|تحریر: یاسر ارشاد|
حالیہ عرصے میں پاکستانی حکمران طبقات کے تمام حلقوں میں گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کی تجویز پر بڑی شد ومد سے مشاورت جاری ہے۔ اس معاملے پر جاری نیم خفیہ مشاورتی اجلاسوں کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ چند روز سے تقریباً سبھی سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیوں پر مبنی بحث و مباحثے کا ایک سلسلہ بھی جاری ہے۔ بعض حلقے اس کو گلگت اسمبلی کے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک لولی پاپ قرار دے رہے تھے، کچھ حلقے اس کو تقسیم کشمیر کو مستقل کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں اور اسی طرح چند حلقوں کی یہ رائے ہے کہ چین کے دباؤ پر سی پیک کے منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اس کو صوبہ بنا یا جا رہا ہے۔ 22 ستمبر کو ڈان اخبار نے ”جی بی کو عبوری صوبہ بنانے پر اتفاق“ کے عنوان سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت اور حزب مخالف میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور اس پر عملدرآمد کی جزیات کو گلگت اسمبلی کے نومبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد زیر بحث لایا جائے گا۔ اس کے ساتھ نام نہاد آزاد کشمیر کے انتظامی ڈھانچے کے حوالے سے کچھ رد وبدل کا معاملہ بھی زیر بحث ہے اگرچہ اس کی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہوئیں۔
گزشتہ برس 5 اگست کو مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کے بھارتی زیر قبضہ حصے کی خصوصی ریاستی حیثیت کے خاتمے اور اس کو ہندوستان کی یونین کا حصہ بنانے کے بعد دوسرا اہم واقعہ اسی برس جون میں لداخ کے بلند و بالا پہاڑوں میں چین اور ہندوستان کے مابین ہونے والا تصادم تھا اور تیسرا اہم واقعہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ ہے۔ خطہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت 72 سال قائم رہی لیکن گزشتہ برس سے یہ خطہ ڈرامائی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ صرف ایک سال کے عرصے میں پے درپے رونما ہونے والے یہ تین بڑے واقعات جنوبی ایشیا کی صورتحال میں مکمل تبدیلی کی عکاسی کر رہے ہیں جو پھر عالمی سطح پر ایک تبدیل شدہ عہد کا ہی تسلسل ہے۔ یہ سرمایہ داری نظام کے عالمی پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا عہد ہے اور دنیا بھر میں ہر قسم کے ڈرامائی اور دیوہیکل واقعات اسی کا نتیجہ ہیں۔ خطہ کشمیر کے مختلف حصوں کی انتظامی حیثیت میں تبدیلی بظاہر قابض ریاستوں کی جانب سے اپنے مقبوضہ علاقوں پر اپنا سامراجی تسلط اور گرفت مضبوط کرنے کا عمل دکھائی دیتا ہے لیکن ان اقدامات کی حقیقی وجوہات عالمی سرمایہ داری کی بنیادوں میں جاری اتھل پتھل اور تباہی کے عمل میں پیوست ہیں۔ چند سال قبل بظاہر نا ممکن دکھائی دینے والے واقعات اب نیا عالمی معمول بنتے جا رہے ہیں اور اسی طرح مختلف ممالک کی نصف صدی سے جاری پالیسیاں جن کو پتھر کی لکیر سمجھا جا رہا تھا وہ تیزی سے اپنے الٹ میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ صرف خطہ کشمیر اکیلا ہی ان طوفانی تبدیلیوں کا شکار نہیں ہو رہا بلکہ ہر خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ تقریباً دو دہائیوں تک نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان کو تاراج کرنے کے بعد اب امریکی سامراج انہی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ امن مذاکرات کے ذریعے اس خطے کو پھر ان دہشت گردوں کے سپرد کر کے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالیہ عرصے میں چند عرب ممالک کے حکمران طبقات نے سات دہائیوں سے جاری اپنی پالیسی کو یکسر پس پشت ڈالتے ہوئے اسرائیل کی صیہونی سامراجی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں قائم اسٹیٹس کو کا یکسر خاتمہ کر دیا ہے اور بالکل نئی صورتحال جنم لے چکی ہے جو ماضی سے مختلف ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ ہے۔ اس عمل میں فلسطین کے مظلوم و محکوم عوام پر جاری اسرائیلی بربریت کی منافقانہ مخالفت کا ڈھونگ ترک کرتے ہوئے ان عرب ممالک نے کھلے عام اس جارحیت کی حمایت کر دی ہے۔ گلگت بلتستان کی انتظامی حیثیت میں تبدیلی کی جانب جاری پیش رفت کے محرکات اور اثرات کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ اس تبدیل شدہ عہد کے کردار کو نہ صرف مد نظر رکھا جائے بلکہ اس تبدیلی کی مادی وجوہات بھی اسی میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا فیصلہ سات دہائیوں پر محیط مسئلہ کشمیر اور اس کی قومی آزادی کی جدوجہد پر انتہائی گہرے اور فیصلہ کن اثرات مرتب کرے گا۔ اس فیصلے کی مخالفت یا حمایت پر بیان بازی سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ان بنیادی محرکات کو سامنے لایا جائے جو اس مخصوص سمت میں پیش رفت کا باعث ہیں اور اس کے فوری اور دور رس اثرات کا خاکہ کھینچنے کی کوشش کی جائے۔ منقسم کشمیر کے مختلف حصوں کے حوالے سے رونما ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ ہم بہت دھماکہ خیز تبدیلیوں کے عہد سے گزر رہے ہیں اور اس عہد کی حرکت و تغیر کی سمت کا ادراک حاصل کرنے کے لیے ہمارے ارد گرد کی دنیا کے حالات کا سنجیدہ تجزیہ ضروری ہے۔
تبدیل شدہ دنیا کے ٹھوس حقائق
کشمیر کے مسئلے کو چند دہائیاں پہلے کے حقائق کی بنیاد پر دیکھنے والوں کے لیے یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ مسئلہ ہے جس کے دو بڑے حصوں پر پاک و ہند کی ریاستیں قابض ہیں اور اس کے ایک چھوٹے سے حصے پر چین کا بھی قبضہ ہے۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ پیش کیا جاتا رہا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت میں بین الاقوامی (سامراجی) طاقتوں اور اداروں کی مداخلت سے آخرکار کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق اس کا فیصلہ ہو گا اور تقسیم ہند سے قبل کی ریاست کشمیر کی وحدت بحال ہو گی اور کشمیر ایک آزاد و خو دمختار ریاست بن جائے گی۔ اس تصور کی جڑیں سرد جنگ کے عرصے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سامراج کی سربراہی میں قائم ہونے والے عالمی تعلقات اور ورلڈ آرڈر میں پیوست تھیں۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی زوال نے امریکی سامراج کی عالمی تھانیداری کے کردار کی بنیادیں مسمار کرنے کا آغاز کیااور اس کے ساتھ عالمی تعلقات کا یہ ڈھانچہ بھی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہونا شروع ہوا تھا۔ اسی عہد میں ہمالیہ کے عقب سے چین کی ابھرتی ہوئی سامراجی طاقت نمودار ہونا شروع ہوئی جس نے دنیا بھر میں امریکی سامراجی کے کمزور پڑتے اثر و رسوخ کی جگہ اپنا تسلط بڑھانے کی کوششیں شروع کیں۔ امریکی سامراج نے ایشیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کی نئی پالیسی کے تحت ہندوستان کی ریاست کے ساتھ ایک اتحاد تشکیل دیا تا کہ اس خطے میں چین کی توسیع پسندی کو روکنے کے لیے ہندوستان کو استعمال کیا جا سکے۔ دوسری جانب چین نے اپنے تسلط کو بڑھانے اور منڈیوں پر قبضے کو مستحکم اور رسائی کو تیز تر بنانے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ کے نام سے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے براعظموں میں سمندری اور زمینی تجارت کو بڑھانے کے لیے بندرگاہوں، سڑکوں اور ریلوے لائنوں کی تعمیر کے ایک دیوہیکل منصوبے کا آغاز کیا۔ اس وسیع منصوبے کی شروعات سی پیک یا پاک چین اقتصادی راہداری سے ہوئی جس کا نقطہ آغاز گلگت بلتستان کا خطہ ہے۔ اس منصوبے کے آغاز سے ہی امریکی سامراج اور اس کے حمایتیوں کی جانب سے مختلف قسم کے اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا جن میں ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اس کا ابتدائی حصہ ایک متنازعہ علاقے سے گزرتا ہے۔ اگرچہ چینی سامراج کے خدشات کو دور کرنے کے لیے 2009ء میں پاکستانی ریاست نے گلگت بلتستان کے عوام کو جمہوری انتظامی ڈھانچہ اور حقوق دینے کے نام پر یہاں صوبائی طرز کا ڈھانچہ قائم کیا لیکن اس کو صوبہ قرار دینے سے گریز کیا۔ دوسری جانب چین امریکہ تناؤ میں اضافے کے باعث ہندوستان اس خطے میں امریکی سامراج کی فرنٹ لائن ریاست کی حیثیت حاصل کرتا گیا اور پاکستان جو ہمیشہ سے اس خطے میں امریکہ کا قریبی اتحادی رہا، اس کی حیثیت ثانوی ہوتی گئی۔ ہندوستانی ریاست نے امریکی سامراج کی پشت پناہی حاصل کرنے کے بعد ہی گزشتہ برس کشمیر کے ہندوستانی زیر تسلط علاقوں کی انتظامی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرتے ہوئے ان علاقوں کو ہند یونین کا حصہ بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان نے لداخ کے چینی زیر قبضہ حصے سے ملحقہ علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر اور فوجی نقل و حمل میں اضافہ کر دیا جو اسی سال جون میں چین ہند تصادم کی ایک وجہ بنا۔ ہندوستان اور چین کے مابین لداخ کی سرحد گزشتہ صدی سے ہی حتمی تعین کے بغیر چلی آ رہی تھی۔ حالیہ عرصے میں لداخ کی دریا ئے گلوان وادی کے جس علاقے میں چین اور ہندوستان کی فوجوں کے مابین لڑائی ہوئی اس کا شمال مغربی حصہ ایک جانب شاہراہ قراقرم کے بہت نزدیک تک پہنچتا ہے جو سی پیک کی شہ رگ ہے اور اس کے ساتھ دوسری جانب یہ اقصائے چین (لداخ کا چین کے زیر قبضہ علاقہ جس پر ہندوستان بھی دعوے دار ہے) سے ملحقہ ہے۔ ہندوستان کی اس علاقے میں پیش قدمی اور تعمیرات پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے کسی بڑے تصادم کی صورت میں چین کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی تھیں خاص کر گلوان وادی کے شمال مغربی حصے جہاں سے شاہراہ قراقرم فائرنگ رینج میں آجاتی ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر چین نے انتہائی جارحانہ پیش قدمی کرتے ہوئے بعض اندازوں کے مطابق آٹھ سو سے ایک ہزار مربع میل کے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ چینی افواج بعض علاقوں میں ڈیڑھ سے دو میل اور بعض مقامات پر چھ میل تک ہندوستانی سرحد کے اندر کے علاقوں پر قابض ہو چکی ہیں۔ چار ماہ تک جاری رہنے والے اس تصادم اور تناؤ کے بعد اگرچہ ایک امن معاہدہ ہو چکا ہے جس میں چین نے زیر قبضہ علاقے کا ایک انچ بھی واپس نہیں کیا لیکن یہ امن معاہدہ زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہو سکتا۔ چینی سامراج کے ابھار اور ہند امریکہ اتحاد جیسے یکسر نئے مظاہر کے ساتھ عالمی سرمایہ داری کے مسلسل بڑھتے ہو ئے بحران کے نتیجے میں امریکہ چین تصادم تکنیکی شعبے سے لے کر تجارتی اور بحر جنوبی چین میں عسکری تناؤ تک ہر جگہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس تبدیل شدہ عہد کے تقاضوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کی سابقہ حیثیت مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ کشمیر کے مختلف حصے سرمایہ داری کے زوال اور ہوس کا مختلف طریقوں سے شکار ہو رہے ہیں۔ ایک حصہ ہندوستانی ریاست کے جبری شکنجے میں کچلا جا رہا ہے تو ایک حصہ چین ہند عسکری تصادم کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ ایک حصہ چینی سامراج کی منڈیوں تک رسائی کی راہداری ہونے کے باعث جمہوریت اور حقوق کے نام پر خونی پنجوں کی جکڑ میں جا چکا ہے تو ایک حصہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی ریاست کی منافقانہ سفارتکاری کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک کشمیر کے مختلف حصوں کے حوالے سے ہر سامراجی اقدام اس کی خونی تقسیم کو مستقل اور پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور غلامی کو زیادہ بھیانک کرنے کا باعث بن رہا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان اقدامات کے تمام گھناؤنے پن کے باوجود ان کے زیر اثر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں میں جدوجہد کی درست سمتوں کو تلاش کیا جائے۔ یہ تبدیلیاں حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں اور ان کی واپسی کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام صورتحال پہلے جیسی ہو جائے اور ہم اسی پرانی ڈگر پر جدوجہد آزادی کو جاری رکھ سکیں۔ ہندوستانی کشمیر پر ہند وستان کی ریاست کا قبضہ پہلے سے زیادہ جابرانہ انداز میں مسلط کیا جا چکا ہے اور اسی طرح گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ بننے جا رہا ہے۔ ان واقعات کے ذمہ داران کو کوستے رہنا ایسے ہی ہے جیسے سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹی جائے۔ ہمارے ارد گرد کی دنیا معیاری طور پر بدل چکی ہے اور اس کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ نئی صورتحال اور حقائق کا جائزہ لے کر نتائج اخذ کیے جائیں۔ خواہشات کو حقائق پر مسلط کرنے سے حقائق تبدیل نہیں ہو جاتے بلکہ ایسے افراد حقائق سے نہ صرف دور ہو جاتے ہیں بلکہ حقائق کو جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتے جاتے ہیں۔
گلگت بلتستان، مسئلہ کشمیر اور صوبائی حیثیت
