|تحریر: جان بوئرما، ترجمہ: اختر منیر|
اطالوی حکومت نے غیر ضروری فیکٹریاں بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے، مگر جرمنی میں محنت کشوں کی صحت کو لاحق خطرات کے باوجود پیداوار کا عمل جاری ہے۔
کار فیکٹریوں کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کا وائرس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے بار بار تجزیہ کیا ہے عالمی معیشت تاریخ کی طویل ترین ”بحالی“ کے بعد عالمی کساد بازاری کی طرف جا رہی ہے۔ کاروں کی صنعت 2018ء سے ہی کمزور ہے۔ 2017ء میں پوری دنیا میں 7 کروڑ 34 لاکھ کاریں پیدا ہوئیں جو 2019ء میں کم ہو کر 6 کروڑ 70 لاکھ رہ گئیں۔ چین اور جرمنی کی کاروں کی صنعت کو سب سے زیادہ نقصان ہوا اور جاپان اور امریکہ میں بھی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی۔ ان ممالک میں کاروں کی پیداوار صنعت کی ایک اہم شاخ ہے۔ اس وجہ سے پیداوار میں کمی ان کی پوری معیشت کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوتی ہے۔
اسی لیے ووکس ویگن (VW) نے ہنگامی طور پر 13 مارچ کو تمام تر پیداوار روک دی۔ انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنے ملازمین کو کرونا وائرس سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ گرتی ہوئی طلب سے بھی نمٹنا چاہتے ہیں۔
بورژوا میڈیا ”کرونا بحران“ کی بات کر رہا ہے، جیسے یہ وائرس عالمی کساد بازاری کا ذمہ دار ہو۔ بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے 1973ء میں تیل کے بحران کے بارے میں کہا تھا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ بحران بہت عرصے سے سر پر منڈلا رہا تھا۔ تقریباً ایک ماہ پہلے ہم نے ایک آرٹیکل میں وبا کے اثرات سے متعلق یہ لکھا تھا:
”جرمن معیشت تکنیکی طور پر بحران میں داخل ہو چکی ہے۔ کیونکہ اس سہ ماہی میں پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں منفی شرحِ نمو ہو گی۔ پچھلے سال کے مقابلے میں صنعتی پیداوار 7 فیصد کم ہوئی اور اس سال بحالی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ جرمنی کے دو سب سے اہم تجارتی ساتھی چین اور اٹلی ہیں، اور اٹلی کا بھی شمالی حصہ۔ جرمن معیشت کا بہت حد تک عالمی تجارت پر انحصار ہے اور اس لیے یہ اس سے بہت متاثر ہوتی ہے۔ اب یہ صنعتیں کم از کم دو ماہ تک پرزہ جات اور خام مال کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔ جرمن معیشت میں پیدا ہونے والی مشکلات کا مطلب پورے یورپ کے لیے مشکلات ہیں۔ جرمنی یورپ کی سب سے اہم معیشت ہے اور اس کے اثرات دور رس ہوں گے۔ (۔۔۔) عالمی معیشت پہلے ہی زوال کے دہانے پر کھڑی تھی۔ یہ وائرس شاید ایک دھکا ثابت ہو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ وائرس وہ حادثہ بن سکتا ہے جس کے پیچھے لازمیت چھپی ہو، جیسا کہ اینگلز نے کہا تھا۔“
ایمڈن کے VW پلانٹ کی پیداوار کم از کم مزید ایک ہفتے تک رکی رہے گی، جو اوسٹفرائزلینڈ کے علاقے کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔
پیپن برگ میں ایک شپ یارڈ Meyer Werft پر صورتحال کافی مختلف ہے۔ پچھلے ہفتے ہی ایک بحری جہاز ”آئیونا“ شپ یارڈ سے برمرہیون کے لیے روانہ ہوا جہاں اس کا اندرونی حصہ مکمل کیا جائے گا۔ عام حالات میں سینکڑوں کاریگر کام میں لگے ہوتے تا کہ بحری جہاز کو وقت پر پہنچایا جا سکے، لیکن حکومتی قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔
پیپن برگ میں پیداوار جاری ہے۔ شپنگ لائن ”ساگا کروز“ گرمیوں تک ”سپرٹ آف ایڈونچر“ کی تیاری کی امید میں ہے۔ شپنگ کے کاروبار میں طے شدہ وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایک جہاز ”AIDAnov“ کی تیاری میں ایک مہینہ دیر ہونے سے شپ یارڈ کوئی بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا شیڈول بھی متاثر ہوا۔ کمپنی کے ملازمین کو 2019ء میں کئی کئی گھنٹے اوور ٹائم کرنا پڑا تا کہ نقصان کی بھرپائی ہو سکے۔
پچھلے ہفتے جہاز گاہ میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا، جس کے نتیجے میں مہمان خانہ اور دو کینٹینیں بند ہو گئیں۔ لیکن اب انتظامیہ جہاز گاہ کو مکمل طور پر بند کرنے کی بجائے اپنے ملازمین کی پریشانی سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ مقامی اخبار میں کمپنی کے ترجمان نے ”وضاحت“ کی کہ ”یہ بہت حیرت کی بات ہوگی اگر ہم اتنے خوش قسمت ہوئے کہ برباد ہونے کی بجائے معاشی طور پر بچ گئے۔ یہی مسئلہ ہے اور کوئی گنجائش نہیں ہے۔“ اس کا صاف صاف یہ مطلب ہے کہ ”ملازمین کی صحت ثانوی حیثیت رکھتی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اگلا جہاز وقت پر پہنچا کر اپنا منافع حاصل کر سکیں۔“
