|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: ولید خان|
کافی لیت و لعل کے بعد اسرائیلی فوج نے ہفتہ وار چھٹی کے دن غزہ میں فوج کشی کا آغاز کر دیا ہے۔ لیکن یہ مکمل فوج کشی نہیں ہے۔ اسرائیلی عسکری قائدین کو سمجھ ہے کہ اگر زمین پر ہر گلی میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو ان کے سپاہیوں کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ وہ حزب اللہ کو جنگ کی وسعت بڑھانے کا کوئی بہانہ بھی نہیں دینا چاہتے کیونکہ لبنان کے ساتھ شمالی سرحد پر ایک دوسرا فرنٹ کھل جائے گا۔ اگر سارا معاملہ یہ ہے تو پھر نیتن یاہو اور اس کے جرنیل کس چیز کی تیاری کر رہے ہیں؟
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فنانشل ٹائمز میگزین کے مطابق IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورسز) کی غزہ ڈویژن کے سابق ڈپٹی کمانڈر عامر آوے وی کا کہنا ہے کہ ”ہم کسی قسم کا خطرہ نہیں مول رہے۔ جب ہمارے سپاہی متحرک ہوتے ہیں تو یہ کام ہم دیوہیکل بمباری کے ساتھ کرتے ہیں جبکہ 50 جنگی ہوائی جہاز کسی بھی متحرک چیز کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں“۔
درحقیقت جمعہ کے دن ہونے والی بمباری مسلسل جاری بمباری مہم کی سب سے ہولناک بمباری ہے جس میں 600 اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ اب تک 8 ہزار 300 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور صد افسوس کہ اس ہندسے میں مزید اضافہ باقی ہے۔
جنگجو زبان
نیتن یاہو، اس کا وزیر دفاع اور اسرائیل میں موجود کئی اہم سیاسی شخصیات اور تجزیہ کاروں کی زبان انتہائی جنگجوانہ ہے جس کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ اس وقت حالت جنگ مسلط ہے اور ”انسانی ہمدردی کے تحت وقفہ“ یا جنگ بندی جیسی فضول باتوں کا وقت نہیں ہے۔ غزہ کی عوام کا کچھ بھی حال ہو لیکن حماس کو کچلنا اور تباہ و برباد کرنا اولین اور واحد ہدف ہے۔
29 اکتوبر کو نیتن یاہو نے ایک تقریر میں اعلان کیا کہ ”جنگ کا دوسرا مرحلہ“ شروع ہو چکا ہے جس میں ”تمہیں یاد ہونا چاہیے کہ ہماری مقدس بائبل کے مطابق امالیک نے تمہارے ساتھ کیا کِیا تھا“۔ اور اس نیک کتاب میں خدا نے قدیم اسرائیلیوں سے کیا کہا تھا؟ ساموئل اول 15:3 میں لکھا ہے کہ ”اب جاؤ اور امالیک کو مارو اور ان کے پاس جو کچھ ہے وہ مکمل تباہ و برباد کر دو اور انہیں بخشنا نہیں؛ بلکہ مردوں اور عورتوں، بچوں اور نومولود، بیل اور بکری، اونٹ اور خچر، سب کو قتل کر دو“۔ ڈیوٹرونومی 25:19 میں لکھا ہے کہ ”۔۔ تم آسمان کے نیچے امالیک کی یاداشت بھی مٹا دو گے۔۔“۔
پرانے عہد نامے کی زبان حقیقی معنوں میں نسل کش ہے۔ ان الفاظ کا مطلب ایک قوم کا مکمل خاتمہ ہے۔ امالیک ایک قدیم قوم تھی جو النقب صحرا کے باشندے اور اسرائیلیوں کے جانی دشمن تھے۔ قدیم یہودیوں کا خدا۔۔۔ وہی خدا جسے عیسائی اور مسلمان دونوں آج اپنا خدا تسلیم کرتے ہیں۔۔۔ ”دوسرا گال آگے کر دو“ اور ”اپنے ہمسائے سے محبت کرو“ والا خدا نہیں تھا۔ نہیں، وہ قدیم دنیا کے باقی تمام خداؤں جیسا تھا۔۔۔ ناراض اور بدلے کا پیاسا خدا جو اپنے پیروکاروں کے تمام دشمنوں کے خلاف ہر جنگ میں معاون اور مددگار تھا۔ آج نیتن یاہو یہی الفاظ دہرا رہا ہے!
