|تحریر: راشد خالد، 2جنوری 2018ء|
گلگت بلتستان کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے ساتھ ہی بلند و بالا پہاڑوں، سنگلاخ چٹانوں، برفانی تودوں اور خوبصورت فطری مناظر آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگتے ہیں۔ اس تمام تر فطری حسن کے باوجود گلگت بلتستان میں رہنے والے لاکھوں بے کس انسانوں کی کٹھن زندگی شاید ہی کبھی ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کروا پاتی ہو۔ لیکن گزشتہ کچھ وقت سے گلگت بلتستان کی عوام اپنے ہونے کا ناصرف پتہ دے رہی ہے بلکہ بار بار اپنی زندگی کے لئے درکار ضرورتوں کے حصو ل کے لئے میدان عمل میں بھی آ رہی ہے۔ سال 2017ء کے آخری ماہ میں گلگت بلتستان کونسل کی جانب سے مسلط کیے جانے والے براہ راست ٹیکسوں کیخلاف ایک تحریک نے جنم لیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سے قبل بھی گلگت بلتستان کے عوام ان براہ راست ٹیکسوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے لیکن وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ دورے پر یہ ٹیکس واپس لینے کا اعلان کیا گیا لیکن دوسرے بہت سارے اعلانات کی طرح یہ بھی محض اعلان ہی رہا۔ گلگت بلتستان پر مسلط کیے جانے والے حالیہ ٹیکسوں میں انکم ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس شامل ہیں جو اس سے قبل بہت سے دوسرے ٹیکسوں کی طرح اس خطے کے عوام پر لاگو نہیں ہوتے تھے۔ ایک بار پھر عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران نے ان ٹیکسوں کیخلاف احتجاجی تحریک چلانے کی کال دے دی۔ 21دسمبر سے پورے گلگت بلتستان میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کر دی گئی جو دو دن تک چلتی رہی، جس کے بعد پورے خطے سے احتجاجی عوام کے قافلوں کو گلگت کی طرف لانگ مارچ کی کال دی گئی۔ گلگت میں ایک احتجاجی دھرنے کا آغاز ہوا جس میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں افراد شامل ہو رہے ہیں۔ 31دسمبر کو ہونے والے مذاکرات میں حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام تر مطالبات ماننے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ گلگت بلتستان کونسل کا اجلاس فوری طور پر وزیراعظم پاکستان کی سربراہی میں بلایا جائے گا جس میں ان کو حتمی شکل دی جائے گی اور ساتھ ہی یہ بھی طے ہوا کہ ٹیکسیشن کا معاملہ گلگت بلتستان اسمبلی میں زیربحث لایا جائے گا اور مزید ٹیکسوں کا فیصلہ بھی گلگت بلتستان اسمبلی میں ہی کیا جائے گا۔ جس کے بعد سکردو سے گلگت کی طرف لانگ مارچ کرنے والے ہزاروں افراد کو بھی واپس بھیج دیا گیا۔ لیکن وقت نے پھر ثابت کیا کہ حکومت نے احتجاج کے خاتمے کے لئے وعدہ تو کر لیا لیکن کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا اور لفظی ہیر پھیر کے ساتھ معاملے کو جوں کا توں رہنے دیا۔ جس کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے نئے سرے سے رابطہ مہم کا آغاز کا اعلان کیا ہے اور احتجاج تاحال جاری ہے۔
گلگت بلتستان جو اپنے شدید موسم سرما کے حوالے سے مشہور ہے، اور ابھی بھی وہاں پر درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے کم ہے، اس شدید سردی میں یقیناً گلگت بلتستان کے عوام اس احتجاجی تحریک کے لئے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ حکمرانوں کے اللے تللے تک دکھانے میں مصروف میڈیا گلگت بلتستان میں جاری اس تحریک کے حوالے سے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے، اگر کسی اخبار نے کوئی خبر دی بھی تو انتہائی مختصر۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اس تحریک کو پاکستان کے باقی عوام سے کاٹ کر رکھ دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف بڑے شہروں میں چند ایک پریس کلبوں پر ہونے والے احتجاجوں میں بھی صرف گلگت بلتستان کے طلبہ یا عوام ہی نظر آتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ صورت حال کو درست بنیادوں پر پرکھا جائے اور ایسی حکمت عملی مرتب کی جائے کہ ناصرف ان مطالبات کو منوایا جا سکے بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کے دیگر مسائل کو بھی ملک کے دیگر حصو ں کے محنت کشوں کے مسائل کے ساتھ جوڑتے ہوئے حل کیا جا سکے۔
