|تحریر: جیک ہیلنسکی فٹز پیٹرک، ترجمہ: ولید خان|
جرمن حکومت کو مجبوراً گرم پانی راشن کرنا پڑ رہا ہے، سڑکوں پر بتیاں مدہم ہو رہی ہیں اور جو سنٹرل ہیٹنگ کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ان کے لئے مخصوص گرم ہال تیا ر کئے جا رہے ہیں کیونکہ سردیوں میں جرمنی کا درجہ حرارت نکتہ انجماد سے بہت کم ہو جانا معمول ہے۔ کئی جرمن سردیوں میں گرمائش کے لئے لکڑیاں اکٹھی کر رہے ہیں کیونکہ پیش گوئیاں ہو رہی ہیں کہ گیس سپلائی 2023ء کے آغاز تک ختم ہو جائے گی۔ یورپ کی سب سے طاقتور معیشت میں محنت کش طبقے کا یہ مستقبل ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عمومی افراطِ زر، یوکرین جنگ اور روسی پابندیوں کے مشترکہ اثر سے پوری دنیا میں گیس کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ یورپی منڈیوں میں بطور معیار استعمال ہونے والا ڈچ TTF گیس کنٹریکٹ اس وقت پچھلی ایک دہائی کے مقابلے میں دس گنا زیادہ قیمت پر تجارت ہو رہا ہے۔ عالمی گیس منڈیوں کے ایک تجزیہ کار الیکس منٹن کے مطابق اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ ”یورپ اس وقت تاریخ کے شدید ترین توانائی بحران میں گھرا ہوا ہے۔۔یہ ممکن ہے کہ سال کے سرد ترین دورانیے میں جب سب سے زیادہ گیس کی ضرورت ہو گی تو تب گیس درکار مقدار میں موجود نہیں ہو گی“۔
ان حالات کا مطلب یہ ہے کہ جرمنی ہر سطح پر یعنی سماجی، معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ ایک زمانے میں استحکام کا اہم ستون سمجھا جانے والا ملک اب باقی دنیا کی طرح انتشار اور ہیجان کے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
روس پر جرمنی کا انحصار
حالیہ عرصے میں جرمنی کا روسی توانائی سپلائی پر انحصار بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ یوکرین پر فوج کشی سے پہلے تک جرمنی روس سے اپنی ضرورت کا ایک تہائی تیل اور نصف سے زیادہ گیس حاصل کرتا تھا۔ یہ انحصار کوئی حادثہ نہیں ہے کیونکہ روسی گیس ایندھن کا سب سے سستا ذریعہ ہے۔
بھاری صنعتوں کا جرمن جی ڈی پی میں 30.7 فیصد حصہ ہے جبکہ یہ سیکٹر ملک کی کل گیس کا 37 فیصد ہڑپ کرجاتا ہے۔ جرمنی دنیا میں برآمدات کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور زیادہ تر مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔ ایک بڑی کیمیکل کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو کے مطابق ”سستے ایندھن نے جرمنی کو مالا مال کیا“ اگرچہ جرمن سرمایہ داروں نے اس دولت کا وسیع حصہ ہڑپ کیا ہے۔
جیسے ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، یوکرین جنگ روسی سامراج اور اس سے کہیں زیادہ طاقتور امریکی سامراج کے درمیان ایک پراکسی جنگ ہے جو امریکہ ”یوکرینی خون کے آخری قطرے تک لڑنے کے لئے تیار ہے“۔ زمین پر فوجی اتارنے سے اجتناب کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس پر معاشی پابندیاں عائد کی ہیں جبکہ یوکرین کو اربوں ڈالر کے ہتھیار فراہم کئے گئے ہیں۔
