|تحریر: فرحان گوہر|
قراقرم ہائی وے کے بعد، پاکستان چین معاشی راہداری، ایک تاریخی چابک کی طرح گلگت بلتستان کے پرانے سماجی اور سیاسی تانے بانے کو توڑتے ہوئے عالمی سامراج کی منڈی میں دھکیلنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ اس کا منطقی اظہار سماجی تحریکوں کی شکل میں ہورہا ہے۔ ان تحریکوں کی بنیاد سامراجی پالیسیوں کی نامیاتی ناہمواریت ہے۔ گندم کی سبسڈی کی تحریک کے بعد یہ دوسری اورطاقتور تحریک ہے۔
2012ء میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں انکم ٹیکس آرڈر2001ء کو گلگت بلتستان تک توسیع دینے کی منظوری دی گئی۔ مسلم لیگ کی حکومت نے بھی وفاق سے گلگت بلتستان تک ٹیکسز کے دائرہ کار کو وسعت دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 11 جولائی 2015ء کو صدارتی آرڈ نینس کے تحت گلگت بلتستان کے بینکوں میں موجود رقوم کے لین دین پر 0.6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لاگو کیا گیااور بعد ازاں3 اکتوبر 2016ء کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو( FBR) کی طرف سے زیر آرڈر C.No.1(26)Secy(ITP)/2016 گلگت بلتستان میں سامان کی برآمدگی پربھی ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ اس ٹیکس کے جمع کرنے کا اختیارگلگت بلتستان کی بجا ئے وفاق کو دیا گیا۔ 25 دسمبر 2015ء کو گلگت بلتستان میں انکم ٹیکس پر موجود 50فیصد چھوٹ کو ختم کرتے ہوئے انکم ٹیکس 3.5 فیصد سے بڑھا کر 7 فیصد کردیا گیا۔ اب تو صوبائی حکومت کی جانب سے بلدیاتی اداروں کے ذریعے بھی الگ سے ٹیکس کے نفاذ کا عمل بھی شدو مد کے ساتھ جاری ہے۔ 14 جون 2016ء کو زیر نمبر No.SEC-1(24)2015-16 گلگت بلتستان لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2014ء کے تحت 40 کے قریب متفرق روز مرہ امور پرٹیکسز عائد کردئے گئے جس پر فوری طور عمل در آمد شروع ہوچکا ہے۔
دوسری طرف اس علاقے کی آئینی حیثیت اور حقوق کو پس پشت ڈالتے ہوئے پاکستان اور چین کے سرمایہ دار جلداز جلد سی پیک کے منصوبے شروع کر نے کے خواہاں ہیں۔ اس کیلئے پاکستانی ریاستی مشینری بالخصوص اس کے عسکری ادارے عوامی زمینوں پر قبضے، ٹیکسوں کا نفاذ اور سیکیورٹی زونز بنانے میں مشغول عمل ہیں۔ گندم سبسڈی کی تحریک کے نتیجے میں عوامی حمایت حاصل کرنیوالی عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے بارہا سی پیک میں گلگت بلتستان کا حصہ اور ٹیکسوں کے ناجائز نفاذ کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور تشخص کے تجریدی نکات کا اظہار ٹیکسوں اور بلاواسطہ معاشی مطالبات جیسے ٹھوس اور مادی سوالات کی شکل میں ہوا۔ جیسے لینن نے کہا تھا کہ قومی سوال حتمی تجزیے میں روٹی کا سوال ہے: تشخص اور آئینی حیثیت جیسے سوالوں کو صرف اسی تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
سی پیک کے اس سامراجی کردار پر عوامی رد عمل کی ابتدا گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں مکمل ہڑتال کی صورت میں ہوئی جس میں پاکستانی ریاست کے خلاف محنت کشوں کا غصہ نمایاں تھا۔ ٹیکسوں کا اطلاق اور سی پیک کی کاروباری سرگرمیوں اور منصوبوں میں حصہ وہ ٹھوس مادی حقائق ہیں جن کی وجہ سے تحریک کی جڑیں سماج کی تمام پسماندہ پرتوں میں پیوست ہیں۔ اور یہی اس تحریک کی طاقت ہے۔ اس وقت تحریک کی قیادت عوامی ایکشن کمیٹی، انجمن تاجران اور گلگت بلتستان بار کونسل کے مشترکہ پلیٹ فارم کے پاس ہے۔ حالیہ دنوں میں جو چارٹر آف ڈیمانڈز عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے پیش کیا گیا ہے اس کا حل ریاستی آئین اور قانون کے اندر ممکن نہیں۔ نام نہاد مقامی حکومت جو پاکستانی سرمایہ دارانہ ریاست کی نمائندہ ہے، اس صورتحال میں مفلوج اور بے دست وپا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی حقیقت ہے، کہ ان نام نہاد نمائندوں کے پاس کوئی عوامی حمایت موجود نہیں۔ دوسری سمت تحریک کی قیادت میں ان مسائل کا مبہم اور غیر سائنسی حل پیش کرنے والے حضرات کی کمی نہیں۔ ان میں قوم پرستوں سے لیکر نام نہاد آزادکشمیر کی طرح کا سیٹ اپ مانگنے والے شامل ہیں۔ ایسے میں لاہور کے ہوٹلوں میں کچی ملازمت کرنے والے، بیروزگار اور معاشی کسمپرسی میں زندگی گزارنے والے کشمیری نوجوانواں، کشمیر میں علاج، روزگار اور دیگر بنیادی سہولیات کے فقدان والے اپاہج سیٹ اپ پر ماتم کناں ہیں۔
مقامی حکومت نے 23 نومبر تک مہلت مانگی ہے تاکہ وہ اپنے آقاوں کو راضی کر سکیں۔ ماضی کی طرح کا کوئی ہوائی سیٹ اپ گلگت بلتستان کے محنت کشوں کے کسی مسئلے کو حل نہیں کرسکتا۔ آئینی حیثیت، وفاق اور قومی اسمبلی میں نمائندگی جیسے اقدامات پسماندہ پرتوں کے ٹھوس اور معاشی مطالبات کو حل کئے بغیر بے سود ہیں۔ جولوگ کسی بھی قسم کی آئینی حیثیت حاصل کرنے یا قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل کرنے کو موجودہ مسائل کا حل سمجھتے ہیں وہ احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کی طرف سے ایسا کوئی بھی اقدام اس طبقاتی تضاد کو مزید گہرا کردیگا جو موجودہ تحریک کا محور اور بنیاد ہے۔ علاقائی عدم استحکام اور پاکستانی ریاست کی داخلہ کمزوری کے تناظر میں طاقت کا استعمال تحریک کو مزید ریڈیکلائیز کردیگا۔