|تحریر: عرفان منصور|
ذکرِ دوزخ بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کی ہے
یہ شعر فیض ؔ صاحب نے اپنے دور کے پاکستان کو دیکھ کر کہا تھا۔ آج فیض صاحب زندہ ہوتے تو شاید بیانِ حور لکھنے پر ان کا قلم بھی سیاہی روک لیتا کیونکہ آج کا پاکستان تو شاید جہنم کے کسی گڑھے کے مانند ہے۔ اگر آپکو ایسا نہیں لگتا تو مبارک ہو کہ آپ جہنم میں رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ویسے تو ہم ہر ایک شعبہ ہائے زندگی کی بربادی، عوام کی حالتِ زار اور حکمرانوں کے خزانہ قارون کو شرما دینے والی لوٹ مار کا نوحہ لکھتے رہتے ہیں مگر یہاں پر گندم کی فصل کی خریداری کے حوالے سے جاری ریاست کی نا اہلی، لوٹ مار اور کسان کی حالتِ زار پر تفصیلی بات کریں گے اور اسکے حل پر بھی بات کریں گے۔
اس وقت گندم کی کٹائی شروع ہوچکی ہے مگر ملک کے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب کا گندم خریداری کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا ہے اور دیگر صوبوں کی حکومتیں بھی مکمل کسان دشمنی کا ثبوت دے رہی ہیں اور ریاست کی شہ پر بیوپاری کسان کے خون سے نہانے کی ایک بار پھر تیاری کرچکی ہیں۔ ایسے میں تفصیلی طور پر یہ جاننا اہم ہو جاتا ہے کہ گندم کی پیداوار کتنی ہے، حکومت کی کیا منصوبہ سازی ہے، اس منصوبہ سازی کی حقیقت کیا ہے، کسان کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
پیداوار کے حقائق کیا ہیں؟
اس سال پاکستان کے کسانوں نے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ رقبے پر گندم کاشت کی ہے۔ حکومت نے پورے پاکستان میں تقریباً 22 ملین ایکڑ پر کاشت کا ٹارگٹ طے کیا تھا مگر کسانوں نے اس بار اس ٹارگٹ سے کہیں زیادہ تقریباً 23.7 ملین ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی۔ اس امر سے یہ مت سوچ لیجیے گا کہ حکومت نے بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنایا یا پھر سبسڈی دے کر گندم کی کاشت کو بڑھایا جن پر بھی ہم آگے بات کریں گے مگر اتنے بڑے رقبے پر کاشت کا سبب دیگر فصلوں میں اٹھائے گئے نقصانات اور سیلاب تھا۔
مثال کے طور پر گزشتہ سال مکئی میں ہونے والے نقصان کے سبب اس سال اس کی کاشت میں تقریباً 40 فیصد گراوٹ ہوئی اور اسی طرح دیگر فوڈ کراپس کی کاشت میں بھی 35 فیصد کمی دیکھی گئی جس کے سبب اتنے بڑے رقبے پر گندم کی کاشت ہوئی اور اس کاشت سے ہونے والی پیداوار کے جو اندازے ہیں وہ تقریباً 28 سے 29 ملین ٹن کے ہیں۔ اگر اسے صوبوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو مختلف اندازوں کے مطابق پنجاب میں 22.5 ملین ٹن، خیبرپختونخوا میں 1.5 ملین ٹن، سندھ میں 4 ملین ٹن اور بلوچستان میں 1.32 ملین ٹن کے لگ بھگ گندم پیدا ہوگی۔ اور اسکے علاوہ گزشتہ برس سے بچ جانے والا 3.3 ملین ٹن کا ذخیرہ بھی ابھی تک گوداموں میں موجود ہے۔ اگرا ن سب کو جمع کیا جائے تو اس سال پاکستان میں موجود گندم لگ بھگ 32.6 ملین ٹن ہوگی۔ پاکستان کی اپنی ضرورت کتنی ہے؟ 124 کلو فی کس کے حساب سے ریاست کو 30.42 ملین ٹن گندم کی ضرورت ہے۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم گندم کے معاملے میں اس سال ملک خود کفیل ہے۔ یہ سب سن کر آپ خوش تو ہورہے ہوں گے کہ واہ، چلو کوئی تو اچھی خبر آئی۔ مگر ہر رحمت کو زحمت نہ بنادیں تو انہیں پاکستان کے حکمران کون کہے گا۔
حکومت کتنی خریداری کرے گی؟
دل تھام لیں کیونکہ ہم دوبارہ سے اصلی والے پاکستان میں لینڈ کرنے والے ہیں۔ عموماً صوبائی حکومتیں کل گندم کی پیداوار کا لگ بھگ 50 فیصد خریدتی ہیں مگر اس سال اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی نے یہ ظالمانہ اعلان کیا ہے کہ صوبائی حکومتیں صرف 2.45 ملین ٹن کی خریداری کریں گی جس میں پنجاب کا خریداری کا کوئی ٹارگٹ شامل نہیں۔ پچھلے سال کی نسبت یہ ٹارگٹ 69 فیصد کم ہے۔ سندھ حکومت نے اپنے ٹارگٹ میں 28 فیصد کمی کی ہے اور وفاق کے تحت کام کرنے والے پاسکو سنٹرز نے اپنے خریداری کے ٹارگٹ میں 22 فیصد کمی کی ہے۔ اور پنجاب حکومت نے ابھی تک خریداری کے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا سوائے اس کسان دشمن فیصلے کے کہ ہم 3900 فی من کے ریٹ پر خریداری کریں گے۔