پیوٹن بھی امریکی سامراج کے ساتھ مکمل جنگ کرنے سے کترا رہا ہے کیونکہ اس کا نتیجہ دونوں کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے، اس وجہ سے وہ بھی معاشی طریقہ کار استعمال کر کے جوابی حملے کر رہا ہے۔ روس کا توانائی منڈی میں دیو ہیکل حصہ ہے اور یہ حقیقت اس کے ہاتھوں میں سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مغربی میڈیا میں مگرمچھ کے آنسو بہانے کے باوجود مغرب نے اپنے مخالفین کے خلاف معاشی جنگ کو ہمیشہ استعمال کیا ہے جس میں سے ایک مثال پچھلے ساٹھ سال سے کیوبا کی معاشی ناکہ بندی ہے۔
مغرب کوششیں کر رہا ہے کہ ایندھن جیسی مصنوعات کی درآمدات کو کم سے کم کیا جائے جبکہ پیوٹن کے نقطہ نظر سے بھی یہ فائدہ مند ہے کہ روس برآمدات کم کر دے، تاکہ قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو۔ درحقیقت جرمنی کو ایندھن سپلائی میں کمی کرنے کے باوجود روس اندازاً یومیہ 800 ملین ڈالر کمائی کر رہا ہے کیونکہ گیس اور تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور ساتھ ہی انڈیا اور چین جیسے ممالک کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔
یہ واضح ہو رہا ہے کہ روس گیس سپلائی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے اپنے دشمنوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ گازپروم کمپنی جو روسی ریاست کے کنٹرول میں ہے، جرمنی کی 20 فیصد گیس ذخیرہ کرتی ہے اور جرمن وائس چانسلر رابرٹ ہابیک کے مطابق پچھلی سردیوں میں انہیں ”منظم طور پر خالی“ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گازپروم ہر طرح کا حیلہ بہانہ استعمال کر کے جرمنی کو گیس سپلائی میں مسلسل کمی کر رہی ہے۔ اس وقت کل صلاحیت کی 20 فیصد سپلائی فعال ہے۔
بلومبرگ نے دعویٰ کیا ہے کہ کریملن میں ”مقتدر“ جان بوجھ کر یہ کر رہے ہیں تاکہ یورپی یونین پر دباؤ ڈالا جائے۔ اسی مضمون میں کریملن میں بنیاد کردہ روسی انٹرنیشنل افیئرز کونسل کے آندرے کورتونوف کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق اس پالیسی کا مقصد یہ امید نہیں کہ یورپی یونین اپنی پالیسی تبدیل کر لے گا بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ بلاک میں ”اندرونی مسائل“ تیز تر ہوں گے اور نتیجے میں ”کئی یورپی ممالک میں حکومتیں تبدیل ہوں گی“ جن کی ”توجہ اندرونی مسائل پر مرکوز ہو گی“۔
آسان الفاظ میں روس پُر امید ہے کہ گیس سپلائی میں کمی یورپ کے لئے اتنی تکلیف دہ ہو گی کہ موجودہ یورپی حکومتیں تبدیل ہوں گی اور نئے برسرِ اقتدار کی توجہ یوکرین جنگ پر کم اور ایندھن کی کمی اور اندرونِ ملک معاشی بحران پر زیادہ ہو گی۔
یہاں نظر آ رہا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ گولہ بارود سے براہ راست جنگ کرنے کے بجائے بڑی طاقتیں معاشی طریقہ کار سے ایک دوسرے کا گلا گھونٹنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ اقدامات کے دونوں اطراف قوتیں ایک دوسرے کی عوام کی لاچارگی اور تکلیف میں اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے مسلسل اضافہ کر رہی ہیں۔
جرمنی میں اندرونی مسائل
یوکرین جنگ کے آغاز سے پہلے ہی جرمن معاشی صورتحال مخدوش ہو رہی تھی۔ کورونا وباء کی وجہ سے عالمی سپلائی چینز میں افراتفری کے نتیجے میں سال 2021ء کی آخری سہہ ماہی میں جی ڈی پی میں سکڑاؤ آیا۔ لیکن اب صورتحال مخدوش حالت سے خوفناک تباہی کی جانب جا رہی ہے۔
حالیہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی میں افراطِ زر 8.5 فیصد ہو چکا ہے۔ صارفین پر اضافی بوجھ کی وجہ سے پرچون فروخت میں سب سے بڑی سالانہ گراوٹ آئی ہے (پرچون فروخت ریکارڈ 1994ء سے شروع ہوئے ہیں) اور اب اس کا اثر سرمایہ داروں پر بھی پڑ رہا ہے کیونکہ کاروباری اعتماد کورونا وباء کے اوائل مہینوں کے بعد اب ایک مرتبہ پھر کم تر سطح پر آن گرا ہے۔
جرمن معیشت برآمدات پر منحصر ہے اور اس لئے عالمی تجارت میں کسی قسم کے مسئلے کا معیشت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ چین میں کورونا لاک ڈاؤن ابھی بھی لاگو ہیں جس سے جرمن برآمدات میں پچھلے سال کے مقابلے میں 3.9 فیصد کمی آئی ہے۔ یوکرین میں بننے والی سیمی کنڈکٹر چپس اور وائرنگ ہارنس کی عدم دستیابی سے جرمن معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے والی کار ساز صنعت متاثر ہو رہی ہے۔ پچھلے مہینے 73.3 فیصد مینوفیکچررز نے سپلائی چین مسائل کی رپورٹ دی ہے۔
لیکن سب سے بڑھ کر روسی گیس سپلائی کے مسئلے پر جرمن حکمران طبقہ شدید پریشان ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی کیمیکل ساز کمپنی بی اے ایس ایف کے چیف ایگزیکٹیو مارٹن بروڈرمولر نے کہا ہے کہ اگر گیس رُک گئی تو ”پوری معیشت“ تباہ و برباد ہو جائے گی اور 1945ء کے بعدجرمنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران میں ڈوب جائے گا۔ جرمن معیشت کے کلیدی سیکٹر گیس کے بغیر کام کر ہی نہیں سکتے۔
مثال کے طور پر بی اے ایس ایف کا کہنا ہے کہ اگر گیس سپلائی معمول سے 50 فیصد کم ہو گئی تو انہیں ادویات اور اشیاء خوردونوش کی پیداوار میں استعمال ہونے والی مشینوں کو مکمل بند کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ اگر گلاس بنانے والے فرنس بھی بند کر دیے جاتے ہیں تو پگھلا شیشہ ٹھوس ہو جائے گا جس کے بعد مشینیں ناکارہ ہو جائیں گی۔ گلاس کی صنعت اپنی مرضی سے گیس کھول یا بند نہیں کر سکتی اور دیگر بہت سارے سیکٹرز کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔
رہائن دریا میں خشکی نے مسائل اور بھی گھمبیر کر دیے ہیں۔ دریا کوئلہ، تیل اور گیس کی ترسیل اور انجن کو ٹھنڈا رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پانی کی سطح اس مقام پر پہنچ رہی ہے جہاں دریا میں سامان بردار کشتیاں چلانا ناممکن ہو جائے گا۔ ا س مسئلے کے لئے اس سے برا وقت ہو نہیں سکتا تھا اور ابھی توانائی کا بحران اور بھی زیادہ شدید ہو گا۔
کیا گیس کا کوئی متبادل ہے؟
جرمنی میں ایک سوچ یہ بھی پائی جاتی ہے کہ بحران کا دعویٰ ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک معیشت دان رودیگر باخمان نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی توانائی درآمدات کا متبادل ”آسان“ ہے اور اس وجہ سے ”عارضی بحران“ پیدا ہو گا۔ اس نے کہا ہے کہ جرمن حکومت نوکریوں کا تحفظ قلیل مدتی کام کے ذریعے کر سکتی ہے (کام کے اوقات کار یا اجرتوں میں کمی کر کے ریاست اجرتوں میں کمی کو پورا کرے) اور کمپنیوں میں سرمایہ لگا کر دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ وہ حتمی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ جی ڈی پی کو ”صرف“ 0.5-3 فیصد کے درمیان نقصان ہو سکتا ہے۔
