|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|
31 اگست کا دن بالخصوص مظفرآباد ڈویژن اور بالعموم نام نہاد آزاد کشمیر بھر کی مزاحمتی سیاست اور عوامی تحریک کے حوالے سے تاریخی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔
آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف پونچھ اور میر پورڈویژن میں جاری احتجاجی تحریک کے تسلسل میں عوامی ایکشن کمیٹی مظفرآباد کی کال پر ڈویژن بھر میں تاریخ ساز ایک روزہ ہڑتال کی گئی۔ پہیہ جام و شٹر ڈاؤن ہڑتال کو کامیاب کرنے میں تاجروں، ٹرانسپورٹرز، طلبہ اور بار ایسوسی ایشن نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔
ضلع ہٹیاں، نیلم اور مظفرآباد کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں بھرپور احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔ ان میں حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے عوام نے مطالبات کی منظوری تک تحریک جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اس سلسلے میں گڑھی دوپٹہ، پٹہکہ، کنڈل شاہی، شاردہ اٹھمقام کے علاوہ دیگر شہروں میں بڑی عوامی ریلیاں منعقد ہوئیں جن میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔
مظفرآباد شہر کے گیلانی چوک میں مرکزی پروگرام منعقد ہوا جس میں شہر بھر اور مضافات سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلوسوں کی شکل میں شریک ہوئے۔ شہر بھر میں بچے اور خواتین بھی سڑکوں پر نکل آئیں اور احتجاجوں میں شامل ہوئیں۔
زبردست عوامی تحرک نے جہاں ایک طرف حکمرانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں وہیں ان مایوس اور ناامید لوگوں کے شعور کو بھی جھنجوڑا ہے جو کہتے تھے کہ عام عوام کچھ نہیں کر سکتے، بے حس ہو گئے ہیں یا تحریک اگر بنتی بھی ہے تو ریاست گیر کردار حاصل نہیں کرسکتی وغیرہ وغیرہ۔
2019ء میں پونچھ ڈویژن میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف بننے والی تحریک ایک مخصوص علاقے تک محدود ہونے کی وجہ سے اگرچہ جزوی طور پر مطالبات منوانے میں ہی کامیاب رہی، لیکن سیاسی اثرات دیگر اضلاع تک بھی پھیلانے میں ضرور کامیاب ہوئی تھی۔ تحریکیں کبھی بھی سیدھی لکیر میں یکساں انداز میں آگے نہیں بڑھتیں۔ وقت اور حالات کے تھپیڑے ہی لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ لوگ تاریخ کے میدان میں اترتے ہیں۔ آج مظفرآباد میں جاری ہڑتال کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے دھیرکوٹ، باغ، سہنسہ، ہجیرہ اور دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور میٹنگز منعقد کی گئیں۔
مظفرآباد سے بلند ہو رہی بغاوت کی یہ صدا پورے کشمیر اور پاکستان میں مزاحمتی تحریک کے لئے تقویت کا باعث بن رہی ہے۔
بجلی کے بلوں میں ظالمانہ ٹیکسز کے خلاف پاکستان بھر میں عوامی ردعمل ایک بڑی تحریک میں منظم ہونے کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ کشمیرکے بلند پہاڑوں سے اُبھرنے والی عوامی تحریک خطے بھر کے انقلابیوں کے لئے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتی ہے۔
بلاشبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کے تحرک میں شدت آتی جا رہی ہے۔ تحریک زیادہ سنجیدہ مراحل میں داخل ہو رہی ہے۔ مختلف علاقوں میں علاقائی کمیٹیوں نے زمینوں میں لگائے گئے برقیات کے کھمبے اکھاڑنے یا ان کا کرایہ ادا کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ ایسے میں قیادت کا کردار فیصلہ کن اہمیت کا سوال بن جائے گا۔ عوامی ایکشن کمیٹیز اور انجمن تاجران راولاکوٹ پہلے ہی 5 ستمبر کو پونچھ اور میرپور ڈویژن میں ایک روزہ ہڑتال کی کال دے چکے ہیں۔ 2 ستمبر کو تمام اضلاع کی مشترکہ میٹنگ میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
عوامی ایکشن کمیٹی درست عوامی پروگرام کے ساتھ پر امن احتجاجی تحریک کو منظم کئے ہوئے ہے لیکن اب جبکہ تحریک خاطرخواہ عوامی طاقت کی حمایت جیتنے میں کامیاب ہو چکی ہے، پہلے سے زیادہ سنجیدگی، تسلسل اور مشترکہ لائحہ عمل وقت کی ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ ڈویژنل سطح کی ہڑتالوں کے بعد پورے نام نہاد آزاد کشمیر میں غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال حکمرانوں کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔ یہ عام ہڑتال پورے ملک کے محنت کشوں کیلئے بھی ایک مشعل راہ بنے گی اور ایک ملک گیر عام ہڑتال کی راہ ہموار کرے گی۔ ایک ملک گیر عام ہڑتال پاکستان کے محنت کشوں کو ان کی حقیقی طاقت کا ادراک دلائے گی۔ یہ ادراک کہ مزدوروں کی مرضی کے بغیر نہ کوئی بلب جل سکتا ہے اور نہ ہی کوئی پہیہ چل سکتا ہے۔ اور جب سب کچھ چلا ہی مزدور رہے ہیں تو پھر گُھٹ گُھٹ کر مہنگائی، غربت، لاعلاجی اور ذلت بھری زندگی ہی کیوں جیا جائے؛ بزور طاقت تمام فیکٹریوں، کارخانوں، عوامی اداروں جیسے ریلوے، واپڈا وغیرہ، بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور جاگیروں کو اپنے کنٹرول میں لے کر جمہوری منصوبہ بندی کے ذریعے پورے سماج کی بہتری کیلئے کیوں نہ صَرف کیا جائے! یعنی دوسرے الفاظ میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ نظام یا منصوبہ بند معیشت قائم کی جائے۔