|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|
خیبر پختونخوا کے صوبائی سرکاری ملازمین تنظیموں کے اتحاد اگیگا خیبر پختونخوا نے 6 اپریل کو تمام شامل تنظیموں کے ساتھ پشاور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے 25 فیصد ڈی آر اے لینے کیلئے دھرنا دینے کی کال دی تھی۔ اس سے پہلے 10 فروری کو ملک بھر کے سرکاری ملازمین نے اگیگا (آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس) کے مرکزی بینر تلے اسلام آباد میں ایک زبردست دھرنا دیا تھا جس نے وفاقی حکومت کو وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا نوٹیفیکشن دینے پر مجبور کیا تھا جس میں صوبائی حکومتوں کو بھی ایسا کرنے کی ریکمنڈیشن دی گئی تھی۔
لیکن حسب توقع صوبائی حکومتوں نے بلوچستان سے لے کر پنجاب اور خیبرپختونخوا تک ٹال مٹول سے کام لینا شروع کیا اور ایمپلائز کو مذاکرات کے گورکھ دھندے میں الجھانے کی بھرپور کوششیں کی۔ حکومت کے تاخیری ہتھکنڈوں سے مایوس ہوکر آگیگا نے بلوچستان میں 29 مارچ سے لے کر 9 اپریل تک ایک زبردست احتجاجی دھرنا دیا جس نے حکومت کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا تھا۔ اسی طرح پنجاب کے مرکزی شہر لاہور میں مسلسل احتجاج کیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں اگیگا نے حکومت کے ساتھ کئی بار مذاکرات کئے مگر حکومت کی ہٹ دھرمی پر قائم رہنے کے بعد 6 اپریل کو پشاور میں دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا۔ اس دھرنے میں ملازمین کی بڑی تعداد میں شرکت متوقع تھی جس نے حکومت کو پیشگی خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔
اس کے بعد جو صورتحال یہاں خیبرپختونخوا میں بنی اور 6 دن تذبذب کا شکار رہنے کے بعد کسی خاص نتیجے پر پہنچے بغیر جو دھرنا ختم کیا گیا اور جس طرح بلوچستان کا دھرنا عدالتی یقین دہانیوں اور احکامات پر ختم کیا گیا، اس صورتحال کی ایک درست وضاحت کے لئے اور مستقبل کا لائحہ عمل بنانے کے لئے ہمیں مختصر پس منظر پر بات کرنے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
پس منظر
آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کا قیام پچھلے لمبے عرصے کے بعد سرکاری ملازمین کا ایک بڑا آگے کا قدم تھا جس نے ملک بھر کے مختلف سرکاری محکموں کے ملازمین اور ان کی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے تمام شعبہ جاتی تعصبات اور تنگ نظری کو بالائے طاق رکھا۔ گو کہ ابھی اس اتحاد کو مزید وسیع کرنے اور اس میں پبلک سیکٹر اداروں کے محنت کشوں، صنعتی محنت کشوں اور پرائیویٹ سیکٹر کے دیگرمحنت کشوں کو شامل کرنے کی گنجائش اور ضرورت تھی اور ہے۔ مگر پھر بھی یہ ماضی کی مناسبت سے ایک آگے کا بڑا قدم تھا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ نے 6 اکتوبر سے لے کر 10 فروری، اور پھر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالیہ دھرنوں تک نہ صرف اس تحریک کی بھرپور حمایت کی ہے بلکہ عملی طور پر اس پوری جدوجہد میں شامل رہا ہے۔ اس عمل میں جہاں ہم محنت کشوں کے عظیم تر اتحاد کو عمل میں لانے اور اس جدوجہد کو مزید وسعت دینے کی خاطر کوشش کرتے ہیں، تحریکوں میں شامل ہوتے ہیں، وہیں پر ہم ہر تحریک کی عملی کمزوریوں اور نظریاتی محدودیت اور اور شعبہ جاتی تقسیم و تعصبات کے اوپر بھی ایک دوستانہ تنقید رکھتے رہے ہیں تاکہ مستقبل کے لیے اپنی تمام تر کمزوریوں اور خامیوں سے سیکھتے ہوئے جدوجہد کو مزید وسیع تر بنیادوں پر آگے بڑھایا جاسکے۔ بلوچستان میں بیوگا (بلوچستان گرینڈ الائنس) کی ہڑتال میں دن رات ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان محنت کشوں کے شانہ بشانہ مکمل حمایت کے ساتھ فرنٹ لائن پر کھڑے رہے مگر ہم تحریک کی قیادت کی نظریاتی محدودیت کے اوپر ایک منٹ کیلئے بھی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوئے اور 9 اپریل کو انتہائی پرجوش تحریک کو جب عدالت کی دھمکیوں اور احکامات پر ختم کیا گیا تو اس وقت جہاں ایک طرف محنت کشوں نے اس ناخوشگوار اختتام پر برہمی کا اظہار کیا وہیں ہم نے قیادت کی طرف سے عدالت کے اوپر حقوق لینے کی خام خیالی پر تنقید رکھی اور ساتھ ہی ایک طبقاتی سماج میں عدلیہ جیسے اداروں کی حقیقت کو بھی محنت کشوں پر آشکار کیا۔
