے سلسلے میں صوبے بھر کے مزدور لاکھوں کی تعداد میں موبیلائز ہو چکے ہیں۔
گرینڈ الائنس نے حکومت کو 25 فی صد ریڈکشن الاؤنس سمیت 18 نکاتی ڈیمانڈ لسٹ 24 فروری 2021ء کو پیش کی تھی لیکن حکومت نے ان مطالبات کوتسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ اس کی ترجیحات میں محنت کشوں کی زندگی میں بہتری سے زیادہ اپنی لوٹ مار اور کرپشن عزیز ہے۔ سرمایہ داروں کے لیے خزانے کے منہ فوری کھل جاتے ہیں۔ ارکان اسمبلی کی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ مقصود ہو تو بلا کسی تاخیر و تعمل کے بل پاس ہوجاتے ہیں۔ مگر جب محنت کشوں اور ملازمین کی بات آتی ہے تو طرح طرح کے حیلے بہانے بنائے جاتے ہیں اور خزانہ خالی ہونے کا رونا رویا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں گرینڈ الائنس نے ان مطالبات کو پوراکرنے کے لیے 29 مارچ کی ڈیڈ لائین دی تھی۔ چارٹر آف ڈیمانڈ پر کوئی عملدرآمد نہ ہونے اور حکومتی ڈھٹائی سے تنگ آکر بالآخر صوبے بھر کے محنت کشوں نے بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کی قیادت میں کوئٹہ میں دھرنا دے دیا جو کہ آج 9ویں روز میں داخل ہوچکا ہے۔
پیر کے روز ملازمین نے مطالبات منظور نہ ہونے کے خلاف بلوچستان بھر میں پہیہ جام کردیا اور صوبے بھر کی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے ہر طرح کی ٹریفک معطل کر دی۔ ملازمین نے حب، لسبیلہ، سونمیانی، قلات، ڈیرہ مراد جمالی، خضدار زیرو پوائنٹ، سبی، مستونگ، نوشکی، کوہلو، قلعہ سیف اللہ، نصیرآباد، لورالائی، ژوب، قلعہ عبداللہ، پشین، خانوزئی، چمن، خاران، واشک اور چاغی سمیت دیگر مقامات سے شاہراہیں بند کر رکھی تھیں۔ قومی شاہراہوں کو بند کرنے کی پاداش میں ریاستی مشینری نے ملازمین مزدوروں پر نہ صرف تشدد کیا بلکہ کئی ایک کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ تاہم محنت کشوں کی جانب سے آنے والے شدید ردعمل سے خوفزدہ ہوکر ان سب گرفتار ملازمین اور مزدوروں کو رہا کر دیا گیا جبکہ ڈپٹی کمشنر پشین کے خلاف آج بروز منگل پورے پشین بازار میں انجمن تاجران کی جانب سے شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے۔ اس کے علاوہ اس پورے احتجاجی دھرنے میں صوبے بھر کی دیگر سیاسی و غیر سیاسی تنظیموں کی جانب سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور دھرنے کو بڑے پیمانے پر عوامی پذیرائی ملی ہے۔
احتجاجی دھرنے کے شروع دن سے لے کر اب تک صوبے بھر میں تمام تر سرکاری دفاتر و ادارے تقریباً نیم مفلوج ہو چکے ہیں جو کہ صوبے میں مزدور طبقے کی اتحاد و جڑت کی پہلی مثال ہے۔ پہلی بار کوئٹہ شہر کے اندر ریاست کی جانب سے راستوں کو بند کرنے کے لیے کنٹینرز کا استعمال کیا گیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو دیگر مقامات سے کوئٹہ شہر تعینات کیا گیا ہے۔ محنت کش طبقے کے اس اتحاد اور جڑت نے ایک طرف اگر حکمران طبقہ کی نیندوں کو حرام کیا ہے تو دوسری طرف قوم پرستوں کے اس غلیظ پروپیگنڈے کا پردہ فاش کیا ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ بلوچستان میں تو محنت کش طبقہ وجود نہیں رکھتا۔ جبکہ محنت کش طبقے نے میدان عمل میں اپنی بھرپور طاقت کے ذریعے ان کے بوسیدہ نظریات کی دھجیاں اڑا ڈالیں۔
تادم تحریر الائنس کی قیادت اور حکومتی نمائندگان کے درمیان مذاکرات کے آٹھ دور ہو چکے ہیں جن میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ اس دوران حکومتی نمائندگان نے تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کا عندیہ دیا جس کو الائنس کی قیادت نے یکسر مسترد کر دیا۔ اس کے علاوہ حکومتی نمائندگان کا اصرار ہے کہ سول سیکرٹریٹ سمیت دیگر چھ شعبہ جات کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ اس پر اب تک ڈیڈ لاک برقرار ہے، مگر شنید ہے کہ سول سیکرٹریٹ سمیت دیگر چھ شعبوں کو سکیل وائز یوٹیلٹی الاؤنس ملے گا۔
احتجاجی ملازمین کے بنیادی ترین مطالبے یعنی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے سمیت چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل دیگر مطالبات پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، بالخصوص دھرنے میں موجود سی اینڈ ڈبلیو کے برطرف ملازمین اور گلوبل پروجیکٹ کے اساتذہ کے مسائل توجہ طلب اور حل طلب ہیں۔
واضح رہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دھرنے کے شرکاء میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ صوبے بھر کے تمام تر سرکاری ادارے نیم مفلوج ہو چکے ہیں۔ دھرنے کو روکنے کے لیے حکومت نے کرونا وبا کو بنیاد بناتے ہوئے دھرنے سے 12 گھنٹے پہلے دفعہ 144 نافذکردی لیکن ورکرز صوبائی حکومت کی تمام تر دھمکیوں اور رکاوٹوں کے باوجود اس وقت دھرنا دے رہے ہیں جب کہ کل رات وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو سکولوں میں اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے اور حاضری چیک کرکے تفصیلات مجاز اتھارٹی کو رپورٹ کرنے اور ارسال کرنے کے لئے مراسلہ جاری کیا ہے۔ مگر ملازمین حکومت کی تمام تر انتقامی کاروائیوں اور اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ نہ صرف اس دھرنے میں روزِ اول سے شریک ہے، بلکہ اس الائنس کے اندر ہر اول دستے کے طور پر موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گرینڈ الائنس کی قیادت بلوچستان بھر میں تمام مزدور تنظیموں کو اعتماد میں لیتے ہوئے مطالبات کی منظوری تک صوبے بھر میں مکمل ہڑتال اور پہیہ جام کی کال دے، تاکہ یہ بات ان تمام تر غلیظ حکمرانوں پر واضح ہو جائے کہ یہ مروجہ نظام حقیقت میں کون چلاتا ہے اور اس سے محنت کشوں کو اپنی طاقت کا بھی احساس ہوگا اور یہ احساس بلوچستان اور دیگر صوبوں میں بھی مزدور تحریک کی طاقت میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس کے ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ تمام محکموں، جن کے ورکرز اس وقت احتجاج کررہے ہیں، وہ کام کی جگہ پر احتجاجی کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ ورکرز جمہوری طور پر ہڑتال اور تحریک کی حکمت عملی پر فیصلہ کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ملک بھر کے محنت کشوں اور ٹریڈ یونیز سے اپیل کرتے ہیں کہ کوئٹہ میں جاری اس احتجاجی دھرنے کے ساتھ بھرپور انداز میں اظہار یکجہتی کریں اور پورے ملک میں احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں کی کال دی جائے۔