تاریخی پس منظر
برصغیر کے بٹوارے کے جرائم میں سے ایک گلگت بلتستان کی حیثیت کا فیصلہ نہ کیا جانا بھی تھا۔ تقسیم کے وقت گلگت بلتستان مہاراجہ کی ریاست کشمیر کا حصہ تھا جس کی وجہ سے اس خطے کے عوام کی قسمتوں کا فیصلہ بھی مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ تقسیم کے بعد کشمیر کے جس حصے پر پاکستان نے قبضہ کیا اس کے ایک مختصر سے علاقے پر نام نہاد ’’آزاد ریاست‘‘ کا قیام تو عمل میں لایا گیا لیکن گلگت بلتستان کو اس میں شامل نہیں کیا گیا اور گلگت بلتستان کو فاٹا کی طرز پر ریاست پاکستان کے براہ راست کنٹرول میں رکھا گیا۔ اس کی اہم وجہ اس کی سرحدوں کا چین کے ساتھ منسلک ہونا اور معدنی دولت سے مالا مال ہونا بھی تھا۔ گلگت بلتستان کی ’’خصوصی حیثیت‘‘ کی وجہ سے گزشتہ سات دہائیوں سے گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا لیکن اس کے عوض کچھ مخصوص شعبوں یا خوردونوش کی اشیا پر وقتاً فوقتاً مختلف سبسڈیز دی جاتی رہیں تاکہ عوام کوئی بڑا ردعمل نہ دکھا سکیں۔ گو کہ رفتہ رفتہ یہ سبسڈیز ختم کی جاتیں رہیں اور بالآخر صرف گندم کی سبسڈی یہاں کے عوام کے پاس باقی رہ گئی۔ 2009ء میں ایک سیلف گورننس آرڈر کے ذریعے پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو نیم صوبائی درجہ دیا جس کے بعد اس کی ایک صوبائی اسمبلی بھی تشکیل پائی۔ گو کہ یہ صوبائی اسمبلی نام نہاد آزاد کشمیر کی طرح اسلام آباد کی طرف سے تشکیل دی جانے والی گلگت بلتستان کونسل کے زیرنگیں ہے اور کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں۔ جب گندم کی سبسڈی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو 2014ء میں اس کے خلاف پورے علاقے میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔ اس کیخلاف عوامی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدا میں علاقائی سطحوں پر عوام اپنے طور پر احتجاج کرتے رہے لیکن عوامی ایکشن کمیٹی نے ان احتجاجوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ تحریک کی شدت نے ریاست کو ہلا کر رکھ دیا اور ایسی تحریک ریاست کے لئے حیران کن بھی تھی۔ تحریک فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھی، علاقائی سطح پر احتجاج ہوئے، گلگت کی طرف لانگ مارچ کیا گیا اور بالآخر تحریک کامیاب ہوئی۔
2014ء کی تحریک کئی حوالوں سے فیصلہ کن تھی کہ گلگت بلتستان کے عوام مزید دکھ، درد، محرومی اور ذلت سہنے کو تیار نہیں ہیں۔ دہائیوں تک بنیادی حقوق سے محروم رہنے والے عوام اب اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے لئے تیار ہو چکے ہیں، اور انہیں کسی بھی طرح کا لولی پوپ دے کر خوش نہیں کیا جا سکتا۔ گو کہ جغرافیائی حوالے یہ خطہ دنیا کے دشوار گزار ترین خطوں میں سے ایک ہے اور اسی وجہ سے تاریخی طور باقی دنیا سے بیگانہ رہنے والے اس خطے کے عوام کا تعلق گزشتہ عرصے میں پاکستان کے دیگر علاقوں اور باقی دنیا کے ساتھ تیزی کے ساتھ استوار ہوا۔ گو کہ پہلے بھی محنت مزدوری اور تعلیم کے حصول کے لئے یہاں کے افراد کی ایک بڑی تعداد کو اس خطے سے باہر کا رخ کرنا پڑتا تھا کیوں کہ گلگت بلتستان کے اندر اس خطے کی عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں تیز ترین اضافے، عالمی سطح پر بدلتی صورتحال، ریاست کے بحران اور بڑھتے ہوئے مسائل نے خطے کے عوام کے سیاسی شعور میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔
ریاست کے سامراجی جبر کے ساتھ ساتھ ضیا الباطل کے دور میں اس خطے کے عوام پر مذہبی منافرت بھی مسلط کی گئی۔ وہی مذہبی منافرت جو اس عرصے میں پاکستان کے دیگر علاقوں پر بھی مسلط کی جا رہی تھی۔ یہ خطہ مختلف زبانوں، نسلوں اور ثقافتوں کا مرقع ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف مذہبی مسالک کی آماجگاہ بھی ہے، اور یہی وجہ تھی کہ جب مذہبی منافرت مسلط کی گئی تو اس منافرت کے اثرات بھی شدید تھے۔ گلگت شہر، جو اس خطے کا سب سے بڑا شہر اور صوبائی ہیڈکوارٹر بھی ہے، اپنی مختلف النوع آبادی کی بنیاد پر سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 1988ء میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے رجعتی قوتوں اور ان کے نظریات کو عوام پر مسلط کر دیا۔ کراچی کی طرح گلگت میں بھی نوگوزونز بن گئے۔ فلاں علاقہ سنیوں کو ہے تو فلاں شیعوں کا، بیرکیں بن گئیں، ناکے لگ گئے، اسی بنیاد پر قتل عام بھی کروایا جاتا رہا۔ گلگت کے عوام کو دہائیوں تک ایک خوف کے ماحول میں زندہ رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ لیکن 2014ء کی تحریک نے یہ تمام تر تقسیمیں پاش پاش کر دیں۔ عوام کے بلند شعور کا سیاسی اظہار یہ گندم کی سبسڈی کے خاتمے کے خلاف ابھرنے والی تحریک تھی، جس میں تمام تر مسالک کے لوگ موجود تھے اور کسی کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت درپیش نہیں آئی کے وہ کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی سیاسی عمل نے وہاں کی عوام کو اپنی طاقت کی بنیاد، یعنی عوامی جڑت کا ادراک بھی کروایا۔ اسی پس منظر کی وجہ سے موجودہ تحریک پر حکمرانوں کی جانب سے دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ اگر اس احتجاج کو ختم نہیں کیا جاتا اور جاری رکھا جاتا ہے تو پھر سے ماضی کے جیسے حالات یہاں بن سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات سے بھی خوفزدہ کیا گیا لیکن مظاہرین اب اس خوف سے آگے نکل چکے ہیں۔ حکمران طبقہ سی پیک سے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کر رہا ہے اور اس میں رخنہ اندازی نہیں چاہتا۔ لیکن یہاں کے عوام نے واضح کر دیا کہ وہ حکمرانوں کی لوٹ مار کیخلاف بغاوت کے لیے تیار ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ سی پیک سے خوشحالی اور ترقی کے تمام منافقانہ دعوے بھی اس تحریک نے بے نقاب کر دیے ہیں۔
قیادت کا مسئلہ
کسی بھی تحریک کی کامیابی میں فیصلہ کن عنصر تحریک کی قیادت کا ہوتا ہے جو ہر طرح کے حالات میں درست فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، عوام کی جڑت پر مبنی پروگرام دے اور درست لائحہ عمل مرتب کر سکے۔ 2014ء کی تحریک کی کامیابی میں جہاں عوام کا منظم ہونا بہت اہم تھا وہیں پر اس تحریک کی قیادت کا نڈر ہونا بھی اہم عنصر تھا جس نے کسی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر تحریک کو جاری رکھا۔ لیکن حالیہ تحریک میں ایسی قیادت کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار حکومتی وعدوں پر اعتبار کر کے تحریک کو پسپائی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ عوام ہمیشہ تحریکوں میں منظم نہیں رہ سکتے اور تحریکوں کی بے جاطوالت عوام کو بدظن کر دیتی ہے۔ اگر موجودہ تحریک کا جائزہ لیا جائے تو قیادت نے ابتدا میں ہی پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دے دی اور اس کے بعد اس ہڑتال کو جزوی کر دیا گیا اور دھرنوں کا آغاز کر دیا گیا، اور بالآخر لانگ مارچ کی کال دی گئی۔ حکومت کے پہلے جیسے جھوٹے وعدوں پر اس لانگ مارچ کو پھر ختم کر دیا گیا اور جب وعدے پورے نہیں ہوئے تو پھر سے لانگ مارچ کی کال دی جا رہی ہے۔ یہ موجودہ ایکشن کمیٹی کی قیادت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر قیادت تحریک کو کامیابی کی طرف لے کر جانا چاہتی ہے تو اسے اس طرح کی ٹامک ٹوئیوں سے احتراز برتنا ہو گا اور اپنے طریقہ کار پر اٹل رہنا ہو گا۔
