|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|
نام نہاد آزاد کشمیر میں پانچ ماہ سے جاری عوامی تحریک نے تمام تر ریاستی جبر کو شکست دے کر حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندگان کے ساتھ مذاکرات کرے۔
18 اکتوبر 2023ء کو عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومتی نمائندگان کے درمیان مذاکرات کی پہلی نشست منعقد ہوئی تھی جس میں عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندگان نے حکومت کے غیر سنجیدہ رویے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ جب تک گرفتار کارکنان کو رہا نہیں کیا جاتا اس وقت تک کوئی سنجیدہ مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔ اس کے بعد حکومت نے تمام گرفتار کارکنان کو فوری رہا کردیا اور مذاکرات کی دوسری نشست 8 اور 9 نومبر کو منعقد ہوئی جس میں عوامی ایکشن کمیٹی کے تین مطالبات پر تفصیلی گفت و شنید کی گئی۔ اس دو روزہ نشست کے دوران ہونے والی گفتگو میں حکومتی کمیٹی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات مکمل طور پر جائز ہیں۔ آنے والے ہفتے کے دوران مذاکرات کے اس مرحلے کی آخری نشست منعقد کی جائے گی جس میں مذاکرات کے منٹس اور متفقہ نقات کو حتمی شکل دینے کے بعد وزیر اعظم آزادکشمیر کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا جائے گا۔
ابھی تک ہونے والے مذاکرات کے دوران حکومتی کمیٹی کی جانب سے عوامی مطالبات اور مانگوں کے حوالے سے کوئی بھی ٹھوس تجویز سامنے نہیں لائی جا سکی۔ حکومتی کمیٹی محض اختیارات نہ ہونے کا رونا رونے کے ساتھ عوامی مسائل حل کرنے کی حکومتی خواہشات کا ہی اظہار کرتی رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندگان کو وفاق کے ساتھ مذاکرات میں حکومتی کمیٹی کے ساتھ اپنے نمائندگان بھیجنے پر قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے جسے عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندگان نے رد کرتے ہوئے یہ مؤقف اپنایا ہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا حکومت آزاد کشمیر کا کام ہے نہ کہ عوامی ایکشن کمیٹی کا۔
مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق حکومتی کمیٹی نے عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندگان کے سامنے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ عوام کی اس تحریک نے انہیں یہ حوصلہ فراہم کیا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے مزید اختیارات لینے کے حوالے سے کھل کر بات کر سکے۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمران اس قدر بزدل غلام ہیں کہ وہ اپنے اختیارات مانگنے کی بھی جرات نہیں کر سکے اور آج اپنے خلاف چلنے والی ایک عوامی تحریک کو ہی اپنے اختیارات میں اضافے کی ساز باز کے لیے استعمال کر نے کی نحیف سی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ حکمران اس قدر خصی ہیں کہ کشمیر ی عوام کے منتخب نمائندگان ہونے اور اتنی بڑی عوامی تحریک کا جواز ہونے کے باوجود وفاقی حکومت سے اختیارات کی بھیک خود مانگنے کی جرات نہیں کر سکتے بلکہ عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندگان کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ وہ ان کو وفاقی حکومت سے اختیارات میں کچھ اضافے کی یہ خیرات لینے میں معاونت کریں۔
درحقیقت حکومت آزادکشمیر ایک جانب عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندگان کے سامنے یہ رونا روتی ہے کہ ہم تو کشمیری عوام کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں اور دوسری جانب عوامی تحریک کا حوالہ دے کر وفاق کے سامنے یہ مؤقف اپنا رہی ہے کہ اگر انہیں مزید کچھ اختیارات اور وسائل مہیا نہیں کیے جاتے تو وہ عوامی بغاوت کو نہیں روک سکیں گے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ حکومت آزادکشمیر کے پاس اس عوامی تحریک کی صورت میں ایک نہایت طاقتور جواز موجود ہے کہ وہ وفاق سے مزید وسائل اور اختیارات لینے کی ساز باز کر سکتے ہیں لیکن یہ بزدل اپنے آقاؤں سے خود یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتے اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے بجائے عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندگان وفاقی حکومت کے سامنے یہ مطالبہ پیش کریں۔