رودیگر کی سوچ سے متفق موریٹز شولاریک کا دعویٰ ہے کہ جرمنی تجارت کی وجہ سے محفوظ رہے گا۔ ”ویلیو چین میں مختلف جگہوں سے بلاواسطہ“ دیگر ممالک سے ایندھن درآمد کیا جا سکتا ہے۔ گلاس کی مثال دیتے ہوئے اس کا کہنا ہے کہ گیس سپلائی میں رکاوٹیں ”پیداکاروں“ کے لئے مسئلہ ہوں گی لیکن ”صارفین“ محفوظ رہیں گے کیونکہ وہ دیگر ممالک سے مصنوعات خرید سکتے ہیں۔ اور جہاں تک زیادہ توانائی صَرف کرنے والی صنعتوں کا تعلق ہے تو وہ اندرونی پیداوار قائم نہیں رکھ سکیں گی لیکن یہ تو ”پہلے سے نظر آرہا تھا“ کیونکہ معیشت ”گرین تبدیلی“ کے عمل سے گزر رہی ہے۔
لیکن جرمن چانسلر اولاف شولز اس نقطہ نظر سے بالکل متفق نہیں ہے اور اس نے اس سوچ پر ”غیر ذمہ دار“ ہونے کی تنقید کی ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ چٹکی بجا کر روسی گیس کا متبادل پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان تنگ نظر معیشت دانوں کا خیال ہے کہ ہر چیز کا حل ”تجارت“ ہے لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ قومی ریاست کی رکاوٹ سرمایہ دارانہ نظام پر کس قسم کی حدود مسلط کرتی ہے۔
مثال کے طور پر روس کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گیس سپلائر ناروے ہے۔ لیکن ملک اب توانائی برآمدات کو کم کرنے کا سوچ رہا ہے کیونکہ اپنی عوام کو سپلائی جاری رکھنے میں خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ عوام کو سپلائی فراہم کرنے کے بعد جو گیس بچے گی اس پر یورپی ممالک کتوں کی طرح لڑیں گے اور نتیجتاً قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔
پائپ لائن گیس کے برعکس جرمنی LNG (مائع قدرتی گیس) قطر یا امریکہ سے درآمد کر سکتا ہے۔ لیکن LNG کو درآمد کرنے کے بعد اسے بندرگاہوں میں ٹرمینلز پر ”دوبارہ گیس“ بنانا پڑتا ہے اور جرمنی کے پاس ایسے کوئی ٹرمینل نہیں ہیں۔ ان ٹرمینلز کو بنانے میں کئی سال لگتے ہیں۔ جرمنی نے مائع گیس کو دوبارہ گیس میں تبدیل کرنے کے لئے کچھ بحری جہاز لئے ہیں لیکن یہ بھی اگلے سال تک کام نہیں کریں گے۔
اگر جرمنی کے پاس یہ ٹرمینلز موجود بھی ہوتے تو بھی LNG سارے مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس وقت یورپ امریکہ یا قطر کی کل LNG برآمدی صلاحیت سے زیادہ پائپ لائن گیس درآمد کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ قطر کی موجودہ صلاحیت کا 95 فیصد پہلے ہی طویل مدتی کنٹریکٹس میں بیچا جا چکا ہے اور اگرچہ وہ اپنی پیداوار بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن اس میں چند سال لگ جائیں گے۔
یہ بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ امریکہ کی صلاحیت میں اضافہ 5-9 فیصد گیس کا متبادل ہی ثابت ہو گا اور ناروے کی طرز پر اس مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ میں گیس ”برآمدات کم کرنے کی باتیں“ ہو رہی ہیں تاکہ اندرونی طور پر قیمتوں اور سپلائی کو محفوظ رکھا جائے۔ جب سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہوتا ہے تو ریاستوں کے درمیان محدود معاہدے اور کاروبار ممکن ہوتے ہیں۔ لیکن جب نظام بحران کا شکار ہوتا ہے تو ہر ریاست سب سے پہلے اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوششیں کرتی ہے۔
