|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
17 اکتوبر سے سندھ بھر کے ہسپتالوں میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے ہیلتھ رسک الاؤنس کی بحالی کے لیے احتجاج جاری ہے۔ جس میں ابتدائی مرحلے میں ڈیوٹیوں کا عارضی بائیکاٹ اور ہسپتال میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، اس کے بعد او پی ڈیز کے بائیکاٹ کا آغاز کیا گیا۔ اس کے بعد 25 اکتوبر کو سندھ بھر کے ہیلتھ کیئر سٹاف نے کراچی میں بڑے دھرنے کا اعلان کیا۔ اعلان کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے حسب معمول تحریک کو روک کر ختم کرنے کی غرض سے مطالبات کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ لیکن الائنس میں موجود قیادت نے اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں احتجاج کو ختم یا اس کے دائرہ کار کم کرنے کی بجائے نوٹیفکیشن پر 5 نومبر تک عملدرآمد ہونے تک احتجاج کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
صوبائی وزیر صحت نے ہیلتھ کیئر عملے کو دھمکیاں دینا شروع کردیں اور ساتھ میں یہ تضحیک بھی برسرعام کی گئی کہ اگر ہسپتالوں کا سٹاف کام نہیں کرے گا تو انہیں نکال کر بازار سے نئے لوگ بھرتی کرلیے جائیں گے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے ایک بار پھر 7 نومبر کو سندھ سیکریٹریٹ کے باہر صوبائی سطح کے دھرنے کی کال دے دی جس میں ہزاروں ہیلتھ کیئر ورکرز شامل تھے۔
ہیلتھ کیئر ملازمین کا ناقابلِ مصالحت مزاج دیکھتے ہوئے 10 نومبر کو اس پر امن دھرنے پر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے بدترین تشدد کیا۔ عوام کے مسیحاؤں پر ڈنڈوں، واٹر کینن مار پیٹ کا نشانہ بنا کر قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن یہ جبر بھی ان کے حوصلے پست نہیں کرسکا اور باقی موجود سٹاف نے دوبارہ وہیں دھرنا شروع کردیا۔
گرفتار قیادت کو چند گھنٹوں کے بعد رہا کردیا گیا لیکن دوبارہ دھرنے کا آغاز دیکھ کر انہیں ایک بار پھر اسی دن تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور دوبارہ گرفتار کرکے ایف آئی آر کاٹ دی گئی۔ اگلے روز ضمانت ہونے کے بعد ایک بار پھر دھرنے کا آغاز ہوا جو کہ اس کے بعد چار دن جاری تھا جس میں سی ایم ہاؤس جانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ قیادت میں موجود مفاد پرست عناصر پر سندھ حکومت کی جانب سے دباؤ بھی ڈالا جارہا تھا کہ اس تحریک کا کسی بھی قیمت پر خاتمہ کیا جائے۔
17 نومبر کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دور کے بعد گرینڈ ہیلتھ الائنس کی قیادت کا بشمول ڈاکٹرز پر مشتمل ایک حصہ رسک الاؤنس کے مطالبے سے پیچھے ہٹتے ہوئے تحریک سے الگ ہوگیا۔ یہ حالات اب تحریک میں شامل جرات مند لوگوں کے سامنے نئی، نڈر اور الیکٹڈ قیادت کے سوال کو کھڑا کر رہے ہیں۔
غداری کے سبب مایوس ہونے کی بجائے ان غداروں کو اپنے اپنے حلقوں میں نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے جوکہ آنے والی قیادت کے لیے بھی سبق بنے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی حملوں کے جواب کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ساتھی کی سسپنشن یا ٹرمینیشن کی صورت میں اداروں میں کام چھوڑ ہڑتال کی تیاری کرنی چاہیے۔ جس سے نہ صرف اپنا دفاع کیا جائے بلکہ تحریک کو دوبارہ منظم اور متحرک کرتے ہوئے درپردہ مذاکرات کی بجائے سب کے سامنے حکومتی نمائندوں کو جوابدہ کرنے کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ سندھ میں معیاری اور دورانیے کے اعتبار سے یہ شعبہ صحت کے ملازمین کی اب تک سب بڑی جدوجہد تھی جو کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہونے والے اہم اور جرات مند فیصلوں کے سبب قابل ستائش ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان مسلسل اس تحریک کا حصہ بن کر اظہارِ یکجہتی کرتے رہے ہیں۔ ہیلتھ رسک الاؤنس جو کہ اب تک کرونا الاؤنس کی صورت میں ملتا تھا، اس کا خاتمہ آج کے شدید مہنگائی کے دور میں قابل مذمت ہے۔ تنخواہوں سے اتنی بڑی کٹوتی کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں۔ ہسپتال جیسی جگہوں پر کام کرنے والا تمام تر عملہ وہاں مستقل موجودگی کے سبب ہمیشہ بیماریوں کے نشانے پر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ کرونا الاؤنس کی ہیلتھ رسک الاؤنس کی صورت میں فی الفور بحالی ہونی چاہیے۔ ہم تحریک میں موجود سبھی جرات مند ملازمین سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ نہ صرف ہسپتالوں کے سٹاف بلکہ ہسپتالوں کے ابتر حالات جن میں بستروں، آلات، سٹاف کی کمی اور خاص کر عوام کے لیے سستی اور معیاری صحت کی سہولیات کی فراہمی کو بھی اپنی تحریک کے مطالبات کا حصہ بنایا جائے تاکہ مزدور عوام کا اعتماد اور ساتھ جیتا جائے اور ہم سب کی اصل دشمن اس حکومت کو تیزی سے مزید بے نقاب کرتے ہوئے یہ واضح کیا جائے کہ یہ پیپلز پارٹی حکومت نہ صرف ملازمین بلکہ دراصل عوام دشمن ہے جو کہ سیلاب میں برباد ہوئے سندھ کے عوام کے لیے آئی امداد اور وسائل کو لوٹ کر اپنی جیبیں گرم رہی ہے۔ اس عوام دشمن نظام کی رکھوالی کرنے والی اس حکومت کے خلاف جدوجہد کو دیگر سرکاری اداروں اور نجی صنعتوں کے محنت کش ساتھیوں تک پھیلاتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور مزدور نمائندوں پر مشتمل مزدور حکومت کے قیام کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