|تحریر: آدم پال|
پاکستان کی معیشت اس وقت دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی ہے اور بحران بد ترین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کر کے اس ملک کے عوام پر بد ترین مہنگائی اور بیروزگاری مسلط کرنے کے باوجود واشنگٹن میں موجود آقاؤں نے اگلی قسط کا اجرا روک دیا ہے اور 700 ارب روپے تک کے مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کرنسی بھی اس وقت شدید ترین دباؤ میں ہے اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ پہلے ہی اسٹیٹ بینک کے پاس تقریباًایک ماہ کی درآمدات کے لیے درکار ذخائر رہ گئے ہیں جبکہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں ایک ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کرنے کے بعد ان میں شدید ترین گراوٹ آئے گی۔ بہت سی درآمدات پر پابندی لگائی جا چکی ہے جس کے بعد اہم صنعتوں کے لیے درکار خام مال کی سپلائی موجود نہیں اور ایک طرف ان اشیا کی قلت پیدا ہورہی ہے جبکہ دوسری جانب صنعتوں کی بندش کے باعث ایکسپورٹ میں تیز ترین کمی آ رہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں معیشت کی شرح ترقی کا تخمینہ رواں مالی سال میں دو فیصد سے بھی کم لگایا جا رہا تھا۔ لیکن اب حکومت نے ایک طرف وفاقی ترقیاتی اخراجات میں پچاس فیصد سے بھی زیادہ کمی کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس کا حجم 725 ارب روپے سے کم کر کے 350 ارب روپے کیا جا نے کا امکان ہے، دوسری جانب شرح سود میں بھی ایک فیصد کا مزید اضافہ کرتے ہوئے اسے 16 فیصد کر دیا گیا ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے میں سب سے زیادہ ہے۔ ان اقدامات سے شرح ترقی مزید کم ہونے کا امکان ہے۔
پہلے ہی جولائی سے اکتوبر کے چار ماہ میں گزشتہ مالی سال کی نسبت ترقیاتی اخراجات میں 45 فیصد کمی آ چکی ہے۔ اس سال اس مد میں صرف 98.78 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں جبکہ گزشتہ سال اسی دورانیے میں 178 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے۔ دوسری جانب دفاعی اخراجات میں اضافہ جاری ہے اور مالی سال کے آغاز میں ہی 30 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ دفاعی اخراجات کے لیے جاری کر دی گئی تھی۔ ان تمام اقدامات کے باوجود مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آ رہا ہے اور حکومت کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق نومبر کے مہینے میں ہفتہ وار افراط زر 30 فیصد سے بھی زائد رہا جبکہ حقیقت میں یہ اس سے کہیں زیادہ سطح تک پہنچ چکا ہے۔ افراط زر کے درحقیقت چالیس فیصد تک پہنچ جانے کے باوجود اجرتوں میں اس تناسب سے اضافہ نہیں کیا جا رہا جس کے باعث محنت کش طبقے کی اکثریت غربت کی چکی میں پستی چلی جا رہی ہے۔ اب تو صورتحال درمیانے طبقے کو بھی بد ترین انداز میں زد پہنچا رہی ہے اور اس کی آمدن تیزی سے سکڑ رہی ہے اور اخراجات میں تیز ترین اضافہ ہورہا ہے۔ اسی کی وجہ سے کنزیومر آئٹمز کی فروخت میں تیزی ترین گراوٹ بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ صابن اور شیمپو سے لے کر گھی اور تیل کی فروخت کے مختلف اعدادو شمار سامنے آتے رہے ہیں جن سے واضح طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ عوام کی قوت خرید میں تیزی سے کمی آ چکی ہے اور وہ صرف راشن اور انتہائی ضروری اشیا جیسے بجلی، گیس اور ادویات وغیرہ پر ہی اپنی تمام جمع پونجی خرچ کر رہے ہیں۔ اس وقت کم از کم اجرت کو ایک تولے سونے کی قیمت کے برابر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس بد ترین بحران میں بھی حکمران، سرمایہ داروں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ نہیں کر رہے بلکہ انہیں بڑے پیمانے پر ٹیکس میں نہ صرف چھوٹ دی جا رہی ہے بلکہ ان کے لیے سبسڈیوں کے اعلانات بھی کیے جا رہے ہیں۔ اس ملک میں موجود درجنوں ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر سال سینکڑوں ارب روپے کے منافع لوٹ کر اس ملک سے باہر لے جاتی ہیں لیکن ان پر لگائے گئے ٹیکس آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اس معاشی بحران کو حل کرنے میں اگر کوئی بھی حکومت سنجیدہ ہوتی تو کوکا کولا اور ٹویوٹا سے لے کر یونی لیور اور نیسلے تک تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے منافعوں پر ٹیکسوں میں تیز ترین اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اسٹاک ایکسچینج میں کھربوں روپے کے ہونے والے کاروباروں پر نہ صرف ٹیکس لگایا جا سکتا تھا بلکہ اس میں تیز ترین اضافہ کرتے ہوئے ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یہی کچھ بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے ہوشربا منافعوں کے حوالے سے کیا جا سکتا تھا اور ملک میں جاری بحران پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا تھا۔ حکومت کے اپنے اندازوں کے مطابق صرف تین ماہ میں کرنسی کے اتار چڑھاؤ کے ذریعے ملک کے آٹھ بڑے بینکوں نے تاریخ کے سب سے بڑے منافع کمائے۔ ستمبر میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں کمرشل بینکوں نے 85ارب روپے کے منافع کمائے جس میں ایک بڑا عنصر روپے کی قدر کی گراوٹ میں ہیر پھیر اور صارفین کو لو ٹنا تھا۔ آنے والے عرصے میں کرنسی کی قدر میں تیزی ترین گراوٹ کی پیش گوئی کی جا رہی ہے، جس کی بڑی وجہ زر مبادلہ کے ذخائر میں تیز ترین کمی ہے۔ ایک عالمی ادارے نومورا کے مطابق پاکستان سمیت دنیا کے آٹھ ممالک کی کرنسی اس وقت شدید ترین دباؤ کا شکار ہے اور کسی بھی وقت بے قابو ہو سکتی ہے۔ ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کے ساتھ سری لنکا اور ترکی جیسے ممالک بھی ہیں جہاں کرنسی کی گراوٹ پہلے ہی پچاس سے اسی فیصد تک ہو چکی ہے۔
ا س بحران سے نمٹنے کے لیے ایک اقدام 2500 ارب روپے کے گردشی قرضے کی ادائیگی کو مکمل طور پر ضبط کیا جانا بھی ہو سکتا ہے اور نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے گئے عوام دشمن معاہدوں کو منسوخ کیا جا سکتا ہے جس کے لیے حکومت کے پاس تمام اختیارات موجود ہیں۔ معاشی بحران سے نمٹنے اور عوام کو سستی بجلی کی فراہمی کے لیے ان بجلی گھروں کو ریاستی تحویل میں لیا جا سکتا ہے۔ صرف اس ایک اقدام سے افراط زر میں بہت بڑی کمی واقعہ ہو سکتی ہے بلکہ محنت کشوں کی قوت خرید بھی بڑھے گی اور دوسری جانب صنعت کا پہیہ بھی تیز ہو سکتا ہے۔
لیکن اس ملک کے حکمران طبقے سے ایسے کسی بھی اقدام کی توقع کرنا یا عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سوچنے کی امیدد رکھنا بیوقوفی ہے۔ یہ حکمران طبقہ یہاں پر صرف لوٹ مار کے لیے موجود ہے اور اپنے اثاثے تیزی سے بیرون ملک منتقل کرتا جا رہا ہے جبکہ یہاں کے محنت کش عوام کو بھوک، بیماری اور ذلت میں مرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ بحران کی شدت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آٹے اور دیگر ضروری اشیا کی فروخت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے اور عوام نے اپنی خوراک سمیت بنیادی ضروریات میں کمی کر لی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں اس اکتوبر میں گزشتہ سال کی نسبت تقریباً 47 فیصد کمی ہوئی ہے جو واضح کرتا ہے کہ مہنگائی کس طرح قوت خرید اور کاروباری سرگرمی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اسی طرح فرٹیلائزر کی فروخت میں بھی 50 فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بھی تعمیر نو کا آغاز نہیں ہو سکا اور لاکھوں کسان اس وقت تباہی اور بدحالی کا شکار ہیں۔ ایسے میں آئندہ سال خوراک اور زرعی اجناس کی پیداوار کے بد ترین بحران کی پیش گوئی بھی کی جا رہی ہے۔ پاکستان پہلے ہی اپنی ضرورت کی گندم اور دیگر ضروری اجناس امپورٹ کرتا ہے جبکہ اس سال اگر زرعی پیداوار مزید کم ہوتی ہے تو زر مبادلہ کے ذخائر ان ضروریات کی درآمد کے لیے استعمال کرنے پڑیں گے۔ پہلے ہی اس سال ٹماٹر اور پیاز جیسی بنیادی اجناس بیرون ملک سے منگوانی پڑی تھیں۔ صورتحال اتنی بدتر ہو چکی ہے کہ حکومت انتہائی اہم ادویات، خوراک، گیس اور تیل جیسی بنیادی اشیا کی درآمد پر بھی جزوی پابندی لگانے یا نہ لگانے کے متعلق سوچ رہی ہے۔ لیکن اس دوران سرمایہ داروں پر ٹیکس لگانے یا ان کی دولت اور جائیدادیں ضبط کرنے کے امکان پر کبھی غور نہیں کیا جاتا۔
