|تحریر: راشد خالد|
نون لیگ کی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں گلگت بلتستان کے معاملات کو چلانے کے لئے سابقہ گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009ء کے متبادل گلگت بلتستان آرڈر2018ء نافذ کیا ہے۔ یہ اکلوتا ’’انقلابی فریضہ‘‘ ہی نون لیگ کی حکومت نے سرانجام نہیں دیا بلکہ اپنے جاتے دنوں میں انتہائی عجلت میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا۔ گو کہ ان دونوں فیصلوں کی مختلف کیفیات ہیں۔ اسی وجہ سے جہاں فاٹا کے انضمام کے فیصلے کے مضر اثرات سامنے آ رہے وہیں گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کیخلاف گلگت بلتستان میں شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی اور گلگت اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں نے اس آرڈر کو ناصرف ماننے سے انکار کر دیا بلکہ اس کے خلاف پورے گلگت بلتستان میں احتجاجی مظاہرے تادم تحریر جاری ہیں اور اسے کالعدم قرار دینے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ اس آرڈر کیخلاف گلگت کے تقریباً تمام تر اضلاع میں احتجاج ہو رہے ہیں۔
ہر اقدام کی طرح اس حوالے سے بھی حکمرانوں کی لفاظی سنی جائے تو زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی عوام کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ جی بی اسمبلی کو ایسے آئینی اختیارات تفویض کیے گئے ہیں جو ماضی میں کبھی اس اسمبلی یا یہاں کے لوگوں کے پاس موجود نہیں تھے۔ اور بظاہر چند ایک معاملات سے متعلقہ اختیارات اس اسمبلی کو واقعی دیئے بھی جا رہے ہیں۔ لیکن ان اختیارات کی حدود بہرحال موجود ہیں اور کوئی بھی فیصلہ وزیراعظم پاکستان یعنی وفاق کی اجازت کے بنا نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف احتجاج کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ گلگت بلتستان کو ایکٹس اور آرڈرز کے ذریعے چلانے کی بجائے آئین دیا جائے۔ متحدہ اپوزیشن اور عوامی ایکشن کمیٹی نے حالیہ ایک پریس کانفرنس میں واضح طور پر یہ مطالبہ رکھا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی مستقل حل نہیں دیا جا سکتا تو تب تک گلگت بلتستان میں بھارتی زیرانتظام کشمیر یا پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا سیٹ اپ قائم کیا جائے۔
قبل ازیں گلگت بلتستان اور پاکستانی زیرانتظام کشمیر کو گلگت بلتستان و کشمیر کونسل کے ذریعے چلایا جاتا تھا جس سے متعلق وفاق میں الگ سے وزارت بھی موجود تھی۔ اس آرڈر کے تحت ان کونسلوں کو وزیراعظم کی مشاورتی کونسلز میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور کونسل کے کچھ اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل کر دیئے گئے ہیں جبکہ حتمی اتھارٹی وزیراعظم پاکستان کو رکھا گیا ہے۔ اگر اس آرڈر کی تفصیلات میں جایا جائے تو یہ ماضی میں فاٹا پر مسلط ایف سی آر کے سامراجی قانون سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی کو تعلیم، علاج، شاہرات، سیاحت و کان کنی وغیرہ سے متعلق قانون سازی کا حق تو دیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی عوام سے بنیادی سیاسی حقوق بھی چھین لئے گئے۔ پاکستانی ریاست، اس کے ’’مقدس اداروں ‘‘ اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کی صورت میں گلگت بلتستان کے عوام، چاہے وہ گلگت بلتستان کے اندر ہیں یا باہر، کو شدید نتائج کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسا جرم کرنے والوں کو تین ماہ تک بنا مقدمات کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں رکھا جا سکتا ہے، اس مدت میں غیر معینہ مدت کے لئے توسیع بھی کی جا سکتی ہے نیز ان اداروں کو جبری گمشدگیوں کے لئے قانونی تحفظ بھی حاصل ہو گا۔ ایسے افراد جن کو ملک دشمن قرار دیا جائے ان کو کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ سیاسی و ٹریڈ یونین سرگرمی صرف ریاستی اجازت کی صورت میں ممکن ہو گی۔
