|تحریر: آفتاب اشرف|
عوام دشمن حکومت کی معاشی پالیسیاں ایک طرف محنت کش عوام کو برباد کر رہی ہیں اور انہیں غربت اور ذلت کی بھٹی میں جھونک رہی ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے معیشت کی ترقی کا جھوٹا اور مکروہ واویلا کر رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ تین سالوں میں چار وزرائے خزانہ تبدیل کیے جا چکے ہیں اور موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین بھی ماضی میں زرداری حکومت کا وزیر خزانہ رہ چکا ہے۔ عمران خان ہر روز زرداری اور نواز شریف کی کرپشن کا راگ الاپتا رہتا ہے اور ان کی گرفتاری اور پیسے نکلوانے کا جھوٹاپراپیگنڈہ کرتا ہے لیکن دوسری طرف انہی کرپٹ حکومتوں کے اکثروزیر اس کی اپنی کابینہ میں بیٹھے ہوئے ہیں جو عمران خان کی منافقانہ حقیقت اور مکاری کو عیاں کرتے ہیں۔ مکاری، فراڈ اور جھوٹ کے تمام پرانے ریکارڈ عمران خان کی حکومت نے توڑ دیے ہیں اور ہر روز نیا اور پہلے سے کئی گنا بڑا جھوٹ بولا جاتا ہے تاکہ اپنا گھناؤنااور عوام کے خون سے لتھڑا انسان دشمن چہرہ ڈھانپا جا سکے لیکن ہر نیا جھوٹ حکمرانوں کے خون آشام کردار کو اوربھی واضح کر دیتا ہے۔
22 مئی کو اسلام آباد میں ہونے والی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی میٹنگ میں یہ اعلان کیا گیا کہ رواں مالی سال 2021ء میں پاکستان کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ 3.94 فیصد رہا ہے۔ اس بڑھک نما دعوے کو معاشی بدحالی کے مارے عوام نے تو سرے سے سنجیدہ ہی نہیں لیالیکن ملک کے تجربہ کار بورژوا معیشت دانوں نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس پر نپی تلی نکتہ چینی کی، یہاں تک کہ سٹیٹ بینک نے بھی ابتدا میں اسے غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا اگرچہ بعد ازاں اس نے ان اعدادو شمار کو قبول کر لیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اپریل میں منظر عام پر آنے والے بجٹ اسٹریٹیجی پیپر میں حکومت نے رواں مالی سال کے لئے 2.9 فیصد جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا فگر دیا تھا اور یہی اعدادو شمار آئی ایم ایف کے حکام کو بھی دیے گئے تھے۔ اسی طرح سٹیٹ بینک نے بھی پہلے رواں مالی سال کے لئے 2.1 فیصد گروتھ ریٹ کا فگر دیا تھا جسے بعد ازاں نظر ثانی کے بعدتقریباً 3 فیصد کر دیا گیا تھاجبکہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا اپنا اندازہ پہلے 1.3 سے 1.5 فیصد تک کا تھا جسے بعد ازاں نظر ثانی کے بعد 1.5 سے 2 فیصد کر دیا گیا تھا۔ لیکن نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے حالیہ 3.94 فیصد کے فگر نے توباقی تمام اندازوں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے اور سنجیدہ حلقوں کی جانب سے بجا طور پر یہ سوال اٹھا یا جا رہا ہے کہ محض چند ہفتوں میں ایسا کون سا ’چمتکار‘ ہو گیا ہے جس کی بنیاد پر حکومت نے پچھلے تمام شماریاتی اندازوں کو رد کر دیاہے۔ یاد رہے کہ اعدادوشمار کی ہیرا پھیریوں کے حوالے سے موجودہ حکومت کا ریکارڈ ماضی کی تمام حکومتوں سے بھی کہیں زیادہ گیا گزرا ہے۔ مثلاًمالی سال 2019ء میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا عبوری فگر 3.3 فیصد دیا گیا تھا جسے خاصے عرصے بعد ایک چھوٹی سے پریس کانفرنس میں ’درست‘ کر کے 1.9 فیصد کر دیا گیا اور میڈیا میں اس جھوٹ سے پرہیز ہی رکھی گئی۔ اسی طرح مالی سال 2020ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3 ارب ڈالر بتایا گیا تھا جسے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی خاموشی سے درست کر کے 4.4 ارب ڈالر کیا گیا ہے۔ انیسویں صدی کے مشہور برطانوی سیاستدان بنجمن ڈیزرئیلی نے مبینہ طور پر کہا تھا ”جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعدادو شمار“۔ یعنی اگر آپ بد دیانت ہونے کے ساتھ ساتھ چالاک بھی ہیں اور شماریات کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تواعدادو شمار کو اپنی مرضی سے منتخب کر کے، انہیں مسخ کر کے، کوئی بھی نتیجہ برآمد کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ڈیزرئیلی بھی کوئی عوام دوست شخص ہر گز نہ تھالیکن حکومت پاکستان کی حرکتوں کو دیکھتے ہوئے اس سے منسوب یہ الفاظ بالکل درست لگتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کیسے؟