حکمران طبقے کے حکمت کاروں میں موجود کچھ خوش فہموں نے دعویٰ کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ جرمن معیشت کو ”گرین انرجی پر تبدیل“ کرنے کا شاندار موقع ہے۔ لیکن تجدیدی توانائی کو استعمال کرنے کے لئے نئے انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے جس کے ذریعے توانائی کو ذخیرہ کیا جا سکے۔ یہ لازم ہے کیونکہ بدقسمتی سے سورج ہمیشہ نہیں چمکتا اور ہوا ہمیشہ تیز نہیں ہوتی۔ اس میں نہ صرف وقت درکار ہے بلکہ بڑھتے افراطِ زر کا مطلب ہے کہ انفراسٹرکچر کی یوکرین جنگ کے بعد لاگت 20 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔
یہ جنگ سامراجیوں کے درمیان دہائیوں میں پنپنے والے تضادات کا نتیجہ ہے۔ امریکہ کے عمومی انحطاط کے دور میں روس کی کوشش ہے کہ ”سرحد کے قریبی خطوں“ میں اپنا تسلط مضبوط کرے۔ اس وقت امریکی اتحادی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں کہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے اور گھر گرم رہیں۔ ایک عالمی منصوبہ بندی کی عدم موجودگی میں افراطِ زر اور ریاستوں کے درمیان بڑھتے تناؤ سے انتشار پھیل رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہر ریاست کے محنت کشوں کو قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔
انتشار کے دہانے پر
اس وقت جرمن معیشت انتشار کے دہانے پر جھول رہی ہے۔ ایک حکومتی مشیر نے اندازہ لگایا ہے کہ کل جی ڈی پی کو 3 فیصد (اگر روسی ایندھن کا متبادل آسانی سے مل جاتا ہے) سے 12 فیصد (اگر جرمنی کو آسانی سے متبادل نہیں ملتا) تک نقصان ہو سکتا ہے۔ جرمن معیشت کے حوالے سے بے پناہ پیش گوئیاں ہو رہی ہیں لیکن اس کی وجوہات پر شاید سب سے بہترین تجزیہ ایک توانائی مشیر ایئرا جوسیف کا ہے جس کے مطابق ”قیمتیں اس قدر زیادہ ہو چکی ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چل رہا کہ معیشت یا مانگ کا ردِ عمل کیا ہو گا“۔ بندس بینک کے مطابق معیشت پر اثرات کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ معیشت کے موجودہ ماڈلز میں توانائی سپلائی کے انتشار کا اثر دیکھنا بہت مشکل ہے۔ کمرز بینک کے مطابق ”تاریخی نتائج کا ایک چین ری ایکشن“ اس وقت خطرہ بنا ہوا ہے۔
عالمی معیشت مختلف اجزاء اور عوامل کا ایک پیچیدہ مرکب ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ تعلق میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر پوری لڑی میں ایک جزو ناکارہ ہو جائے تو مقدار کی معیار میں تبدیلی کے بعد خطرات کی پیش گوئی سے بڑھ کر نتائج نکل سکتے ہیں۔
ہابیک کے مطابق ایک خطرہ یہ ہے کہ توانائی کی منڈیوں میں دباؤ کے نتیجے میں ”توانائی سسٹم میں لیہمن اثر“ بن سکتا ہے۔ ابھی جرمنی کو توانائی کمپنی یونیپر کو بیل آؤٹ کرنا پڑا ہے۔ اسے کنٹریکٹ سے 60 فیصد کم گیس مل رہی تھی اور اپنے صارفین کو سپلائی یقینی بنانے کے لئے سپاٹ منڈی سے بہت زیادہ نرخوں پر گیس خریدنی پڑ رہی تھی۔ ایک موقع پر کمپنی کو 35 ملین ڈالر یومیہ نقصان ہو رہا تھا۔
اگلے سال کے حوالے سے بے تحاشہ خوف و ہراس سے بڑھ کر جرمن حکمران طبقے کو اب اپنے وجود کا خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔ خوف صرف یہ نہیں ہے کہ صنعت عارضی طور پر بند ہو جائے گی جس کے یقیناً دوررس اثرات مرتب ہوں گے لیکن ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ جرمن صنعت جرمن معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور یہ عملی طور پر عالمی منڈی میں ناقابلِ مسابقت ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہو گیا تو ملک میں صنعت ختم ہو جائے گی۔