یہ خون آشام زبان اسرائیلی سیاست میں اس کی کمزور پوزیشن کو بھی واضح کرتی ہے۔ وہ وزیر اعظم ہے لیکن یہ بات زبان زد عام ہے کہ اگر 7 اکتوبر سے پہلے انتخابات منعقد ہو جاتے تو اس کی شکست کے امکانات بہت روشن تھے۔ حملے کے بعد بھی رائے شماریوں کے مطابق نیتن یاہو انتہائی غیر مقبول ہے اور اسے اتنے بڑے پیمانے پر انٹیلی جنس کی ناکامی پر مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں حماس کو اسرائیلی سیکورٹی فورسزپر حیران کن حملے کا موقع مل گیا تھا۔ اسرائیلی عوام کی بھاری اکثریت جنگ بندی کے فوراً بعد نیتن یاہو کا استعفیٰ چاہتی ہے۔
تنقید کا مقابلہ کرنے کے لئے اس نے حکومت اور سیکورٹی فورسز کی تیاری میں مکمل ناکامی کا سارا الزام دیگر کے سر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اتوار کے دن اس نے ٹویٹ کیا کہ سیکورٹی سروسز کے اعلیٰ حکام نے اسے یقین دلایا تھا کہ جہاں تک حماس کا تعلق ہے تو سب کنٹرول میں ہے۔ اس کے خلاف اتنا شدید ردعمل آیا کہ اسے چند گھنٹوں میں ٹویٹ ڈیلیٹ کر کے معافی مانگنی پڑی۔
سب جانتے ہیں کہ PA (فلسطینی اتھارٹی) کے متوازی حماس کو کھڑا کرنے کی ساری حکمت عملی نیتن یاہو نے بنائی تھی۔ درحقیقت اسرائیل کے سب سے پرانے اخبار ہاریتز نے حال میں نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اس نے قطر کے ذریعے حماس کو اربوں ڈالر کی فراہمی پر کچھ نہیں کیا۔ اس کو خبردار کیا گیا تھا کہ یہ ایک خطرناک حکمت عملی ہے لیکن اس نے کوئی پرواہ نہ کی کیونکہ اس کے خیال میں فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان تقسیم کئے رکھنے کا یہ بہترین طریقہ کار تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس پالیسی کے ذریعے فلسطینیوں کو کمزور اور منقسم رکھا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں دو ریاستی حل کا خیال مکمل طور پر ناکارہ ہو جائے گا اور فلسطینی زمینوں پر قبضے کا عمل جاری رہے گا۔
اب یہی پالیسی اس کے لئے وبال جان بن چکی ہے اور وہ ہر ممکن داؤ پیچ لگا کر اپنی وزارت عظمیٰ کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اپنے آپ کو ایک جنگی قائد بنا کر پیش کرنے کی کوششوں میں تمام جنگجوانہ لفاظی، دھمکیوں اور بدمعاشی کی بنیاد یہ ہے جس میں پرانے عہد نامے کے حوالہ جات اور دشمن قوم کے خاتمے کی باتیں بھی شامل ہیں۔
ایک قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی طاقت تو شائد نیتن یاہو کے پاس نہ ہو لیکن اس وقت یقینا وہ فلسطینیوں کا تاریخی قتل عام کر رہا ہے۔ یہاں اہم اسرائیلی شخصیات کے خیالات پر نظر دوڑانا ضروری ہے۔ ان میں ایک انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی سٹڈیز کا سینیئر ایسوسی ایٹ محقق اور اسرائیلی نیشنل سیکورٹی کونسل کا سابق سربراہ گیورا ایلاند اور جون 2012ء سے جون 2022ء کے دوران تیرھواں اسرائیلی وزیر اعظم اور 2018ء سے 2022ء تک نیو رائٹ پارٹی کا سربراہ نفتالی بینیت ہے۔
ایلاند نے 12 اکتوبر کو اپنے اعلامیے کے آغاز میں کہا کہ:
”۔۔۔ اسرائیل غزہ میں حماس، جو کہ ایک عسکری اور حکمران قوت ہے، کے خاتمے سے کم کسی اور ہدف پر اکتفا نہیں کر سکتا۔ اس سے کم کوئی بھی ہدف اسرائیلی ناکامی ہو گی۔ (۔۔۔) ایک آپشن دیوہیکل اور پیچیدہ فوج کشی ہے جس میں وقت اور لاگت کی کوئی قید نہ ہو جبکہ دوسری آپشن ایسی صورتحال پیدا کرنا ہے جس میں غزہ میں زندگی قائم رکھنا ناممکن بن جائے۔ (۔۔۔) اسرائیل کو غزہ میں ایک انسانی المیہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہزاروں یا لاکھوں افراد مصر یا مشرق وسطیٰ میں پناہ لینے پر مجبور ہو جائیں“۔
اگر آپ کو یہ خوش فہمی تھی کہ ایلاند صیہونی حکمران طبقے میں ایک معمولی سی آواز ہے تو غزہ میں موجود فلسطینی قوم پر اسرائیلی فوج کی جانب سے اب تک برپاء قیامت پر ایک نظر ڈالنا کافی ہے۔ اس کے الفاظ حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی موجودہ سرگرمیوں کی ایلاند پہلے ہی پیش گوئی کر چکا تھا۔ ”ہمارے نکتہ نظر سے غزہ میں موجود ہر وہ عمارت جس کی بنیادوں میں حماس ہیڈکوارٹر کا پتہ ہے، اس میں سکول اور ہسپتال شامل ہیں، ایک عسکری ہدف ہے۔ غزہ میں ہر گاڑی ایک عسکری گاڑی ہے جو جنگجوؤں کو ٹرانسپورٹ کر رہی ہے۔۔“۔