اگر ایکشن کمیٹی کی موجودہ قیادت کو دیکھا جائے تو یہ تمام تر سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کا ملغوبہ ہے، سوائے حکومتی پارٹی نون لیگ کے۔ یہی وجہ ہے کہ سٹیج پر آنے والا ہر لیڈر سب سے پہلے تو عوام کو ’’مطالعۂ پاکستان‘‘ پر سبق دیتا ہے اور اس کے بعد ریاست سے اپنی وفاداری کی قسمیں اٹھانے کے بعد چند ایک رٹے رٹائے جملے سنا دیتا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو یہ بتانا کہ ان کے آباؤ اجداد نے اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا، تاریخی حقائق کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔ فرض کریں یہ مان بھی لیا جائے تو کیا اس قیادت میں سے کوئی وہ تاریخ بتا سکتا ہے جب گلگت بلتستان میں پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے کوئی ریفرنڈم منعقد کیا گیا۔ یقیناًکوئی نہیں بتا سکتا۔ دوسری طرف یہی قیادت بار بار اس خطے کو متنازعہ بھی مان رہی ہے، اگر الحاق کا ایسا کوئی فیصلہ ہو چکا تو پھر اس خطے کے متنازعہ کردار کی بات کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی۔ قیادت کا بار بار ریاست کے ساتھ وفادار ہونے کے اعلانات کرنا بھی اس قیادت کی سیاسی کمزوری کی علامت ہے۔ گو کہ اس کے پیچھے ریاست کی طرف سے جبر کا عنصر بھی موجود ہے، جیسا کہ یہاں کسی بھی ایشو پر آواز اٹھانے والوں کے خلاف غداری اور دہشت گردی جیسے مقدمات چلانا ایک معمول بن چکا ہے۔ لیکن عوامی مسائل پر جدوجہد کرنے والوں کو جرأت سے ریاست کے جبر اور اوچھے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ حقوق کبھی بھی ریاستوں کی وفا داریوں کے ثبوت دے کر نہیں بلکہ ریاست اور اس کے اداروں کے ساتھ ایک ناقابل مصالحت لڑائی لڑ کرہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ریاست کی وفاداری کا مطلب تو یہی ہے کہ ریاست کی عوام دشمن پالیسیوں کو تسلیم کر لیا جائے، حقوق منوانے کے لئے ریاستوں کو چیلنج کیا جاتا ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کے لئے جہاں یہ تحریک ٹیکسوں کے نفاذ کے خاتمے لئے اہم ہے، وہیں قیادت کو پرکھنے کے لئے بھی یہ تحریک ایک غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو موقع پرست اور مفادپرست قیادت کے گریبان پکڑ کر تحریک سے باہر کرنا ہو گا اور اپنے اندر سے نڈر، بیباک اور سیاسی طور پر ایڈوانس قیادت کا انتخاب کرنا ہو گا۔ حالیہ تحریک کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو واضح دکھائی دیتا ہے کہ شیروں کی قیادت گیدڑوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے، جو اپنا نام بنانے اور ریاست سے وفاداری کی قسمیں کھانے اور عوام کو تھکانے کے سوا کچھ خاص نہیں کر رہے۔
پروگرام کی وسعت
گو کہ تحریک کی قیادت بار بار یہ باور کروا رہی ہے کہ اس تحریک کا مقصد صرف ٹیکسوں کا خاتمہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں تحریک میں ’’آئینی حقوق دو، ٹیکس لو‘‘ یا ’’کشمیر جیسا سیٹ اپ دو‘‘ جیسے نعرے بھی لگتے سنائی دیتے ہیں۔ ’’ ہمیں آئینی حقوق دو‘‘ کے نعرے کی بنیادوں کو بھی پرکھنا ہو گا۔ ایسے افراد جو یہ سمجھتے ہیں کہ آئینی حقوق (مثال کے طور پر پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی) میسر آ جانے سے گلگت بلتستان کے عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری آ سکتی ہے، وہ یا تو کسی خام خیالی کا شکار معصوم افراد ہیں یا درپردہ اس ریاست کے نمائندے۔ پاکستانی ریاست کا کردار ایک سرمایہ دارانہ ریاست کا ہے اور سرمایہ دارانہ ریاستیں اپنے کردار میں سرمائے کی محافظ ہوتی ہیں نہ کہ عوام کی۔ اس کا واضح اظہار آج پاکستان کے چپے چپے پر ہمیں نظر آتا ہے۔ پاکستان کے عوام کے پاس آئینی حقوق دستیاب ہیں، لیکن اس کے باوجود آئے روز کبھی کہیں بجلی کی بندش کے خلاف احتجاج ہوتے ہیں تو کبھی گیس کی، کبھی غربت سے تنگ آ کر لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں تو کبھی لاعلاجی کے ہاتھوں درگور ہو رہے ہیں۔ اپنی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے اساتذہ پر کبھی یہی ریاست تشدد کررہی ہوتی ہے تو کبھی نجکاری کیخلاف ہڑتال کرنے والوں پر گولیاں برساتی ہے۔ پاکستانی عوام کو آئینی حقوق تو میسر ہیں لیکن بنیادی انسانی ضروریات نہیں۔ کیا گلگت بلتستان کے عوام ایسے آئینی حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں جہاں ووٹ دینے کا حق تو مل جائے لیکن روٹی، علاج، روزگار میسر نہ ہو۔ بنیادی طور پر یہ مطالبہ پھر گلگت بلتستان میں بسنے والے چند ایک امیر افراد کا ہے جو الیکشن لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس بنیاد پر اسمبلیوں میں جا کر گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق پر مزید ڈاکے ڈالنا چاہتے ہیں۔
آئینی حقوق کے سوال کو اگر ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو ہمیں اسی ریاست میں آئینی حقوق کی دستیابی کے باوجود اس ریاست سے علیحدگی کی تحریکیں بھی چلتی نظر آتی ہیں۔ پاکستانی ریاست ایک سامراجی ریاست بھی ہے، جو مختلف علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے شدید ترین ریاستی جبر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر آئینی حقوق ہی سب سے پہلے ہوں تو بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو دہائیوں پہلے ختم ہو جانا چاہئے تھا، جہاں پر آئینی حقوق تو دستیاب ہیں لیکن بنیادی انسانی سہولیات نہیں۔ اور ان آئینی حقوق سے آج بھی فوائد وہاں کا حکمران طبقہ ہی اٹھا رہا ہے اور عوام کو غیر انسانی زندگیاں گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کشمیر جیسے سیٹ اپ کی ڈیمانڈ بھی حیلہ بازیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کشمیر کا موجودہ سیٹ اپ گلگت کے موجودہ سیٹ اپ سے چنداں مختلف نہیں ہے، جہاں کی ’’آزاد‘‘ اسمبلی لینٹ افسران اور کشمیر کونسل کے تابع ہی ہے۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ آئینی حقوق کا مطالبہ غلط ہے گو کہ ایک سرمایہ دارانہ نظام میں آئینی حقوق حکمران طبقے کی حکمرانی کے قانونی جواز کے سوا کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ضروری ہے کہ اس مطالبے کو دیگر بنیادی ضروریات کے حصول کے مطالبے سے جوڑتے ہوئے روٹی، کپڑا، مکان، روزگار اور مفت صحت و تعلیم جیسے نعروں کے ساتھ جوڑتے ہوئے حقیقی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے جس میں عوام کی وسیع ترین اکثریت کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
کسی بھی تحریک میں محنت کش طبقے کی موجودگی اس کی طاقت کا بیرومیٹر ہوتی ہے۔ لیکن ابھی تک اس تحریک کی موجودہ قیادت گلگت بلتستان کے عام محنت کشوں کو اس تحریک میں نہیں لا سکی۔ اس کی ایک اہم وجہ اس قیادت کا محدود پروگرام ہے۔ اتنے دنوں سے جاری تحریک میں ایک دفعہ بھی محنت کشوں کو شامل ہونے کی کال نہیں دی گئی، بلکہ اسکردو میں ایک لیڈر کی تقریر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ہے جس میں واضح طور پر سنا جا سکتا ہے کہ ہم محنت کشوں کو ہڑتال کے لئے نہیں کہیں گے، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ عوام کی خدمت جاری رکھیں۔ دوسری طرف کسی مزدور تنظیم کی طرف سے اس تحریک کی کوئی بڑی حمایت بھی نہیں کی گئی۔ گو کہ گلگت بلتستان میں منظم محنت کش انتہائی کم ہیں اور محض چند ایک سرکاری شعبہ جات ہیں جن میں لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے۔ لیکن یہ اس خطے کے کلیدی شعبے ہیں۔ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ادارہ پی ڈبلیو ڈی ہے، جس میں بڑی تعداد میں محنت کش موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں محنت کش موجود ہیں۔ لیکن اس تحریک کی قیادت نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں رکھا جو ان اداروں کے محنت کشوں کو اپنے ساتھ جوڑ سکے۔ لاگو کیے جانے والے انکم ٹیکس کا اطلا ق چونکہ 5لاکھ یا اس سے زائد آمدنی والے افراد کے لئے ہے، اس وجہ سے عوام کی اکثریت کو لگتا ہے کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں، اور ودہولڈنگ ٹیکس بینکوں کے ذریعے رقم کے لین دین پر ہے اور اس ضمن میں بھی اکثریت کا بینکوں کے ساتھ کوئی خاص لین دین موجود نہیں۔ اس لیے قیادت عوام کی اکثریت کو یہ باور کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ یہ ایسا سلسلہ ہے جو رکنے والا نہیں اور ایک بار یہ مکمل طور پر لاگو ہو گئے تو پھر یہ سلسلہ بڑھتا رہے گا اور مزید لوگ اس کے جال میں آتے رہیں گے اور اس کے علاوہ یہ کوئی پہلے یا آخری ٹیکس نہیں ہیں، بلکہ اس کے بعد پراپرٹی ٹیکس اور نجانے کون کون سے ٹیکس بھی، جو یہ حکمران طبقہ مختلف شکلوں میں باقی عوام سے حاصل کر رہا ہے، گلگت بلتستان کی عوام سے بھی وصول کئے جائیں گے۔ عوام تک حکمران طبقے کی اس گھناؤنی حکمت عملی کا پرد ہ چاک کر کے ہی ان کی حمایت جیتی جا سکتی ہے۔
گلگت بلتستان میں تعلیم اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، تعلیم کے حصول بالخصوص یونیورسٹی کی تعلیم کے لئے ہزاروں طلبہ کو مختلف شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ آج پاکستان کی مختلف یونیورسٹیز میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم ہیں، جس کی وجہ گلگت بلتستان میں یونیورسٹیز کا نہ ہونا ہے۔ لیکن یہی طلبہ جب اپنی تعلیم مکمل کرلیتے ہیں تو ان پر ناصرف روزگار کے بلکہ اپنے گھروں کو واپسی کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ یہ طلبہ یا تو انہی شہروں میں جہاں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں کوئی چھوٹا موٹا روزگار تلاش کرتے ہیں یا بیرون ملک جانے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ان نوجوانوں کے مسائل بھی عوامی مسائل ہیں جو پروگرام کا حصہ ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ قابل علاج بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ صحت کے بنیادی مراکز میں تو پیشہ ور ڈاکٹرز سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ گلگت اور اسکردو جیسے بڑے شہروں میں چند ایک سرکاری ہسپتال ہیں جن میں صحت کی سہولیات اور ڈاکٹرز کا شدید فقدان ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے میں اگر پاکستانی ریاست سنجیدہ ہوتی، جس میں نمائندگی کے ’’آئینی‘‘ حق کا مطالبہ کیا جا رہا ہے توحالات مختلف ہوتے۔ جب ٹیکسوں کے خاتمے کے خلاف تحریک چل رہی ہے تو اسی وقت اس خطے کے مختلف علاقوں میں بجلی کی بندش کے خلاف بھی چھوٹے موٹے علاقائی احتجاج موجود ہیں۔ گو کہ اس خطے کو علاقائی سطح پر لگائے گئے پاور پلانٹس سے بجلی کی ترسیل کی جاتی ہے لیکن وہ کونسا عذر بجلی کی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے میں مانع ہے کہ عوام کے بار بار کے احتجاجوں کے باوجود اس انتہائی کم ڈیمانڈ کو بھی پورا نہیں کیا جا رہا، جس پر کسی بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت بھی نہیں۔ صرف لاہور میں جاری مختلف منصوبوں میں سے ایک منصوبے کے برابربجٹ بھی عوام کے اس دیرینہ مسئلے کا حل کر سکتا ہے۔ یہ ایسے مطالبات ہیں کہ جن کے گرد عوام کی وسیع تر پرتوں کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
