|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|
گلگت بلتستان میں صحت کی ناقص سہولیات کی وجہ سے گذشتہ روز دوسرا ہیلتھ ورکر جان کی بازی ہار گیا۔ کل بتاریخ 29مارچ، 55سالہ مالک اشتر کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے خود اس وائرس کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا۔ مالک اشتر ضلع نگر خاص کے مقامی ہسپتال میں ایکسرے ٹیکنیشن تھے۔ حالیہ دنوں میں کرونا وبا پھیلنے کی وجہ سے قرنطینہ مرکز میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ نگر خاص گلگت بلتستان میں ایرانی زائرین کی کثیر تعداد کا مرکز بنا ہوا ہے۔ صحت کی سہولیات اور سٹاف کی کمی کی وجہ سے مالک اشتر بغیر کسی حفاظتی لباس اور ماسک کے زیادہ وقت مریضوں کی دیکھ بھال میں گزارتے تھے۔ وہ مقامی ہونے کی وجہ سے اپنی ڈیوٹی سے زیادہ خدمات انجام دے رہے تھے۔ مگر اس خونخوار و مزدور دشمن ریاست کی بے حسی کی انتہا ہوئی کہ جب وہ بیمار پڑ گئے تب ان کو بچانے کیلئے افسر شاہی کے پاس وقت نہیں تھا۔ ان کے کرونا ٹیسٹ کیلئے نمونے 22مارچ کو بھیجے گئے۔ رپورٹ آخری دن تک نہیں ملی۔ ان کی خدمات کا یہ صلہ ملا کہ وہ بے بس زندگی کی بازی ہار گئے۔ یہ ڈاکٹر اسامہ کے بعد کرونا کے مریضوں کی عالج کرنے والے دوسرے ورکر تھے جس کی زندگی اشرافیہ کی عیاشی سے سستی ٹھہری۔ ارباب اختیار کے کانوں میں جوں بھی نہ رینگی۔
ڈاکٹر اسامہ کی موت کے دلخراش واقعے کے بعد یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ ریاست ہیلتھ کئیر سٹاف کو حفاظتی لوازمات کے بغیر موت کے منہ میں دھکیل چکی ہے۔ میڈیا میں شورو غوغا ہوا۔ مگر سلیوٹ، تمغے اور گانوں پر ہی اکتفا کیا گیا۔ اس وسیع و عریض دشوار گزار علاقے میں صرف ایک ٹیسٹ کرنے والی مشین نصب ہے جس سے ایک دن میں دس پندرہ سے زیادہ ٹیسٹ نہیں کیے جا سکتے۔ البتہ سول و فوجی افسر شاہی کیلئے معاملات اور ہیں۔ ان کیلئے صوبے بھر کی مشینری حرکت میں آتی ہے اور ڈاکٹروں سمیت باقی سٹاف ان کی حرکت کے قیدی بن جاتے ہیں۔ مقامی سیاسی حلقوں کے سیاسی طفلانہ پن کی وجہ سے صحت سمیت تمام اہم امور پر فیصلہ کن کردار ایف سی این اے کا ایک عیاش افسر کا ہوتا ہے جس کو لوگوں کی تکالیف سے اتنا ہی فرق پڑتا ہے جنتا فرعونوں کو غلاموں کے مسائل سے پڑتا تھا۔ حکمران طبقہ کرونا وبا سے فرنٹ لائن پر مقابلہ کرنے والے ہیلتھ سٹاف کو حفاظتی سامان دینے کی بجائے سلیوٹ اور گانوں سے ٹرخا رہا ہے اور ان کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ دلال میڈیا اس سلسلے میں خاب نمک حلالی کر رہا ہے جہاں ہر پانچ منٹ بعد ہیلتھ ملازمین کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں کام کرنے والے ہیلتھ سٹاف کو حفاظتی سامان میسر نہیں تو گلگت بلتستان جیسے محکوم علاقے میں حکمرانوں اور مقامی دلالوں کا رویہ کیا ہوگا یہ کوئی بھی ذی ہوش فرد بخوبی جانتا ہے۔ مالک اشتر کی موت سی پیک سے اس علاقے کی قسمت بدل دینے کے دعوے کرنے والے حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ گلگت بلتستان کی عام عوام بخوبی جانتی ہے کہ قسمت تو بدلی ہے مگر لاکھوں عوام کی نہیں بلکہ مٹھی بھر سیاسی اور ریاستی اشرافیہ کی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ، مالک اشتر کی بے وقت موت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کی موت کے ذمہ دار یہ حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہیلتھ کئیر سٹاف کو فی الفور حفاظتی سامان مہیا کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں کرونا تشخیصی لیبارٹریاں اور عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق قرنطینہ مراکز قائم کیے جائیں۔ فی الفور تمام اضلاع میں بڑے پیمانے پر مفت تشخیصی ٹیسٹوں کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ متاثرہ افراد کو معاشی تحفظ فراہم کیا جائے۔