عالمی بحران
پاکستان کا معاشی بحران درحقیقت عالمی سطح پر موجود سرمایہ دارانہ بحران کا ہی نتیجہ ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت سماج اور معیشت کو چلایا جا رہا ہے اور یہ نظام اپنی تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہا ہے۔ آج سے تین صدیاں قبل سرمایہ دارانہ نظام جاگیر داری کے مقابلے میں ایک ترقی پسندانہ اور بہتر نظام تھا اور اس نے ایک وقت میں پوری دنیا میں سماج کو بہت زیادہ ترقی بھی دی تھی۔ لیکن آج یہ نظام سماج کو ترقی دینے کی بجائے اس کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے اور پوری دنیا کو غربت، بیروزگاری، جنگوں اور تباہی میں دھکیل رہا ہے۔ ایک جانب سرمایہ دار طبقے کی دولت تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے اور اور ان کے منافعوں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب دنیا کی آبادی کی بہت بڑی اکثریت بھوک اور بیماری کی زندگی گزار رہی ہے۔
اس وقت امریکہ اور یورپ سمیت ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی معیشتیں اور سماج بھی بد ترین بحران کا شکار ہیں۔ امریکہ میں افراط زر 8 فیصد کی حد عبور کر چکا ہے جبکہ یورپ کے مختلف ممالک میں یہ دس فیصد سے بڑھ کر اب بیس فیصد کی جانب بڑھ رہا ہے۔اس دوران محنت کشوں کی اجرتوں میں اس تناسب سے اضافہ نہیں کیا جا رہا اور مہنگائی اور بیروزگاری میں بہت بڑا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت یورپ اور امریکہ میں مزدوروں کی ہڑتالوں میں تیز ترین اضافہ ہوا ہے اور وہ اپنی اجرتوں میں اضافے اور بہتر روزگار کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالیں کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں اس وقت ایک سو کے قریب صنعتی اور پبلک اداروں کے محنت کش احتجاج اور ہڑتالوں میں شریک ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ کے ریلوے کے ملازمین پہلے ہی ملک گیر ہڑتال کر چکے ہیں اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب انہوں نے دسمبر اور جنوری میں 48 گھنٹے کی چار ملک گیر عام ہڑتالیں کرنے کا اعلان کیا ہے اور کسی بھی ریاستی دباؤ کے تحت پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے۔ برطانیہ میں پوسٹ آفس کے ملازمین سے لے کر یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر اسٹاف بھی ہڑتالیں کر رہا ہے۔ اس وقت برطانیہ کی مزدور یونینیں ایک ملک گیر عام ہڑتال کی ضرورت پر بحث کر رہی ہیں اور اس جانب تیزی سے پیش رفت بھی ہورہی ہے۔ 1926ء کے بعد یہ برطانیہ کی پہلی عام ہڑتال ہوگی لیکن یہ ماضی کے کسی بھی دور کی نسبت کہیں زیادہ شدید اور دھماکہ خیز ہوگی۔
امریکہ میں بھی مزدور یونین کی سرگرمی میں تیز ترین اضافہ ہورہا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں میں دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ ایپل، ایمازون، سٹار بکس اور دیگر ایسی امیر ترین کمپنیوں کے ورکرز بھی کام کے بد ترین حالات اور شدید استحصال سے تنگ آکر یونین سازی کر رہے ہیں اور ہڑتالوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ان کمپنیوں کے مالکان کی دولت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور وہ دنیا کے امیر ترین شخص کی دوڑ میں سر فہرست ہیں۔ جرمنی، فرانس، اٹلی سمیت دیگر یورپی ممالک میں بھی محنت کشوں کے احتجاج اور ہڑتالیں بڑھ رہی ہیں اور وہ بھی مہنگائی، بیروزگاری اور تیزی سے گرتے ہوئے معیار زندگی کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں احتجاج کر رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ ممالک میں اس بدترین معاشی بحران کی بنیاد پھر اس نظام کا نامیاتی زوال ہے جو مسلسل گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے اور آنے والے کئی سالوں میں اس میں کمی کے امکانات موجود نہیں۔ آئی ایم ایف کے تجزئیے کے مطابق 2023ء میں بہت سے ممالک کساد بازاری کا شکار ہونے کی طرف بڑھیں گے اور ان کی معیشتیں تیزی سے سکڑنے کی طرف جائیں گی۔ برطانیہ پہلے ہی تکنیکی طور پرکساد بازاری کا شکار ہو چکا ہے گو کہ حکمران اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ جرمنی کی بھی تقریباً یہی صورتحال ہے جو یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق 2022ء میں عالمی معیشت کی شرح ترقی 3.1فیصد تک ہوگی جبکہ آئندہ سال 2023ء میں یہ 2.2 فیصد تک گر سکتی ہے۔دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کے لیے موجودہ سال میں 1.8فیصد کی شرح ترقی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جبکہ 2023ء میں صرف 0.5 فیصد کی۔
عالمی مالیاتی ادارے اور تجزیہ نگار اس کی وجہ افراط زر، روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے خام مال کی سپلائی میں تعطل اور چین کی معیشت کی سست روی بتا رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ تمام صرف علامات ہیں اور بیماری سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہے جسے قابو نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے تمام ممالک کے مرکزی بینک اپنے اپنے ملک میں ا فراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے اب شرح سود بڑھا رہے ہیں جو 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد کم ترین سطح پر صفر تک یا منفی میں چلی گئی تھی۔ اس شرح سود کو گرانے کا مقصد کاروباری سرگرمی کو فروغ دینے کے لیے سستے قرضوں کی فراہمی تھی۔ اس دوران مرکزی بینکوں نے کھربوں ڈالر کے نوٹ چھاپ کر بھی منڈی میں پھینکے تا کہ بحران سے نمٹا جا سکے۔ اس و قت معاشی تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ اس سے افراط زر بالکل بھی پیدا نہیں ہوگا اور یہ اب ماضی کا قصہ ہے۔ اسی طرح کرونا وبا کے دوران بھی عوامی سرکشی کو روکنے کے لیے امریکہ اور یورپ میں نوٹ چھاپ کر عوام میں تقسیم کیے گئے۔ لیکن ان تمام پالیسیوں کے نتیجے میں افراط زر بے قابو ہو چکا ہے جو ان تمام معیشتوں کو نگل رہا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں تیز ترین اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے باعث شرح ترقی کم ہورہی ہے اور کاروباری سرگرمی ماند پڑ رہی ہے۔ اس سے بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے اور لاکھوں کاروباروں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے جو سستے قرضوں پر انحصار کرتے تھے اور اب دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ایسے لاکھوں عام صارفین نے گھروں کو بھی سستے قرضوں کے باعث قسطوں پر خریدا تھا وہ بھی قسطیں دینے کے قابل نہیں رہے اور بے گھر ہو رہے ہیں۔ لیکن اس تمام عمل سے افراط زر پھر بھی قابو میں نہیں آ رہا اور اس سال میں یہ امیر ترین ممالک میں بھی اوسطاً 9 فیصد رہے گا۔ اگلے سال بھی یہ اوسط 6.6 فیصد تک رہنے کا امکان ہے جبکہ بہت سے ممالک کے حکمران اسے دو فیصد تک کم کرنے کا بے بنیاد دعویٰ کر رہے ہیں۔
روس اور یوکرائن کی جنگ بھی عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن کے بگڑنے کے باعث ہی شروع ہوئی جس میں کلیدی عنصر امریکی سامراج کی کمزوری اور زوال پذیری ہے۔ آج امریکی سامراج گزشتہ دہائیوں کی طرح اپنی مرضی دنیا بھر میں ڈکٹیٹ نہیں کر پا رہا جس کی بنیاد پھر اس کا معاشی اور مالیاتی بحران ہی ہے۔ طاقتوں کے اسی بدلتے توازن میں امریکہ اور چین کی سامراجی طاقتوں کی کشمکش بھی شدت اختیار کر چکی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں سپلائی چین کا مسئلہ بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ امریکہ نے چین کی سینکڑوں مصنوعات پر پابندیاں لگا دی ہیں جس کی وجہ سے چین سے بنائی گئی الیکٹرانکس کی مصنوعات اور موبائل وغیرہ کے لیے درکار ضروری آلات بہت سے ممالک کودستیاب نہیں ہو پا رہے اور ان کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔ اس دوران عالمی تجارت کے حجم میں اضافے کی شرح بھی کم ہو رہی ہے اور ہر ملک کا حکمران طبقہ دوسرے ممالک پر انحصار کی بجائے اپنے ملک میں مصنوعات کی تیاری کو فروغ دے رہا ہے جسے تحفظاتی پالیسی کہا جاتا ہے جو گزشتہ دہائیوں کی گلوبلائزیشن کی پالیسی کے الٹ ہے۔ یہ بھی اس نظام کے بحران کی ہی علامت ہے۔