اس خوف کا اظہار جرمن حکمران طبقے کے مختلف سنجیدہ حکمت کاروں نے کیا ہے اور ابھی سے 16 فیصد مینوفیکچرنگ کمپنیاں شور مچا رہی ہیں کہ بلند قیمتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ پیداوار کم کر رہی ہیں یا کاروبار کے کچھ حصے ختم کر رہی ہیں۔ بی اے ایس ایف (BASF) اور دیگر کمپنیاں پیداوار کو چین، ترکی یا بحیرہ روم کے علاقوں میں منتقل کرنے کا سوچ رہی ہیں جہاں پیداواری لاگت سستی ہے۔
اس وقت جرمنی بڑھتی لاگت اور گرتی مانگ کے گرداب میں پھنس رہا ہے۔ برآمدات پر منحصر معیشت کے لئے یہ زہرِ قاتل ہے۔ تیس سال بعد پہلی مرتبہ جرمنی کو مصنوعات کی تجارت میں خسارہ ہوا ہے۔
کچھ کمپنیاں کوششیں کر رہی ہیں کہ قدرتی گیس کی جگہ دیگر ایندھن مثلاً تیل کو استعمال کیا جائے۔ لیکن ان میں سے ایک کمپنی بی اے ایس ایف نے کہا ہے کہ اس کے لئے ”پیشگی شرط“ یہ ہے کہ ”معقول مقدار میں تیل دستیاب ہو“۔ تیل کی مانگ میں اچانک اضافہ (روس تیل کے بڑے عالمی پیداکاروں میں سے ایک ہے) قیمتوں میں بھی تیز تر اضافہ کرے گا۔ یعنی مسئلہ محض ایک شے سے دوسری شے میں منتقل ہو جائے گا۔
لیکن اگر جرمنی کسی متبادل ایندھن کو حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو گیس کے بطور خام مال کردار کی تبدیلی بہت مشکل ہے۔ ملک کی سب سے بڑی سٹیل پیداکار تھائسن کرپ کو اپنے بلاسٹ فرنس چلانے کے لئے گیس کی ضرورت ہے جبکہ کیمیکل صنعت میں گیس ہائیڈرو کاربن بنانے کے لئے درکار ہے۔ جرمن کیمیکل صنعت کی تجارتی تنظیم کے جارج روتھرمل کا دعویٰ ہے کہ استعمال ہونے والی گیس میں سے صرف 2-3 فیصد کو ہی کوئلے یا تیل سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
کیمیکل صنعت میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد برسرِ روزگار ہیں لیکن اگر آپ بحران کو حقیقی طور پر جاننا چاہتے ہیں تو صرف اس سیکٹر کو باقی معیشت سے کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایچ اینڈ آر (H&R) ایک سپیشلسٹ کیمیکل پیداکار کمپنی ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹیو کا کہنا ہے کہ ہمارے لئے ”گیس کا کوئی متبادل نہیں ہے“۔ کمپنی ویکس، ایملشن، پٹرولیم جیلی، کیبل اجزاء اور موٹر آئل کی بہت بڑی پیداکار ہے۔ ان سب کا ادویات سے لے کر اشیائے خوردونوش کی صنعتوں تک کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔
اسی طرح فولمین کیمی کے سربراہ ہینرک فولمین کا کہنا ہے کہ اگر انہیں گیس نہ ملی تو ”ریفائنریاں بند ہو جائیں گی، پھر کیمیکل صنعت بند ہو جائے گی اور پھر پوری جرمن صنعت بند ہو جائے گی“۔ اس نے نشاندہی کی ہے کہ وہ لکڑی اور فرنیچر صنعتوں کو کیمیکل سپلائی کرتے ہیں۔ بی اے ایس ایف کے چیف ایگزیکٹیو مارٹن بروڈر مولر نے کہا ہے کہ اگر ان کا لودوگ شافن پلانٹ بند ہو گیا تو ”گاڑیاں، ادویات اور دیگر کئی اشیاء نہیں ہوں گی“۔
معیشت ایک سیدھی لکیر میں تعمیر نہیں ہوتی۔ ایک سیکٹر میں بحران کے وسیع تر معیشت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر بیان کردہ ”خام مال“ بنانے والی صنعتیں منہدم ہوتی ہیں تو پوری جرمن (اور یورپی) صنعتی چین (Chain) دباؤ کا شکار ہو جائے گی۔ یہ جاننا ناممکن ہے کہ جرمن معیشت کو کس سیکٹر سے دھچکا لگے گا لیکن اس کے تباہ کن اثرات ہوں گے جس کے نتیجے میں کمپنیاں دیو ہیکل جبری برطرفیوں، اجرتوں میں کمی، حالاتِ کام اور کام کی جگہوں پر شدید دباؤ ڈال کر استحصال کو مزید خوفناک کریں گی اور محنت کشوں کا زندہ رہنا محال ہو جائے گا۔