گلگت بلتستان کا خطہ مسئلہ کشمیر کا منفرد اور انوکھا حصہ رہا ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں برطانوی سامراج اور زار روس کے مابین اس خطے پر قبضے کی کشمکش نامی گریٹ گیم کے نتیجے میں ہندوستان پر قابض برطانوی سامراج نے ان علاقوں سے ممکنہ کسی جارحیت کا قبل از وقت تدارک کرنے کی غرض سے مہاراجہ کشمیر کی افواج کی معاونت سے ان علاقوں کی نیم خودمختار راجدھانیوں پر قبضہ کر کے ان کو مہاراجہ کے زیر تسلط دیا۔ تقسیم ہند کے وقت مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ بغاوت منظم کر کے مہاراجہ کی فوج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی کوشش کی۔ ہند و پاک کے حکمران طبقات کے مابین کشمیر کی ریاست کو مکمل طور پر حاصل کرنے کی کشمکش کے نتیجے میں اس کو مسئلہ کشمیر کا حصہ بنا کر پوری ریاست کی آزادی تک اس خطے کے مستقبل کو ہوا میں معلق کر دیا گیا۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے گماشتہ حکمرانوں نے پاکستانی آقاؤں سے معاہدہ کراچی کے ذریعے اس خطے کو پاکستان کے براہ راست کنٹرول میں دے دیا جہاں ان علاقوں کو کئی دہائیوں تک انگریز سامراج کے بنائے ہوئے سرحدی علاقوں میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے وحشیانہ قوانین کے تحت رکھا گیا۔ نام نہاد آزاد کشمیر کو ایک بظاہر مکمل آزاد مگر بے اختیار حکومت کے ذریعے بالواسطہ قبضے میں رکھا گیا جہاں کچھ بنیادی جمہوری آزادیاں اور حقوق میسر تھے۔ گلگت بلتستان کے عوام بغیر بنیادی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے انتہائی پسماندگی میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے اس کے باوجود کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش رکھتے تھے۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے وظیفہ خوار حکمران طبقات نے بھی کبھی ان کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کی اسی لیے ان علاقوں کی اکثریت اپنے مسائل اور محکومی کا ذمہ دار مسئلہ کشمیر اور نام نہاد آزادکشمیر کے حکمران طبقات کو قرار دیتی ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک بھی یہاں کبھی کوئی حمایت حاصل نہیں کر سکی اسی لیے المناک طور پر آج پاکستانی حکمران طبقات کا یہ سامراجی اقدام بھی وہاں کی اکثریت کی امنگوں کے مطابق ہے۔ یہ درست ہے کہ سرمایہ داری نظام کے گہرے ترین زوال کے اس عہد میں سامراجی تقاضو ں کے پیش نظر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے وہاں کے عام عوام، محنت کشوں اور نوجوانوں کے سلگتے ہوئے مسائل حل نہیں ہو سکتے نہ ہی وہاں کی معدنیات اور قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی دولت وہاں کے باسیوں کی پسماندگی، غربت اور بے روزگاری جیسے دیگر مسائل کو ختم کرنے کے لیے خرچ کی جا ئے گی۔ اس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا طبقاتی ڈھانچہ اور طرز پیداوار ہے جس میں کسی بھی خطے کے وسائل اور دولت پر مٹھی بھر حکمران طبقات اور ان کے سامراجی آقاؤں کا قبضہ اور ملکیت قائم ہوتا ہے۔ اسی ملکیت اور قبضے کی وجہ سے مختلف خطوں کے قدرتی وسائل سامراجیوں کی لوٹ مار کا شکار بن جاتے ہیں اور مقامی حکمرانوں کو اس میں تھوڑا بہت کمیشن اور حصہ ملتا ہے جبکہ اکثریتی عوام مشقت کی چکی میں پستے رہتے ہیں یا بیروزگاری کی اذیت برداشت کرنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ اس بنیاد پر یہ واضح ہے کہ صوبہ بننے کے بعد بھی گلگت بلتستان کے اکثریتی عوام کی زندگیوں میں کوئی بڑے پیمانے پر بہتری نہیں آئے گی لیکن بطور مارکس وادی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں کے عوام کی اکثریت کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی اکثریتی عوام اپنے عملی تجربات سے گزر کر ہی اس نتیجے پر پہنچے گی کہ ان کی ترقی کے راستے کی رکاوٹ صوبہ نہ بننا نہیں بلکہ یہ زوال پذیر سرمایہ داری نظام ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان کے عوام کی جمہوری امنگوں کے ترجمان بننے والے اور ان کی محرومیوں پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے حکمران طبقات وہی ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں تک کشمیر کی آزادی کے نام پر اپنے مکروہ عزائم کی خاطر ان عوام کو بنیادی جمہوری حقوق سے محروم ر کھا اور آج پھر جمہوری حقوق دینے اور عوام کی خواہشات کی تکمیل کے پس پردہ اپنی تبدیل شدہ ضروریات کی تکمیل کے لیے یہ اقدامات کر رہے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے یہ واضح ہو جا تا ہے کہ تمام نعروں اور دعووں کے باوجود گلگت بلتستان کو صوبہ یا عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ ہر گز وہاں کے عوام کو کوئی حقوق دینے کی غرض سے نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ حکمران طبقات اور سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو اپنی حقیقی آزادی، مکمل جمہوری حقوق اور اس خطے کے وسائل پر جمہوری کنٹرول اور اجتماعی ملکیت حاصل کرنے کے لیے سرمایہ داری نظام کے خلاف ایک فتح مند طبقاتی جنگ لڑنا ہو گی اور صرف اسی جدوجہد کے نقطہ نظر سے صوبہ بنانے کے اقدام میں ایک نسبتاً ترقی پسندانہ پہلو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ سات دہائیوں سے الگ تھلگ رہنے کے بعد سامراجی جکڑ بندی کا یہ فیصلہ کسی حد تک گلگت بلتستان کے عوام، محنت کشوں اور نوجوانوں کی مسائل کے حل کی جدوجہد کو پاکستان کی مزدور اور طلبہ تحریک کے ساتھ جڑت کا ایک موقع فراہم کرے گا۔ مارکس وادیوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس فیصلے پر وہاں کے حکمران گروہ کی پیدا کردہ خوش فہمیوں کے جھوٹ کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کریں اور تنگ نظر قوم پرستوں کی جانب سے تقسیم کشمیر کے واویلے یا اسی قسم کی یوٹوپیائی سوچوں کی بنیاد پر کی جانے والی مخالفت کی بے معنویت کو بھی سامنے لائیں۔ ہم اس فیصلے کے بنیادی محرکات کے ساتھ یہ وضاحت کریں گے کہ اگرچہ یہ فیصلہ موجودہ صورتحال کے حوالے سے بظاہر نسبتی بہتری کی جانب ایک قدم ضرور دکھائی دیتا ہے جو گلگت بلتستان کے دہائیوں سے محروم عوام کے لیے جمہوری حاصلات کے حوالے سے ایک پیش رفت کی حیثیت سے دلکشی کا باعث بھی ہے لیکن سرمایہ داری نظام کی بوسیدگی اور عالمی سطح پر متروکیت کے اس عہد میں حقوق اور جمہوری آزادیوں کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا۔ صوبہ بنائے جانے کے بظاہر اس جمہوری اقدام کا عملی اطلاق بھی وہاں کے اکثریتی عوام پر پہلے سے زیادہ طبقاتی، ریاستی اور سامراجی جبر کے نفاذ کا ایک شکنجہ ثابت ہوگا۔ پاکستانی ریاست اور حکمران طبقات اس زوال پذیر نظام کو عوام پر مسلط رکھنے کے لیے پاکستان کے عوام کو حاصل جمہوری حقوق، آزادیاں اور روزی روٹی تک چھینتے جا رہے ہیں تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو کوئی حقوق دیے جائیں گے۔ صوبہ بنانے کے ساتھ اگر تحریر و تقریر اور تنظیم سازی کی بنیادی آزادی، ہر شہری کو روزگار یا بیروزگاری الاؤنس، گلگت بلتستان میں ہر سطح پر عوام کے لیے جدید علاج اور تعلیم کی مفت فراہمی، کم ازکم اجرت ایک تولہ سونے کے برابر اور مستقل روزگار جیسی دیگر بنیادی سہولیات کے حصول کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے اس لیے یہ اقدام ایک بہت بڑا فریب ثابت ہوگا جس سے وہاں کے عوام کی محرومیوں اور بد حالی میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔ اس قسم کی دیگر سہولیات اور مراعات کی یقینی فراہمی کے بغیر صوبہ بنانے کا عمل لینن کے بقول وہاں کے مقامی حکمرانوں کے لیے ایک جنت جبکہ عوام کی اکثریت کے لیے ایک پھندا ثابت ہو گا۔
کشمیری قوم پرست، حکمران اور گلگت بلتستان کا سوال
گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے کی خبر منظر عام پر آنے کے بعدنام نہاد آزاد کشمیر کے تقریباً تمام قوم پرست دھڑوں کا گھسا پٹا ماتمی راگ اور واویلا شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کی جانب سے منافقانہ دھوکہ دہی پر ماتم اور تقسیم کشمیر کو مستقل کرنے کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی چیخ و پکا ر بلند ہو رہی ہے۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے قوم پرستوں کے کشمیری اور پاکستان کے حکمرانوں سے شکایات اور مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر آشکار ہو جاتی ہے کہ ان کا آزادی کا خواب پاکستانی حکمران طبقات کی حمایت پر قائم تھا اور ابھی بھی ہے۔ گزشتہ برس 5 اگست کو مودی حکومت کے سامراجی اقدامات کے بعد پاکستانی ریاست سے مطالبہ کیا گیا کہ کشمیر اور گلگت کی دو اکائیوں پر مشتمل ایک عبوری آزاد حکومت اور آئین ساز اسمبلی قائم کر کے کشمیریوں کو دی جائے اور اس کا پہلا سفارت خانہ اسلام آباد میں کھولا جائے۔ پاکستانی حکمران طبقات کی جانب سے گلگت کو صوبہ بنانے کے اعلان کے بعد بھی ان حکمرانوں کو کوسنے کے ساتھ وہی مطالبہ دوہرایا جا رہا ہے کہ صوبہ بنانے کی بجائے ان دو خطوں کو ملا کر ایک عبوری آزاد حکومت کی آئین ساز اسمبلی بنا کر ان قوم پرستوں کو بطور تحفہ یا بھیک دے دی جائے۔ اس وقت بھی حکمران طبقات کے کچھ گماشتے صحافی اور نام نہاد دانشور ان کو مشورے دے رہے ہیں کہ اس اقدام کے باعث کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کو نقصان پہنچے گا اس لیے وہاں کے عوام کی محرومیوں کو کسی دوسرے طریقے سے ختم کیا جائے۔ یہ مؤقف تمام قوم پرستوں کی شکستہ اناؤں کے لیے بہت تسکین بخش ہے اسی لیے قوم پرستوں کی جانب سے اس طرح کے مضامین کی سوشل میڈیا پر تشہیر کی جارہی ہے۔ اس مؤقف کا مطلب یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی سابقہ حیثیت کو بحال رکھا جائے یعنی پاکستانی قبضہ اور جبر باقی رہے صرف اس کے باقاعدہ اعلان کا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ کچھ عظیم قوم پرست دانشور بھی حکومت پاکستان کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کی الگ شناخت کو بحال رکھتے ہوئے کوئی ایسا انتظامی ڈھانچہ قائم کیا جائے جس کے ذریعے پاکستانی حکمران طبقات کا تسلط اور گرفت بھی مضبوط ہو لیکن اس کی ظاہری اور نمائشی شکل نام نہاد آزادکشمیر پر قبضے سے ملتی جلتی ہو۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے قوم پرست اس وقت سب سے زیادہ 1949ء میں معاہدہ کراچی کرنے والی قیادت اور پار ٹی کو کوس رہے ہیں کہ انہوں نے گلگت بلتستان کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا تھا اسی وجہ سے آج وہ صوبہ بننے جا رہا ہے۔ اسی طرح نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمران گروہ کے کچھ حصے بھی زیر لب خدشات کا اظہار کر رہے ہیں جن کا مواد بھی ویسا ہی ہے جیسا خود پاکستانی حکمران طبقات کے کچھ حصوں کا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کے کشمیر کے حوالے سے مؤقف پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اس قسم کی سوچ رکھنے والے تمام لوگ ابھی تک ماضی میں غرق ہیں اور بڑے پیمانے کے واقعات اور تبدیلیاں انہیں خوفزدہ کر رہی ہیں۔ یہ افراد تبدیلیوں کے اس تاریخی عمل کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے آنکھیں بند کر کے سابقہ صورتحال کی بحالی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ درحقیقت نہ تو قوم پرست اور نہ ہی نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمران طبقات کی سیاسی اور سماجی اہمیت اتنی ہے کہ گلگت بلتستان کی انتظامی حیثیت میں تبدیلی کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکیں۔ گلگت بلتستان کی انتظامی حیثیت میں تبدیلی کا فیصلہ مخصوص سامراجی ضروریات کے پیش نظر کیا جا رہا ہے جس میں خوش قسمتی سے حکمران طبقات کے پاس ایک مضبوط جواز یہ مو جود ہے کہ یہ وہاں کی عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے جس کو اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس بنیاد پر درحقیقت گزشتہ برس بھارتی مقبوضہ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے قوم پرستانہ نظریات کی بنیاد پر حل سمیت تمام ایسے فارمولے جو سرمایہ داری نظام کی حدود کے اندر ہی مقید تھے، یہ ان کی مکمل ناکامی اور متروکیت کا اعلان ہے۔ کشمیری حکمران گروہوں کی مضحکہ خیزی اور ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے تین با وزیر اعلیٰ رہنے والے نیشنل کانفرنس کے مرکزی صدر فاروق عبداللہ نے 23 ستمبر کو”دی وائر“ ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری بھارت کی بجائے چین کے زیر قبضہ جانے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ سات دہائیوں تک بھارتی ریا ست سے اختیارات اور مراعات کی ساز باز میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا کارڈ استعمال کرنے والے عبداللہ خاندان کا چشم و چراغ آج پاکستان کے ساتھ الحاق کی بجائے چین کی غلامی اختیار کرنے کی بات کر رہا ہے۔ کشمیری حکمرانوں سمیت تمام سیاسی حلقوں میں ایک ماتم، مایوسی، نامرادی اور بے بسی کی کیفیت میں آہ و زاری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ کوئی سنجیدہ تجزیہ ہے، نہ کوئی امید اور نہ کوئی مستقبل کا درست پروگرام۔
عالمی مارکسی رحجان نے دہائیاں قبل قوم پرستی کی متروکیت کو سامنے لاتے ہوئے یہ واضح کیا تھا کہ اس عہد میں مظلوم و محکوم قوموں کی آزادی سماجوں کی سوشلسٹ تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ کشمیر کے محکوم و مظلوم عوام کی حقیقی آزادی ہندوپاک کی سامراجی ریاستوں کے سوشلسٹ انقلاب سے ناقابل علیحدگی طور پر منسلک ہو چکی ہے اور جب تک ان خطوں میں خونخوار سرمایہ داری نظام باقی ہے کشمیریوں پر جبر و ظلم کم ہونے کی بجائے بڑھتا رہے گا۔ گزشتہ ایک سال کے واقعات نے غلامی اور جبر کی نئی جکڑ بندیوں کی صورت میں کشمیری عوام کی تقدیر کو زیادہ سختی سے ہند و پاک کے محنت کش طبقے کی جدوجہد کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔ جبر کے شکنجوں کو زیادہ تنگ کرنے والے ان فیصلوں پر یہ واویلا اور ماتم کہ ان سے کشمیر کی تقسیم مستقل ہو گئی ہے درحقیقت پرلے درجے کی حماقت ہے۔ یہ نئے اقدامات نہ ہونے سے پہلے بھی کشمیر پر قابض ریاستوں کا تسلط کوئی عارضی نہیں تھا کہ اس کو ان فیصلوں نے مستقل کر دیا ہے۔ یہ قبضہ کشمیر کی تقسیم کے ساتھ ہی مستقل ہو گیا تھا اور یہ محض قوم پرستوں کی عالمی سامراجی اداروں سے وابستہ آزادی دلانے کی امیدوں اور خوابوں کی دنیا میں عارضی ہوا ہو گا، معروضی حقائق کے طور پر اس کے عارضی ہونے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ اس لیے یہ صرف بے وقت کا راگ ہی نہیں بلکہ بے معنی اور غیر ضروری بھی ہے۔ خطہ کشمیر یا جس کو قوم پرست ریاست جمو ں و کشمیر کہتے ہیں وہ 73 سال پہلے تقسیم ہو چکی ہے اور تقسیم کے خاتمے اور مختلف سامراجی ریاستوں سے مکمل آزادی کی جدوجہد ان ٹھوس حالات کے اندر رہ کر ہی کی جا سکتی ہے جو معروضی طور پر موجود ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام پر اسی حق کاا طلاق کیا جائے جس کے مطابق قوم پرست پوری ریاست جموں و کشمیر کی مکمل آزادی و خودمختاری کا دعویٰ کرتے ہیں تو وہاں کے عوام کا خود ارادیت کے اصول کے مطابق یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ اس لیے اگر اس وقت مخصوص تاریخی عمل اور حالات کے نتیجے میں وہاں کی عوام کا فیصلہ کشمیری قوم پرستوں کے مؤقف کے خلاف ہے تو یہ ان کی اور ان کے مؤقف کی تا ریخی بدقسمتی یا فرسودگی ہے جس پر سوائے افسوس کہ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ سنجیدہ، دیانت دار اور جرات مند سیاسی کارکنان اور نوجوان یقینا اس تبدیل شدہ عہد کے مطابق اپنی جدوجہد کو استوار کرنے کے لیے ان واقعات کا گہرائی میں جائزہ لینے کی کوشش کریں گے جبکہ بزدل اور خود کو تبدیل کرنے کی اہلیت سے عاری اپنی فرسودہ سیاست کو ہی بچانے کی کوششوں میں تاریخ کے ہاتھوں مٹ جا ئیں گے۔
دھماکہ خیز تبدیلیوں کا عہد اور ہمارا کردار
انسانی سماجوں کی ترقی، تبدیلی اور آزادی کا سفر انتہائی پر پیچ اتار چڑھاؤ اور پیش قدمیوں کے ساتھ بڑی پسپائیوں پر مبنی ہے۔ عظیم فلسفی ہیگل نے لکھا تھا کہ ”ایسا نہیں ہے کہ نسل انسان غلامی سے آزادی حاصل کرتی ہے بلکہ غلامی کے ذریعے آزادی حاصل کرتی ہے“۔ انسانی سماج کی تاریخ کے حوالے سے یہ انتہائی گہری سائنسی وضاحت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ فطرت کی غلامی سے نجات کی جدوجہد میں انسانی سماج کی ایک وسیع اکثریت کو ہزاروں سال کی طبقاتی غلامی کا اذیت ناک سفر طے کرنا پڑا لیکن اسی طبقاتی غلامی پر مبنی مختلف سماجوں میں اجتماعی محنت اور تخلیق کے عمل میں آخرکار وہ مادی ذرائع معرض وجود میں آئے جو انسانوں کی حقیقی آزادی کی ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں اور ان کی تخلیق اس طبقاتی غلامی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ سماجوں کے تجزیے کا مارکسی نقطہ نظر اور طریقہ کار انتہائی غیر جذباتی اور مکمل طور پر معروضی ہوتا ہے۔ برطانوی سامراج کے ہندوستان پر قبضے اور یہاں کے قدیم اور انتہائی سست رفتاری سے ترقی کرنے والے ایشیائی طرز پیداوار کی انگریز سامراج کے ہاتھوں تباہی پر بھی مارکس نے اسی مارکسی طریقہ کار کا اطلاق کرتے ہوئے یہ وضاحت کی تھی کہ اس تمام تر بربریت کے باوجود انگریز سامراج ہندوستان میں جو جدیدریلوے اور صنعت رائج کر رہا ہے یہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلا معلوم بڑا انقلاب ہے اور ریلوے لائن کا ہر میل انگریز سامراج کی حاکمیت کے خاتمے کو قریب تر کر رہا ہے۔ اسی بنیاد پر ہمارا فریضہ سامراجی ممالک کے جابرانہ فیصلوں پر ماتم کرنا نہیں ہے بلکہ ان میں پوشیدہ امکانات کو سامنے لاتے ہوئے جدوجہد کو درست بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔
نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کی تقسیم کا خاتمہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک پاک و ہند کی ریاستوں میں یہ خونخوار سرمایہ داری نظام باقی ہے۔ نام نہاد عالمی اداروں یا عالمی برادری سمیت کسی بھی سامراجی ادارے اور ممالک کی مدد اور معاونت سے کشمیر کی آزادی کے حصول کا خواب حماقت کے سو ا کچھ بھی نہیں۔ قوم پرستی اپنی ہر شکل میں مکمل طور پر فرسودہ نظریہ ہے جو صرف مخصوص گروہی مفادات اور مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے اور اس کی سب سے خطرناک اور متعصبانہ شکل سٹالنسٹ قوم پرستی ہے جو سوشلزم کی بدترین حد تک مسخ شدہ تصویر پیش کرنے کے ساتھ قومی تعصبات اور نفرتوں میں اضافے کا با عث بھی ہے۔ صرف طبقاتی جدوجہد اور جڑت پر مبنی مارکسی بین الاقوامیت ہی واحد سائنسی راستہ ہے جو منقسم کشمیر کے ہر حصے کے محکوم عوام کی آزادی کو ایک سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد پر یقینی بنا سکتا ہے۔ گلگت سمیت کشمیر کے تمام حصوں میں بسنے والے محنت کشوں، عام عوام اور نوجوانوں کے بنیادی مسائل قومی نہیں طبقاتی ہیں اور سرمایہ داری کے زوال میں اضافے کے ساتھ ان میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہی طبقاتی مسائل کشمیر سمیت پورے بر صغیر کے غریب اور محنت کش عوام کے مشترکہ مسائل ہیں اور ان کے ساتھ ہر قسم کی غلامی اور تقسیم کی وجہ یہ سرمایہ داری نظام ہے جس کے خاتمے کی جدوجہد اس خطے کے محنت کش طبقے اور مظلوم و محکوم عوام کی ایک مشترکہ طبقاتی لڑائی کی بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر بر صغیر کے حکمران طبقات اور اس سرمایہ داری نظام کے خلاف یہ لڑائی ہم سب کی مشترکہ نجات کی طبقاتی لڑائی ہے جس کو قومی نہیں بلکہ طبقے کی بنیاد پر منظم ہوتے ہوئے لڑا اور جیتا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کی حالت میں بہتری پہلے بھی ان کی اپنی مشترکہ جدوجہد کی مرہون منت تھی اور عبوری صوبہ بننے کے بعد بھی ان کو اپنے حقوق کی یہ لڑائی پہلے سے زیادہ جرات سے لڑنا پڑے گی۔ اسی طرح نام نہاد آزاد کشمیر کے عام عوام کے مسائل کا حل اس چیخ و پکار کے ذریعے ممکن نہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں قوم پرستی کی سیاست کی شکل میں جاری ہے۔ قوم پرستی کے نظریات، نعروں اور طریقہ کار کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہوگی کہ آج جب مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انتہائی اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں اس وقت نام نہاد آزاد کشمیر کے عوام کا ایک فیصد بھی قوم پرستوں کے مؤقف کی سرگرم حمایت نہیں کرتا۔ گزشتہ برس بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے فیصلے کے خلاف مشترکہ احتجاج کی غرض سے بنایا جانیوالا اتحاد قوم پرستوں کی اپنی گروبندیوں اور تنگ نظری کے باعث ایک بھی مؤثر احتجاج نہیں کر پایا۔ گلگت کو صوبہ بنانے کے فیصلے پر دوبارہ اس اتحاد کو فعال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ گزشتہ برس کے معیار کو ہی دوبارہ حاصل کیا جا سکے۔ اگرچہ اس اتحاد کی ناکامیوں کا ذمہ دار مختلف افراد کو ٹھہرایا جاتا ہے لیکن اس کی ناکامی اور ٹوٹ پھوٹ کی اصل وجہ قوم پرستی کے فرسودہ نظریات ہیں جو آج محض گروہی مفادات کی نمائندگی تک محدود ہو چکے ہیں اسی لیے ان نظریات پر کاربند قیادتیں کسی آزادی کی جدوجہد کو وسیع عوامی بنیادوں پر منظم کرنے کی اہلیت سے ہی محروم ہو چکی ہیں۔ ان نظریات پر کاربند قیادتوں کو درست طور پر یقین ہے کہ کشمیر کی آزادی کا حصول ممکن نہیں اسی لیے وہ کسی بھی سنجیدہ جدوجہد کو منظم کرنے کی بجائے ہر موقع پر اپنے گروہی مفادات کوتقویت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت جن نظریات کی بنیاد پر قوم پرست پارٹیوں نے آزادی کا خواب دیکھا تھا وہ آج ان کی آنکھوں کے سامنے چکنا چور ہو چکا ہے۔ پہلے اگر اس خواب کی تکمیل مستقبل بعید کا معاملہ لگتا تھا تو اب وہ ناممکن ہو چکا ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ یہ قیادتیں فرسودہ نظریے پر کاربند ہیں بلکہ بھیانک المیہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی سنجیدہ بحث و مباحثے کے عمل کا حصہ بننے سے مکمل طور پر خوفزدہ ہیں۔ اس تمام صورتحال میں نئی نسل کے سنجیدہ اور باشعور نوجوانوں کو اس عہد کے کردار کو سمجھتے ہوئے جدوجہد کو درست بنیادوں پر استوار کرنا پڑے گا۔ سرمایہ داری کا زوال نسل انسانی کی بقا کے سوال کو سب سے سنگین مسئلے کے طور پر ابھارتا جا رہا ہے۔ نسل انسان کی بقا سرمایہ داری کے خاتمے سے وابستہ اور سرمایہ داری کا خاتمہ طبقاتی بنیادوں پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے سے ہی ممکن ہے۔ محنت کشوں کی طبقاتی جڑت کا نظریہ مستقبل کا ضامن ہے جبکہ دیگر تمام نظریات جو محنت کشوں کی طبقاتی جڑات کو قومی، علاقائی، نسلی، مذہبی یا کسی بھی دوسری تفریق کی بنیاد پر کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں، وہ ماضی کے رجعتی نظریات بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے عہد کی ترقی پسندی اور آزادی یا انقلاب کی علمبرداری کا پیمانہ یہی ہے باقی سب پیمانے متروک ہو چکے ہیں۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے کے فیصلے سے پہلے بھی پاکستان کے زیر قبضہ علاقوں کے عوام کی آزادی اور نجات کا راستہ ان خطوں سمیت پورے پاکستان کا سوشلسٹ انقلاب تھا اور اب بھی یہی ہے۔