حکومت کی طرف سے پیش کئے جانے والے رواں مالی سال 2021ء کے 3.94 فیصد گروتھ ریٹ کی جڑیں بنیادی طور پر مالی سال 2020ء کے غلط گروتھ ریٹ فگرز میں پیوست ہیں۔ حکومت نے پچھلے مالی سال کے لئے پہلے منفی 0.38 فیصد کا عبوری جی ڈی پی گروتھ ریٹ دیا تھا جو کہ ادارۂ شماریات یا پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے پاس موجود مالی سال 2020ء کے پہلے 9 ماہ (جولائی 2019ء تا مارچ 2020ء) کے دستیاب اعدادو شمار پر مبنی تھا۔ یعنی ملک میں کرونا وبا کی پہلی لہر کی آمد سے پہلے ہی پاکستان کی بحران زدہ معیشت آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی تاب نہ لاتے ہوئے سکڑاؤ کا شکار ہو چکی تھی۔ مالی سال 2020ء کی آخری سہ ماہی (اپریل، مئی اور جون 2020ء) میں صنعتی علاقوں سمیت ملک میں نسبتاً سخت لاک ڈاؤن رہا جس کی وجہ سے پہلے ہی سے سکڑاؤ کا شکار معیشت میں بہت تیزگراوٹ ہوئی۔ صنعتی پیداوار، برآمدات اور بجلی کی پیداوار سمیت معیشت کے کئی شعبوں میں ڈبل ڈیجٹ کمی ریکارڈ ہوئی۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بعد ازاں جب حکومت نے مالی سال 2020ء کے مکمل ڈیٹا کی دستیابی کے بعد گروتھ ریٹ کے فگر پر نظر ثانی کی تو اسے معمولی تبدیلی کے ساتھ منفی 0.47 فیصد مقرر کیا۔ یعنی مالی سال 2020ء کے فائنل آفیشل جی ڈی پی گروتھ ریٹ فگر میں اس مالی سال کی آخری سہ ماہی میں ہونے والی زبردست معاشی بربادی کی عکاسی تو دور کی بات، ایک معمولی جھلک تک نہیں دکھائی دیتی۔ یاد رہے کہ سابقہ وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، جو کٹھ پتلی حکومت کی بجائے آئی ایم ایف کا نمائندہ تھا، نے بھی ان حکومتی اعدادو شمار سے اختلاف کرتے ہوئے مالی سال 2020ء کے لئے منفی 1.5 فیصد کا گروتھ ریٹ فگر دیا تھا جبکہ ملک کے ایک سنجیدہ بورژوا معیشت دان ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق، اور ہم بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں، یہ درحقیقت منفی 2.1 فیصد ہے یعنی مالی سال 2020ء میں ملکی معیشت کے حجم میں 2.1 فیصد کمی واقع ہوئی۔ دوسرے الفاظ میں رواں مالی سال کا 3.94 فیصد کا عبوری گروتھ ریٹ فگر غیر حقیقی طور پر بلند اس لئے ہے کہ پچھلے مالی سال میں ملکی معیشت بڑھنے کی بجائے 2.1 فیصد سکڑی تھی اور چونکہ گروتھ ریٹ ائیر آن ائیر بیسز پر کیلکولیٹ کیا جاتا ہے لہٰذا یہ امر ”لو بیس افیکٹ“(Low Base Effect) کا کارن بن رہا ہے۔ یہاں پر حکومت کی اصل شعبدہ بازی یہ ہے کہ حکومت رواں مالی سال میں معیشت کے مختلف شعبوں کا ائیر آن ائیر گروتھ ریٹ نکالنے کے لئے تو پچھلے مالی سال کے مکمل ڈیٹا (بشمول آخری سہ ماہی) کا استعمال کر رہی ہے، جس کی وجہ سے مجموعی گروتھ ریٹ 3.94 فیصد آ رہا ہے لیکن دوسری طرف پچھلے مالی سال کے مجموعی جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا حتمی آفیشل فگر (منفی 0.47 فیصد) دینے کے لئے بنیادی طور پر پچھلے مالی سال کے پہلے 9 ماہ کا ڈیٹا ہی استعمال کیا گیا ہے۔
مزید برآں، ڈاکٹر حفیظ پاشا نے سرکاری اعدادو شمار میں ایک اور زبردست تضاد کی بھی نشاندہی کی ہے۔ یہ نشاندہی فی کس آمدن کے بارے میں ہے جسے سرمایہ دارانہ معیشت دان ایک اہم اشاریہ تصور کرتے ہیں لیکن یہ بھی ان کے نظام کی طرح کھوکھلا اشاریہ ہے۔ فی کس آمدن میں ملک میں رہنے والی تمام آبادی کی آمدن کی اوسط نکالی جاتی ہے اور اس کے ذریعے ملک کی ترقی یا تنزلی کاتعین کیا جاتا ہے۔ اس اوسط میں ملک کے کھرب پتی امیر ترین افراد اور غربت اور ذلت میں رہنے والے سماج کے نچلے ترین حصوں کی آمدن کو ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا جاتا ہے جو سماج میں موجود طبقاتی تقسیم کی وسیع خلیج پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ لیکن موجودہ حکومت اس کھوکھلے اشاریے کو بھی ہیر پھیر کے ذریعے اپنے حق میں کرنے کی کوشش کررہی تھی جو بے نقاب ہو چکی ہے۔
مالی سال 2018ء میں ملک کی سالانہ فی کس آمدن 1641 ڈالر تھی۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک کے 3 مالی سالوں میں حکومتی اعدادوشمار ہی کی بنیاد پر جی ڈی پی گروتھ ریٹ کی اوسط شرحِ اضافہ 1.79 فیصد رہی ہے جبکہ اسی عرصے میں ملکی آبادی کی سالانہ شرحِ اضافہ 2.1 فیصد رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ناگزیر طور پر سالانہ فی کس آمدن میں کمی واقع ہوئی جو حکومتی اعدادو شمار کے مطابق پچھلے مالی سال میں 1361 ڈالر تک گر گئی اور رواں مالی سال میں 1543 ڈالر تک بڑھوتری کے باوجود ا بھی بھی مالی سال 2018ء سے کم ہی ہے۔ لیکن ایسے میں ادارۂ شماریات نے اپنے تازہ ترین اعدادو شمار میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ رواں مالی سال میں افراطِ زر کو منہا کر کے بھی فی کس سالانہ کھپت میں 7 فیصد کا حقیقی اضافہ ہوا ہے۔ یعنی کہ ایک ایسے وقت میں جب فی کس سالانہ آمدن ابھی مالی سال 2018ء سے بھی کم ہے، جی ڈی پی کا کل حجم بھی مالی سال 2018ء کے 313 ارب ڈالر کے مقابلے میں 296 ارب ڈالر ہے (ادارۂ شماریات کے مطابق)، محتاط ترین اندازے کے مطابق بھی اکتوبر 2018ء سے لے کر دسمبر 2020ء تک حقیقی اجرتوں میں 0.9 فیصد سے لے کر 8.2 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، محض اپریل سے لے کر جون 2020ء میں بے روزگار ہونے والے 50 لاکھ افراد میں سے بمشکل 20 لاکھ کو واپس روزگار مل پایا ہے اور یو این ڈی پی کی این ایچ ڈی آر 2020ء رپورٹ کے مطابق اپریل 2020ء سے لے کر دسمبر 2021ء تک مزید 2 کروڑ 80 لاکھ افراد کے غربت کی لکیر سے نیچے گر جانے کا زبردست خدشہ ہے، ادارۂ شماریات یہ سفاکی کی حد تک مضحکہ خیز دعویٰ کر رہا ہے کہ فی کس سالانہ کھپت میں اضافہ ہوا ہے۔ سرمایہ داروں کے اپنے ہی ایک نمائندے ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ دعویٰ کرنا اس لئے ضروری تھا کیونکہ اس کے بغیررواں مالی سال کے 3.94 فیصد گروتھ ریٹ کے بلند وبانگ دعوے کے لئے درکار نمبرز ایڈ اپ نہیں ہو رہے تھے۔ ان کے بقول اگرہم صرف فی کس سالانہ کھپت میں اضافے کا یہ فگر نصف یعنی 3.5 فیصد کر لیں، جو ہمارے مطابق تو ابھی بھی بہت زیادہ ہے، تو رواں مالی سال کے جی ڈی پی گروتھ ریٹ فگر میں تقریباً 2.5 فیصد کی کمی ہو جاتی ہے۔ یعنی جب شماریاتی ہیرا پھیری کے ذریعے ”لو بیس افیکٹ“ کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے بعد بھی گروتھ ریٹ کا مطلوبہ فگر حاصل نہیں ہوا توادارۂ شماریات نے خود سے فی کس سالانہ کھپت کے زمینی حقائق سے انتہائی متصادم اعدادو شمار گھڑ کر پیچھے رہ جانے والی کسر کو پورا کیا۔
آئیے اب ہم معیشت کے مختلف اہم شعبوں کے متعلق دیے گئے اعدادوشمار کا تجزیہ کرتے ہیں اوران میں موجود تضادات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا جہاں کہیں کوئی بہتری ہوئی بھی ہے تو کیا وہ حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے یا پھر کسی اور امر کا؟ حکومت کے مطابق رواں مالی سال کے 3.94 فیصد گروتھ ریٹ کے حصول میں زرعی شعبے، خصوصاًگندم، چاول، مکئی اور گنے کی بمپر کراپ کا بڑا کردار ہے جن کی پیداوار میں پچھلے مالی سال کی نسبت بالترتیب 8.1، 13.6، 7.38 اور 22 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ملک کے زرعی شعبے پر نظر رکھنے والے سبھی لوگ اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان میں ”بمپر پیداوار“ کا زیادہ تر دارومدار حکومتی پالیسیوں کی بجائے منڈی کی حرکیات، چھوٹے و درمیانے کسانوں کی معاشی مجبوریوں، مخصوص موسمیاتی اتار چڑھاؤ اور نہری پانی کی دستیابی پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مالی سال میں جن اجناس کی بمپر پیداوار حاصل ہوتی ہے، اگلے مالی سال میں اکثر قلت کے باعث انہیں درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر حکومت بمپر کراپ کا کریڈٹ خود لینا چاہتی ہے تو پھر اسے یہ بھی وضاحت دینا ہو گی کہ رواں مالی سال میں کپاس کی پیداوار میں تقریباً 23 فیصد کمی کیوں ہوئی ہے جس کے نتیجے میں کاٹن جننگ کی سرگرمیوں میں بھی 15.6 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ آخر کاٹن جیسی ملک کی اہم ترین کیش کراپ کے معاملے میں نام نہاد حکومتی پالیسیوں کو کون سا سانپ سونگھ جاتا ہے کہ رواں مالی سال اس کی پیداوار پچھلی چار دہائیوں کی کم ترین پیداوار ہے اور یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں ہے جب ٹیکسٹائل کے شعبے کو خام مال کی اشد ضرورت ہے اور اسے یہ ضرورت پوری کرنے کے لئے رواں مالی سال میں 2 ارب ڈالر سے زائد کی کپاس درآمد کرنی پڑی ہے۔ مزید برآں، کپاس کی اس انتہائی کم پیداوار نے دیگر فصلوں کی بمپر پیداوار کے مثبت اثر کو بہت حد تک زائل کر دیا اور یوں لائیو سٹاک میں 3.1 اور فارسٹری میں 1.4 فیصد بڑھوتری کے باوجود بھی بحیثیت مجموعی زرعی شعبے کاگروتھ ریٹ 2.77 فیصد رہا جبکہ پچھلے مالی سال میں یہ 3.31 فیصد تھا۔ واضح رہے کہ زرعی شعبے میں ہونے والی کسی نام نہاد بہتری یا گروتھ کا بھی عام کسانوں کی زندگیوں پر عموماً الٹا اثر ہو تا ہے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت اور قرضوں کی دلدل میں دھنستے جا تے ہیں کیونکہ کسی بھی بمپر کراپ کا زیادہ تر فائدہ آڑھتیوں کو ہوتا ہے یا پھر صنعتکاروں کو جنہیں سستا خام مال میسر آ جاتا ہے۔
