جنریشن Zیا جنریشن انقلاب؟

|تحریر: ثناء اللہ جلبانی|

ہمیشہ سرمایہ دار حکمران طبقے کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتاہے کہ پیسہ کچھ بھی کروا سکتا ہے؛ پیسوں والے ارب پتی و کھرب پتی اور ان کے مفادات کی حفاظت کرنے والے ریاستی ادارے سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ سماج کا ہر عمل ان کی مرضی کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ان اداروں اور پیسے والوں کو کبھی شکست نہیں دی جا سکتی۔ میڈیا پر بھی امیروں کو زمینی خدا بنا کر پیش کیا جاتا ہے جنہیں عام انسان کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ملک کی سیاست، معیشت اور پالیسیوں کے حوالے سے ان کے فیصلوں و مفادات کو ہی مد نظر رکھ کر تجزیہ کیا جاتا ہے۔

لیکن ہم کمیونسٹ اس طرح کے تجزیے کو رد کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں سماج میں سب سے زیادہ طاقتور پیسوں والے نہیں بلکہ کروڑوں محنت کش، نوجوان، طلبہ، کسان اور عام عوام ہیں۔ یہ کروڑوں سوچنے سمجھنے والے محنت کش عوام اکٹھے ہو کر جو بھی فیصلہ کر لیں توان کی جیت لازمی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقتور سے طاقتور ترین چیز ان کو شکست دے سکے۔

ہاں مگر، عام حالات میں یہ کروڑوں لوگ اپنے معمولات زندگی میں مصروف رہتے ہیں، زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے دن رات محنت مزدوری کر کے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ سیاست اور حکمرانوں کے فیصلوں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے اور نہ ہی ان پر زیادہ غور وفکر کرتے ہیں، مگر ایک وقت آتا ہے جب یہ لوگ اپنے حالات سے تنگ آ کر زندگی کو بہتر کرنے کی ٹھان لیتے ہیں اور سیاسی میدان میں بزور طاقت قدم رکھتے ہیں۔ وہ حکمرانوں کے پورے نظام پر سوال اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں عام لوگوں کے اس فیصلے کو ”انقلاب“ کہا جاتا ہے۔

آج پاکستان میں اور پوری دنیا میں محنت کش عوام بالخصوص نوجوان پرانے نظام پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت نوجوانوں کے نزدیک تمام ریاستی اداروں (پولیس، عدلیہ، فوج، بیوروکریسی، پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ) کی کوئی اوقات نہیں رہ گئی۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، مفلسی، لاعلاجی، بے گھری اور بد امنی کی وجہ سے ہر نوجوان ان سے شدید نفرت کرتا ہے۔ لہٰذاحکمرانوں کے تمام پینترے اور حربے نوجوانوں میں ان ریاستی اداروں کی ساکھ بحال کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

اگر آپ کسی کالج میں پڑھنے والے سٹوڈنٹ یا کسی بھی عام نوجوان سے ملیں تو آپ کو ان میں صرف غم و غصہ ہی نہیں بلکہ ان کی آنکھوں میں ایک ایسی چمک بھی نظر آئے گی جو اس نظام کو ملیا میٹ کر کے بھسم کر سکتی ہے۔ یہی صورتحال محنت کش طبقے میں شامل نوجوان مزدوروں کی بھی ہے۔ نوجوان بہت تیزی سے انقلابی نتائج اخذ کر رہے ہیں اور بغاوت کی تیاری کر رہے ہیں۔

حکمرانوں کے نام نہاد ’نظریہ پاکستان‘، ’یوم آزادی‘، ’اس پرچم کے سائے تلے، ہم ایک ہیں‘ جیسے نعرے ایک مذاق بن چکے ہیں۔ ’کشمیر، ہماری شہہ رگ ہے‘ اور ’فلسطین کی آزادی‘ کے حوالے سے بھی حکمرانوں اور ریاست کی منافقت سب کے سامنے کھل چکی ہے۔ سی پیک کے ذریعے یا آئی ایم ایف کے نئے قرضے کی قسط سے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کے جھانسے میں بھی اب کوئی نہیں آتا۔ فری لانسنگ کر کے گزارا کرنا بھی اب مشکل ہو گیا ہے۔ لاکھوں نوجوان ملک چھوڑ کر باہر جا چکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں وہ قانونی یا غیر قانونی طریقے سے باہر نکلنے کی کوششوں میں ہیں۔