اس کا مزید کہنا تھا کہ ”(7 اکتوبر حملہ) پرل بندرگاہ پر جاپانی حملے کے مترادف ہے جس کے نتیجے میں جاپان پر ایک ایٹم بم گرایا گیا تھا۔ نتیجتاً غزہ ایک ایسی جگہ بن جائے گا جہاں کوئی انسان زندہ نہیں رہ سکتا (۔۔۔) اسرائیلی ریاست کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے اور کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں“۔
یہ سب کچھ اس وقت لمحہ موجود میں غزہ میں ہو رہا ہے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی زبان تو ایک سابق قومی سیکورٹی سربراہ کا شیوہ ہو گی تو پھر ’سیاست دان‘ نفتالی بینیت (مغربی کنارے میں ایک آبادکار) کو سن لیتے ہیں۔ اس نے شمالی غزہ کی ”مکمل ناکہ بندی“ کی تجویز دی ہے اور مشورہ دیا ہے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز ”پوری پٹی میں حماس پر مسلسل بمباری کرتی رہے“۔ اور پھر ”اس علاقے میں ہماری پوری سرحد کے ساتھ ایک نئی 2 کلومیٹر چوڑی سیکورٹی پٹی قائم کی جائے، ایک مستقل پٹی۔ اس کے لئے بے پناہ گولہ بارود اور فوج کشی اور انجینئرنگ کی جائے۔ سمجھو کہ بلڈڈوزر پورا علاقہ مسمار کر دیں“۔
جنگ کا ”دوسرا مرحلہ“
بہرحال پورے غزہ میں یہ تباہی و بربادی پھیلانا آسان کام نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی خاموشی سے یہ سب برداشت نہیں کریں گے۔ وہ جس طرح بھی ہو سکے مزاہمت کر رہے ہیں اور پوری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں میں ان کے لئے دیوہیکل یکجہتی اور ہمدردی موجود ہے۔
پھر عسکری نکتہ نظر سے اس وقت زمین پر ہو کیا رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز اپنے منصوبے ہمیں تو نہیں بتائے گی۔ اس لئے ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ اس وقت لمحہ موجود میں ہو کیا رہا ہے اور مختلف تجزیہ کار کیا کہہ رہے ہیں۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یوواف گالانت نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج اب ”جنگ کے ایک نئے مرحلے“ میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ مکمل، وسیع فوج کشی نہیں ہے۔ اس میں فضائی بمباری میں دیوہیکل اضافہ کیا گیا ہے اور محدود ٹینکوں اور سپاہیوں کے ذریعے فوج کشی کی جا رہی ہے۔ یہ منطقی ہے اگر یہ مد نظر ہو کہ گلی گلی، گھر گھر جنگ انتہائی خون ریز ہو گی اور اسرائیلی جانوں کا دیوہیکل ضیاع ہو گا۔ فوج تنگ گلیوں میں سست روی کا شکار ہو گی جن میں سے کئی ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں جہاں حماس جنگجو گھات لگائے انتظار کر سکتے ہیں، اچانک ٹینک کش راکٹوں سے حملے کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ جس کی جھلک ابھی سے ابتدائی جھڑپوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اسرائیلی فوجی سربراہان امریکی فوجی سربراہان کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں جو ماضی میں گنجان آباد علاقوں جیسے موصل یا فلوجہ میں جنگوں سے تربیت یافتہ ہیں۔ امریکی سنٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ جرنیل جوسیف وٹیل نے خبردار کیا ہے کہ ”یہ انتہائی خون ریز، ظالم جنگ ہو گی“۔ گالانت نے خود کہا ہے کہ جنگ مہینوں جاری رہ سکتی ہے۔ بینیت نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جنگ ”6 مہینوں سے 5 سالوں“ تک جاری رہ سکتی ہے۔ بہرحال جنگ کی طوالت جو بھی ہو، ماضی میں غزہ پر فوج کشی کی طرح یہ چند ہفتوں کا برق رفتار آپریشن نہیں ہو گا۔
اسرائیلی فوج کے سامنے دو راستے ہیں؛ 1) مکمل فوج کشی، یا 2) ایک طویل جنگ جو ایک طرح سے غزہ کا محاصرہ ہو۔
وہ پہلے آپشن سے بچنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں فوری طور پر پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے جیسے اسرائیل کی شمالی سرحد پر حزب اللہ مکمل طور پر جنگ میں کود سکتی ہے۔ ابھی تک حزب اللہ کم درجے کی جھڑپوں پر ہی اکتفاء کر رہی ہے۔
