|تحریر: زلمی پاسون|
7 جولائی کی شام پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد جیسے نام نہاد فل پروف سیکیورٹی شہر کے مرکز میں دن دہاڑے دس سے بارہ مسلح اور ڈنڈا بردار افراد نے پشتون تحفظ مومنٹ کے مرکزی رہنما گیلہ من وزیر پر قاتلانہ حملہ کرتے ہوئے انہیں شدید زخمی کیا۔ واقعے کے بعد گیلہ من وزیر کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے پھر انہیں پمز ہسپتال اسلام اباد منتقل کیا گیا۔ تین دن تک کوما میں رہنے کے بعد 11 جولائی کی درمیانی شب گیلہ من وزیر کی سانسیں رک گئیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گیا۔
واضح رہے کہ گیلہ من وزیر کا قاتل ”بطور ریاستی مہرہ“ اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک کاروباری آدمی ہے جس کا تعلق گیلہ من وزیر کے آبائی علاقے سے ہی ہے مگر اس کا تو صرف کندھا ہی استعمال ہوا ہے لیکن بندوق کسی اور نے چلائی ہے۔ گیلہ من کا اصل قاتل کون ہے اس کے پیچھے محرکات کیا ہیں اور گیلہ من وزیر خود کون تھا، ان تمام تر سوالات پر مختصر جوابات دینے کی کوشش کریں گے۔
گیلہ من وزیر کو پہلے بھی کئی بار گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا مگر پچھلے سال ان کو وزیرستان کے علاقے میں فوجی چیک پوسٹ پر گرفتار کرتے ہوئے اس کے دو ساتھیوں سمیت اٹھ مہینے تک ٹارچر سیل میں رکھا گیا اور پھر اس کے بعد اس کی رہائی ہوئی۔
ٹارچر سیل سے رہا ہونے کے بعد اس کو مسلسل دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوتی تھیں، جبکہ بعض اوقات اس کے خاندان کے دیگر لوگوں کو بھی ہراساں کیا جاتا تھا، بالخصوص اگر ہم اس کے اوپر قاتلانہ حملے کی ضمن میں بات کریں تو اس میں بلا شک و شبہ ریاست اور اس کے سیکیورٹی ادارے بالخصوص خفیہ ادارے مکمل طور پر اس میں نہ صرف ملوث ہیں بلکہ انہوں نے آزاد داوڑ جیسے بندے کو بطور مہرہ استعمال کیا اور یہ واردات کی ایک نئی شکل ہے تاکہ اس تمام تر واقعے کو قبائلی رنگ دیا جا سکے اور یہ بھی پراپیگنڈہ کیا جا سکے کہ سابقہ فاٹا اور باقی پختون خطے میں جو بھی اندھے قتل ہوتے ہیں وہ سب قبائلی دشمنیوں کا شاخسانہ ہیں اور ریاست کا اس سب سے کچھ لینا دینا نہیں۔
محرکات کے حوالے سے اگر ہم بات کرتے ہیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان میں قومی جبر اپنے عروج پر ہے، جہاں مظلوم اقوام بالخصوص پشتون، بلوچ اور دیگر مظلوم اقوام پر مختلف ناموں کے ذریعے مسلسل جبر ڈھایا جا رہا ہے اور تمام تر انسانی، جمہوری، آئینی اور قانونی حقوق نہ صرف سیکیورٹی اداروں کی جانب سے پامال کیے جا رہے ہیں بلکہ روزانہ نت نئے قوانین لاگو کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ظلم، جبر اور بربریت کے خلاف بولنے والی آوازوں کو گیلہ من وزیر جیسے واقعات کے ذریعے مٹانے کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں۔
جبری گمشدگی، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتل عام، بم دھماکے اور نام نہاد فوجی آپریشنز مظلوم اقوام کے لیے ایک عذاب مسلسل بنتے جا رہے ہیں۔ ان تمام تر مظالم کے خلاف لوگوں میں ایک غم و غصہ اور نفرت جنم لے رہی ہے جو کہ نہ صرف پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے خلاف ہے بلکہ بالخصوص فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔
گیلہ من وزیر کو مارنے کے حوالے سے ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس ظالمانہ اقدام کے پیچھے ریاست کا اہم محرک ملک بھر قومی تنازعات کو مہمیز دینا اور بالخصوص پختونوں اور پنجاب کے عوام کے بیچ نفرتوں اور تعصب کی آگ بھرکانا ہے تاکہ موجودہ حکمران جتنے بھی محنت کش عوام دشمن پالیسیاں لاگو کر رہے ہیں، عوام کی توجہ اس طرف مبذول نہ ہو اور قومی تضادات اور منافرتوں کو اتنی ہوا دی جائے کہ لوگ بنیادی ضروریات زندگی اور طبقاتی سوالات پر بحث کو چھوڑتے ہوئے نسل پرستی کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے جائیں۔
یہ حکمران طبقے کے پاس اہم اوزار ہے کہ وہ طبقاتی جدوجہد کے سوال کو منظر عام سے ہٹانے کے لیے اس طرح کی ظالمانہ اور غیر انسانی رویوں پر مشتمل پالیسیاں اپنانے سے لمحہ بھر بھی گریز نہیں کرتا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے محکوم خطوں میں بھی عوامی غم و غصے کا اظہار اب صرف قومی جبر تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب طبقاتی جبر میں حکمران اشرافیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی نفرت کا شدت سے اظہار ہونے لگا ہے۔ بالخصوص فوجی اسٹیبلشمنٹ سے نفرت کا اظہار مختلف عوامل کی بنیاد پر ہو رہا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پورے ملک میں نام نہاد حکمران ٹولہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ انتہائی متنفر بن چکا ہے۔ کیونکہ پاکستان بھر میں اس وقت طبقاتی سوال سطح کے اوپر آ چکا ہے جہاں کشمیر سے لے کر کراچی، گلگت سے لے کر گوادر تک مختلف حالات میں محنت کش طبقے کی عمومی جدوجہد کے سلسلے میں یہ طبقاتی سوال ایک نئی شکل اختیار کر رہا ہے۔
بنیادی ضروریات زندگی، مہنگائی، غربت، بھوک، افلاس اور ننگ کے خلاف لوگ ہمیشہ برسر احتجاج ہوتے ہیں۔ بالخصوص بجلی کے سوال پر پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں کامیاب احتجاجی تحریک نے پورے پاکستان کے محنت کش عوام پر انقلابی اثرات ڈال دیے اور یہ سلسلہ اب خیبر پختونخواہ میں شروع ہو چکا ہے جہاں پر ضلع صوابی کے محنت کش عوام نے کشمیری محنت کش عوام کی جدوجہد کی تقلید کرتے ہوئے ان کی طرز پر جدوجہد کا اعلان کیا حالانکہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ نے بجلی کی ضمن میں ہر قسم کی اداکاری کی کوشش کی مگر وہ عوام کو ورغلانے میں یکسر ناکام رہا۔
محنت کش اور مظلوم و محکوم عوام کی انہی تحریکوں کا خوف ہے کہ حکمران طبقہ قومی تضادات کو ابھارنے کی خاطر ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اترا ہوا ہے اور گیلہ من وزیر کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
آخر میں ہم ایک بار پھر گیلہ من وزیر کے خاندان سمیت ان کی تنظیم ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ کے ساتھ نہ صرف اظہار یکجہتی کرتے ہیں بلکہ گیلہ من وزیر کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے ان کے ہر اقدام کی بھرپور حمایت کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ ہم ان تمام تر سیاسی کارکنوں، طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ انہیں ظلم، جبر، استحصال اور بربریت کے اس موجودہ ظالمانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو ٹکڑوں میں لڑنے کی بجائے یکجا ہو کر لڑنا ہو گا۔
منقسم جدوجہد کو یکجا کرنے کے لیے ایک انقلابی سوچ، انقلابی نظریے اور انقلابی تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا گیلہ من وزیر سمیت ایسے بے شمار سیاسی کارکنان جو اس وقت زندانوں کے اندر موجود ہیں، ان کو اس جبر سے آزادی دلانے اور شہید ہونے والے سیاسی کارکنوں کے خوابوں کی تکمیل کے لیے ہمارے پاس واحد راہ نجات انقلابی متبادل کے بینر تلے جدوجہد کرنا ہی ہے۔
قومی جبر مردہ باد!
ریاستی دہشتگردی مردہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!