اس دوران پوری دنیا کی سیاست میں تاریخ کی سب سے بڑی تبدیلیاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں اور گزشتہ سات دہائیوں سے جاری سیاست اور سیاسی پارٹیاں یکسر تبدیل ہو کر بحران کا شکار ہو رہی ہیں۔ برطانیہ میں گزشتہ تین ماہ میں تین وزیر اعظم دیکھنے کو ملے جو اس سے پہلے چار سو سالوں میں نہیں دیکھا گیا۔ امریکی سیاست میں بھی ٹرمپ دوبارہ صدارت کا مضبوط امیدوار بن کر آ رہا ہے جبکہ برازیل میں بولسنارو اور لولا ڈی سلوا کی شکل میں ہمیں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کی شدید کشمکش نظر آتی ہے۔ اس وقت بائیں بازو کے راہنما لولا ڈی سلوا انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار سنبھال رہے ہیں لیکن انتہائی دائیں بازو اور فاشسٹ رجحانات کا حامل شخص بولسنارو بھی انتہائی کم ووٹوں سے ہارا ہے اور ہر ممکن طریقے سے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اس دوران بہت سے کمزور ممالک کی معیشتیں دیوالیہ پن کی جانب بھی بڑھ رہی ہیں اور وہاں پر حکمران طبقے کے خلاف شدید نفرت اور عوامی تحریکیں بھی نظر آتی ہیں۔ سری لنکا اس کی حالیہ مثال ہے لیکن آنے والے عرصے میں مصر اور ترکی سے لے کرارجنٹینا تک ہر جگہ عوامی تحریکوں کا ابھار نظر آئے گا اور اس نظام کیخلاف لاکھوں لوگ پوری دنیا میں احتجاج کرتے دکھائی دیں گے۔ پہلے ہی کرۂ ارض پر شاید ہی کوئی خطہ ہو جہاں عوامی تحریکیں اور بغاوتیں نہ ابھر رہی ہوں۔
اس تمام صورتحال میں واضح ہو چکا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے محنت کش طبقے کے پاس کوئی حل نہیں اور اس کے لیے نجات کا واحد رستہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ہے۔ اس انقلاب کے بعد تمام تر ذرائع پیداوار مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لیے جائیں گے اور دنیا میں موجود تمام تر ٹیکنالوجی اور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہر طرف سے بھوک، بیماری اور غربت کا خاتمہ کیا جائے گا۔ آج دنیا میں ایسے تمام وسائل موجود ہیں جنہیں اگر منافع خوری کی بجائے منصوبہ بندی کے ساتھ انسانی ضرورت پوری کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو نہ صرف تمام تر آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں بلکہ انہیں روٹی، کپڑے اور مناسب مکان کے علاوہ بجلی، گیس سمیت علاج اور تعلیم کی سہولیات بھی مفت فراہم کی جا سکتی ہیں۔ سرمایہ داری نظام میں کروڑوں افراد سماج میں اپنا فعال کردار ادا ہی نہیں کر پاتے جبکہ سوشلسٹ نظام میں یہ کروڑوں لوگ بھی سائنس اور ٹیکنالوجی یا آرٹ کے شعبوں میں سرگرم کردار ادا کریں گے اور انسانیت کو ترقی کی نئی منازل کی جانب لے جائیں گے۔
اس سوشلسٹ انقلاب کا آغاز پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک سے ہو سکتا ہے لیکن اس کی منزل عالمی سطح پر سرمایہ داری کا خاتمہ ہی ہے۔ آج کی دنیا میں ایسے انقلاب کی تکمیل کے جتنے امکانات موجود ہیں ماضی میں کبھی بھی نہیں رہے، اسی لیے ضروری ہے کہ ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل کو اولین ترجیح پر رکھتے ہوئے اس عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کی جائے اور اس انسان دشمن حکمران طبقے اور اس کے نظام کو اکھاڑ کر ترقی اور خوشحالی کے حقیقی دور کا آغاز کیا جائے۔ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!