اس طرح خیبرپختونخوا میں اگیگا کی طرف سے 6 اپریل کو اعلان کیے گئے دھرنے کا ریڈ ورکرز فرنٹ نے خیرمقدم کرتے ہوئے حمایت کی تھی۔ مگر جس طرح ہم نے ذکر کیا کہ حکومت اس دھرنے سے مکمل طور پر خوفزدہ تھی جس کو روکنے کے لیے راتوں رات دھرنے کی قیادت کو مذاکرات کے لیے بلایا اور ان سے کچھ دن کی مہلت مانگ کر مطالبات پورے کرنے کی مکمل یقین دہانی کروائی۔ اور قیادت نے دھرنے کو ایک دن پہلے موخر کرنے کا اعلان کیا۔
اس موقعے پر اتحاد میں شامل کئی تنظیموں خاص کر ایپکا اور کچھ اساتذہ تنظیموں کے کچھ اضلاع کے ملازمین پہلے ہی پشاور آچکے تھے اور بے شمار دیگر نے 6 اپریل کی صبح دھرنے میں آنے کی تیاریاں کررکھی تھیں۔ رات کو جب قائدین نے حکومت کی ان جھوٹی یقین دہانیوں پر اعتماد کر کے پریس کانفرنس کے ذریعے دھرنا مؤخر کرنے کا اعلان کیا تو اس فیصلے پر سوشل میڈیا کے ذریعے ملازمین کی طرف سے ایک شدید ردعمل سامنے آیا جس کے تحت اتحاد میں شامل ایپکا اور دوسری کچھ تنظیمیں دھرنا دینے کے فیصلے پر قائم رہیں لیکن باقی تنظیموں نے دھرنا موخر کرنے کے فیصلے کا ساتھ دیا۔ اس ساری صورتحال سے اتحاد میں پھوٹ کا ایک انتہائی منفی تاثر قائم ہوا اور حکومت کے حوصلے بلند ہوئے جبکہ ملازمین میں مایوسی پھیلی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ احتجاجی تحریک کی قیادت کے ایک حصے نے حکومت کے جھوٹے وعدوں پر اعتبار کرتے ہوئے دھرنے کو موخر کرنے کا غلط فیصلہ کیا۔ لیکن قیادت کے دوسرے حصے کو بھی فوراً سے اپنی ڈیڑھ انچ کی الگ مسجد بنانے کی بجائے مزدور اتحاد کی مضبوطی کو مقدم رکھنا چاہئے تھا اور مل بیٹھ کر ایک متفقہ فیصلے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔
آگے کیسے بڑھا جائے؟
اس وقت ملک بھر کے محنت کش طبقے کی ایک عظیم تر جدوجہد کو آگے بڑھانے کا تقاضا موجود ہے جو بالکل بھی قیادتوں کی اس طرح کی کمزوریوں اور غلطیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ ایک لمبی لڑائی ہے جس میں اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ لمبے عرصے بعد ایک متحد جدوجہد کے اندر داخل ہو رہا ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور خاص طور پر اس کے حالیہ شدید بحران کے اندر محنت کش طبقے کو بہت بڑے پیمانے پر کچلا جا رہا ہے اور آنے والے وقت میں ریاست کی طرف سے ان حملوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
موجودہ حکومت آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی طاقتوں کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کر چکا ہے اور موجودہ نظام میں اگر کوئی اور حکومت آئے گی تو وہ بھی ان حملوں میں مزید اضافہ کرے گی۔ دراصل اپوزیشن میں بیٹھے وہ سب بہروپئے جو آج محنت کشوں کے احتجاجوں میں آکر تقریروں میں گلے پھاڑ کر محنت کشوں سے ہمدردی کا ڈھونگ رچاتے ہیں، ان کو بھی اقتدار صرف آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی طاقتوں کی مکمل تابعداری کی ضمانت پر ہی مل سکتا ہے۔ عوام ان پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے۔
ان حالات میں محنت کش طبقے کے اندر موجود قیادتوں کو بھی ورکرز سے سچ نہیں چھپانا چاہئیے۔ اگر ان سے سچ چھپانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ خود اپنے تجربے سے سچائی پر پہنچ کر سب جھوٹ بولنے والوں اور جھوٹی امیدیں دینے والوں کو بے نقاب اور مسترد کریں گے۔
آج کے یہ شدید حالات مزدور قیادتوں کے لئے ایک زبردست امتحان ہیں۔ وہ قیادت اس جدوجہد میں سامنے آئیں گے، آگے بڑھیں گے، جن کے اندر ان امتحانات میں سے کامیابی سے گزرنے کی صلاحیت ہوگی اور جو نئے وقت کی کسوٹی پر پورا اتریں گے اور موجودہ دور میں سرمایہ دارانہ نظام کے حدود و قیود کی پوری جانکاری حاصل کرنے اور پرانے روایتی طریقوں کی محدودیت کو شعوری طور پر سمجھنے کی صلاحیت حاصل کر پائیں گے اور آخر میں محنت کش طبقے کو اس پورے نظام کے خلاف اپنے انقلابی نظریات کے ساتھ ایک ایسے انقلاب کے لیے تیار کرنے کی جدوجہد کریں گے جس کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ نظام کو بنیاد سے اکھاڑ پھینک کر اس کی جگہ ایک غیر طبقاتی انسان دوست سماج کی تعمیر کرنے اور سرمائے کی حکمرانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کیا جا سکے۔