|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، گلگت بلتستان|
گذشتہ روز گرینڈ ہیلتھ الائنس گلگت بلتستان کی کال پر پورے خطے کے ضلعی ہیڈکوارٹر اسپتالوں اور گلگت میں چیف منسٹر ہاؤس چنار باغ کے باہر ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے اپنے دیرینہ مطالبات کے لیے بھرپور احتجاج کیا۔ مظاہرین نے اپنے مطالبات پر مبنی بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ اس دوران حکومت کے خلاف اور اپنے مطالبات کے حق میں شدید نعرے بازی کی گئی۔ ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے حکومت گلگت بلتستان سے مطالبہ کیا کہ کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا جائے، گلگت بلتستان کے تینوں ڈویژنز میں سو سو بیڈ کے تین اسپتال بنائے جائیں، پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح گلگت بلتستان کے پیرامیڈیکل اسٹاف کو الاؤنسز دئیے جائیں، اسپتالوں کی سکیورٹی کے حوالے سے قانون سازی کی جائے، تمام ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو پی پی ایز مہیا کی جائیں۔
Grand Health Alliance GB Protest and Dharna in Front of CM House for Genuine Demands.#Saada_Haq #Ethay_Rakh
— YDA GILGIT BALTISTAN (Official) (@YDA_Gilgit_GB) June 15, 2020
Long Live GHA
Long Live YDA
Long Live Unity. pic.twitter.com/DulKSfTA5E
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی گلگت بلتستان میں پہلے سے ناقص اور تباہ حال ہیلتھ کا نظام مکمل طور پر جواب دے گیا۔ حکومت گلگت بلتستان نے اس صورتحال میں ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف، جوکہ اس بحران میں صفِ اول کے سپاہی کہلاتے ہیں اور اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر مریضوں کا علاج معالجہ کرتے ہیں، وبا کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ہیلتھ سٹاف کو نہ تو پی پی ایز دی گئی اور نہ دیگر طبی آلات مہیا کیے گئے۔ اس کی وجہ سے تا دم تحریر ایک جوان سال ڈاکٹر اسامہ ریاض اور ایک ریڈیولوجسٹ مالک اشدر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جبکہ کٹھ پتلی حکومتِ گلگت بلتستان اور افسر شاہی ہیلتھ سٹاف کو حفاطتی سامان اور طبی استعدار کار بڑھانے کی بجائے منافقانہ سلیوٹ مارنے کا ناٹک کرتے رہے۔ اس احتجاج نے حکومتی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور طبی عملے کو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔
گلگت بلتستان، جوکہ پاکستانی ریاست کے زیر انتظام علاقہ ہے، پاکستان بننے سے آج تک اس خطے کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک رکھا گیا۔ نہ یہاں میڈیکل کالج بنایا گیا نہ آج تک کوئی ایک بھی ٹرشری کئیر اسپتال تعمیر کیا گیا۔ گلگت بلتستان کے کل 14 ضلعے ہیں اور ان چودہ ضلعوں میں بس ایک ایک ڈی ایچ کیو اسپتال موجود ہے اور گلگت مین سٹی میں ایک پی ایچ کیو اور دوسرا سٹی ہاسپٹل ہیں لیکن ان سب میں کورونا وائرس کے آغاز سے پہلے بھی انتہائی قلیل انتظامات موجود تھے۔ اکثر مریضوں کو علاج کروانے کے لیے راولپنڈی، لاہور یا دیگر بڑے شہروں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ اب کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے ہیلتھ سسٹم کی قلعی کھل گئی ہے۔ آئے روز شرپسند عناصر اسپتالوں توڑ پھوڑ اور ڈاکٹرز کو ہراساں کرتے ہیں لیکن حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہتی ہے۔ غریب پیرامیڈیکل اسٹاف کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے بجائے کٹوتیاں کی جارہی ہیں۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس، ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکس کی تنظیموں پر مشتمل شعبہ صحت کے ملازمین کا اتحاد ہے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مطالبات میں اضافی تنخواہ بمہ رسک الاؤنس، کنٹریکٹ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی سروس مستقلی، اسپتالوں میں فول پروف سکیورٹی کا انتظام، پیرامیڈیکل اسٹاف کی ترقیوں کا عمل تیز تر کیا جائے اور سروس سٹرکچر کے پی کے کے مطابق بنایا جائے، کلاس فور ملازمین کو بلا تاخیر ٹائم سکیل کے تحت ترقی دی جائے، گلگت بلتستان کے تینوں ریجنز میں 100,100 بستروں پر مشتمل کرونا اسپتالوں کا قیام عمل میں لایا جائے، ڈی سی اور ڈی ایچ او سے پی سی آر ٹیسٹ تجویز کرنے کا اختیار ہٹا کر اسپیشلسٹ ڈاکٹرز اور میڈیکل آفیسرز کو دیا جائے تاکہ عوام اور اسٹاف متاثر نہ ہوں، ڈاکٹرز، ڈینٹل ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کیلئے جلد نئے پوسٹوں کا قیام عمل میں لایا جائے، کرونا کے نام پر تقرر اسٹاف کو ہنگامی بنیادوں پر کرونا اسپتالوں میں ڈیوٹی پر معمور کئے جائیں، کرو نا سنٹرز میں شفٹ سسٹم متعارف کروایا جائے اور متاثرہ سٹاف کو اطمینان بخش سہولیات فراہم کی جائیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ، گرینڈ ہیلتھ الائنس گلگت بلتستان کے مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور ان کی آواز کو ملک کے دیگر علاقوں کے محنت کشوں تک پہنچائے گا۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کا قیام ایک آگے کا قدم ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور تمام ہیلتھ سٹاف کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ محنت کش اتحاد، جڑت اور درست مطالبات اور پروگرام پر ہی اپنی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کروا سکتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کرونا وائرس کے سدباب کے لیے فی الفور مفت عوامی ٹیسٹنگ کی سہولت شروع کی جائے۔ متاثرہ مریضوں کے لیے معیاری قرنطینہ مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ہر ضلع میں مین شفٹ ہسپتال تعمیر کیے جائیں۔ آغا خان ہیلتھ سمیت تمام نجی اسپتالوں اور لیبارٹریوں کو ریاستی تحویل میں لیا جائے۔ صحت کے بجٹ میں اضافی کیا جائے۔گلگت بلتستان کے ہر ایک گاؤں میں معیاری بیسک ہیلتھ یونٹس بنائے جائیں، ٹرشری کئیر اسپتال کا قیام عمل میں لایا جائے۔