حزب اللہ کوئی سڑک چھاپ ملیشیاء نہیں ہے۔ اس کی افواج شامی خانہ جنگی کی بھٹی میں پک کر تیار ہوئی ہیں، اس کے پاس 30 ہزار سے 50 ہزار جنگجو اور 1 لاکھ سے زیادہ راکٹ ہیں۔ 2006ء میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کو جنوبی لبنان میں برق رفتاری سے گھسنے کی کوشش کے بعد پسپائی اختیار کرنی پڑی تھی۔ شمال سے خطرے کی بنیاد پر تقریباً 1 لاکھ اسرائیلی فوجی لبنانی سرحد پر تعینات ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی کوشش یہی ہے کہ حالات بس یہیں تک رہیں اور دو فرنٹ پر جنگ نہ چھڑے۔
حزب اللہ کے علاوہ خطے میں دیگر ایرانی پراکسیوں کی وسیع شمولیت کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔ عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر حملے ہو رہے ہیں جس کے بعد امریکہ دونوں ممالک میں ایرانی حمایت یافتہ سمجھی جانے والی ملیشیاؤں کے اڈوں پر جوابی کاروائیاں کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ درحقیقت حماس نے خطے میں امریکی اور اسرائیلی اثاثوں پر حملوں کی کال دے رکھی ہے جن میں امریکی اڈے اور دونوں ممالک سے منسلک تمام اثاثہ جات شامل ہیں۔
عراق، شام اور اردن میں ایسے گروہ موجود ہیں جو براہ راست اسرائیل کے خلاف غزہ میں جنگ لڑنے کے لئے بھی تیار ہوں گے۔ اردنی ریاست اس ساری صورتحال میں دیوہیکل دباؤ اور شدید عدم استحکام سے دوچار ہے۔ ممکنہ طور پر ملک میں عوامی غم و غصہ ریاست کے پرخچے اڑا سکتا ہے۔ اس کے بعد خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہو گا اور دریائے اردن کے پار ایک دشمن ریاست وجود میں آ جائے گی۔ یہ موجودہ ریاست سے مختلف ہو گی جس کی کی پوری کوشش ہے کہ موجودہ جنگ سے دامن بچاتے ہوئے جتنی جلدی ہو سکے حالات اور تعلقات واپس معمول پر آ جائیں۔
امریکہ خاص طور پر اپنا سارا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے پورا زور لگا رہا ہے کہ کوئی ایسا معاملہ نہ ہو جس کے نتیجے میں جنگ کی وسعت بڑھ جائے۔ امریکہ اسرائیلی یرغمالیوں کو استعمال کرتے ہوئے نیتن یاہو اور اس کی حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ پھونک پھونک کر قدم اٹھاؤ۔ اس سے اسرائیلی سماج میں موجود اندرونی دراڑیں مزید گہری ہو رہی ہیں۔
7 اکتوبر حملے کے فوری بعد موڈ یہی تھا کہ حماس کو تباہ و برباد کر دیا جائے لیکن اس کے بعد سے رائے میں کچھ تبدیلی آ رہی ہے۔ یروشلم کی یہودی یونیورسٹی کی ایک رائے شماری کے مطابق یرغمالیوں کے لئے پریشانی نے عوام کی رائے کو ان کی بازیابی کے لئے زیادہ وقت دینے کی جانب مائل کر دیا ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد فوری فوج کشی کی حمایت میں 65 فیصد سے اب حمایت 46 فیصد ہو چکی ہے۔
حماس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنی تحویل میں موجود تمام یرغمالیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید تمام فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں آزاد کر دیں گے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ نیتن یاہو کو یرغمالیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسرائیل انہیں ایک فوج کشی کے ذریعے بازیاب کرا لے گا۔ یہ واضح ہے کہ نیتن یاہو کو یرغمالیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ دباؤ میں اسے یرغمالیوں کے خاندانوں سے ملنا پڑا ہے لیکن یہ ایک چال تھی تاکہ اس حوالے سے موجود تنقید کو بے اثر کیا جائے۔
اسرائیل میں انتہائی دایاں بازو تو اس حد تک چلا گیا ہے کہ یرغمالیوں کے خاندانوں کی جانب سے بازیابی مذاکرات کے لئے جنگ بندی کے مطالبے پر انہیں ہی غدار قرار دے دیا ہے۔ ان لوگوں کے لئے اس حوالے سے کسی قسم کی مراعت کا مطلب شکست ہے جس کے نتیجے میں حماس کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔
اس بنیاد پر ہی اسرائیلی فوج نے مکمل فوج کشی کے برعکس ایک طویل محاصراتی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لگتا ہے منصوبے کے مطابق برق رفتار محدود فوج کشی کر کے حماس کے اہداف پر حملہ کیا جائے گا، ان کے جنگجوؤں کو باہر نکل کر اپنے اڈے، راکٹ لانچر اور دیگر پوزیشنوں کو افشاں کرنے پر اکسایا جائے گا اور پھر ان پوزیشنوں پر تباہ کن بمباری کی جائے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ حماس جنگجوؤں کو اس حکمت عملی کا پتا ہے اور وہ حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی کوئی پوزیشن بے نقاب نہ کی جائے۔ یہ سارا عمل انتہائی خونی، ظالم اور طویل ہو گا۔ غزہ شہر تباہ و برباد ہو جائے گا اور بیسیوں ہزاروں اموات ہوں گی۔