مگر کتنی خریداری کریں گے؟ اس پر فوڈ منسٹری نے جواب دیا کہ، ”جب صوبائی حکومت کو اس شئے کی خریداری کی ضرورت محسوس ہوگی“۔ ایکسپریس ٹریبیون یہ لکھتا ہے کہ اگر پنجاب حکومت کم از کم 4 ملین ٹن نہیں خریدتی ہے تو کسان تباہ حال ہوجائے گا۔ مگر ان حکمرانوں کے آقا ورلڈ بنک نے بھی پنجاب حکومت کو خبردار کیا ہے کہ 2 ملین ٹن سے زیادہ کی خریداری نہ کریں۔
جہاں ایک طرف خریداری کا ٹارگٹ نہیں بتایا گیا ہے وہیں پنجاب حکومت نے اپنی بار دانہ پالیسی کو بھی زیادہ مشکل اور محدود کردیا ہے۔ پنجاب ٹیکنالوجی بورڈ کے تحت بار دانہ دستیاب ہوگا اور یہ ہر چھے ایکڑ تک ملکیت والے کسان کو فی ایکڑ پندرہ من کے لیے ہی ملے گا۔ آسان لفظوں میں پنجاب حکومت ایک کسان سے اسکی چھ ایکڑ کاشت کی گئی گندم میں سے فی ایکڑ 15 من گندم 3900 کے حساب سے خریدے گی جبکہ فی ایکڑ پیداوار 45-55 من ہوگی۔ اور باقی وہ بیوپاری کو بیچنے پر مجبور ہوگا جوکہ اسکی گندم 3500 یا اس سے بھی کم قیمت پر خریدے گا جو کہ اس وقت چل بھی رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق کسان 3000 تک بیچنے پر بھی مجبور ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ چولستان میں اس وقت کسان 3500 روپے فی من کے لگ بھگ گندم بیچ رہا ہے۔ اور چشتیاں میں تاوقتِ تحریر گندم کا ریٹ 2600 سے 3250 کے درمیان ہے، رحیم یار خان میں 2800 سے 3400 اور حاصل پور میں 3100 سے 3350 ہے۔ اور یہ مزید بھی گر سکتا ہے۔ اس پالیسی سے بیوپاری کروڑوں اور اربوں روپیہ کمائیں گے جبکہ کسان جو اناج پیدا کرتا ہے وہ بھوک، محرومی اور ذلت کا شکار ہو جائے گا۔
کسان کا استحصال!
اس وقت پاکستان میں تین مختلف بیس پرائس چل رہی ہیں۔ پنجاب میں 3900 روپے فی من، سندھ میں 4000 جبکہ بلوچستان میں 4300۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بیس پرائس ہی انتہائی کم ہے۔ یہ وہی بیس پرائس ہے جو کہ پچھلے سال چل رہی تھی مگر اس ایک سال کے اندر کھاد کی قیمتیں دگنا ہوچکی ہیں اور حکومت کے ریٹ پر میسر ہی نہیں تھیں۔ 11000 کے لگ بھگ حکومتی ریٹ والا ڈی اے پی کا تھیلا کسان کو 14 سے 15 ہزار روپے میں ملا ہے جبکہ 4000 کے لگ بھگ حکومتی ریٹ والا یوریا کا تھیلا 4500 سے 5000 تک ملتا رہا ہے۔ ڈیزل کی قیمتوں میں ایک سال میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور بجلی کے نرخوں میں بھی ایسا ہی اضافہ ہوا ہے۔ سپرے کے اخراجات اسکے علاوہ ہیں۔
ان سب اخراجات میں ہوشربا اضافے کے بعد 3900 یا 4000 کا سرکاری ریٹ کسان کے ساتھ ایک کھلواڑ ہے۔ اور اس سے بڑھ کر کھلواڑ یہ ہے کہ حکومت اتنی کم خریداری کرکے کسان کو بیوپاری کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گی جو کسان کا اور زیادہ استحصال کرے گا۔ جیسا کہ گزشتہ کپاس کی فصل میں ہوا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگلے سال گندم کی کاشت کم ہونے کے سبب پھر سے گندم کا بحران پیدا ہوگا اور ذخیرہ اندوز پھر سے عوام کے خون سے نہائے گا۔
کیا کیا جانا چاہیے؟