حل کیا ہے؟
عوام کو آنے والے وقت کے لئے ہیجانی انداز میں تیار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ رابرٹ ہیبک نے کہا ہے کہ عوام کو ”اپنا کردار ادا کرنا ہو گا“ جبکہ سابق صدر جوخیم گاک نے جرمنوں کو ”آزادی کے لئے منجمد“ ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ دی گارڈین اخبار کے مطابق ہر فرد کے گیس استعمال پر کڑی نظر رکھنا ناممکن ہے اس لئے استعمال کو کم کرنے کے لئے قیمتیں بڑھائی جائیں گی۔ اس لئے جرمنوں کو منجمد ہونا پڑے گا تاکہ امریکی سامراج ”آزادی“ سے اپنی مرضی کے مطابق عمل کرے۔
اس وقت نصف جرمنوں کا خیال ہے کہ حکومت کو توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے باوجود کیف کی مدد جاری رکھنی چاہیے۔ لیکن جب اپریل میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ”آزادی کے لئے منجمد“ ہونے کے لئے تیار ہیں تو غیر حیران کن طور پر صرف 24 فیصد کا جواب مثبت تھا۔
ابھی زیادہ تر اثرات کے رونما ہونے میں وقت ہے اور جنگجوانہ موڈ بلند ترین سطح پر ہے۔ ایسے حالات میں جنگ قومی اتحاد کی مصنوعی فضاء پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن معاشی اثرات کے نمودار ہونے کے ساتھ یہ ساری صورتحال اپنے الٹ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس وقت جرمنی میں دیو ہیکل سماجی دھماکہ پک رہا ہے۔
اس کے ساتھ جرمن صنعت کو ”گیس کی بنیاد پر ’مسابقت کے سراب‘ سے باہر نکالنے“ کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ بی اے ایس ایف جیسی کمپنیوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ کھاد بیچنے کے بجائے کھاد کی سروسز فراہم کریں۔ یعنی حقیقت میں جرمنی میں صنعت ختم کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ اس کو اچھی، دوستانہ، ”گرین“ تبدیلی بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے رسٹ بیلٹس (وہ علاقے جہاں صنعتیں تباہ یا ختم ہو چکی ہیں) میں رہنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس پالیسی کا مطلب کیا ہے؛ یعنی کہ محنت کش طبقے کے معیارِ زندگی پر دیو ہیکل حملہ۔
لیون ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ضروری نہیں معیارِ زندگی میں گراوٹ کا نتیجہ ریڈیکلائزیشن ہو لیکن خوشحالی سے انہدام کے عبوری عمل سے منسلک عدم استحکام عوام کو ہر قسم کی رجعتیت سے جھنجھوڑ دیتا ہے۔ جرمن عوام کا مستقبل توانائی کے بِلوں میں اضافہ، اجرتوں پر دباؤ، بیروزگاری اور ماہرانہ محن (Skilled Labor) کی دیو ہیکل تباہی ہے۔ جلد یا بدیر یہ تیز تر تبدیلی شعور میں مساوی تیز تر ریڈیکلائزیشن کو جنم دے گی۔