چنانچہ اس نوجوان نسل نے اپنے مستقبل کے بارے میں جو حسین سپنے سجائے تھے وہ مکمل طور پر چکنا چور ہو چکے ہیں۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کے الفاظ میں ”تمام دیرینہ تعلقات، جو پتھر کی لکیر بن چکے تھے، اپنے قدیم اور لائق احترام تعصبات اور عقیدوں کے لاؤ لشکر سمیت نیست و نابود ہو گئے اور جو نئے تعلقات قائم ہوتے ہیں، جڑ پکڑنے بھی نہیں پاتے کہ فرسودہ ہو جاتے ہیں۔ کل تک جو پائیدار تھا، آج اس کا وجود ہی نہیں، جو پاک تھا وہ نجس ہے، اور انسان آخر کار مجبور ہوا کہ اپنی زندگی کی حقیقتوں کا اور اپنے ہم جنسوں کے ساتھ اپنے تعلقات کا پورے ہوش و حواس کے ساتھ جائزہ لے۔۔۔“ کیا خوبصورت وضاحت کی گئی ہے!

آج اس ملک میں رہنے والے نوجوان ناقابل برداشت صورتحال سے نجات کی راہ تلاش کر رہے ہیں اور یہاں مختلف خطوں میں جاری عوامی تحریکوں میں بے باک ہو کر بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت اس امیر اور غریب پر مبنی ظالمانہ و استحصالی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے طبقاتی و ریاستی جبر کے خلاف کرڑوں لوگ صف آراء ہیں، جس میں ’آزاد‘ کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخواہ میں جاری شاندار عوامی تحریکوں سمیت بلوچستان میں جاری عظیم الشان عوامی تحریک شامل ہیں۔

اسی طرح لوٹ مار کے لیے فوجی اشرافیہ اور حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی آپسی لڑائیوں کے نتیجے میں پنجاب میں بھی بہت زیادہ سیاسی بحث و مباحثہ جاری ہے اور نوجوان انتہائی لڑاکا سیاسی نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ اسی طرح نام نہاد اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرے بازی پر تحریک انصاف کو ملنے والی وقتی ہمدردی کے متعلق بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ در اصل یہ پی ٹی آئی کی سپورٹ نہیں ہے بلکہ عوام اور بالخصوص نوجوانوں کی جانب سے باقی تمام سیاسی پارٹیوں، اسٹیبلشمنٹ اور پورے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں نوجوان انتہائی سنجیدہ سیاسی اسباق حاصل کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ جس بات سے ہمیں انقلابی حوصلہ ملتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سیکھنے کا عمل صرف پاکستان میں جاری تحریکوں تک ہی محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں جاری انقلابی تحریکوں تک پھیلا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بدولت نوجوانوں نے حالیہ سری لنکا، ایران، کینیا، بنگلہ دیش، نائجیریا کی عوامی بغاوتوں اور انقلابات پر گہری نظر رکھی ہے اور آج کل وہ انڈونیشیا کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے محنت کش عوام کی مصیبتوں میں اضافے سمیت فلسطین پر جاری سامراجی مظالم کے خلاف بھی کروڑوں نوجوان سراپا احتجاج ہیں۔

1917ء میں روس کے کامیاب مزدور انقلاب کے لیڈر لینن کا پسندیدہ جملہ تھا کہ ”زندگی سکھاتی ہے“۔ بالکل اسی طرح یہی زندگی پاکستان کی نوجوان نسل کو انقلابی بغاوت سیکھا رہی ہے۔