یوں تو اس خطے میں کبھی بھی آئین نافذ نہیں رہا بلکہ ہمیشہ سے ہی یہاں مخصوص امتیازی قوانین رائج رہے ہیں اور پاکستانی ریاست ایک سامراجی جونک کی طرح اس خطے اور اس کے عوام کا خون نچوڑتی رہی ہے لیکن آرڈر 2018ء کے ذریعے خصوصی طور پر عوام کے بنیادی جمہوری حقوق پر شب خون مارا جا رہا ہے۔ تاکہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان میں ایک تیسرے درجے کے شہری کے بطور زندگی گزاریں۔ اور یہ آرڈر اپنے سے پیشرو آرڈرز کی طرح ایک مکمل سامراجی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی ریاست دیگر خطوں کی طرح گلگت بلتستان پر اپنے سامراجی قبضیکو برقرار رکھنے کے لئے بار بار مختلف شکلوں میں ایسے اقدامات کرتی رہتی ہے۔ اپنے حقوق کے حصول کے لئے اور پاکستانی ریاست کے جبر کیخلاف آواز اٹھانے والوں کو ہمیشہ ہی قید و بند اور جلا وطنیوں کے عتاب کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اس آرڈر کے ذریعے ریاست کی اس درندگی کو قانونی حیثیت بھی دی جا رہی ہے۔
گلگت بلتستان گزشتہ طویل وقت سے مختلف عوامی تحریکوں کی آماجگاہ بھی ہے۔ گندم سبسڈی تحریک سے شروع ہونے والا یہ عمل تاحال جاری ہے۔ اور اگر ابھی بھی دیکھا جائے تو اس آرڈر کیخلاف سب سے زیادہ سرگرم کردار عوامی ایکشن کمیٹی ہی سرانجام دے رہی ہے، جس کا ابھار گندم سبسڈی کے خلاف ردعمل کی صورت میں ہوا تھا۔ گندم سبسڈی کے بعد ٹیکسوں کے نفاذ کیخلاف اور دیگر عوامی مسائل کے لئے مسلسل آواز بلند ہو رہی ہے۔ گو کہ عوامی مسائل کے حوالے سے آواز اٹھانے والے سیاسی و سماجی کارکنان کو مسلسل ریاست کی طرف سے نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایسی ہر ایک آواز کو ختم کر دیا جائے۔ ان تمام تر تحریکوں اور جدوجہدوں میں سرگرم کارکنان کو ایک طرف قید و بند اور دوسری طرف جھوٹے غداری اور دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی جدوجہد جاری ہے گو کہ اب ایک واضح لائحہ عمل اور پروگرام کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
گلگت بلتستان کی صورتحال کو ملکی اور بین الاقوامی حالات اور منظر نامے کے تسلسل میں دیکھتے ہوئے ہی ایک درست لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ جہاں عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام ایک بند گلی میں کھڑا ہے اور مختلف ممالک میں وقتاً فوقتاً مختلف تحریکیں اور انقلابات جنم لے رہے ہیں، وہیں یہ خطہ ان اثرات سے بالاتر نہیں رہ سکتا۔ عالمی سامراج کے کھوکھلے پن کی بدولت عالمی سطح پر تشکیل پانے والے پرانے اتحاد ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں اور نئے اتحاد جنم لے رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان اس ساری صورتحال سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ امریکی سامراج سے اس ریاست کے تضادات، چین پر بڑھتے ہوئے انحصار اور ریاست کے معاشی و سیاسی بحران نے حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں فاٹا سے ریاستی جبر کے خلاف ابھرنے والے تحریک پی ٹی ایم نے ریاست کو سر سے لے کر پاؤں تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ تحریک ملک کے دیگر خطوں میں مستقبل کی تحریکوں کو بھی لڑائی کی شکتی فراہم کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف سندھ سے بھی آواز بلند ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ایسی کیفیت میں پشتون تحفظ تحریک کی شدت کو کم کرنے کے لئے فاٹا کے انضمام کا فیصلہ بھی عجلت میں کیا گیا ۔ اور گلگت بلتستان سے متعلق آرڈر بھی ریاست کے اسی خوف کا نتیجہ ہے جو گلگت بلتستان میں پائی جانے والی بے چینی کو دیکھتے ہوئے یہ ریاست کر رہی ہے تاکہ مستقبل میں ابھرنے والی کسی بھی تحریک کو اپنے آغاز میں ہی دبایاجا سکے۔ کیونکہ اس سے قبل بھی گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی کی تحریک نے ریاست کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے اور اس وقت سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس خطے پر ریاست کے کنٹرول کو مضبوط کیا جا سکے۔ ماضی میں اس خطے کو کنٹرول کرنے اور کسی ممکنہ عوامی بغاوت سے بچنے کے لئے ریاست یہاں پر فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم مسلط کر چکی ہے لیکن اب کی بار ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ عوام نے ایک طویل وقت کے تجربے سے یہ سیکھ لیا کہ ان کے دشمن دیگر مسالک سے منسلک عوام نہیں ہیں بلکہ یہ حکمران طبقہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں بننے والی تحریکوں نے اس مذہبی فرقہ واریت کو یکسر مسترد کر دیا۔
قدرتی حسن سے مالا مال اس خطے کو جہاں جنت ارضی کا نام دیا جاتا ہے وہیں اس خطے میں بسنے والے عوام کی زندگیاں ایک جہنم سے کم نہیں ہیں ہیں۔ تعلیم، علاج، روزگار جیسی بنیادی سہولیات عنقا ہیں۔ عوام کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایسے میں حکمران طبقات عوام کی محرومیوں اور مسائل کا خاتمہ کرنے کی بجائے اپنی سیاسی دھما چوکڑی میں مصروف ہیں۔ جب کہ عوام سے جینے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ لیکن اس تمام تر ڈرامہ بازی نے عوام پر بہت کچھ عیاں کر دیا ہے۔ پہلے تو یہ کے اسلام آباد میں بیٹھا حکمران طبقہ صرف اپنی حکمرانی اور اپنے سامراجی قبضے کو دوام بخشنے کے لئے پالیسیاں مرتب کرتا ہے۔ گلگت بلتستان میں موجود سیاسی اشرافیہ اسی حکمران طبقے کے ٹاؤٹ کا کردار ادا کرتی ہے اور اس کی قیمت وصول کرتی ہے۔ اس لئے گلگت بلتستان کے محنت کشوں اور طلبہ کو اپنی لڑائی اپنے زوربازو پر لڑنا ہو گی۔ اس لڑائی میں پاکستان کے دیگر علاقوں اور دنیا بھر کا محنت کش طبقہ ہی ان کا اتحادی ہو سکتا ہے جن کے دکھ درد سانجھے ہیں۔
کشمیر طرز کا سیٹ اپ اور پانچواں صوبہ سے متعلق کی جانے والی بحث بھی یقیناًقابل توجہ ہے۔ گو کہ پاکستانی حکمران طبقے سے کسی قسم کی توقع وابستہ کرنا ایک خام خیالی ہی ہو سکتی ہے اور ماضی میں بار بار اس حکمران طبقے نے اپنی اس تاریخی نااہلی کو ثابت بھی کیا ہے۔ گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے کے حوالے سے پاکستان کا حکمران طبقہ اور ریاستی ادارے کبھی ایک پیج پر نہیں آسکتے۔ کیونکہ مسئلہ کشمیر کا ایک اہم حصہ گلگت بلتستان ہے اور گلگت بلتستان کو ایک آئینی حصہ ڈیکلیئر کرنے سے ان کے دفاع سے متعلق اربوں کے کاروبار کو شدید اور مستقل نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی کیفیت میں ان کے لئے کشمیر طرز کا لولا لنگڑا سیٹ اپ قابل عمل حل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی ذہن نشین کرنا ہو گا کہ کشمیر طرز کے سیٹ اپ اور موجودہ گلگت بلتستان کے نیم صوبائی درجے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اور اگر یہ سیٹ اپ گلگت بلتستان میں تشکیل دیا جاتا ہے تو اس سے گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی مسائل میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ کشمیر کی اکثریتی آبادی بھی انہی مسائل کا سامنا کر رہی ہے جو گلگت بلتستان کے لاکھوں عوام کو لاحق ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جدید ایف سی آر طرز کے آرڈرز کو یکسر مسترد کرنا بھی ضروری ہے۔