غزہ کا مستقبل کیا ہے؟
یہ ایک فوری تناظر ہے لیکن پھر سوال یہ ہے کہ اس تمام تباہی و بربادی کے بعد اسرائیلی حکومت کے کیا عزائم ہیں؟ سادہ جواب یہ ہے کہ کوئی عزائم نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی حکام بھی سخت حیران ہوئے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی سوچ بچار موجود نہیں ہے کہ تمام تباہی و بربادی کے بعد کرنا کیا ہے۔ بہرحال غزہ کو کسی نہ کسی نے تومنظم کرنا ہے اور اس پر حکمرانی ہونی ہے۔ وہ کون ہو گا؟
اسرائیلی ریاست نے واضح کر دیا ہے کہ اس حوالے سے حماس کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان کی ترجیح ہو گی کہ فلسطینی اتھارٹی یہ انتظام اپنے ہاتھوں میں لے۔ لیکن فلسطینی اتھارٹی کا صدر عباس کہہ چکا ہے کہ وہ اسرائیلی ٹینک پر چڑھ کر غزہ میں داخل نہیں ہو گا۔ وہ پہلے ہی ایک کچے دھاگے سے لٹک رہا ہے کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کی ساکھ مغربی کنارے سمیت تمام فلسطینیوں میں مکمل طور پر مجروح ہو چکی ہے۔ وہ اس سوچ کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اسرائیلیوں کے لئے غزہ چلا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع گالانت نے واضح کیا ہے کہ اس جنگ کے چار مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ تین ہفتوں کی ہولناک بمباری تھا۔ دوسرا مرحلہ جاری ہے جس میں ہر حماس اڈہ، ہر جنگجو، ہر راکٹ لانچر وغیرہ، سب کی مکمل تباہی ہدف ہے۔ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ اس کے لئے ایک طویل وقت درکار ہے۔۔۔ اور اس ہدف کے پورے ہونے کے امکانات محدود ہی ہیں۔ لیکن پھر آگے کیا؟
ٹائمز آف اسرائیل اخبار کے مطابق (29 اکتوبر 2023ء):
”(۔۔۔) فوج ایک تیسرے عبوری مرحلے کی تیاری کر رہی ہے جس کے دوران اس تباہ حال علاقے کے لئے نئی قیادت تراشی جائے گی جبکہ ’مزاہمت کے حصوں‘ کو ختم کیا جائے گا۔ اس کم درجہ لڑائی کے بعد ہی، گالانت کے مطابق اس کے لئے مہینوں درکار ہیں، اسرائیل حتمی مرحلے کی جانب بڑھے گا یعنی غزہ سے تعلق توڑنا (۔۔۔)“۔
اسرائیلی حکومت کے مطابق اس ’تعلق توڑنے‘ سے کیا مراد ہے؟ اس کا گالانت کو بھی نہیں پتا۔ اسی مضمون میں لکھا ہے کہ:
”وزیر دفاع نے اس وضاحت کے بعد کہ غزہ کو اسرائیل یا حماس دونوں جنگ کے بعد کنٹرول نہیں کریں گے، کوئی وضاحت نہیں کی کہ تعلق توڑنا کیا ہو گا۔ (۔۔۔) گالانت کا کہنا ہے کہ ’بعد میں جو کچھ ہو گا بہتر ہو گا، وہ کچھ بھی ہو“‘۔
اگر گالانت کو نہیں معلوم کہ جنگ کے بعد کیا کرنا ہے تو پھر ہم نفتالی بینیت سے رجوع کرتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ اگر یہ ہمیں ریاستی سمجھ بوجھ سے آشنا کروا سکے۔ یہاں ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ شخص پچھلے سال تک اسرائیل کا سربراہ تھا۔
فی الحال وہ کہہ رہا ہے کہ قلیل مدت کے لئے غزہ کے تمام رہائشیوں کو جنوب چلے جانا چاہیے۔۔۔ اگرچہ وہاں بھی مسلسل بمباری ہو رہی ہے۔۔۔ یا پھر غزہ پٹی سے مکمل طور پر نکل جانا چاہیے اور کسی اور ملک میں تارکین وطن بن جانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیوہیکل پیمانے پر حقیقی نسل کشی کی دھمکی دی جا رہی ہے جس سے 1948ء کے نقبہ اور 7 لاکھ 50 ہزار فلسطینیوں کی اپنے گھروں، گاؤں اور قصبوں سے بے دخلی کی یاد تازہ ہو جائے گی۔
بینیت کو اس الزام کا اچھی طرح پتا ہے اور وہ اس لئے مشورہ دے رہا ہے کہ یہ کام عارضی ہو گا! اور ایک مرتبہ جب غزہ شہر مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جائے گا تو پھر فلسطینیوں کو واپس آنے کی اجازت ہو گی۔ پھر اسرائیل غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں سے اپنی جان چھڑا لے گا، اسے پانی اور بجلی سپلائی کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، اس کھڈے سے تجارت ختم ہو جائے گی اور اسے ہر طرح سے کاٹ کر تنہاء کر دیا جائے گا۔