مستقبل کا لائحہ عمل
گلگت بلتستان میں احتجاجوں، جلسے، جلوسوں اور ہڑتالوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اب اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ پاکستانی ریاست اس وقت تاریخ کے بدترین سیاسی و معاشی بحران سے گزر رہی ہے۔ تجارتی و کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، اسی مالی سال میں 6ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں، معیشت کو زندہ رکھنے کے لیے حکمران پھر آئی ایم ایف کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ایسے میں عالمی مالیاتی ادارے مزید لبرلائزیشن کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں، اداروں کی نجکاری اور ٹیکسوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کی پالیسیاں دی جا رہی ہیں۔ پاکستانی ریاست عالمی مالیاتی اداروں کی ایما کے بغیر کوئی آزادانہ معاشی پالیسی بنانے کی نہ تو کبھی پوزیشن میں رہی ہے اور نہ ہی آنے والے وقتوں میں ایسے کوئی آثار موجود ہیں۔ ایسے میں اپنے بحران کا تمام تر بوجھ یہ محنت کشوں پر ہی مسلط کریں گے۔ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کیا جا رہا ہے، ٹیکسوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں کوئی چھوٹا موٹا امکان بھی جہاں سے غریب عوام کا خون پسینہ نچوڑا جا سکتا ہو، اس کو یہ حکمران کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں اگر وقتی طور پر ٹیکسوں کو ختم کیا بھی جاتا ہے تو آنے والے وقتوں میں یہ کسی اور شکل میں گلگت بلتستان کی غریب عوام پر پہلے سے زیادہ بڑے پیمانے پرمسلط کیے جائیں گے۔ اس لیے ایک مستقل لائحہ عمل اور حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
جن مسائل کا سامنا گلگت بلتستان کے عوام کر رہے ہیں، وہی مسائل پورے پاکستان کی غریب عوام کو بھی تاراج کر رہے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے گلگت بلتستان اور پورے پاکستان کے عوام کے کسی ایک مسئلے کا بھی دیرپا حل ممکن نہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کی اس تحریک کو ملک کے باقی حصوں کے محنت کشوں کے ساتھ جوڑا جائے۔ پاکستان کے باقی خطوں میں بھی بار بار مختلف مسائل پر مختلف تحریکیں ابھر رہی ہیں، لیکن وہ بھی ایک حقیقی قیادت کی عدم موجودگی میں باقی عوام اور محنت کشوں سے کٹی رہ جاتی ہیں۔ جس طرح گلگت بلتستان میں جاری اس تحریک کا میڈیا پر ذکر تک کرنا گوارہ نہیں کیا جاتا، ایسے ہی ملک کے دیگر حصوں میں حقیقی ایشوز کے گرد ابھرنے والی تحریکوں کی خبروں کو بھی نہ صرف دبایا جاتا ہے بلکہ اگر کبھی منظر عام پر لائی بھی جائیں تو ان کو مسخ کر کے چلایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ میڈیا بھی دیگر اداروں کی طرح اس ریاست کا دلال ہے اور اس کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ ہمیں ان تمام تر تحریکوں کا باہمی تعلق استوار کرنا ہو گا۔ ہمیں نوجوانوں اور محنت کشوں کو اس نظام کی تباہ کاریوں کے خلاف منظم کرتے ہوئے اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی لڑائی لڑنا ہو گی، تاکہ ایک ایسا نظام قائم کیا جا سکے، جس میں صرف گلگت بلتستان کے فطری حسن کی بات ہی نہ کی جائے بلکہ یہاں رہنے والے انسان بھی ایک حسین انسانی زندگی گزار سکیں۔ اور یہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – گلگت: بائیں بازو کے عوامی رہنما کامریڈ احسان علی ایڈووکیٹ کی گرفتاری اور ریاست کی انتقامی کاروائیاں!