تحریر: | اعجاز ایوب |
گلگت بلتستان کا جنت نظیر خطہ اپنے اندر لازوال سیاسی محرومیوں کی داستان سمیٹے ہوئے ہے اور گزشتہ کئی دھائیوں سے سامراجی استحصال کی چکی میں پس رہا ہے۔ ناکارہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ قدرتی آ فات کے دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں قدرتی وسائل کی بے دریغ استعمال کی وجہ سے آ ج گلوبل وارمنگ کے مضر اثرات سے کرۂ ارض کو شدید خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔ گرین ہاؤس ایفیکٹ کی وجہ سے کرۂ ارض پر آباد چرند، پرند اور انسانوں کو آئے دن شدید موسمی تغیرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایسے میں گلگت بلتستان کا خطہ بھی اس کی لپیٹ میں ہے جہاں بڑی تیزی سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔ آبی کٹاؤ اور ماحولیاتی آلودگی ناگہانی آفات کا موجب بن رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہونے والی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے شاہراہ قراقرم 40 سے زائد مقامات پر بلاک ہوئی جس کی وجہ سے اس قلیل مدت میں ہی پورے خطے میں اشیائے خوردو نوش،پٹرولیم اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ سیلابی ریلے آبادیوں کو بہا کر لے گئے۔ غریبوں کے کچے گھر کیچڑ کا ڈھیر بن گئے اور کئی لوگ گھروں کے ملبے تلے دب کر زندگی کی بازی ہار گئے۔سیلابی ریلے اور برفانی تودوں کے گرنے سے سینکڑوں گھر تباہ ہوئے ،ہزاروں ایکڑ زمین بہہ گئی، درخت گر گئے اور مال مویشی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ پن بجلی کے چینل ٹوٹنے سے پورا علاقہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ اس دوران مقامی لوگ، مسافر اور سیاح مختلف علاقوں میں پھنس کر رہ گئے۔ ہزاروں لوگوں کو دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرنا پڑی اور دور دراز علاقوں میں جا کر پناہ لینی پڑی۔ دور دراز علاقوں کا رابطہ منقطع ہو جانے سے زندگی اجیرن ہو گئی۔گویا پورا خطہ قرون وسطیٰ کی منظر کشی کرنے لگا۔
ایسے حالات میں لوگ حکومت کی تلاش کرتے رہے مگر حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سڑکیں، واٹر چینل اور پل تعمیر کیے۔ 13 دنوں کے بعد FWO شاہراہ قراقرم کو دوبارہ کھولنے میں کامیاب ہوئی، جو کہ اسلام آباد اور گلگت بلتستان کا واحد زمینی راستہ ہے۔ اس ساری صورتحال سے ہونے والی تباہ کاری اور اس کے نتیجے میں پڑنے والے قحط نے تمام تر حکومتی دعوؤں کا پول کھول کر رکھ دیا۔
مختلف علاقوں میں عوام نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کئے۔ ’’گلگت بلتستان ایکشن تحریک‘‘ نے اس گھمبیر صورتحال کے پیش نظر 17اپریل کو گلگت شہر میں احتجاجی ریلی نکا لنے کا اعلان بھی کیا تھا جس میں عوام سے بڑے پیمانے پر شرکت کی اپیل کی گئی تھی جس میں حکومت اور گلگت بلتستان انتظامیہ کی ناقص کارکردگی اور بد ترین انتظامات کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
اس غربت، بیماری، ناخواندگی، بیروزگاری، دہشتگردی، ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف سماج کی تہہ میں پکنے والا لاوا اپریل 2014ء میں بھی امڈ آیا تھا۔ فرقہ واریت اور لسانیت کے مسلط شدہ اندھیروں کو چیرتے ہوئے محنت کشوں نے متحد ہو کر اپنے بنیادی حقوق کی جدوجہد کی اور گندم کی سبسڈی کی بحالی سمیت بیشتر مطالبات منوانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بورژوا لبرل دانشور پاک چین اقتصادی راہداری سے گلگت بلتستان کے مسائل کا حل وابستہ کئے نظر آ رہے ہیں جو کہ محض خوش فہمی ہے اور کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ ماوزے تنگ کے عہد کا چین نہیں ہے جہاں 1949ء میں برپا ہونے والے انقلاب کے بعدایک منصوبہ بند معیشت تھی جو منافع اور حرص سے پاک تھی۔ بلکہ اب CPEC کا مقصد بد ترین لوٹ مار اور بلند شرح منافع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور یہاں کا حکمران بطور کمیشن ایجنٹ کام کرے گا۔ 2008ء کے عالمی معاشی بحران سے قبل چین کا شرح نمو 14فیصد تھا جو اب کم ہو کر 6فیصد تک گر چکا ہے۔ ان معاہدوں سے اس خطے کسی خوشحالی کے آنے کی امید نہیں ہے۔ آخری تجزئے میں اس کا فائدہ سرمایہ دار طبقے کو ہوگا اور اس کی بھاری قیمت محنت کش غریب عوام کو چکانی پڑے گی۔ اقتصادی راہداری کے منصوبوں کا مقصد منافع کا حصول ہے اور اس کی بندر بانٹ پر علاقائی و صوبائی چپقلش بھی جنم لے رہی ہے۔
ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان کو متنازعہ قرار دے کر اقتصادی راہداری منصوبوں کے راستے اپنے لئے صاف کئے جا رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ وفاقی گورنر اور افسر شاہی کی تقرری سے لیکر عالمی نوعیت کے معاہدوں کی جب بات ہوتی ہے تو اسے پاکستان کی شہ رگ ہونے کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں مگر آئینی حقوق اور حصہ داری کی بات آئے تو متنازعہ ہونے کا نوحہ سنا دیا جاتا ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبوں پر عوامی تحفظات کو دور کرنے میں غیر سنجیدگی سے کام لیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے قومی سوال بھی دن بہ دن سلگ رہا ہے۔۔
یکم نومبر 1947ء کو ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کر نے کے بعد اس خطے کا الحاق پاکستان سے ہوا تھا۔ 1948ء میں انڈیا نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں پیش کیا اور دونوں ممالک کے موقف کو پیش نظر رکھ کر اگست 1948ء میں UNCIP کی قرارداد منظور ہوئی جس کے تحت کشمیر اور گلگت بلتستان کے مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انڈیا نے جموں کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نفاذ کیا اور ان کو لوک سبھا میں نمائندگی دی گئی۔ پاکستان نے آزاد کشمیر میں بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نفاذ کیا اور کشمیر قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جبکہ گلگت بلتستان میں 1954ء کے بعد سے سٹیٹ سبجیکٹ رول کا خاتمہ کیا گیا جس کے تحت یہاں غیر مقامی لوگ زمین کا لین دین اور کاروبار کر سکتے ہیں جس کے لئے کوئی رائیلٹی بھی نہیں دی جاتی ہے اور ہر طرح کا ٹیکس بھی لاگو ہے۔ ’’No Taxation, Without Representation کا قانون ہر جگہ لاگو ہوتا ہے مگر ادھر معاملہ ہی اور طرح کا ہے۔ گزشتہ 69 سالوں میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں کوئی نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ آج تک گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کی بوگس قراردادوں کی آڑ میں مسئلہ کشمیر کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور کشمیر سے زیادہ پسماندہ رکھا گیا ہے۔ بقول لینن، اقوام متحدہ جیسے ادارے ’’چوروں کا باورچی خانہ‘‘ ہیں جو سامراجی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے قوموں کو غلامی کے شکنجے میں جھکڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں 2009ء سے سیلف گورننس آرڈیننس نافذ لعمل ہے اور عارضی صوبائی سیٹ اپ کے ذریعے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان کونسل تشکیل دی گئی ہیں تا ہم قومی اسمبلی میں نمائندگی نہیں ہے۔ 20 لاکھ آبادی والے اس خطے کا سالانہ بجٹ ساڑھے 27 ارب ہے جس میں 9 ارب ترقیاتی اور 18 ارب روپے صحت، تعلیم، معدنیات، سیاحت، زراعت، توانائی ، ٹرانسپورٹ اور رہائش وغیرہ کے لئے مختص ہیں۔ فی کس آمدن 350 ڈالر سالانہ ہے جو کہ ایک ڈالر یومیہ سے بھی کم بنتی ہے۔ پانچ لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔ شرح خواندگی صرف 38فیصد ہے اور 80فیصد تعلیمی ادارے پرائیویٹ شعبے سے منسلک ہیں۔ صحت کا شعبہ بھی شدید وسائل کی کمی سے دو چار ہے۔ دوران زچگی ایک لاکھ میں سے ایک ہزار خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں جبکہ یہ تناسب ملک کے دیگر حصوں میں 272 ہے۔ اموات کی یہ شرح شرمناک حد تک زیادہ ہے۔ ڈاکٹر اور آبادی کا تناسب 1:4100 ہے جو کہ ملک کے دیگر علاقوں میں 1:1212 ہے جو کہ عالمی ادارہ صحت کے کم از کم تناسب 1:1000 سے بھی کم ہے۔
آج سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عالمی سطح پر تحریکیں ابھر رہی ہیں اور امریکہ سمیت یورپی ممالک میں سوشلزم مقبول ترین نعرہ بن چکا ہے۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں اس زوال پذیری کی کیفیت بھی سب سے زیادہ ہے اور اس کے خلاف نفرت بھی سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ دیگر صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی قومی سوال دن بہ دن زیادہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ کروڑوں انسان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔سامراجی جنگوں سے روزانہ لاکھوں انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں۔کرۂ ارض تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس کا واحد حل سوشلسٹ انقلاب ہے جو محنت کش طبقے کو اس نظام کی ذلتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات دلا سکتا ہے۔