یہ جنگ کا چوتھا اور آخری مرحلہ ہو گا جو گالانت کے مطابق ”غزہ پٹی میں انسانی جان کے حوالے سے اسرائیلی ذمہ داری کو ختم کر دے گا اور اسرائیل کی عوام کے لئے ایک نئی سیکورٹی حقیقت بن جائے گی“۔ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس کے لئے ایک دو کلومیٹر کی پٹی بنانے کی تیاری بھی ہو رہی ہے جو غزہ میں اسرائیلی سرحد کے ساتھ ایک قسم کا بفر ہو گا۔
ایک جنگ جو کئی جنگوں کو جنم دے گی
نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے سامنے ایک طویل جنگ موجود ہے جو دیوہیکل پیمانے پر غزہ کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد کر دے گی، بے تحاشہ انسانی جانیں نگل جائے گی اور پھر اسرائیل غزہ کے حوالے سے مستقبل میں ہر قسم کی ذمہ داری سے جان چھڑا لے گا جس کے بعد فلسطینی قدرت کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اگر اسرائیل کے موجودہ حکمران واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی قسم کا حل ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں!
سنجیدہ تجزیہ کار بارہا نشاندہی کر رہے ہیں کہ حماس کو تباہ و برباد نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں ان کے کئی جنگجو مارے جائیں گے، کئی اڈے تباہ ہوں گے اور ان کی قیادت کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ قیادت کا ایک حصہ اوراس کی حمایت غزہ میں نہیں ہے بلکہ اس سے باہر ہے۔ غزہ شہر کو مسمار کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ حماس اور اس کے جنگجوؤں کے ایک حصے نے پٹی کے جنوب میں بھی اڈے تیار کئے ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی فوج کو جنوب میں بھی شدید بمباری کرتے ہوئے جنگ کو جاری رکھنا پڑے گا۔
یہ دیوانے کا خواب ہے کہ ان حالات میں غزہ کی عوام اسرائیل کی منشاء کے مطابق باہر سے کوئی مسلط کردہ انتظام قبول کر لے گی۔ اسرائیلی فوج کشی ایک حقیقت کو یقینی بنائے گی اور وہ یہ کہ فلسطینیوں کی ایک پوری نئی نسل میں غم و غصہ بارود کی مانند بھر جائے گا۔ اس جنگ میں ہر حماس جنگجو کی موت پر دس نوجوان اس کی گری ہوئی بندوق اٹھانے کو تیار ہوں گے۔ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مزید خون ریز جنگوں کی زمین مزید زرخیز ہو گی۔
مغربی سامراجیوں کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے لیکن وہ انتہائی کمزور پوزیشن پر ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں امریکہ کی پوزیشن بہت زیادہ کمزور ہو گئی ہے۔ انسانی تاریخ کی طاقتور ترین سامراجی قوم، جس کی دیوہیکل فوجی قوت ہے اور پوری دنیا میں 80 سے زیادہ ممالک میں 700 سے زائد فوجی اڈے موجود ہیں، اس صورتحال کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہے۔ یہ نیتن یاہو کو ”مشورہ“ دینے، زیادہ زیادتی نہ کرنے پر خبردار کرنے اور کسی بھی پرخطر فیصلے سے پہلے سوچ بچار کی تلقین کرنے تک محدود ہے۔
امریکی سامراج کا تاریخی خصی پن اقوام متحدہ میں ہونے والے تماشوں سے بھی واضح ہو چکا ہے۔ سیکورٹی کونسل میں روسی، برازیلی اور امریکی قراردادیں پیش کرتے ہیں، یہ فوراً مسترد ہو جاتی ہیں اور پوری دنیا کے سامنے یہ بانجھ پن مزید واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔
لیکن حال میں ایک غیرپابند (Non-Binding) قرارداد جنرل اسمبلی میں منظور ہوئی ہے جس میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کو عرب ممالک نے پیش کیا اور قرارداد 120 حق میں اور 14 مخالفت میں ووٹوں کے ساتھ منظور ہوگئی جبکہ 45 ممالک نے ووٹ نہیں دیا۔ اگرچہ اس کے فوری عملی نتائج تو کچھ بھی نہیں ہیں لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی کتنے تنہاء ہو چکے ہیں۔ اس وقت بڑی سامراجی قوتوں میں طاقتوں کا توازن کیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی حمایت میں ’متفقوں کا اتحاد‘ آسٹریا، ہنگری، مارشل جزائر اور ٹونگا جیسے 12 سڑک چھاپ پہلوانوں سے بنا ہوا ہے!