ابھی تک ہونے والے مذاکرات میں مفت بجلی کی فراہمی یا آٹے پر سبسڈی دیے جانے کے حوالے سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آسکی اس لیے مذاکرات کے اگلے مرحلے کے دوران ہی کچھ واضح ہو سکے گا کہ حکومت عوام کو کیا ریلیف دینے کی پیشکش کرتی ہے۔ دوسری جانب مذاکراتی عمل شروع ہونے کے ساتھ ہی عوامی تحریک کے تحرک میں بھی کمی آنا شروع ہو چکی ہے اور فوری طور پر کسی بڑے احتجاج کی کال بھی نہیں دی جا سکی۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ جاری ہے لیکن اکتوبر کے دوران بعض علاقوں میں بائیکاٹ کی شرح پہلے سے کچھ کم ہوئی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنے مطالبات کے حق میں دستخطی مہم چلانے کا اعلان کر رکھا ہے جس کا تا حال باقاعدہ آغاز نہیں ہو سکا۔
کشمیر میں جاری عوامی تحریک کا جائزہ لیا جائے تو دستخطی مہم تحریک کے موجودہ مرحلے سے بالکل کوئی مطابقت نہیں رکھتی جبکہ اس مہم کے ساتھ کسی بڑے عملی اقدام کو بھی نہیں جوڑا گیا۔ عمومی طور پر بھی دستخطی مہم کسی تحریک کے آغاز میں چلائی جاتی ہے تا کہ اس کے ذریعے ان مطالبات کے لیے لوگوں سے حمایت لی جا سکے۔ کشمیر کے عوام گزشتہ تین ماہ سے لاکھوں کی تعداد میں چوکوں اور چوراہوں پر نکل کر واشگاف الفاظ میں ان مطالبات کی حمایت کا نہ صرف اعلان کر چکے ہیں بلکہ بجلی بلوں کا بائیکاٹ کر کے حکومتی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اپنے اجتماعی وسائل کو بلا معاوضہ تصرف میں لانے کا عملی مظاہرہ بھی کر چکے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے دستخطی مہم چلانے کا اعلان یہ واضح کرتا ہے کہ قیادت عوام سے پیچھے کھڑی ہے۔
دوسری جانب مذاکرات کا عمل طویل ہوتا جا رہا ہے جس سے عوامی بغاوت کے تحرک میں ٹھہراؤ آتا جا رہا ہے جو سماج کی ایسی پرتوں کو بے عملی کی جانب لے جائے گا جو تحریک کے دباؤ کے باعث متحرک ہوئی تھیں۔ حکومت موجودہ مذاکرات کو اپنے گروہی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک جانب وہ اس تحریک کا جواز فراہم کر کے وفاق سے اپنے لیے مزید اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری جانب وہ مذاکرات کو طول دے کر عوامی تحرک کو بھی ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
حکومت عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کو زبانی کلامی یہ یقین دہانیاں کر ا رہی ہے کہ وہ بھی کشمیری عوام کا ہی حصہ ہیں اور وفاق سے پن بجلی کے وسائل پر اختیارات حاصل کرنا ان کی بھی خواہش ہے لیکن ان تمام لچھے دار یقین دہانیوں کے پس پردہ ان کے اپنے طبقاتی مفادات چھپے ہوئے ہیں۔ وہ عوامی بے چینی اور غم و غصے کی بنیاد پر وفاق سے مزید وسائل اور اختیارات حاصل کرنے کی ساز باز کر رہے ہیں تا کہ ان کو زیادہ مال لوٹنے کے مواقع میسر آسکیں۔ ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ عوام کو اتنی طویل جدوجہد کے باوجود کچھ حاصل ہوپاتا ہے یا نہیں۔ عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگر ان کے پاس اختیارات نہیں تھے تو وہ پون صدی سے کیوں اس پارلیمان میں بیٹھے تھے اور آج بھی اپنی مراعات اور ملازمتوں کے ساتھ کیوں چمٹے ہوئے ہیں؟
یہ نام نہاد عوامی نمائندے کیوں اس پارلیمان کو چھوڑ کر عوام کے ساتھ وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے کی جدوجہد میں شریک نہیں ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب عوام اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے تو یہی حکمران انہیں بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دے کر ان پر دہشت گردی اور ملک سے غداری جیسے بھیانک مقدمات قائم کر رہے تھے اور جب عوام نے اپنی اجتماعی طاقت سے ریاستی جبر کو شکست فاش دے کر انہیں بات چیت پر مجبور کر دیا اس وقت یہ عوام کا حصہ اور ان کا ہمدرد ہونے کا منافقانہ ناٹک کر نے پر مجبور ہوئے ہیں۔
تحریک کی شدت میں کمی آنے کی صورت میں یہی عوام کے جھوٹے ہمدرد تحریک کے سرگرم کارکنان اور سماج کے متحرک حصوں پر وحشیانہ ریاستی جبر مسلط کرنے میں لمحے بھر کی تاخیر بھی نہیں کریں گے۔ اگر مذاکرات کے ذریعے عوامی مطالبات حل نہیں ہوتے اور تحریک بھی پیچھے جاتی ہے تو ایسے لوگ جو بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ جاری رکھنے کی کوشش کریں گے ان کے کنکشن منقطع کرنے سے لے کر ان پر دہشت گردی اور ملک سے بغاوت جیسے وحشیانہ مقدمات قائم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔ لینن نے درست لکھا تھا کہ مظلوم اقوام کا حکمران طبقہ ظالم اقوام کے حکمرانوں سے بھی زیادہ رجعتی، وحشی اور گھٹیا ہو تا ہے۔ کشمیر کے حکمران بھی اسی نوع سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کی منافقانہ لچھے دار یقین دہانیوں پر معمولی سا اعتبار بھی عوامی تحریک کے لیے سب سے خطرناک عنصر ہوگا۔
تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ایک روزہ احتجاجوں سے آگے بڑھتے ہوئے ایک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کی تیاری کا آغاز کیا جاتا۔ مذاکرات کے آسرے پر تحریک کے اگلے اقدامات کو پس پشت ڈال دیا گیا جو تحریک کے موجودہ مرحلے کے تحرک کے خاتمے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ عوامی سرگرمی کے حاصل کردہ معیار کو قائم رکھنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ ایک روزہ ہڑتال سے آگے بڑھ کر ایک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کی تیاریوں کے آغاز کا اعلان کیا جاتااور اس عام ہڑتال کو مذاکرات کے نتائج سے مشروط کر دیا جاتا یعنی یہ اعلان کر دیا جاتا کہ اگر حکومت مذاکرات کے ذریعے عوامی مطالبات کو تسلیم نہیں کرتی تو ہم ایک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کے ذریعے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کریں گے۔ ایک عام ہڑتال کی سنجیدہ تیاریوں کے ماحول میں مذاکرات کی نوعیت معیاری طور پر مختلف ہو سکتی تھی اور حکومت کو عوامی تحریک کے دباؤ کے ذریعے عوامی مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔ لیکن موجودہ عدم سرگرمی کی کیفیت جہاں عوامی سرگرمی کے تحرک کو پیچھے دھکیلنے کا باعث بن رہی ہے وہیں حکومت بھی عوامی تحریک کے دباؤ سے نجات پا جانے کا احساس حاصل کر رہی ہے۔
گزشتہ پانچ ماہ سے جاری اس تحریک کے ہر نئے مرحلے پر عوام کی زیادہ بڑی پرتیں اس تحریک کا حصہ بنتی رہی ہیں لیکن اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ احتجاجی سرگرمیوں میں تعطل کے ایک مختصر یا طویل (جب تک مذاکرات جاری رہتے ہیں) وقفے کے بعد دوبارہ اگر احتجاج کی جانب جانا پڑتا ہے تو شاید فوری طور پر عوام کی بھرپور شرکت کے اس معیار کو حاصل کرنا ممکن نہ رہے۔ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو یہ بہت ہی عارضی عرصے کے لیے ہوگا اور عوام کی وسیع تر پرتیں بہت جلد اپنے مسائل کے حل کی عملی جدوجہد میں دوبارہ متحرک ہوں گے اور تحریک کو اس سے بھی بلند معیار تک لے جائیں گے۔
عوامی تحریک کے مستقبل کے خدوخال مذاکرات کے نتائج آنے کے بعد ہی واضح ہو پائیں گے چونکہ اب تمام تر امکانات کا انحصار مذاکراتی عمل کے دوران ہونے والی پیش رفت اور اس کے حتمی نتائج پر ہی ہے۔ مذاکرات کے دوران حکومت کی جانب سے کیا پیشکش کی جاتی ہے اور اس پر عوامی ایکشن کمیٹی کا رد عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ عوامی توقعات سے بہت کم کی پیشکش پر عوامی ایکشن کمیٹی کے کچھ حصے اتفاق کر لیں اور پھوٹ سے بچنے کے لیے کمیٹی کے باقی ممبران کو بھی ایسے ہی کسی فیصلے کو قبول کرنا پڑ جائے۔ غالب امکان یہ ہے کہ حکومت اپنے بے اختیار ہونے کوجواز بنا کر کچھ جزوی سا ریلیف فوری اعلان کر دے اور باقی معاملے کو وفاقی حکومت سے معاملات طے کرنے تک التوا میں ڈال دے۔ ایسی صورت میں بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ جاری رہ سکتا ہے لیکن یہ پہلے کی طرح موثر نہیں رہ پائے گا۔
بلوں کے بائیکاٹ کی مہم بھی تحریک کی مسلسل بڑھوتری اور سرگرمی کے ساتھ وابستہ ہے اور جب احتجاجی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہو جائیں گی تو حکومت اپنے ہتھکنڈوں کے ذریعے عام عوام کی بڑی پرتوں سے بجلی کے بل وصول کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ آنے والے ہفتوں میں مذاکرات کا حتمی نتیجہ سامنے آ جائے گا جو عوامی تحریک کے موجودہ مرحلے کا بھی فیصلہ کر دے گا لیکن بہر صورت کشمیری عوام کی یہ تحریک اس خطے میں ایک انقلابی عہد کے آغاز کا اعلان تھا جس کے معنی یہ ہیں کہ اس عہد میں کسی بھی تحریک کی پسپائی ایک طویل مدت کی خاموشی کا باعث نہیں بنے گی۔ ایک کے بعد دوسری تحریک ابھرے گی اور تحریکوں کی پسپائی اور دوبارہ ابھار کے بیچ کی مدت کم سے کم تر ہوتی جائے گی۔ تحریکوں کی اٹھان کا سلسلہ کشمیر تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ پاکستان سمیت اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور آنے والے ماہ و سال اس خطے سے سرمایہ داری کے مکمل خاتمے کے تمام تر امکانات کو روشن کردیں گے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تمام وسائل پر عوام کا اجتماعی کنٹرول قائم کرتے ہوئے ہی عوام کو بجلی سمیت تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔
عوامی تحریک زندہ باد!
محنت کش عوام کا اتحاد زندہ باد!