کچھ ہی عرصہ پہلے کینیا میں نوجوانوں نے ایک عظیم الشان انقلابی بغاوت کی۔ ان کے احتجاجوں میں ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ ”ہمارے پاس نوکریاں نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی مستقبل، لہٰذا ہمارے پاس آپ کو گرانے کے لیے وقت ہی وقت ہے، اور ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں“۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حالات کے تحت آج کی نوجوان نسل اپنی ہڈیوں کے گودے تک ”اسٹیٹس کو“ کی دشمن بن چکی ہے۔ اس نوجوان نسل کو ”جنریشن Z“ کہا جاتا تھا جسے اب’’جنریشن انقلاب“ کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس نوجوان نسل نے ساری زندگی میں دیکھی ہی مہنگائی، بیروزگاری اور ذلت ہے اور اس کے سامنے ایک سیاہ مستقبل ہے۔ اسی لیے یہ نسل اس قدر باغی ہے۔

چونکہ سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر بحران میں ہے اس لیے دنیا بھر میں حکمران کہیں پر ننگے جبر تو کہیں پر سفید جھوٹ پھیلا کر اور اپنے تمام تر وسائل اور کوششوں کے باوجود اس ”جنریشن انقلاب“ کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔ ایک ملک میں انقلابی سرکشی ابھی اپنے عروج پر ہی ہوتی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے کسی دوسرے ملک میں بغاوت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ہم انقلابات، ردِ انقلابات، جنگوں اور خانہ جنگیوں کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس لیے صرف حکومتوں کو گرانے یا چہرے بدلنے سے اب کام نہیں چلے گا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کا ہی خاتمہ کرنا پڑے گا! اور یہ صرف کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے! اس لیے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔

نوجوان ساتھیو! اوپر ذکر میں لائی گئی انقلابی تحریکوں میں کہیں پر بھی محنت کش عوام اور نوجوان اپنی تمام تر جرات و دلیری کے باوجود اس نظام کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ امیر اور غریب پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام ابھی بھی قائم ہے لیکن چونکہ سرمایہ داری میں بحالی کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں ہیں لہٰذا جن ملکوں میں تحریکیں وقتی طور پر پسپا ہوئی ہیں وہاں پر پہلے سے بھی بلند معیار کی تحریکیں پھر ابھریں گی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر اب لاکھوں نوجوان کمیونزم کے انقلابی نظریات میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

اسی لیے انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل نامی محنت کشوں کی عالمی انقلابی پارٹی (پاکستان میں کام کرنے والی انقلابی کمیونسٹ پارٹی اس انٹرنیشنل پارٹی کا حصہ ہے) پوری دنیا میں محنت کشوں اور نوجوانوں کو کمیونزم کے نظریات پر منظم کر رہی ہے۔ حالیہ عرصے میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، سویڈن جیسے ممالک میں انقلابی کمیونسٹ پارٹیوں کی ممبرشپ میں تیز ترین اضافہ ہوا ہے۔ کالجوں اور سکولوں کے سٹوڈنٹس بڑی تعداد میں انقلابی کمیونسٹ پارٹیوں کے ممبر بن رہے ہیں اور امریکہ جیسے ملک میں تعلیمی اداروں، ٹرین سٹیشنوں، گلیوں، بازاروں میں کمیونزم کے پوسٹر اور سٹیکر لگا رہے ہیں۔

پاکستان میں بھی ہم نے ”کیا آپ کمیونسٹ ہیں؟“ نامی کمپئین کا آغاز کر دیا ہے، جس سے سینکڑوں نوجوانوں نے ممبرشپ کے لیے رابطہ بھی کیا ہے۔ اس کمپئین کی تفصیلی رپورٹ اگلے صفحات پر موجود ہے۔ ہم ان تمام نوجوانوں کو انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بننے کی دعوت دیتے ہیں جو اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ نظام جس نے دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز کرتے ہوئے امیر کو امیر تر کر دیا ہے اور غریب کو غریب تر۔ ہم سرمایہ دارانہ پارلیمنٹ کے ذریعے کچھ اصلاحات کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آئیں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بنیں!

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کے اب ڈیرے اب منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے!

Comments are closed.