اسی طرح ادارۂ شماریات کے اعدادو شمار کے مطابق رواں مالی سال میں صنعتی شعبے میں مجموعی طور پر 3.57 فیصد کی گروتھ ریکارڈ کی گئی جس میں اہم ترین کردار لارج سکیل مینوفیکچرنگ نے ادا کیاجس کا گروتھ ریٹ 9.29 فیصد رہا جبکہ پچھلے مالی سال میں یہ منفی 7.78 فیصد تھا۔ جیسا کہ صاف ظاہر ہے کہ رواں مالی سال میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ کے اس گروتھ ریٹ کے پیچھے سب سے اہم فیکٹر ”لو بیس افیکٹ“ کا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے صنعتکاروں کو دیے جانے والے 12 سو ارب روپے کے معاشی ریلیف پیکج، انہیں بغیر سود کے نئے قرضوں کی فراہمی اورسابقہ قرضوں اور سود کی ادائیگی میں دی گئی چھوٹ، سٹیٹ بینک کی جانب سے بینچ مارک شرحِ سود 13.25 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد تک گرانے اور صنعتکاروں کو محنت کشوں پر جبر و استحصال بڑھانے کی کھلی ننگی چھوٹ دینے کا بھی بڑا کردار ہے۔ اس آخری نکتے کی مزیدوضاحت کرنے کے لئے صرف ایک امر کی طرف توجہ دلانا ہی کافی ہو گی کہ پچھلے کچھ عرصے سے حکومت ٹیکسٹائل کی صنعت کے فل کپیسٹی پر چلنے کے حوالے سے بہت ڈینگیں مار رہی ہے اور لارج سکیل مینوفیکچرنگ کے حالیہ گروتھ ریٹ میں بھی ٹیکسٹائل سیکٹر نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اب یہ بات بالکل درست ہے کہ پچھلے سال ستمبر سے ملک کی ٹیکسٹائل صنعت فل کپیسٹی پر چل رہی ہے لیکن اس کی وجہ کیا کوئی ’جادوئی‘ حکومتی پالیسیاں ہیں یا پھر پاکستان کے ٹیکسٹائل صنعتکارکوئی نئی پیداواری تکنیک متعارف کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے سو فیصد کیپسٹی، اگرچہ کہ یہ کپیسٹی کرونا وبا کی آمد سے قبل ہی ملک کے معاشی و صنعتی بحران کی وجہ سے روبہ زوال تھی، پر چلنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب انڈیا، بنگلہ دیش اور ویت نام کی ٹیکسٹائل صنعت کرونا وبا کے کارن بند پڑی تھی تب حکومت نے محنت کشوں کی جانوں کی ذرا بھر بھی پروا کئے بغیر ملک میں ٹیکسٹائل صنعت کو چلنے کی کھلی چھوٹ دے دی بلکہ ٹیکسٹائل صنعت کے گڑھ صوبہ پنجاب میں تو فیکٹریوں کی نام نہاد لیبر انسپکشن کا بھی مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت اپنی تمام تر پسماندگی اور تکنیکی خصی پن کے باوجود مسابقت کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپ اور شمالی امریکہ سے ایکسپورٹ آرڈرز لینے میں کامیاب ہو گئی لیکن خود ٹیکسٹائل مالکان کے مطابق یہ صرف ایک انتہائی وقتی برتری ہے اور جیسے ہی بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ کا ٹیکسٹائل شعبہ اپنی پروڈکشن پوری طرح بحال کرے گا، پاکستانی ٹیکسٹائل مقابلے سے باہر ہو جائے گا۔ اسی طرح رواں مالی سال میں تعمیراتی سرگرمیوں میں بھی 8.34 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس نے تعمیراتی شعبے سے وابستہ صنعتوں کو بھی مہمیز دی لیکن یہ بڑھوتری کسی صحت مندانہ پالیسی کی بجائے رواں مالی سال کے بالکل آغاز میں حکومت کی جانب سے کنسٹرکشن سیکٹر کو دیے گئے پیکج کا نتیجہ ہے جس میں حکومت نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں پر اپنی آمدن کے ذرائع اور دیگر تفصیلات فراہم کرنے کی لولی لنگڑی پابندی کا بھی مکمل خاتمہ کردیا یعنی دوسرے الفاظ میں کالے دھن کو تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کے ذریعے سفید کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ اسی طرح آٹو موبائل مینوفیکچرنگ کے گروتھ ریٹ میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ شرحِ سود میں تقریباً نصف کمی ہے۔ اسی باعث گاڑیوں کی بینک لیزنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح فارماسوٹیکل سیکٹر کے گروتھ ریٹ میں اضافے میں کرونا وبا سے جنم لینے والے انسانی المیے نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ صنعتی شعبے اور خصوصاً لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی اس تمام بڑھوتری کے باوجودرواں مالی سال میں بجلی اور گیس کے شعبے میں 23 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس گراوٹ کی اصل وجہ اس شعبے کی پیداوار میں کمی نہیں بلکہ حکومتی سبسڈی میں کمی ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اس شعبے میں دی جانے والی سبسڈیوں میں بہت حد تک کمی کی ہے لیکن یہ کمی بھی 23 فیصد کی زبردست گراوٹ کی مکمل توجیح پیش نہیں کر سکتی۔ یوں صنعتی شعبے کی بڑھوتری اور بجلی وگیس کے شعبے کی گراوٹ کے مابین موجود یہ تضاد صنعتی گروتھ کے تمام حکومتی اعدادوشمار پر ایک سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ اسی طرح رواں مالی سال میں سروسز کے شعبے میں ہول سیل اینڈ ریٹیل ٹریڈ سیکٹر میں 8.37 فیصد کا گروتھ ریٹ دیا گیا ہے لیکن کرونا وبا کے کارن پورا مالی سال منڈیوں، مارکیٹوں اور ٹرانسپورٹ کی وقتا فوقتاً جاری رہنے والی بندش کے پیش نظر ”لو بیس افیکٹ“ کا تمام تر فائدہ دینے کے باوجود اس فگر پر یقین کرنا مشکل ہے۔
