|رپورٹ: ثناء بلوچ|
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں حالیہ یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے حادثات نے دنیا بھر کی توجہ اس علاقے کی طرف مبذول کروائی ہے۔ گڈانی بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے سا حل سمندر پر واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو محنت کشوں خاص کر مشکل حالات میں کام کرنے والے محنت کشوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ ماہی گیروں کی چھوٹی بڑی آبادیوں پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ بھی اسی جگہ قائم ہے جو گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پر کام کرنے والے مزدور کن مشکل اور غیر محفوظ حالات میں سرمایہ داروں کے لیے سرمایہ پیدا کرتے ہیں اس کا اندازہ یکم نومبر 2016ء کے سانحے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس حادثے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تو 28مزدور شہید ہوئے جبکہ 4لا پتہ ہوئے مگر حقیقت میں تعداد اس سے دسیوں گنا زیادہ تھی۔ پرانے جہازوں کو توڑنے والے محنت کشوں کی کوئی لسٹ کبھی مرتب ہوئی ہی نہیں تھی۔ اس یارڈ میں پاکستانیوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان مزدوروں کی ہے جو مختلف پسماندہ ممالک سے پاکستان میں محنت کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ ان مزدوروں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے جبکہ یہ باقی مزدوروں سے کم اجرت پر کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اس لیے ٹھیکیدار ان کو کام پر لگا کر بھاری منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان میں بھی نادرا نام کے شناختی کارڈ بنانے والے ادارے کی خدمات حاصل کرنا اتنا مشکل ہے کہ جب تک شہریوں کو انتہائی ضرورت نہ ہو تب تک وہ شناختی کارڈ تک نہیں بنواتے۔ اسی طرح کسی بھی ناکارہ جہاز کو توڑنے کا کام جیسے ہی شروع ہوتا ہے اس پر کم از کم 200افراد کام کا آغاز کرتے ہیں تو یہ کہنا کہ صرف 28مزدور شہید ہوئے ہیں، سرا سر غلط ہے۔
اس سانحے کے بعد میڈیا نے مختلف سیاست دانوں کے بیانات بھی دکھائے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سمیت مختلف سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے جائے حادثہ کا دورہ بھی کیا۔ جس پر میڈیا کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ حالات اب بہتر ہو جائیں گے۔ مزدوروں کو حفاظتی سامان مہیا کر دیا جائے گا اور اس قسم کے حادثات پھر رونما نہیں ہونگے۔ لیکن اس جھوٹ در جھوٹ کی سیا ہی کو چھٹنے میں دیر نہ لگی اور 9جنوری 2017ء کو ایک بار پھر ایک جہاز میں آگ لگ گئی۔ اس حادثے پر بھی میڈیا کے مطابق 100کام کرنے والے محنت کشوں میں سے 5شہید ہوئے جبکہ 7زخمی ہوئے جو اپنی مدد آپ کے تحت اپنی جانے بچانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ حادثہ LPG ترسیل کرنے والے جہاز CHAMADR پر پیش آیا جوکہ اکتوبر سے پلاٹ نمبر 60پر ٹوٹنے کے لئے کھڑا تھا اس جہاز کا مالک شپ بریکنگ مالکان ایسوسی ایشن کا سابق سربراہ دیوان رضوان ہے جوکہ انتہائی بااثر شخص ہے۔ جس کی وجہ سے اس سمیت غفلت برتنے والے افسران اور بیوروکریسی کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ شپ بریکنگ یارڈ میں کام کو وقتاً فوقتاً بند کیاجاتا ہے تاکہ مزدور اپنے بچوں کی بھوک سے بیتاب ہو کر موجودہ اجرت سے بھی کم اجرت پر کسی مطالبے کے بنا ہی کام کرنے پر مجبور ہوکر خاموشی سے کام جاری رکھیں۔
سرمایہ داری کا سانپ اپنے پھن پھیلائے غریب محنت کشوں کی زندگیوں پر حملے کر رہا ہے۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں اس سے قبل بھی کئی حادثات رو نما ہوئے ہیں مگر ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس ایک جگہ پر کام کرنے والے افراد کی تعداد کم از کم 4000ہے مگر ان 4000محنت کشوں کے لیے کوئی ڈھنگ کا ہسپتال موجود نہیں ہے۔ ان دل دہلا دینے والے حادثات سے حکمرانوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے حالانکہ شپ بریکنگ یارڈ کے مزدوروں سے اتنا سرمایہ پیدا ہوتا ہے کہ سالانہ وفاق کو مختلف ٹیکسوں کی مد میں 25-24 ارب روپے ادا کیا جاتا ہے جبکہ بلوچستان گورنمنٹ کو 25-24 کروڑ سالانہ آمدنی ہوتی ہے مگر محنت کشوں اور یہاں کے عوام کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومت کے جانب سے بنیادی سہولیات تک کی فراہمی نہیں کی جاتی۔ اس پورے علاقے میں جہاں محنت کشوں کے علاوہ ایک بڑی آبادی موجود ہے ان کے لیے صرف ایک رورل ہیلتھ سینٹر ہے جس میں ایک ڈاکٹر، ایک ڈسپینسر، ایک وارڈ بوائے اور دوخواتین ہیں۔ RHC بلڈنگ خستہ حال ہے جوکسی بھی وقت منہدم ہوسکتی ہے اس لئے ڈینٹل کلینک کی بلڈنگ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فنڈز کی شدید قلت کی وجہ سے بنیادی ادویات بھی موجود نہیں ہیں۔ شپ بریکرزبھی اربوں روپے کمانے کے باوجودکسی قسم کا تعاون نہیں کرتے۔ ڈاکٹرکے مطابق صرف 2012ء میں انہوں نے ڈیڑھ لاکھ روپے RHCکو فنڈز کی مد میں دئیے تھے اس کے بعد ابھی تک کوئی فنڈ نہیں دیا گیا۔ جبکہ اس سینٹر میں ماہانہ 600محنت کشوں کو طبی امداد دی جاتی ہے۔ ان حادثات سے پہلے پورے یارڈ میں ایک ہی ایمبولینس تھی مگر اب انکی تعداد کو کچھ بڑھایا گیا ہے۔ اسی طرح یہاں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے حالانکہ 1992ء میں کویت کے فنڈز سے پائپ لائن بچھائی گئی تھی مگر ایک سال بعد ہفتہ وار پانی دیا جاتا تھا پھر15دن میں ایک مرتبہ اور اب مکمل بند ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ پانی عوام کو دینے کے لیے نہیں ہے مگر ٹینکر جو کہ 4000کا آتا ہے جتنی مقدار میں ضرورت ہو مل جاتا ہے۔ اسی طرح محنت کش دیگر حقوق سے بھی محروم ہیں، نہ تو سوشل سیکیورٹی دی جاتی ہے، نہ EOBIاور نہ ہی محنت کشوں کے بچوں کیلئے کوئی لیبر اسکول ہے۔ اگر ہے تو وہ حب انڈسٹریل ایریا میں ہے اور اس کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ہے۔
8جولائی 2015ء کو اوریزن کے پلازہ فسٹ فلور کے مقام پر شپ بریکرز ایسوسی ایشن گڈانی اور شپ بریکنگ لیبر یونین گڈانی کے درمیان بلوچستان انڈسٹریل ریلیشنز رولز 1973ء معاہدہ رول 77کے تحت ایک معاہدہ طے ہواتھا جس کی اہم نکات پر تاحال عمل درآمد نہیں کیا گیا جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
1۔ ہر پانچویں پلاٹ پر ایک کینٹین کا انتظام کیاجائے گا۔ تاکہ واجبی ریٹس پر مزدوروں کو معیاری کھانا میسر ہوسکے۔
2۔ ہر پلاٹ پر رہائشی اور سینیٹری انتظامات کو یقینی بنایا جائے گا۔
3۔ ہر پلاٹ پر پینے کے پانی کا فلٹر پلانٹ نصب کیاجائیگا۔
4۔ شپ بریکنگ رہائشی ایریامیں صفائی کا معقول انتظام کیاجائے گا۔ اور اس صفائی کو یقینی بنایا جائے گا۔
5۔ ہر پلاٹ رفع حاجت کے لئے گروپ لیٹرین کا انتظام کیاجائے اور اس کی صفائی کو یقینی بنایا جائیگا۔
6۔ ہر ایک پلاٹ پر علاج و معالج کا انتظام اور اسے مزید ریفائن کیاجائے گا۔
7۔ ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے ذرائع استعمال ہورہے ہیں جنہیں مزید ریفائن کیاجائے گا۔
8۔ معذوری کی صورت میں پینشن کی سہولیات اور یکمشت مبلغ دولاکھ روپے معذوری پینشن دی جائیگی۔
9۔ شپ بریکنگ یارڈ گڈانی میں بچوں کو اسکول لے جانے کیلئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیاجائے گا۔
10۔ شپ بریکرز ایسوسی ایشن کا رکنان کے بچوں کے لئے دس وظائف دینگے جبکہ ایک وظیفہ کی رقم 1500روپے ماہوار سے کم نہ ہو گی۔
لیکن آج تک اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ گڈانی شپ یارڈ سمیت ملک بھر میں محنت کشوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ محنت کشوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جو ادارے تشکیل دیئے گئے تھے ان کے افسران محنت کشوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے اپنے حصے کی رقم بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی کسٹم اور BDAکے مابین اختلافات کی وجہ سے BDAنے کام بند کروا رکھا ہے۔ کسی کوبھی محنت کشوں کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے انکے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنا حصہ بڑھانے کے تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن محنت کش بھی سمجھ چکے ہیں کہ حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے پاس ان کے مسائل کا حل نہیں مگر المیہ یہ ہے کہ محنت کشوں کی پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آرہی۔ مگر و ہ دن دور نہیں جب گڈانی کے محنت کش ملک کے دیگر محنت کشوں کے ساتھ جڑ کر مشترکہ مفادات کے خاطر جنگ لڑینگے۔ وہ محنت کشوں کی فتح کا دن ہوگا۔ یہی محنت کش اس استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکے گے اور برابری کا نظام رائج کرینگے۔