اس بنیاد پر بائیڈن طوطے کی طرح غزہ کو ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد‘ دینے کی رٹ لگانے پر مجبور ہے اگرچہ وہ مسلسل اسرائیلی ریاست کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس نے یہ دور کی کوڑھی بھی لائی ہے کہ ایک مرتبہ جب جنگ ختم ہو جائے گی تو ایک سیاسی (عسکری کے برعکس) حل تلاش کیا جائے گا اور دو ریاستی حل پر غوروفکر کیا جائے گا۔
یہ بکواس در بکواس ہے کیونکہ دہائیوں سے مغربی کنارے میں جاری آبادکاریوں کے نتیجے میں دو ریاستی حل کی مادی بنیادیں ختم ہو چکی ہیں۔ مغربی میڈیا اس پر زیادہ بات نہیں کرتا۔ جنوبی اسرائیل پر حماس حملے سے پہلے، اسرائیلی ڈیفنس فورسز مغربی کنارے میں اپنے عسکری آپریشن مرکوز کر رہی تھی۔ کیا وجہ تھی؟ اس لئے کہ فلسطینی زمینوں پر آبادکاروں کی مسلسل جارحیت کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔
اس موسم گرماء تک 200 فلسطینیوں کو اسرائیلی فوجی اور آبادکار قتل کر چکے تھے۔ ان میں سے اکثریت مغربی کنارے کی رہائشی تھی۔ یہ مسلسل آبادکاری کے منظم اور منصوبہ بند عمل کا حصہ تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی اپنی ہی زمینوں پر کام کرتے ہوئے اپنی جانوں کے لئے خوفزدہ ہیں۔ اپنی ہی زمینوں پر زیتون کاشت کرنا موت کا پروانہ بن چکا ہے۔
جون میں نیتن یاہو حکومت نے مغربی کنارے میں آبادکاروں کے لئے ہزاروں نئی رہائشوں کی فوری منظوری دی تھی۔ یہ سب کچھ اکتوبر میں حماس حملے سے پہلے ہو رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلح آبادکاروں نے اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی مکمل حمایت کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو تیز تر کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مغربی کنارے میں 100 سے زائد فلسطینی قتل ہو چکے ہیں۔ غیرقانونی آبادکاریوں کا پروگرام سست رو ہونے کی بجائے تیز تر ہو گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کوئی ایک ٹھوس ملحقہ فلسطینی علاقہ موجود نہیں ہے۔ اس لئے بائیڈن جس سیاسی حل کی بات کر رہا ہے وہ اپنا وجود ہی نہیں رکھتا۔
نیتن یاہو اور پورا صیہونی حکمران طبقہ امریکی پشت پناہی کے ساتھ فلسطینیوں کو درپیش بھیانک صورتحال کی مسلسل تیاری کر رہا تھا۔ اس جرم میں برطانیہ سے لے کر، فرانس تک، اور جرمنی تک تمام مغربی سامراجی ممالک اور تمام چھوٹی قوتیں شامل ہیں جو اب قطار بنا کر ”اسرائیل کے حق دفاع“ کے پیچھے کھڑی ہیں۔
غزہ میں جاری جنگ جیسے حالات کو دیکھتے ہوئے مارکس وادی کبھی بھی اس گھٹیا بحث کا حصہ نہیں بنتے کہ ”کس نے آغاز کیا“۔ ہم 7 اکتوبر سے پہلے 75 سالوں سے جاری ہولناک اور ظالمانہ قبضے کو نظرانداز نہیں کریں گے اور صیہونی اور سامراجی چیخ و پکار میں شامل ہو کر حماس کو مکمل مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے۔ اس سوچ کی منطق ہی یہ نکلتی ہے کہ غزہ کی عوام کو موجودہ تباہی و بربادی کا ذمہ دار بنا دیا جائے یعنی مظلوم کو ہی مجرم بنا دیا جائے۔
یہ جنگ اس پالیسی کا تسلسل ہے جس کی بنیادیں 1948ء میں اسرائیل کے قیام میں پیوست ہیں جب 7 لاکھ 50 ہزار فلسطینیوں کی نسل کشی کرتے ہوئے انہیں اپنے ہی ملک سے ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ اس تاریخی جنگ میں فلسطینی عوام سے ایک ملک چھین لیا گیا ہے اور وہ مسلسل اپنی زمینوں کی مزید چھینا جھپٹی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