اب اگر ہم معیشت کے بیرونی شعبے کی طرف آئیں تو وہاں بھی تھوڑی سی چھان پھٹک حکومت کے تمام بلندو بانگ دعوؤں کا پول کھول دیتی ہے۔ مثلاً رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ (جولائی 2020ء سے مارچ 2021ء) میں ملک کی کل برآمدات 18.7 ارب ڈالر رہی ہیں جو کہ پچھلے مالی سال کے اسی عرصے (یعنی وبا کی آمد سے قبل) سے 7 فیصد زیادہ ہیں۔ اب اس ’کامیابی‘ پر حکومت بہت شادیانے بجا رہی ہے۔ برآمدات میں اس ’بہتری‘ میں کلیدی کردار ٹیکسٹائل سیکٹر کا ہے اور اس کے پیچھے موجودمخصوص عالمی وجوہات اور حکومت اور ٹیکسٹائل مالکان کی سفاکانہ مزدور دشمنی پر ہم پہلے ہی بات کر چکے ہیں۔ مزید برآں، جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا کہ یہ بہتری بھی انتہائی وقتی نوعیت کی ہے اور اس کا لمبے عرصے تک جاری رہنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر انڈیا، بنگلہ دیش وغیرہ جیسے ممالک کی ٹیکسٹائل صنعت کرونا وبا کے کارن ایک لمبے عرصے تک بند رہے۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ تما م تر ’سازگار‘ ماحول کے باوجودبرآمدات میں یہ اضافہ بورژوا معاشیات کی زبان میں ”ویلیو بیسڈ“ ہے نہ کہ ”والیوم بیسڈ“۔ یعنی یہ اضافہ صرف اس لئے ریکارڈ ہوا ہے کیونکہ عالمی منڈی میں (لاک ڈاؤنز کے کارن) صنعتی مال، خصوصاً ٹیکسٹائل کی شارٹیج تھی اور اس وجہ سے اس کی قیمتیں چڑھی ہوئیں تھیں۔ جبکہ دوسری طرف برآمدات کے کل حجم میں اضافہ تو دور کی بات معمولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ملک کی کل درآمدات 39.9 ارب ڈالر رہیں جو کہ پچھلے مالی سال کے اسی عرصے سے 14.7 فیصد زیادہ ہیں اور یوں رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کا تجارتی خسارہ 21.2 ارب ڈالر رہا۔ درآمدی بل بڑھنے کی ایک بڑی وجہ توعالمی منڈی میں کموڈٹی پرائیسز، خصوصاً خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پہلے بیان کی گئی تمام تر وجوہات کی بدولت صنعتی شعبے میں ہونے والی بڑھوتری اوراس کے لئے درکار خام مال اور مشینری وغیرہ کی درآمد کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔ یہاں پر یہ بتانا بھی مناسب ہو گا کہ کرونا وبا کے کارن آئی ایم ایف قرض پروگرام کی وقتی معطلی نے بھی حکومت کو امپورٹ رجیم ریلیکس کرنے کی گنجائش فراہم کی۔ یعنی قصہ مختصر یہ کہ تمام تر بلند وبانگ دعوؤں کے باوجود بھی حکومت ملکی برآمدات میں کوئی قابل ذکر اضافہ کرنے میں ناکام رہی ہے اور ذرا سی صنعتی بڑھوتری اور امپورٹ رجیم کی نرمی نے ایک بار پھر تجارتی خسارے کو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ یا د رہے کہ پاکستان میں تمام تر برآمدی صنعت اپنے خام مال اور مشینری کے حصول کے لیے درآمدات پر بڑے پیمانے پر انحصار کرتی ہے اس لیے برآمدات میں کوئی بھی اضافہ ناگزیر طور پر درآمدات کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے جس کے باعث تجارتی خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ امر حکومت کی ناکامی کے ساتھ ساتھ ملک کی نام نہاد قومی بورژوازی کے بد ترین تاریخی خصی پن کی بھی عکاسی کرتا ہے جو پچھلے تین مالی سالوں میں بحیثیت مجموعی روپے کی قدر میں زبردست کمی، سالانہ کھربوں روپے سے زائد کی ٹیکس چھوٹوں اور سبسڈیوں، محنت کشوں کے بدترین استحصال، ٹیکس چوری، بجلی و گیس چوری، وبا کے دوران دیے جانے والے کھربوں روپے کے ریلیف پیکج، سستے قرضوں و دیگر ریاستی مراعات کی فراہمی اور پچھلے عرصے میں مد مقابل ممالک میں صنعتوں کی بندش کے باوجود بھی برآمدات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ کر سکی۔
