|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، گلگت بلتستان|

دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کا احتجاجی دھرنا پچھلے 3 ہفتوں سے اور یخ بستہ سردی کے باوجود پوری شدت سے جاری ہے۔ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں جاری یہ طویل المدتی احتجاج خطے کی تاریخ میں ایک منفرد اور غیر معمولی مظاہرہ بن چکا ہے، اس کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ احتجاج اب صرف دیامر تک محدود نہیں رہا بلکہ خیبر پختونخوا کے علاقے کوہستان تک بھی پھیل چکا ہے، جہاں بھاشا ڈیم کے متاثرین داسو کے مقام پر سراپا احتجاج ہیں۔ دونوں مقامات پر مظاہرین کی قیادت مقامی باشندے اور مذہبی علما ء کر رہے ہیں، جبکہ عوامی ایکشن کمیٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتیں بھی اس تحریک کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔
احتجاجی مظاہرین نے حکومت کے سامنے 31 نکاتی مطالباتی چارٹر پیش کیا ہے، جس میں زمینوں کے معاوضے کی فوری ادائیگی، متبادل رہائش کی فراہمی اور دیگر بنیادی حقوق شامل ہیں۔ تاہم، حکومتی مشینری روزانہ مذاکرات کا ڈھول میڈیا پر آکر پیٹ رہی ہے البتہ متاثرین کے مسائل جوں کے توں ہیں۔
احتجاجی دھرنے کی قیادت کا کہنا ہے کہ جب تک تمام مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، دھرنا جاری رہے گا اور اگر حکومت نے سنجیدہ رویہ نہ اپنایا تو یہ تحریک مزید شدت اختیار کرے گی۔ دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی نے بھی اس دھرنے کی حمایت میں لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد یہ احتجاج مزید وسعت اختیار کر سکتا ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین صرف دیامر میں نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے علاقے کوہستان میں بھی موجود ہیں۔ ایسے میں اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ داسو اور دیامر کے متاثرین مشترکہ جدوجہد کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، روایتی اور قدامت پسند قیادتوں کے بجائے مقامی کمیٹیاں تشکیل کرکے ایک مضبوط اور منظم قیادت کو آگے لایا جائے تاکہ یہ جدوجہد زیادہ مؤثر اور ریڈیکل ثابت ہو۔
دیامر ڈیم متاثرین کمیٹی اور وفاقی حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات
کل 9 مارچ کو وفاقی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ مذاکراتی وفد دیامر ڈیم متاثرین کے 31 نکاتی مطالبات پہ بات چیت کے لئے چلاس پہنچ گئی ہے اور فریقین کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کا پہلا دور چل رہا ہے۔ آخری خبریں آنے تک حکومتی وفد کے ارکان متاثرین کے چارٹر آف ڈیمانڈز پہ کوئی واضع تحریری یقین دہانی کرانے کی بجائے گول مول باتیں کر رہے ہیں جس سے حکومتی ٹیم کی نیت میں فتور ہونے اور متاثرین کو مذاکرات میں الجھا کر اور کچھ کم اہم مطالبات تسلیم کرکے اہم بنیادی نوعیت کے مطالبات پہ غور کرنے کا زبانی وعدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے ذریعے متاثرین کی کمیٹی کے اندر نفاق ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اگر متاثرین میں تقسیم ڈالنے میں حکومت اور انتظامیہ کامیاب ہو گئے تو حکومت چند چھوٹے مطالبات تسلیم کرکے بنیادی نوعیت کے مطالبات کورد کرتے ہوئے متاثرین ڈیم کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کر سکتی ہے۔
حکومت کی بدنیتی اس بات سے بھی عیاں ہیکہ حکومت نے مذاکرات کے لئے جن وزراء کو چلاس بھیجا ہے وہ غیر اہم اور بے اختیار وزراء ہیں۔ وزیر خزانہ، وزیر بجلی و پانی اور وفاقی سیکریٹری خزانہ جو مطالبات سے متعلق کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، مگر اس حکومتی وفد میں شامل ہی نہیں۔ موجودہ حکومتی وفد مذاکرات کو زیادہ سے زیادہ لمبا کر کے متاثرین ڈیم کو تھکا دینا چاہتاہے۔
