|تحریر: احسان علی|
پورے پاکستان کی طرح گلگت بلتستان جیسے دورافتادہ اور دشوار گزار علاقے میں بھی کرونا وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں 71افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ حفاظتی سامان نہ ہونے کے باعث اس وائرس کا نشانہ بننے والے پہلے ڈاکٹر کا تعلق بھی گلگت بلتستان ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اعداد وشمار حقیقت کی درست عکاسی نہیں کرتے۔ ایک ایسے وقت میں جب لاہور جیسے نسبتاً ترقی یافتہ شہر میں حکومت کی جانب سے تشخیصی ٹیسٹوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے تو گلگت بلتستان جیسے محکوم اور تباہ حال خطے میں حالات کیا ہوں گے اس کا اندازہ لگا نا کچھ مشکل نہیں، جہاں صحت کا انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ تباہ حال انفراسٹرکچر کی وجہ سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک کا سفر جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ شدید غربت اور پسماندگی مسائل کو اور گہرا کردیتی ہے۔ ایسے میں اگر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو بڑے پیمانے پر گلگت بلتستان کی محکوم عوام اس وبا کا نشانہ بن سکتی ہے۔ اس علاقے میں ریاستی سنجیدگی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لگ بھگ بیس لاکھ آبادی اور دشوار گزار پہاڑی رستوں جہاں اگر لینڈ سلائیڈنگ ہو جائے تو سڑکیں کئی روز تک بند رہتی ہیں، صرف ایک کرونا تشخیصی لیبارٹری ہے۔
مگر کرونا وائرس کی تیزی سے پھیلتی وباء کا بروقت اور کامیابی سے مقابلہ موجودہ بدعنوان، نااہل اور خود غرض حکمرانوں اور فرسودہ انتظامی مشینری کے ذریعے ممکن نہیں۔ عوام کی زندگیوں کو لاحق اس سنگین خطرے سے باہر نکالنے کیلئے یہ انتہائی لازمی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ملک کی تمام انتظامی مشینری اور ریاستی وسائل سمیت سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں اور بڑے کلینکوں کا کنٹرول ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی منتخب کمیٹیوں کے حوالہ کیا جائے اور پالیسی سازی و فیصلہ سازی کا کلی اختیار عوام دشمن نااہل افسر شاہی سے اٹھا کر مزدوروں، طلبہ اور مختلف پروفیشنل تنظیموں کی مشترکہ منتخب کمیٹیوں کے حوالہ کیا جائے۔ مگر تبدیلی سرکار نے دیگر مسائل کی طرح اس خطرناک وائرس کا مقابلہ کرنے کی کلی ذمہ داری مفلوک الحال غریب عوام پر چھوڑ دی ہے۔ ملک میں خوف و ہراس اور طوائف الملوکی کی سی صورت حال پیدا کی گئی ہے۔ حکمرانوں نے ملک بھر میں موجود تعلیمی اداروں اور ان میں زیر تعلیم لاکھوں طالب علموں کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بجائے انہیں کورونا وائرس کے رحم و کرم پہ چھوڑتے ہوئے تعلیمی اداروں کے ساتھ طلبہ کے ہاسٹلز بھی بند کر دئیے گئے ہیں جس باعث پاکستان کے مختلف دور دراز علاقوں کے طلبہ کے ساتھ گلگت بلتستان کے ہزاروں طلباء و طالبات کو بھی زبردستی اپنے گھروں کی طرف واپس جانے پہ مجبور کر دیا گیا۔
جی بی کے ہزاروں طلبہ مختلف شہروں سے اپنے گھروں کو زبردستی بھیجنے کے اضافی اخراجات سے سخت پریشان تھے۔ طلبہ کی اس پریشانی کو بروقت بھانپتے ہوئے گلگت بلتستان کی دو متحرک طلبہ و یوتھ تنظیموں BSF اور ABM نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے کراچی تا پنڈی تا گلگت بلتستان بروقت بسوں کا انتظام کرکے ہزاروں غریب طلبہ کو ایک سنگین مسئلے سے نجات دلا دی جس پر یہ دونوں تنظیمیں اور ان کی قیادت خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ میں یہ ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج کے نوجوانوں اور محنت کشوں میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں وہ اگر اپنی طاقت اور صلاحیتوں کو یکجا کر لیں تو وہ نہ صرف مختلف ہنگامی حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ وہ پورے سماج اور ریاست کا انتظام و انصرام بھی باآسانی سنبھال سکتے ہیں۔ بلکہ سماج سے طبقاتی نظام یعنی سرمایے کی بالادستی کو ختم کرکے محنت کا راج قائم کرتے ہوئے سماج سے ظلم و جبر اور استحصال کی ہر شکل کو مٹا سکتے ہیں اور ریاست اور اس کی دولت اور پیداوار پر قابض ایک فیصد سرمایہ دار طبقے اور اس سے منسلک مراعات یافتہ پرتوں کی عیاشیوں اور لوٹ مار کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔
یہ کوئی الف لیلوی قصہ کہانی یا کتابی خیالی افسانہ نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں کے ساتھ خود پاکستان، کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی یہاں کے محنت کش عوام، طلبہ اور نوجوانوں نے ایسا عملی طور پہ کرکے دکھا دیا ہے۔ ہم کیوں اپنی تاریخ بھول جاتے ہیں کہ سال 1968-72ء کے دوران پاکستان کے انقلابی طلبہ اور مزدوروں نے نہ صرف ایوب خان کی فوجی حکومت کے خلاف شاندار تحریک چلاکر فوجی ڈکٹیٹرشپ کو سرنگوں کیا بلکہ کارخانوں، فیکٹریوں کو بھی مزدور یونینوں کے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلا کر یہ ثابت کیا تھا کہ وہ کارخانوں کو سرمایہ داروں سے بہت اچھے انداز میں چلا سکتے ہیں مگر ایک انقلابی سوشلسٹ پارٹی کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر بھٹو نے انقلاب سے غداری کرکے مزدوروں اور طالب علموں کو پورے ملک کا کنٹرول سنبھالنے سے روک دیا اور اپنے اقتدار کو مضبوط کیا۔ اسی طرح سال 08-2007 میں جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف وکلاء کی تحریک کا ساتھ دینے کیلئے ملک بھر کے طلبہ اور دوسرے پروفیشنلز کی کچھ پرتیں اٹھ کھڑے ہوئیں تھی مگر وکلاء تحریک کی قیادت کرنے والے موقع پرست سرمایہ دار وکیلوں نے کچلے ہوئے طبقات کی ایک انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر تحریک کو وکلاء تک محدود کرکے کچلے ہوئے عوام کے زبردست انقلابی ابھار کو انقلاب میں بدلنے سے روک دیا۔
اسی طرح، گلگت بلتستان میں سال 1971ء میں ایف سی آر کے خلاف عوامی بغاوت جس کے نتیجے میں جیل توڑ کر تحریک کے لیڈران کو عوام نے خود ہی رہا کیا اور گلگت پر عملًا عوام کا کنٹرول قائم ہو گیا مگر عوام کی اپنی ایک انقلابی پارٹی کے نہ ہونے سے فائدہ اٹھا کر بھٹو حکومت نے ایک بدترین بیوروکریٹک سسٹم یہاں کے عوام پر مسلط کر دیا جو آج تک جاری ہے۔ اسی طرح، گندم سبسڈی کے خاتمے کے خلاف فروری تا اپریل 2014ء کے دوران جو بے مثال عوامی تحریک ابھری جس کے نتیجے میں 15 اپریل سے 26 اپریل کے دوران کالونیل انتظامیہ مکمل مفلوج ہو چکی تھی اور جی بی کے تمام اضلاع پر عوامی تحریک کا کنٹرول قائم ہو گیا تھا مگر جی بی میں ایک انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی اور تحریک میں شامل اسلام آباد نواز سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے مقامی لیڈران کی غداری کی وجہ سے یہ تحریک حکومت کی طرف سے سبسڈی کے مطالبہ تسلیم کرنے کے فوراً بعد ختم کر دی گئی۔ اسی طرح، اس سال 5 اگست کو بھارتی حکمرانوں کی طرف سے جموں کشمیر کو ننگی طاقت کے زور پر آرٹیکل 370 اور 35-A ختم کرنے کے خلاف ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے ساتھ پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں ایک زبردست تحریک ابھری مگر کشمیری مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی قوم پرست قیادت کی نظریاتی محدودیت، آپسی گروہ بندی اور ان کی مبہم اور کمزور اصلاح پسندانہ سوچ و فکر کی وجہ سے عوام کی یہ زبردست تحریک پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہونے کی کامیاب جنگ ہار میں بدل گئی۔
آج پاکستان، پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں کرونا وائرس کی وباء سے نمٹنے میں حکمرانوں کی ناکامی اور کروڑوں عوام کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری، مہنگی تعلیم، مہنگے علاج کی عفریت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے خلاف مزدوروں، کسانوں، طلبہ، ینگ ڈاکٹروں، نرسوں، پیرا میڈیکس، ینگ وکلاء، ینگ انجینئرز اور محنت کشوں کی دیگر پرتوں کی ایک مشترکہ انقلابی تحریک کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس نئی تحریک میں بھی پہلے کی طرح طلبہ اور مزدوروں کا کلیدی کردار ہوگا۔ مگر اب کی بار شکست سرمایے کی حکمرانی کو ہوگی اور انقلاب کی جیت عوام کا مقدر ہوگا۔