لیکن اس بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کے باوجود رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ 960 ملین ڈالرز کے سرپلس میں ہے اور غالب امکانات ہیں کہ مالی سال کے اختتام تک بھی یہ معمولی سرپلس یا زیادہ سے زیادہ معمولی خسارے میں ہو گاجبکہ پچھلے مالی سال میں یہ 4.4 ارب ڈالر کے خسارے میں تھا۔ حکومت اس امر کو اپنی بہت بڑی کامیابی بنا کر پیش کر رہی ہے اور دن رات فتح کے شادیانے بجا رہی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ کو ملنے والے اس سہارے کی واحد وجہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں، خصوصاً محنت کشوں کی ترسیلاتِ زر میں خاطر خواہ اضافہ ہے جو رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 21.4 ارب ڈالر تھیں اور بھاری امکانات ہیں کہ مالی سال کے اختتام تک تقریباً 29 ارب ڈالر ہو جائیں گی جبکہ پچھلے مالی سال میں یہ 23.1 ارب ڈالر رہی تھیں۔ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ امر تارکین وطن کے ملک کی بہتر ہوتی معیشت پر بڑھتے اعتماد کی نشانی ہے۔ جبکہ حقیقت میں اس امر کے پیچھے بڑی وجہ فضائی سفر پر کرونا وبا کے باعث پابندی اور ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی طرف سے پڑنے والے شدید دباؤکے نتیجے میں ہنڈی/ حوالہ کے کاروبار پر بڑے پیمانے کا کریک ڈاؤن ہے جس کے نتیجے میں تارکین وطن اپنی رقوم قانونی بینکنگ چینلز کے ذریعے ملک واپس بھیجنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جہاں تک ملک کی بہتر ہوتی معیشت پر بڑھتے اعتماد کی بات ہے تو خود بورژوا معاشیات کے مطابق اس کا ایک اہم اشاریہ ملک میں ہونے والی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ہوتی ہے جو کہ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں پچھلے مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 35 فیصد کمی کے ساتھ محض 1.4 ارب ڈالر رہی۔
اگر ملک پر قرضوں کے بوجھ کی بات کریں تو اسٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2021ء تک ملک کا داخلی حکومتی قرضہ مارچ 2020ء کے مقابلے میں 3 ٹریلین روپے (1 ٹریلین: 1000 ارب) کے اضافے کے ساتھ 25.5 ٹریلین روپیہ ہو چکا تھا۔ واضح رہے کہ عوامی اداروں پر چڑھا 1.5 ٹریلین روپے کا قرضہ اس کے علاوہ ہے۔ اسی طرح، مارچ 2021ء تک ملک کا بیرونی حکومتی قرضہ مارچ 2020ء کے مقابلے میں 6.2 ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ 116.3 ارب ڈالر ہو چکا تھا۔ یوں اگر ہم ادارۂ شماریات کے ڈیٹا کے مطابق ملک کے جی ڈی پی کا حجم 296 ارب ڈالرلیں تو کرنٹ ایکسچینج ریٹ پر ملک کا کل حکومتی قرضہ جی ڈی پی کے 98.3 فیصد کے برابر ہو چکا ہے جو کہ پاکستان جیسے ایک پسماندہ ملک کے لئے انتہائی بلند سطح ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ عوام کی ہڈیوں کے گودے سے نچوڑے گئے ٹیکسوں میں سے سالانہ 3 ٹریلین روپے کے برابر کی داخلی اور بیرونی سود ادائیگیوں (اصل زر کی ادائیگی اس کے علاوہ ہے) کے باوجود حکومتی قرضہ ہر سال بڑھتا ہی جا رہا ہے کیونکہ ایک تو ان سودی قرضوں، خصوصاً وہ جو عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی ممالک سے لئے جاتے ہیں، کی ساخت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ پسماندہ ممالک ان میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور پرانے قرضوں و سود کی ادائیگیوں کے لئے نئے قرضے اٹھاتے رہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ این ایچ ڈی آر 2020ء کی رپورٹ کے مطابق حکومت ہر مالی سال میں سرمایہ دار طبقے اور فوجی وسول ریاستی اشرافیہ کو ٹیکس چھوٹ، سبسڈیوں، معاشی ریلیف اور دیگر معاشی مراعات سے نوازتے ہوئے قومی خزانے (یعنی عوام کی جیب) پر 2.6 ٹریلین روپے سے زائد کا بوجھ لادتی ہے۔ بنیادی فوجی بجٹ، فوجی پنشنوں، اسلحے کی خریداری اور دیگر اخراجات ملا کر تقریباً 18 سو ارب روپے کے مجموعی فوجی اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ ان سب ”اخراجات“ کوپورا کرنے کے لیے نئے قرضے اٹھائے جاتے ہیں جن کی ادائیگی بالآخر محنت کش عوام کی رگوں سے خون نچوڑ کر ہی کی جاتی ہے حالانکہ نہ تو یہ قرضہ عوام نے لیا ہوتا ہے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوا ہوتا ہے۔