اس لئے اب ڈیم متاثرین کمیٹی کے رہنما اور ممبران کمیٹی کی فہم و فراست اور سمجھداری کا امتحانہے، انہیں ان حکومتی ہتھکنڈوں کو سمجھتے ہوئے قسطوں میں مطالبات تسلیم کرنے کے وعدوں کو یکسر مسترد کرنا چاہیے۔ حکومتی وفد پہ واضع کرنا چاہیے کہ جب تک متاثرین کے تمام 31 مطالبات پہ ایک ساتھ با مقصد بات چیت کرکے ان تمام مطالبات کو منظور نہیں کیا جاتا اور وفاقی حکومت کی طرف سے تمام مطالبات کو تسلیم کرنے سے متعلق باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا جاتا اس وقت تک احتجاجی تحریک جاری رہے گی۔
متاثرین ڈیم کے نوجوانوں کو حکومت اور جی بی انتظامیہ کی طرف سے طرح طرح کی سازشوں پہ کڑی نظر رکھنی ہو گی اور درپردہ متاثرین ڈیم میں تقسیم ڈالنے اور اس حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے والے حکومتی عناصر کو بروقت بے نقاب کرنا ہو گا۔ یہ بات یاد رکھیں کہ پچھلی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی ملک کو درپیش معاشی بحران کا بہانہ پیش کرکے ڈیم متاثرین کے مطالبات کو دبانا چاہتی ہے اور حسب سابق ڈیم متاثرین سے ایک بار پھر قربانی دینے کی اپیل کر کے انہیں مزید قربانی کا بکرا بنانا چاہتی ہے۔
جبکہ اس ڈیم کے بننے سے تقریباً 110 کلومیٹر لمبی جھیل جو ڈیم کی جگہ سے رائیکوٹ پل تک بنے گی، جو دریا کی سطح سے 270 میٹر اونچی ہوگی۔ یہ ڈیم بننے کے نتیجے میں دریا کے آر پار 31 چھوٹے چھوٹے گاؤں مکمل طور پہ یا پھر گاؤں کا ایک حصہ ڈیم کی جھیل میں ڈوب جائیں گے۔ ان گاؤں کے متاثر ہونے والے گھرانوں کی تعداد 35 ہزار سے زیادہہے مگر سالانہ 2010 سے اب تک بننے والی پی پی پی، نون لیگ، پی ٹی آئی اور اب موجودہ مخلوط حکومت جس میں پی ٹی آئی کا ایک دھڑ ااور تحریک اسلامی شامل ہیں۔ اب تک متاثرین کا کوئی بھی بنیادی مطالبہ حل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
جبکہ دیامر بھاشا ڈیم کے غریب متاثرین کے انتہائی جائز 31 مطالبات کی کل مالیت وفاقی اور جی بی حکومت اور افسرشاہی کے فضول شاہ خرچیوں اور عیاشیوں کی مد میں ہونے والی مفت پٹرول پہ 220 ارب روپے،مفت بجلی 550 ارب روپے، جبکہ صدر، وزیر اعطم،گورنرز وزرائے اعلی، وزراء، مشیروں اور اعلی افسران اور ممبران اسمبلیوں کی ناجائز تنخواہوں اور بادشاہی مراعات پہ سالانہ 900 ارب روپے اور بجلی بنانے والی پرائیویٹ کمپنیوں کو سالانہ 2800 ارب روپے اس بجلی کی مد میں عوام سے وصول کیے جاتے ہیں،جو عوام نے کبھی استعمال ہی نہیں کی ہے۔
اس طرح کل ملا کر 4450 ارب روپے سے زیادہ رقم بنتی ہے ان فضول بادشاہی اخراجات اور جگا ٹیکسوں کی۔ اس رقم میں سے مطلوبہ رقم واپس لیکر غریب مظلوم متاثرین دیامر بھاشہ ڈیم کے مطالبات پورے کئے جا سکتے ہیں۔یہ عوام دشمن حکمران عوام کے جائز سے بھی جائز مطالبے کے لئے احتجاج کو عوام کا بنیادی حق نہیں بلکہ بغاوت اور ملک دشمنی سمجھتے ہیں جبکہ اصل ملک دشمن یہی حکمران طبقہ ہے جسکی کرپشن، غلط فیصلوں اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے عوام غربت، بیروزگاری، مہنگائی کا شکار ہیں۔ مگر حکمرانوں، سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کی دولت اور عیاشیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی، دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کے تمام مطالبات کی مکمل حمایت کرتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ دیامر متاثرین ڈیم اور عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کو اپنے تمام بنیادی مطالبات کی بنیاد پہ ایک منظم عوامی مزاحمتی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ اس جدوجہد کو ملک کے دوسرے حصوں کے مزدوروں،غریب کسانوں، چھوٹے ملازموں، چھوٹی محروم قوموں کی تحریکوں کے ساتھ متحد ہو کر ایک ملک گیر عوامی مزاحمتی تحریک کے ذریعے تمام تر عوامی مسائل ومشکلات اور ظلم و استحصال کی جڑ سرمایہ داری نظام کے خاتمے اور موجودہ عوام دشمن حکمرانوں کو اقتدار و اختیار سے بیدخل کرنے اور اقتدار و اختیار محنت کشوں کی منتخب کمیٹیوں کے ذریعے چلانے کی ضرورت ہے۔