آج فلسطینی عوام کو جس طرح نقبہ یاد دلایا جا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ صیہونی حکمران طبقہ یہ حقیقت بھی نہیں چھپا رہا کہ وہ مغربی کنارے کی آبادکاری کے حامی ہیں۔ وہ 7 اکتوبر سے پہلے اس پالیسی پر کاربند تھے اور اب انہوں نے اسے مزید تیزتر کر دیا ہے جبکہ 7 لاکھ سے زائد یہودی آبادکار اس وقت مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور گولان ہائیٹس (مقبوضہ شامی علاقہ) میں موجود ہیں۔
یہ سب جنگ اس لئے ہو رہی ہے کہ فلسطینی قوم کو مسلسل قتل و غارت، پریشان، اپنی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اور غزہ میں ایک دیوہیکل کھلے آسمان زندان میں بند کر کے مایوس و مجبور کیا جا رہا ہے۔ کمیونسٹوں کو یہ تمام سچائی بیان کرنی چاہیے۔ انہیں اپنی تمام قوتیں، تمام توانائی اور محدود مسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہر جگہ حکمران طبقے کے پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
لیکن اس پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنا کافی نہیں ہے۔ جیسے جنگ بندی کا مطالبہ کرنا کافی نہیں ہے (اسرائیلی اور اس کے سامراجی حامی ویسے بھی کسی قسم کی جنگ بندی کے لئے تیار نہیں ہیں)۔ اس میں مضحکہ خیز اور ذلت آمیز ’انسانی بنیادوں پر وقفہ‘ بھی شامل ہے جس کا غلیظ اصلاح پسند اور سامراجیوں کا ایک حصہ مطالبہ کر رہا ہے کہ غزہ میں کچھ امداد بھیجی جائے جس کے فوری بعد آگ و خون کا کھلواڑ دوبارہ شروع کر دیا جائے۔ ہم کمیونسٹ اسی صورتحال کی بحالی کی جدوجہد نہیں کر رہے جس نے غزہ کی موجودہ تباہی و بربادی اور ہزاروں جانوں کی قربانی کی بنیاد رکھی ہے۔
ہمیں تفصیلی بیان کرنا ہے کہ فلسطینی عوام کی تباہی و بربادی کی بنیاد سرمایہ داری ہے۔ یہ نظام اپنے بحران میں مسلسل جنگوں کو جنم دے رہا ہے جس میں یوکرین اور یمن کی جنگیں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسے نظام کا نتیجہ ہیں جسے عرصہ دراز پہلے دفن ہو جانا چاہیے تھا۔ مشرق وسطیٰ کی عوام فطری طور پر فسلطینی قوم سے ہمدردی رکھتے ہیں اور ان میں سے کئی ان کے حقوق کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں۔
لیکن قاہرہ سے لے کر ریاض تک، خطے کا تمام حکمران طبقہ اور دیگر ایک آزاد فلسطین کی جدوجہد میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ اپنی عوام پر ظلم ڈھا رہے ہیں اور خوفزدہ ہیں کہ فلسطین کی حمایت میں اس جنگ میں شمولیت اپنے ہی گھر میں بغاوت کی آگ بھڑکا دے گی جس کے بعد ان کی طاقت اور مراعات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ عرب دنیا میں جس طرح فلسطین کی یکجہتی میں دیوہیکل مظاہرے ہو رہے ہیں، یہ خوف حقیقی ہے۔
کمیونسٹ واضح کرتے ہیں کہ موجودہ بحران کا واحد حل پورے خطے میں طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جس میں محنت کش اور غرباء اپنے امراء اور حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ان تمام جدوجہدوں کو ایک ساتھ جوڑ کر ہی مستقبل میں مشرق وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے خدوخال واضح کئے جا سکتے ہیں جو دہائیوں سے جاری جنگ اور تباہی و بربادی کا خاتمہ کرے گی۔
پھر، فلسطینیوں پر جاری جبر پوری دنیا کے تمام محنت کشوں اور نوجوانوں کے غم و غصے کا نکتہ ارتکاز بن چکا ہے جن میں سامراجی ممالک بھی شامل ہیں جہاں حکمران طبقے کے تمام تر جبر اور جھوٹ و بہتان کے خلاف دیوہیکل احتجاج منظم ہو رہے ہیں۔ موجودہ جنگ محنت کشوں کی عالمی جدوجہد میں ایک کلیدی عنصر بن چکی ہے۔