مئی2021ء کے اختتام پر ملک میں زرِ مبادلہ کے کل ذخائر 23 ارب ڈالر تھے جن میں سے 15.86 ارب ڈالر کے ذخائر اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں جبکہ 7.15 ارب ڈالر کے ذخائر کمرشل بینکوں کے پاس ہیں۔ زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً پانچ سال کے بعد دوبارہ اس سطح تک پہنچے ہیں اور حسب توقع حکومت اس امر کو اپنی ایک اور بڑی معاشی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ مگر حکومت کے باقی دعوؤں کی طرح اس کا یہ دعویٰ بھی مٹی کے پیر رکھتا ہے اور تھوڑی سی چھان بین پر زمین بوس ہو جاتا ہے کیونکہ نہ تو ان ذخائر کے پیچھے برآمدات میں کوئی قابل ذکر اضافہ ہے اور نہ ہی ملک میں ہونے والی کوئی دوسری ٹھوس معاشی سرگرمی۔ ذخائر میں اس اضافے کی ایک بڑی وجہ توکرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا خاتمہ ہے جس کا تقریباً تمام تر دارومدار تارکین وطن کی ترسیلات زر پر ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے جہاں رواں مالی سال میں تقریباً 14.5 ارب ڈالر سابقہ بیرونی قرضوں کے اصل زر اور سود کی ادائیگیوں پر خرچ کئے ہیں وہیں اپنی اور سابقہ حکومتوں کی ریت برقرار رکھتے ہوئے نئے بیرونی قرضے بھی اٹھائے ہیں جن میں انتہائی بلند شرحِ سود پر 2.5 ارب ڈالر کے یورو بانڈز کا اجرا اور آئی ایم ایف سے 500 ملین ڈالرز پر مشتمل قرضے کی نئی قسط کی وصولی کے ساتھ ساتھ اے ڈی بی اور ورلڈ بینک سے لئے گئے نئے قرضے بھی شامل ہیں۔ مزید برآں، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے لئے گئے پرانے قرضوں کے رول اوور ہونے اور کرونا وبا کے کارن 3.5 ارب ڈالر کے دیگر مختلف واجب الادا بیرونی قرضوں کی واپسی میں ملنے والے وقتی ریلیف نے بھی زرمبادلہ کے ذخائر کو خاصا سہارا دیا ہے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف قرض پروگرام کی شرائط کے تحت حکومت نے روپے کی قدر کو مکمل طور پر منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے اور اب چونکہ اسٹیٹ بینک کو روپے کی قدر مصنوعی طور پر قائم رکھنے کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر نہیں خرچنے پڑتے لہٰذا اس مد میں بھی خاصی ’بچت‘ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حکومتی دعوؤں سے قطع نظر ملکی معیشت کی عمومی دگرگوں صورتحال اور آئی ایم ایف کی سختی کے کارن درآمدات کی سست رو بحالی بھی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم رہنے کا ایک اہم موجب ہے۔ مگر اسے آپ موجودہ حکومت کی خوش بختی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف پہلے بیان کی گئی تمام وجوہات کے کارن زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور اس کے نتیجے میں ملکی کرنسی مارکیٹ میں روپے پر پڑنے والے دباؤ میں کمی اور دوسری طرف امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے کرونا لاک ڈاؤن اور معاشی بحران کے دوران امریکی معیشت کو سہارا دینے والے ریلیف پیکجز کے لئے کئی ٹریلین ڈالر کے نئے نوٹوں کی چھپائی کے کارن عالمی سطح پر ڈالر کی قدر میں کمی کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے اور ایکسچینج ریٹ اگست2020 ء میں 168 روپے کی بلند ترین سطح سے اس وقت155 روپے فی ڈالر پر پہنچ چکا ہے۔
ابھی تک کی بحث میں ہم نے حکومت کی شماریاتی شعبدہ بازیوں کی قلعی کھولنے کے ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کی ہے کہ اگر کہیں معاشی اشاریے واقعی مثبت بھی ہیں تو اس کے پیچھے کارفرما حقیقی وجوہات کیا ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ملک کے محنت کش عوام درست طور پر معیشت کو بھاری بھرکم اعدادوشمار کے ذریعے نہیں جانچتے بلکہ وہ اسے اپنی زندگیوں اور حالات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ آپ راہ چلتے کسی بھی محنت کش کو روکیں اور اس سے معیشت کے بارے میں پوچھیں تو بجا طور پر اسے اعدادو شمار کے اس گورکھ دھندے سے بالکل بیگانہ پائیں گے۔ محنت کش عوام کے پاس ملکی معیشت کو جانچنے کا ایک اپنا ہی پیمانہ ہوتا ہے جو ہماری نظر میں ادارۂ شماریات اور اسٹیٹ بینک کے تمام تر شماریاتی طریقوں پر بھاری ہے اور وہ ہے کہ ان کے لئے دو وقت کی روٹی کمانا پہلے زیادہ مشکل تھا یا آج؟ کیونکہ گروتھ ریٹ تو اسٹاک ایکسچینج پر سٹے بازی میں تیزی سے بھی بڑھ جاتا ہے لیکن اس سے محنت کشوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ سرمائے اور محنت کے تضاد پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کی خاصیت ہی یہ ہے کہ اگر اس میں کوئی معاشی بہتری ہو بھی تو اس کا اصل فائدہ تو سرمایہ دار طبقے کو ہی ہوتا ہے جبکہ محنت کش طبقہ، جس کے استحصال کے بلبوتے پر وہ ’بہتری‘ حاصل ہوتی ہے، یا تو پہلے سے بھی زیادہ بدحال ہو جاتا ہے یا پھر اس کے حصے میں چند بچے کھچے ٹکڑے ہی آتے ہیں اور اکثر اوقات تو محنت کشوں کو یہ ٹکڑے حاصل کرنے کے لئے بھی منظم ہو کر جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ اور اگر ہم طبقاتی نقطہ نظر سے صورتحال کو دیکھیں تو حکمرانوں کے دیے گئے اعدادو شمار کے پیلے آسمان تلے محنت کش عوام کی ایک وسیع ترین اکثریت سسک سسک کر اپنی زندگیاں گھسیٹ رہی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، بھوک وننگ، افلاس، لاعلاجی اور بے گھری پہلے کبھی نہ دیکھی گئی سطح کو پہنچ چکے ہیں۔ افراطِ زر ڈبل ڈیجٹ میں ہے اور حقیقی اجرتوں میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ ٹیکسوں کے بوجھ تلے محنت کش عوام اور تنخواہ دار درمیانے طبقے کی کمر دوہری ہو چکی ہے۔ آئے روز آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بجلی، گیس سمیت تمام ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ رہی سہی کسرمقامی سرمایہ دار طبقے اور مافیاز کی لوٹ کھسوٹ نے پوری کر رکھی ہے۔ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور عوامی سہولیات کے بجٹ میں کٹوتی جہاں ایک طرف بیروزگاری کے سمندر میں مزید اضافہ کر رہی ہے وہیں دوسری طرف عوام کو حاصل تھوڑی بہت سستی سرکاری سہولیات بھی ان سے چھن رہی ہیں۔ سماج صرف کرونا ہی نہیں بلکہ معاشی چیرہ دستیوں کے کارن خود کشیوں کی وبا کی لپیٹ میں بھی ہے۔
اگر ہم پچھلی کم و بیش ایک دہائی میں ملک کے سرمایہ دار حکمران طبقے، ریاستی اشرافیہ اور سامراجی عالمی مالیاتی اداروں کی تجوریاں بھرنے کی خاطر عوام کی پیٹھ پر لادے گئے ٹیکسوں کے بوجھ کا ایک طائرانہ جائزہ لیں تو اس ایک امر سے ہی ہمیں حقیقی صورتحال کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ کرنٹ ڈالر ایکسچینج ریٹ (1ڈالر:155روپے) پر مالی سال2013ء میں ایف بی آر کی کل ٹیکس آمدن 12.25 ارب ڈالر تھی۔ مالی سال 2016ء میں یہ 19.35 ارب ڈالر ہو گئی۔ مالی سال 2020ء میں یہ 26 ارب ڈالر تک بڑھ گئی جبکہ رواں مالی سال 2021ء میں یہ 29 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اور باوثوق اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے مالی سال 2022ء کے لئے ایف بی آر کی ٹیکس آمدن کا ہدف تقریباً 6 ہزارارب روپے یا 38.7 ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔ غالباًیہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایف بی آر ٹیکس آمدن کا دو تہائی سے تین چوتھائی حصہ محنت کش عوام کی پیٹھ پر لادے گئے بالواسطہ ٹیکسوں اور تنخواہ دار درمیانے طبقے و چھوٹے کاروباریوں پر لگنے والے والے براہ راست ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں کم از کم 3گنااضافہ کیا گیا ہے۔
لیکن پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی اس ظلم و استحصال کے خلاف خاموش نہیں بیٹھے گا۔ پچھلی ایک دہائی سے بھی زائد عرصے میں یہاں کے محنت کشوں نے تمام تر ریاستی جبر کے باوجود نجکاری، ڈاؤن سائزنگ کے خاتمے، اجرتوں میں اضافے، مستقل روزگار کے حصول اور دیگر بنیادی معاشی مطالبات کے گرد بے شمار جرات مندانہ لڑائیاں لڑی ہیں اور ان میں سے کئی ایک میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ 2020ء میں ہمیں پاکستان کی مزدور تحریک میں ایک معیاری تبدیلی رونما ہوتی نظر آئی اور مختلف محکموں اور عوامی اداروں کے ملازمین و محنت کشوں نے متحد ہو کر مشترکہ مطالبات کے گرد کئی ایک کامیاب احتجاج کئے جن خاص طور پر اسلام آباد میں اگیگا کے پلیٹ فارم سے ہونے والے بڑے احتجاجی دھرنے قابل ذکر ہیں۔ اسی جدوجہد کے کارن حکمرانوں اور آئی ایم ایف کو گھٹنے ٹیکتے ہوئے آنے والے بجٹ میں سرکاری ملازمین و محنت کشوں کی بنیادی تنخواہوں میں مجبوراً 25 فیصداضافہ کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح عوامی اداروں کی نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کیخلاف جدوجہد بھی تیز ہو رہی ہے۔ مگر یہ سب ابھی محض آغاز ہے۔ آنے والے وقت میں یہ لڑائی مزید شدت اختیار کرے گی اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک پاکستان کا محنت کش طبقہ یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت تعمیر نہیں کرتا جس میں تمام ذرائع پیداوار محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں ہوں گے اور معاشی سرگرمی کا واحد مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل ہو گا نہ کہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کی تجوریاں بھرنا۔ مگر اس انقلاب کی کامیابی مارکسزم لینن ازم کے مزدور نظریات سے مسلح ایک انقلابی پارٹی کی راہبری کے بغیر ناممکن ہے۔اس انقلابی پارٹی کی تعمیر ہی آج مارکس وادیوں،نوجوانوں اور محنت کش طبقے کی ہر اول پرتوں کا بنیادی تاریخی فریضہ ہے۔