اس وقت ایک چوتھائی جرمن نام نہاد ’توانائی غربت‘ کا شکار ہیں۔ لیکن حالات بہت زیادہ خراب ہونے جا رہے ہیں۔ حکومت ایک سرچارج پلان کر رہی ہے تاکہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کو ”پھیلایا“ جاسکے اور بیل آؤٹ کردہ یونیپر کو صارفین پر اضافی لاگت منتقل کرنے کا موقع مل جائے گا۔ موسمِ سرماء میں گھروں کو بِل پہنچیں گے جن کی قیمتیں 200 فیصد تک بڑھ سکتی ہیں یعنی ایک فرد پر مبنی گھر کے اخراجات میں 2700 یورو سالانہ اضافہ ہو جائے گا۔ یہ اضافی اخراجات محنت کشوں کو متحرک ہونے پر مجبور کریں گے۔ عوام کو اجرتوں میں اضافے اور حکومت کو مجبور کرنے کے لئے جدوجہد کرنی پڑے گی تاکہ کسی طرح وہ زندہ رہ سکیں۔
یہ نتیجہ صرف مارکس وادی ہی نہیں بلکہ سرمایہ دار، ان کے حکمت کار اور نمائندے بھی اخذ کرر ہے ہیں۔ یورپی کمیشن کے نائب صدر فرانس تمرمانس کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک پر ”شدید لڑائیوں اور انتشار“ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ جرمن انسٹیٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کے سربراہ مارسیل فراتزشر نے ایک ”سماجی غم و غصے“ کی نشاندہی کی ہے اور وزیرِ خارجہ اینالینا بیربوک نے ”عوامی بغاوتوں“ پر خبردار کیا ہے۔
عالمی تعلقات
نیچے سے بڑھتے دباؤ کے نتیجے میں مغرب کا نام نہاد مشہورِ زمانہ اتحاد بکھرنا شروع ہو جائے گا۔ ابھی سے کرسچن ڈیموکریٹک یونین پارٹی (CDU) کے مائیکل کریتشمر نے جنگ کو ”منجمد“ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے کیونکہ اس کے جاری رہنے کے نتیجے میں ملک کو ”صنعتی انہدام“ کا خطرہ ہے۔ یہ اب تک کی مغربی پالیسی کے خلاف ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ موجودہ جنگی فرنٹ لائنز کو منجمد کر دیا جائے۔ اس وقت یہ CDU کی اکثریتی رائے نہیں ہے لیکن اگر عوام میں جنگ مخالف موڈ بننا شروع ہو جاتا ہے تو کوئی گروہ یا پارٹی ناگزیر طور پر اس کی نمائندہ بنے گی۔
حکمران پارٹی میں بھی پریشانی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ جون میں اولاف شولز کے خارجہ پالیسی مشیر جینس پلوتنر نے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے کہ جرمنی یوکرین کی بھرپور مدد نہیں کر رہا، کہا میڈیا ”یوکرین کو بھاری ہتھیار کی فراہمی سے زیادہ مستقبل میں جرمنی کے روس کے ساتھ تعلقات پر توجہ دے“۔ اگرچہ شولز نے براہِ راست اس پر تبصرہ نہیں کیا لیکن اس نے روس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ بہرحال شولز نے امریکہ یا بالٹک ممالک کے مقابلے میں جنگ پر نرم رویہ قائم رکھا ہے اور بارہا یوکرینی فتح کے بجائے کہا ہے کہ ”روس فاتح نہیں ہونا چاہیے“۔ اس نرم لہجے کی بنیاد جرمنی کا روسی ایندھن پر انحصار ہے۔ دباؤ بڑھنے کے ساتھ یہ دراڑیں گہری کھائیوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔
اس ساری صورتحال میں دیگر ممالک کے مقابلے میں جرمنی میں تاخیر زدہ طبقاتی جدوجہد ایک دھماکے کے ساتھ رونما ہونے والی ہے۔ آج جنگوں، بحرانوں اور انقلابات کا دور ہے۔ یہ ایک ”بڑھتا ہوا بحران“ ہے جو محنت کشوں کی اکثریت کو متحرک ہونے پر مجبور کرے گا۔ یکے بعد دیگرے ممالک میں حکمرانوں کی گلی سڑی سرمایہ داری کی تعفن زدہ لاش کو محنت کشوں کے کندھوں پر لادنے کی کوششوں کے نتیجے میں دیو ہیکل طبقاتی لڑائیاں ہوں گی۔ یہی جرمنی کا مقدر ہے۔ اس وقت ایک ایسی انقلابی قیادت کی ضرورت ہے جو محنت کشوں کو فتح کی راہ پر گامزن کرے تاکہ بالآخر انسانی تہذیب قومی ریاست اور نجی ملکیت کی زنجیروں سے آزاد ہو کر سوشلزم کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرے۔