اپنے شیڈول کے مطابق کام پورا کرنے اور ساتھ ساتھ اپنے ملازمین کی صحت کی فکر ہونے کا ناٹک کرنے کے لیے کمپنی نے مندرجہ ذیل اقدامات کیے: جہاز گاہ کو سات حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر ملازم کو اتوار سمیت چھ گھنٹے روزانہ کام پر آنا ہو گا۔ اس کے علاوہ تفریح کے لیے بنائے گئے تمام کمرے بند کر دیے گئے۔
اس کا مطلب اوقات کار میں ایک گھنٹے کی کمی ہے اور مالکان اس گھنٹے کو ملازمین کے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ فیکٹری کمیٹی نے اسے مسترد کر دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مالکان اور ملازمین اس گھنٹے کا نقصان آدھا آدھا برداشت کریں۔ انہوں نے اتوار کے دن کام کو بھی رد کر دیا ہے۔ فیکٹری کمیٹی کے سربراہ نکو بلویم کا کہنا ہے، ”سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگ صحت مند رہیں، باقی بڑے صنعتی مراکز نے پیداوار بند کر دی ہے جبکہ یہاں روز دس ہزار سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اور باری باری گھر رہنے کی بجائے ہم سے اتوار کو بھی کام کروایا جا رہا ہے۔ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔“
بہت سے محنت کش دوسرے ممالک سے بھی آئے ہوئے ہیں اور ان دس ہزار میں بہت سے مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ہیں۔ Meyer کو فکر ہے کہ کہیں یہ لوگ اپنی صحت کے خوف سے واپس ہی نہ چلے جائیں۔ اس وجہ سے کمپنی نے سخت رویہ اپنایا ہے۔ انہوں نے تمام ملازمین کو ایک خط بھیجا جس کا لب لباب یہ ہے: کمپنی اپنے ملازمین کی توجہ اس بات کی طرف دلانا چاہتی ہے کہ کسی کو بھی اپنے ملک جانے کا نہیں کہا جا رہا اور نہ ہی سفری پابندیوں کو خاطر میں لایا جائے گا۔ اگر کوئی ملازم اس وجہ سے کام پر نہ آیا تو اسے معاہدے کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا اور ٹھیکیدار متبادل مہیا کرنے کے پابند ہوں گے۔
مالکان کے ان اقدامات کے فوری بعد یہ واضح ہو گیا کہ یہ کارآمد نہیں ہیں۔ فوراً ہی جہاز گاہ کے داخلی دروازے پر لمبی قطاریں لگ گئیں اور ملازمین دو میٹر کا محفوظ فاصلہ برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ مقامی اخبار میں چھپنے والے ایک لمبے کھلے خط میں ملازمین کے خاندانوں نے شکوہ کیا کہ ان کو صحت کے مسائل کے باوجود تنگ جگہوں پر سخت کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جبکہ مینیجرز کو گھروں پر رہ کر کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم خاندان والے پریشان ہیں، ہم سب اپنے بچوں یا اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور اگر خاندان کا کوئی ایک فرد بھی وائرس سے متاثر ہوگیا تو ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔“
جہاز گاہ کی جانب سے کیے جانے والے غیر مؤثر اقدامات سے وبا کے پھیلاؤ کو نہیں روکا جا سکتا۔ یہ محض حفاظت کا دھوکہ ہے۔ محنت کشوں کی حفاظت کا واحد مؤثر طریقہ یہ ہے کہ جہاز گاہ کو عارضی طور پر بند کر دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ جرمنی میں تمام دوسری غیر ضروری کمپنیوں کو بھی بند کر دیا جائے۔ ہم اٹلی کے تجربے سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں۔
ٹریڈ یونین کارکنان کے ایک گروہ نے یہی مطالبہ کیا ہے:
”ہم کام پر، بس میں یا ٹرین میں وائرس سے متاثر نہیں ہونا چاہتے، جو کہ کئی لوگوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ کار بنانے والے کاریگر گھروں پر رہ سکتے ہیں، کیونکہ ویسے بھی کوئی کار خرید ہی نہیں رہا۔ لیکن باقی سب کا کیا؟ تمام غیر ضروری شعبوں میں کام کرنے والوں کو گھر رہنے کی اجازت دی جائے۔ سرمایہ داروں کو سبسڈی کی مد میں اربوں ملتے ہیں، لیکن ملازمین کو کیا ملتا ہے؟ چین نے اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ووہان میں ہر چیز بند کر دی، یہاں تک کہ معیشت بھی۔ اس موقع پر ہمیں کمپنیوں کے شئیرز کی قیمتوں اور منافقوں کی فکر نہیں ہے، وبا کو روکنا اور ہماری صحت کی حفاظت زیادہ اہم ہے۔ شیئر ہولڈرز خود فیکٹریوں میں کام کرنے کیوں نہیں آ جاتے؟ یونینوں کو تمام غیر ضروری صنعتوں میں کام کرنے والوں کے لیے فلاحی فنڈز کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ جن کا کام کرنا ضروری ہے انہیں FFP3 حفاظتی ماسک مہیا کیے جائیں۔ وہ تمام لوگ جو صحت یاب ہو چکے ہیں اور وائرس کے خلاف مدافعت رکھتے ہیں انہیں صحت کے شعبے میں جا کر مدد کرنی چاہیے۔ گھر رہیں!“