|تحریر: آدم پال|
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری پر ہونے والے لاکھوں افراد کے احتجاجی مظاہروں نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ امریکہ کے تمام اہم شہروں میں بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرین امریکی صدرکے عوام دشمن ایجنڈے کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ حلف برداری کے بعد خواتین کے حقوق کے لیے ٹرمپ کیخلاف احتجاج کی کال دی گئی جس میں پہلے سے بھی زیادہ افراد نے شرکت کی۔ ایک اہم تاریخی شہر بوسٹن میں احتجاج کے منتظمین نے میڈیا کو بتایا کہ ان کا خیال تھا کہ مظاہرے کے شرکا کو اکٹھا کر کے شہر کے ایک کونے سے دوسرے تک ریلی نکالی جائے گی۔ لیکن اس دن مظاہرین کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ تمام شاہراہیں لوگوں سے بھر گئیں تھیں اور شہر میں ریلی نکالنے کی جگہ ہی ختم ہو گئی تھی۔ مختلف رپورٹوں کی روشنی میں مرتب کیے گئے ایک اندازے کے مطابق اس دن امریکہ میں چھیالیس لاکھ لوگوں نے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔ نیویارک، واشنگٹن ڈی سی، شکاگو سمیت تمام بڑے شہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر موجود تھے اور ٹرمپ کے خواتین کی جانب ہتک آمیز روئیے کی شدید مذمت کر رہے تھے۔ اس دن امریکہ کے علاوہ لندن، پیرس، میلبورن سمیت دنیا کے چھ سو سے زائد شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ ٹرمپ کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری ہے اور اس کے ہر اقدام کیخلاف عوامی نفرت کا اظہار بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔ خواہ وہ میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا اقدام ہو یا چند مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا اعلان ہو، ہر فیصلے کیخلاف عوام رنگ، نسل، مذہب اور زبان سے بالاتر ہو کر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسلم ممالک کے شہریوں پر پابندی کے اطلاق کے بعد تو لوگ احتجاج کے مرحلے سے بھی آگے بڑھ گئے اور خود نیو یارک ائیر پورٹ میں داخل ہو کر سرکاری حکام کے ساتھ ہاتھا پائی کی اور پابندی کی زد میں آنے والے افراد کو امریکہ میں زبردستی داخل کروانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ نیو یارک میں ٹیکسی ڈرائیوروں نے اس فیصلے کیخلاف ہڑتال کر دی۔ اب بہت سی مزدور یونینوں میں اس پابندی کیخلاف ایک ملک گیر عام ہڑتال کے امکان پر بھی بحث کی جا رہی ہے۔
یہ تمام تر صورتحال امریکی سماج میں آنے والی ایک تاریخی تبدیلی کی غمازی کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ امریکہ کا سماج مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ امریکی صدر کی حلف برداری اور اقتدار کے پہلے ہفتے کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر تحریکیں پہلے کبھی نہیں ابھریں۔ یہ تمام تر غم و غصہ اچانک نہیں ابھرا بلکہ ایک لمبے عرصے سے مجتمع ہوتا جا رہا ہے۔ 2008ء کے معاشی بحران نے اس میں ایک معیاری جست لگائی اور پورے ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور گرتے ہوئے معیار زندگی نے محنت کش طبقے کے شعور پر اہم اثرات مرتب کیے۔ اوباما نے اس وقت ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے کے تحت انتخابات میں حصہ لیا جس پر لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس کی حمایت کی۔ ایک سیاہ فام شخص کا امریکہ کا صدر بننا یقیناًایک تاریخی واقعہ تھا اور اس کی حلف برداری میں ریکارڈ تعداد میں افراد نے شرکت کی تھی۔ لیکن اوباما نے بھی بش کی ہی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا اور محنت کش طبقے کا معیار زندگی گرتا رہا جبکہ ایک فیصد امیر ترین افراد کی دولت میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔ اس طبقاتی تقسیم کے خلاف 2011ء میں آکو پائی وال سٹریٹ کے نام سے ایک تحریک کا آغاز ہوا جس میں بڑی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی اور وال سٹریٹ کے سرمایہ دارانہ جبر کے خلاف کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ یہ تحریک اپنے مقاصد میں تو کامیاب نہ ہو سکی لیکن اس نے امریکی سماج میں ایک ہلچل کا آغاز کر دیا۔ اس کے بعد مختلف تحریکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں سیاہ فاموں کی تحریک ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ نے پورے امریکہ میں مقبولیت حاصل کی اور سیاہ فاموں پر ریاست کے جبر اور قتل و غارت کے خلاف بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس تمام تر غم و غصے کا اظہار صدارتی انتخابات کی مہم میں کھل کر ہوا اور تمام رجحانات زیادہ واضح شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ برنی سینڈرز نے جب اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو مختلف شہروں میں پچاس یا سو لوگ اس کی تقریر سننے آتے تھے۔ اس دوران اس نے اپنی تقریروں میں سوشلزم کا لفظ کھل کر استعمال کرنا شروع کیا اور امریکہ کے حکمران طبقے پر حملے کرنے شروع کیے تو اسی کی انتخابی مہم ایک تحریک بنتی چلی گئی جس میں لاکھوں افراد شریک ہو گئے۔ اسی طرح ٹرمپ بھی انتہائی دائیں بازو سے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقے پر حملے کر رہا تھا۔ اس نے انتہائی مکاری اور عیاری سے وعدہ کیا کہ وہ عوام کو پرانا معیار زندگی واپس دلائے گا اور امریکہ کو دوبارہ سے عظیم بنائے گا۔ سماج کی کیفیت اور عوامی رد عمل دیکھتے ہوئے واضح تھا کہ اس صدارتی انتخاب میں مقابلہ انہی دونوں امیدواروں کا ہے۔ لیکن دونوں ہی انتہائی بائیں اور دائیں جانب سے حکمران طبقے کی شدید مذمت کر رہے تھے اور اس کے خلاف انقلاب کا اعلان کر رہے تھے۔ ایسے میں ہیلری کلنٹن اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقے کی نمائندہ بن کر آئی۔ پوری دنیا کے بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، اسلحہ ساز اداروں، میڈیا اور کرائے کے دانشوروں نے اس کی حمایت شروع کر دی۔ اسی باعث اس کے خلاف عوامی نفرت میں بھی اضافہ ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں کے دباؤ کے باعث برنی سینڈرز کو دھاندلی کے ذریعے دوڑ سے باہر کر دیا گیا جسے سینڈرز نے اپنے اصلاح پسندانہ خصی پن کے باعث قبول کر لیا۔ ایسے میں واحد امیدوار جو حکمران طبقے کیخلاف تھا وہ انتہائی دائیں بازو پر کھڑا ٹرمپ تھا۔ 46فیصد سے زائد لوگوں نے تو انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے افراد نے حکمران طبقے سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ کو ووٹ د ے کر کامیاب کیا۔
ٹرمپ کے جیتنے سے خود امریکی حکمران طبقہ بھی شدید ہیجان کا شکار ہو گیا اور ابھی تک سنبھل نہیں پایا۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ امریکہ میں ریاستی ادارے بہت مضبوط ہیں اور بر سر اقتدار آ کر ٹرمپ ان اداروں کی کٹھ پتلی بن جائے گا۔ لیکن خود انہیں اس حقیقت کا ادراک نہیں تھا کہ ادارے کس قدر کمزور ہو چکے ہیں اور ان میں تضادات کتنے بڑے پیمانے پر موجود ہیں جو ٹرمپ کی آمد پر مزید بھڑک اٹھیں گے۔ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے سے جہاں طبقاتی کشمکش کو ایک نئی زندگی ملی ہے اور حکمران طبقے کیخلاف نفرت کا اظہار کھل کر ہوا ہے وہاں امریکہ کے حکمران طبقے کے تضادات بھی پوری دنیا پر عیاں ہو گئے ہیں۔ حلف برداری سے پہلے ہی امریکی سی آئی اے اور ٹرمپ کے درمیان روس کے معاملے پر سر عام گالی گلوچ ہو چکی ہے۔ ٹرمپ کے آنے سے پہلے ہی اوباما نے پولینڈ میں روسی سرحد پرامریکی فوجی دستے تعینات کروا کر روس کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاوا دے دیا۔ اسی طرح دوسری بہت سی پالیسیوں پر ٹرمپ اور دیگر اداروں کے ذمہ دار افراد کی لڑائی سب کے سامنے آ چکی ہے۔ مسلمان ممالک کے افراد کے داخلے پر پابندی پر اٹارنی جنرل برطرف ہو چکی ہے جبکہ ایک جج کو ٹرمپ ’’نام نہاد‘‘ جج کہہ چکا ہے۔ عدالت اس پابندی کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے جبکہ ٹرمپ اس فیصلے کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اسی طرح اوباما نے مشرقِ وسطیٰ میں تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر ایک لمبے عرصے کے مذاکرات کے ذریعے ایران سے تعلقات بحال کیے تھے اور اس پر پابندیوں کو خاتمہ کیا تھا۔ جبکہ ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیوں کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب ایران نے بھی امریکی شہریوں کے اپنے ملک داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بہت سے دفاعی تجزیہ نگار امریکہ اور ایران جنگ کے امکانات پر بحث کر رہے ہیں۔ دوسری جانب چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ کے عالمی معیشت اور سیاست پر اثرات کے بارے میں تجزئیے جاری ہیں جس میں سب متفق ہیں کہ اس میں کسی کا فائدہ نہیں اور حتمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کاہی نقصان ہے۔ برطانیہ کی وزیر اعظم نے ٹرمپ کو برطانیہ دورے کی دعوت دی ہے جس کے خلاف پورے برطانیہ میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس دورے کو رکوانے کے لیے ایک درخواست پر چودہ لاکھ سے زائد افراد دستخط کر چکے ہیں اور برطانوی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ٹرمپ کے دورے کورد کیا جائے۔ برطانوی حکمران یورپ سے باہر نکلنے کے خمیازے کا اندازہ لگا رہے تھے کہ ان پر یہ نئی مصیبت آن گری ہے۔ پہلے ہی یورپی یونین جرمنی کی قیادت میں برطانیہ کی اقتصادی ناکہ بندی کی تیاری کر رہی ہے تاکہ انہیں یونین چھوڑنے کا سخت سبق سکھایا جائے۔ اور اب ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کی متوقع خرابی تجارتی معاہدوں میں مزیدنقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
مختصراً یہ کہ امریکہ سمیت پوری دنیا ایک نئی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کیفیت کا موازنہ تاریخ میں کسی بھی دوسری صورتحال کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مکمل طور پر ایک نئی کیفیت ہے جس کے تمام پہلوؤں اور مختلف طاقتوں کے توازن کو مد نظر رکھتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر از سر نو تجزیہ کرنے اور تناظر بنانے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک پہلو کا موازنہ 1930ء کی دہائی، 1960ء کی دہائی یا کسی اور دور سے کیا جا سکتا ہے لیکن ماضی کے تجزیوں کو اس صورتحال پر مسلط کر دینے سے اس کو سمجھنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی اور نہ ہی درست تناظر تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ خود امریکہ سمیت دنیا بھر کے حکمران طبقات شدید ہیجان کا شکار ہیں اور ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ ان تمام تر واقعات کا مستقبل کیا ہو گا۔ ایک جانب عالمی معیشت ایک نئے بحران کی جانب بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب سیاسی محاذ ان کی گرفت سے باہر نکلتا جا رہا ہے۔ بہت سے تجزیہ نگارچین کو امریکہ کا متبادل قرار دے رہے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر حکمرانی کا کردار نبھائے لیکن چین اس کردارکے لیے نہ تو تیار ہے اور نہ اس میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ موجودہ عہد ماضی کے کسی عہد کی تکرار نہیں ہے جس میں امریکہ کی جگہ چین آ جائے گا اور سب کچھ پہلے کی طرح رواں دواں ہو جائے گا۔ بلکہ یہ مکمل طور ایک مختلف کیفیت ہے جس میں تجارتی، سیاسی، معاشی سمیت ہر محاذ پر نئی حد بندیاں ہو ں گی۔ اس میں کلیدی کردار طبقاتی صف بندی ادا کرے گی جو چین سمیت پوری دنیا میں انتہائی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ اس طبقاتی کشمکش میں شدت آنے سے جہاں سیاست میں نئی صف بندیاں ہو ں گی وہاں ریاست کے ادارے پر بھی سوالیہ نشان مزید گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ ہر طرف انتہائی دائیں اور بائیں جانب کی سیاسی تحریکیں ابھرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں جو نئی سیاسی پارٹیوں کے ابھرنے اور پرانی کے خاتمے کا اعلان بھی کر رہی ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس میں شدت آئے گی۔
اس کیفیت کا ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ آج پوری دنیا ماضی کے کسی بھی دور کی نسبت ایک دوسرے سے زیادہ جڑ چکی ہے۔ درحقیقت سرمایہ داری نے گزشتہ دہائیوں میں اپنے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے گلوبلائزیشن کو شدت کے ساتھ استعمال کیا ہے اور عالمی تجارت میں پھیلاؤ کے ذریعے ہی ایک لمبے عرصے تک منافعوں کی شرح میں اضافہ کیا جا تا رہا ہے۔ ٹرمپ سمیت بہت سے دائیں بازو کے سیاستدان آج اس پھیلاؤ کو واپس ریاستی حدود میں سکیڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو خود بہت سے تضادات کا باعث بن رہا ہے۔ لیکن گلوبلائزیشن کے اس سارے عمل کے باعث دنیا کے مختلف خطے ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں۔ ایک ملک میں ابھرنے والی تحریک نہ صرف پورے خطے بلکہ دنیا بھر میں اثرات مرتب کرتی ہے۔ عرب انقلابات میں اس کا عملی نمونہ دیکھا جا چکا ہے۔ اسی طرح معاشی بحرانات بھی عالمگیر حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ایسے میں امریکہ جیسے ملک میں ابھرنے والی تحریکیں اور سیاسی تبدیلیوں کا پوری دنیا پر اثرات مرتب کرنا نا گزیر ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے امریکی سامراج تن تنہا پوری دنیا پر حکمرانی کررہا تھا اور وال سٹریٹ پوری دنیا میں سرمایہ داری کی پالیسیوں کا منبع بن چکی تھی۔ ایسے میں پرانے ورلڈ آرڈر کے بکھرنے، امریکہ میں آنے والی تبدیلیوں اور عوامی تحریک کے اثرات سے دنیا کا کوئی بھی خطہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔
پاکستان سمیت یہ پورا خطہ پہلے ہی امریکی سامراج کی براہ راست مداخلت کا شکار ہے۔ امریکی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے وقت سے ہی امریکہ اور پاکستان کے حکمرانوں کے تعلقات کشیدہ تھے اور امریکہ خطے میں ہندوستان کے کردار کو بڑھا کر اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس دوران چین کی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سامراجی مداخلت نے پورے خطے کی صورتحال میں اہم تبدیلیاں رونما کی ہیں۔ ایران پر سے پابندیوں کے خاتمے کے بعد سعودی عرب کے سامراجی عزائم وقتی طور پر پسپائی کا شکار ہوئے تھے اور امریکہ ایران اور ہندوستان کے ذریعے اپنا تسلط بڑھا رہا تھا۔ لیکن اب ایران دوبارہ چین اور روس کے زیادہ قریب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں روس اور ایران پہلے ہی مل کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس میں ترکی بھی ان کے ساتھ شامل ہو چکا ہے۔ افغانستان میں بھی روس اور ایران طالبان کے ساتھ مل کر امریکی اجارہ داری کیخلاف لڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس میں پاکستان سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ جہاں چین اور ہندوستان کی مخاصمت کی ایک لمبی تاریخ ہے وہاں دونوں ممالک کی باہمی تجارت سو ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ چین اور ہندوستان برکس ممالک کی تنظیم کے بنیادی ارکان بھی ہیں۔ دوسرا چین خطے میں اپنے تجارتی اور عسکری مفادات کے تحفظ کے لیے ہندوستان اور پاکستان دشمنی کو نقصان دہ سمجھتا ہے۔ دوسرا وہ ہندوستان کو بھی سی پیک میں شامل ہونے کی دعوت دے چکا ہے۔ اسی کے ساتھ امریکہ اور چین کے سامراجی مفادات کا ٹکراؤ ابھی تک کھل کر واضح نہیں ہوا گو کہ ٹرمپ کی پالیسیاں کشیدگی کو مسلسل بڑھا رہی ہیں۔ بحرالکاہل میں چین اور جاپان کے درمیان واقع متنازعہ جزیروں کو ٹرمپ کے ایک اہم وزیر نے جاپان کا حصہ قرار دے دیا ہے جس کے بعد چین کی حکومت نے اس کی سختی سے مذمت کی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس کشیدگی میں اضافے کے امکانات ہیں لیکن ساتھ ہی چین اور امریکہ کے معاشی مفادات ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور موجودہ توازن بگڑنے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ دونوں کا نقصان ہو گا بلکہ پورا سرمایہ دارانہ نظام بربادی کی جانب بڑھے گا۔
ایسے میں پاکستان کے حکمران طبقات کے لیے کسی ایک سامراجی طاقت کے چناؤ کا مرحلہ قریب آتا جا رہا ہے۔ پاکستانی ریاست پہلے ہی شدید تضادات کا شکار ہے اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑے ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں۔ سعودی عرب، ایران، ترکی سمیت خطے کے دیگر سامراجی ممالک کے احکامات بجا لانے کے ساتھ ساتھ اب امریکہ اور چین کے آقاؤں کی ایک ہی وقت میں غلامی مشکلات پیدا کرنے کی جانب بڑھے گی۔ واشنگٹن کے ایک اہم تجزیہ نگار مائیکل کوگل مین نے اپنے ایک مضمون میں حافظ سعید کی حالیہ گرفتاری پر تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان کے حکمرانوں کی مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ گرفتاری چین کے دباؤ پر کی گئی ہے کیونکہ ٹرمپ کو ابھی تک اس معاملے پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کے حکمران امریکہ داخلے پر پابندی کے امکان سے بھی خوفزدہ ہیں اور اپنے نئے آقاٹرمپ کو بہتر کارکردگی دکھا کر اس پابندی سے بچنا چاہتے ہیں۔ اس پابندی کے اطلاق سے جہاں امریکہ میں رہنے والے پاکستانی محنت کش مشکلات کا شکار ہوں گے وہاں حکمرانوں کی لوٹی ہوئی رقم سے بنائی گئی جائیدادیں اور کاروبار بھی داؤ پر لگ جائیں گے۔ لیکن یہ سب ابھی آغاز ہے اور ایک تیرسے دو شکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن آنے والے عرصے میں خطے سمیت پوری دنیا میں سامراجی طاقتوں کے تعلقات میں تیزترین تبدیلیاں آئیں گی جن میں پاکستان کے حکمران طبقات سے بھی دو مختلف سمتوں میں واضح اقدامات کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں ایک لمبے عرصے سے بنائی گئی ریاستی پالیسیاں چکنا چور ہو جائیں گی۔ ہندوستان سے دشمنی، چین سے دوستی، کشمیر کی آزادی، مسلم امہ کی وحدت سمیت پاکستانی ریاست نے جو بھی نام نہاد پالیسیاں ایک لمبے عرصے سے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے انہیں زیادہ لمبا عرصہ برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔ اس کے علاوہ مختلف سامراجی قوتیں ریاست کے مختلف دھڑوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کے ذریعے خطے میں اپنے مفادات کے حصول کی کوشش کریں گی۔ لیکن خونریزی اور عوامی وسائل کی لوٹ مار کے اس کھلواڑ میں محنت کش طبقے کی تحریک دراڑیں ڈالنے کی جانب بڑھے گی۔ سماج کی موجودہ کیفیت ناگزیر طور پر نئی عوامی تحریکوں کو جنم دے گی جو دائیں اور بائیں دونوں جانب نئی سیاسی صف بندیوں کا باعث بنیں گی۔
ایسے میں اس خطے سمیت پوری دنیا میں برپا ہونے والی قتل و غارت اور بربادی سے نجات کا واحد رستہ محنت کش طبقے کی عالمگیر جڑت ہے۔ چین، ہندوستان اور پاکستان کے محنت کش طبقے سمیت پوری دنیا کے محنت کش طبقے کو سرمایہ داری کے پنجے سے صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی چھٹکارا مل سکتا ہے۔ آنے والے عرصے میں اس مقصد کے لیے وسیع تر مواقع میسر ہوں گے۔ اگر مارکسی نظریات پر ایک انقلابی قوت موجود ہوئی تو وہ ان طوفانی واقعات کے بھنور سے ایک سوشلسٹ نظام کی تخلیق کرے گی۔