کیا گندم کی فی من امدادی قیمت کو بڑھا دینا چاہیے؟ کسان کے نقطہ نظر دیکھا جائے تو ہاں قیمت بڑھا دینی چاہیے۔ مگر یہ بڑھی ہوئی قیمت شہروں میں مہنگائی کا ایک طوفان لے کر آئے گی اور 20 روپے میں ملنے والی روٹی 35-40 روپے میں فروخت ہورہی ہوگی۔ لیکن اگر قیمت نہیں بڑھائی جاتی تو کسان لٹ جائے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ معمہ جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں پر ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت ہی اسے مکمل طور پر حل کرسکتی ہے۔ لیکن اگر موجودہ حکمران بھی اس حوالے سے کچھ کرنا چاہیں تو سب سے پہلے تو کسان کی فی ایکڑ پیداواری لاگت کو کم کیا جائے یعنی اسے سستے بیج، سستی بجلی، سستی کھاد اور سستا پانی مہیا کیا جائے، جب اسکی لاگت کم ہوگی تو گندم قیمت بھی خود بخود کم ہوجائے گی مگر کسان کو گھاٹا بھی نہیں ہو گا۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ متنوع قسم کی فصل کاری کی بنیاد رکھی جائے اور ایسا سٹرکچر قائم کیا جائے کہ جس میں محکمہ زراعت کے افسر کھادوں کے ریٹ کنٹرول کرنے کے لیے اور ڈپٹی کمشنرز کے حکم پر جرمانے کرنے اور کرپشن کرنے کی بجائے فصلوں کی پیداوار بڑھانے اور کسان کی تربیت کا کام کررہے ہوں۔ اسی طرح چونکہ زراعت ایک قومی اہمیت کا شعبہ ہے لہٰذا کھاد،فرٹیلائیزر اور سپرے بنانے والی تمام صنعت کو قومی ملکیت میں لیا جائے۔اسی طرح حکومت کسانوں کی تمام پیداوار کو خریدنے کی پابند ہو۔
مگر ایک سادہ سا سوال سامنے کھڑا ہمارا منہ چڑا رہا ہے: کیا یہ حکومتیں ایسا کریں گی؟ اور سچ یہی ہے کہ نہیں۔
ہم ایک سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہیں جس میں صرف استحصال اور لوٹ مار کو ہی پلان کیا جاتا ہے مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کے لیے کوئی پلاننگ نہیں ہوتی۔ کیا یہ وہی حکومتیں نہیں ہیں کہ جنہوں نے فرٹیلائیزر اور سپرے کمپنیوں کو کھلی لوٹ مار کی اجازت دے رکھی ہے اور کھاد ڈیلروں کی حفاظت کرتی ہیں۔ وہی اسسٹنٹ کمشنر، وہی پولیس جو پچھلے سال لوگوں کے گھروں پر چھاپے مار کر گندم ہڑپ کررہی تھی، کیا انکو کبھی کھاد ڈیلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے گوداموں پر چھاپہ مارتے دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا ہوگا کیونکہ یہ ریاستی کٹھ پتلیاں بنائی ہی ان استحصال کرنے والوں کے تحفظ کے لیے جاتی ہیں۔ اور جب تک یہ قائم ہیں ہر آنے والا دن کسان کے لیے مزید برا ثابت ہوتا جائے گا۔
حکومت باقی عوام کی طرح اس کو مزید لوٹتی جائے گی اور بڑے جاگیر دار اور سرمایہ دار کو مزید امیر کرتی جائے گی۔ یہی اس کا کام ہے۔ اگر زراعت کو بچانا ہے، اگر کسان کو بچانا ہے تو ایک منصوبہ بند معیشت ناگزیر ہوچکی ہے اور یہ منصوبہ بند معیشت ایک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ناممکن ہے۔
ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ان ڈیلروں، ذخیرہ اندوزوں، بیوپاریوں، جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور تمام استحصالی گروہوں کا خاتمہ کرکے،اور ملک بھر کے تمام ذرائع پیداوار کو محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک ایسی زراعت کی بنیاد رکھے گا جس میں تمام اشیاء کسان کو انتہائی سستی فراہم ہورہی ہوں گی، اور ان سے مزدور ریاست ہی ساری پیداوار خریدے گی۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ پیداوار بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہوگا اور منصوبہ بندی کے تحت زراعت کاشت ہوگی نہ کہ اندھا دھند بغیر منصوبے کے۔ اور ایک سوشلسٹ انقلاب ہی پاکستان میں بنجر ہوتی زمینوں کی ہریالی واپس لا سکتا ہے،زرعی زمین کی ملکیت میں عدم مساوات کا خاتمہ کر سکتا ہے، ماحولیاتی تبدیلی سے لڑسکتا ہے، گرتے ہوئے واٹر لیول کو بحال کرسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔
اس مقصد کے لئے کسانوں کو ہر گاؤں کی سطح پر انقلابی کسان کونسلز کی شکل میں متحد ہوتے ہوئے شہروں کے محنت کش طبقے کیساتھ اتحاد بنانا ہو گا جو کہ اس جدوجہد میں ان کے سب سے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ صرف مزدور اور کسان مل کر ہی اپنی متحدہ طاقت کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کا تختہ الٹ سکتے ہیں اور اس سلگتی ہوئی جہنم کو جنت ارضی بنا سکتے ہیں۔