گلگت بلتستان میں بسنے والے لاکھوں عوام کی زندگیوں کے فیصلے آرڈرز کے ذریعے نہیں کئے جا سکتے۔ ایسے فیصلوں کو اسمبلیوں میں قانونی شکل دینے کی بجائے ریفرنڈم کے ذریعے عوامی حمایت کی صورت میں اطلاق کیا جانا چاہئے۔ بصورت دیگر عوام کو علاقائی سطح پر اپنی کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے ان اسمبلیوں کے متوازی اپنے عوامی نمائندے چنتے ہوئے خطے کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہاں کے محنت کش عوام کو خطے کے دیگر محنت کشوں سے ایک طبقاتی جڑت بنانے کی طرف بڑھنا ہو گا۔ نام نہاد آزاد کشمیر سے لے کر گوادر تک کے محنت کشوں کی طبقاتی جڑت ہی گلگت بلتستان کے عوام کی جدوجہد کو وہ طاقت فراہم کر سکتی ہے جس کے ذریعے وہ خطے کی تمام سامراجی ریاستوں کیخلاف لڑائی لڑ سکیں۔محنت کش طبقہ جہاں کسی بھی مظلوم قومیت کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے اور اس کی قومی آزادی کی یقین دہانی کراتا ہے وہاں قومی و لسانی بنیادوں پر محنت کشوں کو تقسیم کرنے اور ایک دوسرے سے لڑوانے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اس موقع پرعوامی ایکشن کمیٹی اور گلگت بلتستان میں جاری عمومی تحریک میں انہی نظریاتی بنیادوں پر ایک سنجیدہ بحث انتہائی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔اس وقت تحریک میں موجود قیادت سے لے کر عام کارکنان تک کسی کے پاس بھی وہ مکمل پروگرام اور لائحہ عمل نہیں جس کے ذریعے یہاں کے قومی مسئلے سے لے کر معاشی مسائل کو حل کیا جا سکے۔اس لیے ضروری ہے کہ محنت کش طبقے کی عمومی جڑت کی ضرورت کو اجاگر کیا جائے اور تنگ نظر قوم پرستی سے لے کر مذہبی فرقہ وارانہ رجحانات کی پر زور مذمت کی جائے۔نام نہاد پارلیمنٹ میں موجود عوام دشمن پارٹیوں کے حقیقی کردار کو بے نقاب کرنا بھی ضروری ہے جو پورے پاکستان میں عوام نے رد کر دی ہیں اور صرف اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی کے سہارے زندگی کے آخری دن گزار رہی ہیں۔ خطے میں موجود دیگر سامراجی طاقتوں اور اقوام متحدہ جیسے سامراجی اداروں کے کردار کی بھی وضاحت ضروری ہے جن سے کسی بھی قسم کی ہمدردی کی توقع رکھنا بھی تحریک کے لیے زہر قاتل ہو گا۔ یہاں کے عوام کے حقیقی ہمدرد اور ساتھی خطے کے دیگر محنت کش ہیں جو مختلف قسم کے مظالم اور جبر کا سامنا کر رہے ہیں، گوکہ گلگت بلتستان میں ہونے والے مظالم اور ریاستی جبر کی مثال ملنا مشکل ہے۔
ایسی صورتحال میں اس پیچیدہ مسئلے کا واحد قابل عمل حل ایک سوشلسٹ پروگرام ہے۔ جس کے ذریعے نہ صرف یہاں کے عوام کو قومی و ریاستی جبر سے آزادی مل سکتی ہے بلکہ یہاں پر روزگار، علاج اور تعلیم کے مسائل کو بھی حل کیا جا سکتا ہے اور ٹیکسوں اور سبسڈی کے خاتمے جیسے معاشی حملوں سے نجات مل سکتی ہے۔اس پروگرام سے ہٹ کر عارضی اور نام نہاد ’جمہوری‘ طریقوں سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش صورتحال کو مزید خراب کرنے کا موجب بنے گی اور تحریک کے کارکنان کو قیادت سے مایوس کرے گی۔لیکن اس سوشلسٹ پروگرام کی حتمی منزل کے حصول کے لیے کی جانے والی جدوجہد اور عبوری اقدامات یقیناًتحریک کو مضبوط کریں گے اور حکمران طبقے کے خلاف جاری لڑائی کو تقویت دینے کا باعث بنیں گے۔اسی پروگرام کے تحت غیر قانونی گرفتاریوں، جھوٹے مقدمات اور دیگر انتقامی کاروائیوں کیخلاف لڑائی کو ٹھوس بنیادوں پر منظم کیا جا سکتا ہے اور اس ملک کے دیگر محنت کشوں اور نوجوانوں کی لڑائیوں سے جوڑتے ہوئے حتمی منزل کی جانب لے جایا جا سکتا ہے۔یہی وہ واحد راستہ جس کے ذریعے اس زہریلے حکمران طبقے اور ا ن کے نظام سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے اور خطے میں ایک سوشلسٹ سماج کی تشکیل کی جدوجہد کا آغاز ہو سکتا ہے۔