|تحریر: فضیل اصغر|
بے فکری، فراغت، سہانے خواب، جنون، جوش، اُمید، لگن، عشق، خوبصورتی، یہ وہ الفاظ ہیں جو عموماً ’جوانی‘ کی عمر کیساتھ منسوب کیے جاتے ہیں۔ مگر اردگرد نظر دوڑائی جائے تو نوجوانوں کی اکثریت اپنی اور اپنے خاندان کی دو وقت کی روٹی پوری کرنے کی تگ و دو میں اپنی جوانی میں ہی بزرگی کا منظر پیش کرتی ہے۔ جس عمر میں انہیں زندگی کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہونا تھا اس عمر میں وہ صبح سے شام ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس میں روز ان کی ہزاروں خواہشات کا قتل ہوتا ہے اور آئے روز بڑھتی ذمہ داریوں کی گھٹن ان کے صبر کا امتحان لیتی ہے۔ جو رات تک اس امتحان میں کامیاب ہو جاتا ہے اسے اگلے روز پچھلے دن سے زیادہ سخت ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو آہستہ آہستہ اسے ذہنی مریض بنا ڈالتا ہے۔ اور ناکام نوجوان اگلی صبح کسی سوشل میڈیا پوسٹ میں پنکھے سے لٹکا، نہر میں ڈوبا یا زہر کی گولی کھائے کمرے میں پڑا نظر آتا ہے۔ اگر کوئی سوشل میڈیا پوسٹ وائرل ہو جائے تو ٹی وی چینلوں پر جاری بکواس جس کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، میں پانچ دس منٹ کی خبر بن جاتا ہے یا پھر کسی این جی او کے خودکشیوں کے متعلق شائع کیے گئے سروے کے اعدادوشمار کا حصہ بن کر اس این جی او کیلئے نیلامی کا سامان بن جاتا ہے۔ پھر کوئی نامور اور مہنگے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی/کا پروفیسر صبح صبح کافی کے کپ کے ساتھ کسی انگریزی اخبار کیلئے ”خود کشیوں کے بڑھتے رجحان“ پر ایک مضمون لکھ ڈالتی/ڈالتا ہے جس میں سروے کے اعدادوشمار سمیت نفسیاتی بیماریوں اور دیگر وجوہات کے ذکر کے ساتھ خود کشی کی چند اور مثالوں کا حوالہ درج ہوتا ہے۔ اس امتحان میں فیل ہونے والوں میں سے بعض چور، ڈکیت، دہشت گرد، منشیات کا استعمال اور دھندہ کرنے والے بھی بن جاتے ہیں۔ اگر پاکستان کی کل آبادی کو 25 کروڑ تصور کر لیا جائے تو اس میں نوجوانوں کی تعداد 16 کروڑ بنتی ہے۔ یہ اس 16 کروڑ آبادی کا روز کا معمول ہے!
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ تقریباً زمین بوس ہو چکا ہے۔ تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کٹوتیوں کے نتیجے میں فیسیں بے تحاشہ بڑھا دی گئی ہیں جو موجودہ معاشی صورتحال میں بہت بڑی تعداد کیلئے ادا کر پانا ناممکن بن چکا ہے۔ مملکت خداداد میں تو پہلے ہی محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان، جو کہ اکثریت میں ہیں، اپنی زندگیوں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا تو منہ بھی نہیں دیکھ پاتے تھے، مگر معاشی بحران کی موجودہ صورتحال میں تو متوسط طبقے کی بہت بڑی تعداد بھی یونیورسٹیوں میں تعلیم جاری نہیں رکھ پا رہی۔ اگر ان ’خوش قسمتوں‘ پر نظر دوڑائی جائے جو ابھی بھی کسی نا کسی طرح تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں تو وہ بھی شدید ترین مسائل کا شکار نظر آتے ہیں۔ مہنگی ٹرانسپورٹ، مہنگی رہائش، ہاسٹلوں میں جیل نما کمرے جن میں بھیڑ بکریوں کی طرح طلبہ کو رکھ کر بندے پورے کیے جاتے ہیں، تباہ حال میس، کینٹینوں کے مہنگے اور غیر معیاری کھانے، انتظامیہ اور پروفیسروں کی ہراسانی، سیکورٹی کے نام پر کیمپس میں خوف کا ماحول، نسلی بنیادوں پر پروفائلنگ سمیت کئی اور مسائل ہیں جو انہیں مہنگی مہنگی فیسیں بھر کر بھی روز جھیلنے پڑتے ہیں۔
دوسری طرف اگر ان نوجوانوں پر نظر دوڑائی جائے جو ذلت بھری زمانہ طالب علمی کی زندگی سے آزادی حاصل کرلیتے ہیں اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد نوکری کی تلاش میں ہوتے ہیں، وہ یا تو ہاتھوں میں ڈگریاں اُٹھائے بیروزگاروں کی فوج کا حصہ بن جاتے ہیں یا پھر انتہائی کم اُجرت پر کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح فری لانسنگ بھی درحقیقت بیروزگاری سے وقتی فرار اور عارضی روزگار ہی ہے۔ پاکستان میں اس وقت بیروزگاری ایک خوفناک وباء کی صورت پھیل رہی ہے جس میں آئے روز شدت آتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے ’لیبر فورس سروے‘ میں شائع کیے گئے اعدادوشمار پر نظر دوڑائی جائے تو نا صرف یہ کہ وہ سراسر جھوٹ بلکہ انتہائی مضحکہ خیز نظر آتے ہیں۔ مثلاً 2018-19ء کے سروے میں بتایا گیا کہ پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 6.9 فیصد ہے۔ یہاں واضح رہے کہ یورپ کے ملک فرانس میں بیروزگاری کی شرح اس وقت 7.3 فیصد ہے۔ یعنی کہ پاکستان میں فرانس سے کم بیروزگاری ہے۔ ایسے مضحکہ خیز سروے درحقیقت حکمرانوں کی عوام دشمنی اور غیر سنجیدگی کا اظہار ہیں۔ ان سب کی اولادیں اور جائیدادیں بیرونِ ممالک میں ہیں۔ لہٰذا انہیں ٹکے کی پرواہ نہیں کہ پاکستان میں روز کتنے لوگ بھوکے سوتے ہیں اور کتنے پنکھوں سے لٹکتے ہیں! اس کا اظہار رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں (پی ٹی آئی، ن لیگ، پیپلز پارٹی، مذہبی پارٹیاں، قوم پرست پارٹیاں) کے نمائندے، جرنیل، بیوروکریٹ، جج، تجزیہ نگار، دانشور گاہے بگاہے اپنے بیانات اور پالیسیوں کے ذریعے بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی حکمرانوں کے پاس بیروزگاری جیسے خوفناک مسئلے کے حل کیلئے سرے سے کسی منصوبے کی موجودگی تو دور خواہش تک موجود نہیں۔
روز مرہ کے اس تمام تر ماحول اور ریاستی نااہلی کے نتیجے میں جنم لینے والی مایوسی نے پوری موجودہ نوجوان نسل کو بے شمار نفسیاتی بیماریوں کا شکار کر دیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج پاکستان میں محنت کش طبقے اور متوسط طبقے کا کوئی ایک نوجوان بھی نفسیاتی طور پر صحت مند نہیں ہے تو یہ بالکل بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ اچھے نمبروں کیساتھ ڈگری لینے کے پریشر سے لے کر انتہائی کم تنخواہ پر نوکری کرنے تک اور جنسی و نفسیاتی ہراسانی کا شکار بننے سے لے کر بیروزگاری کی ذلت تک نوجوانوں کو ہر طرف سے ذلت، رسوائی اور احساس کمتری کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی ادارے میں انہیں مجبوراً وہ سب کچھ پڑھنا پڑتا ہے جس میں انہیں رتی برابر بھی دلچسپی نہیں ہوتی مگر نوکری کیلئے اس ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اوپر سے رٹہ سسٹم اور مقابلہ بازی کا انتہائی رجعتی طریقہ تعلیم ان کے ذہنی تناؤ میں مزید ضافہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی والدین کا بھی اخلاقی پریشر ہوتا ہے کیونکہ بھاری بھرکم فیسیں تو وہی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح سکول سے لے کر یونیورسٹی تک طالب علم اپنے بچپن سے جوانی تک ایک ایسی زندگی جیتا ہے جس میں اسے روز وہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے جس میں اس کی رتی برابر بھی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس طرح جوانی تک پہنچتے پہنچتے وہ تقریباً ایک ایسی مشین بن چکا ہوتا ہے جو بس سانس لیتی ہے۔ اس دورانیے میں اگر کوئی طالب علم اچھے نمبر نہ لے سکے یا فیل ہو جائے تو بالخصوص یونیورسٹی کی سطح پر، تو ایک خوفناک نفسیاتی پریشر تلے دب کر وہ خود کشی جیسا انتہائی اقدام بھی اٹھا لیتا ہے۔ یہ انتہائی اقدام ایک تاریک مستقبل کے خوف کا رد عمل ہوتا ہے۔ ایسا مستقبل جو بیروزگاری اور در در کی ٹھوکریں کھانے سے بھرا ہوتا ہے۔ ایسا مستقبل جس میں والدین اور بہن بھائیوں کی ذلت نما زندگی آنکھوں کے سامنے ذلت و رسوائی میں ڈوب رہی ہوتی ہے۔ ایسا مستقبل جس میں فاقے، لاعلاجی اور معاشرے میں ذلت و رسوائی ہی مقدر نظر آرہا ہوتا ہے۔ آئے روز پاکستان کے مختلف علاقوں میں طلبہ خودکشیاں کرتے ہیں جس کی خبرمنظر عام پر عموماً نہیں آپاتی۔ ان کے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ گھر والے ہوتے ہیں جو اپنی ’عزت‘ بچانے کی غرض سے معاملے کو دبا دیتے ہیں۔ اسی طرح جو طلبہ خود کشی جیسا انتہائی اقدام نہیں اٹھاتے وہ بھی کئی خوفناک نفسیاتی بیماریوں کے ساتھ ہی موت نما زندگی ہی گزارتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اگر سالانہ خودکشیاں کرنے والے ہزاروں میں ہیں تو یہ موت نما زندگی گزارنے والے لاکھوں میں! مگر یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان جیسے ثقافتی طور پر انتہائی پسماندہ ملک میں مردوں اور عورتوں کو بھی برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا۔ لہٰذا سماج کے ہر شعبے میں خواتین کو دوہرے جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر نفسیاتی بیماریوں کا ذکر کیا جائے تو بلاشبہ طالبات اور نوجوان لڑکیاں لڑکوں کی نسبت زیادہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔
درحقیقت ڈپریشن سمیت کئی اور نفسیاتی بیماریوں کی وجہ اپنی زندگی پر کنٹرول نہ ہونا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں موجود استحصال اور اسکی پیدا کردہ بیگانگی کا نتیجہ ہے؛ یعنی کہ کسی شخص کی زندگی کے فیصلوں پر کسی اور کا اختیار ہونا۔ ایسی صورتحال میں وہ شخص اپنے آپ کو لاچار محسوس کرتا ہے۔ حکمران طبقے کے پالتو دانشور اور نفسیات دانوں کے مطابق اس لاچارگی کی وجہ قوت فیصلہ نہ کر پانے کی صلاحیت ہے۔ مگر یہ سراسر جھوٹ اور سطحی سمجھ بوجھ ہے۔ یہ لاچارگی قوت فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں بلکہ سماجی ڈھانچے میں اس کی پوزیشن اور کردار کی وجہ سے ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں تمام تر دولت منافع کیلئے پیدا کی جاتی ہے اور اسے پیدا کرنے والے محنت کش اس سے مکمل طور پر بیگانہ ہوتے ہیں۔ پھر یہی طرز پیداوار پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جس سے سماج کا ہر شعبہ نہ صرف اسی بیگانگی کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے بلکہ معاشرے کی اخلاقیات بھی اسی طرز پیداوار کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں۔ لہٰذا آخری تجزیے میں محنت کی منڈی ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ سکول سے لے کر یونیورسٹی تک ایک طالب علم کیا پڑھے گا اور کیا نہیں۔ والدین کی خواہشیں، تعلیمی اداروں کا کردار اور ریاستی نصاب بھی پھر مختلف ممالک میں حکمران طبقے کی معروضی ضرورتوں کے مطابق ہی ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں ہر نوجوان اور اسکے والدین کے فیصلے منڈی کے اصولوں کی حدود میں ہی مقید رہتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں ہر نوجوان کو وہی سب کچھ کرنا پڑتا ہے جس سے اسے روزگار مل سکے۔ لہٰذا اگر کوئی محنت کش یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا طالب علم اپنی مرضی کا کیرئیر چننے کا فیصلہ کر بھی لے تو طبقاتی سماج میں اسے وہ مواقع ہی میسر نہیں آتے کہ وہ اپنا پسندیدہ کیریئر فالو کر سکے۔ اگر وہ منڈی کے ان اصولوں کے خلاف جا کر کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو آخر میں اس کے خواب چکنا چور ہی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ساتھ ہی احساس محرومی اور احساس کمتری میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا ہے جو پھر عموماً اُسے خود کشی تک لے جاتا ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جہاں آئے روز حادثات اور ایسی قابل علاج بیماریوں، جن کی واضح علامات بھی موجود ہوتی ہیں، کی وجہ سے ہزاروں اموات واقع ہو رہی ہیں۔ جبکہ حکمرانوں کی جانب سے پھر بھی شعبہ صحت کے بجٹ میں لگاتار کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں بھلا نفسیاتی بیماریوں کو یہ حکمران کیسے سنجیدہ لے سکتے ہیں۔ اسی لیے حکمرانوں نے میڈیا اور نصاب کے ذریعے خصوصاً دیہاتوں میں یہ پروپیگنڈہ پھیلایا ہوا ہے کہ نفسیاتی بیماریاں جنات اور خلائی مخلوق کا سایہ ہیں جو پیِروں کے دَم درودوں سے ٹھیک ہو جاتی ہیں۔ اس طرح حکمرانوں نے نہ صرف اس سنگین مسئلے کو سِرے سے مسئلہ نہ قرار دے کر اس سے اپنی جان چھڑائی ہوئی ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ پیِروں اور گدی نشینوں کے دھندوں اور اثر رسوخ کا تحفظ بھی کیا ہوا ہے۔ دوسری طرف شہروں میں نام نہاد پڑھے لکھے دانشور، پروفیسر اور موٹی ویشنل سپیکر یہ درس دیتے نظر آتے ہیں کہ ان نفسیاتی بیماریوں کی وجہ لوگوں کی ذہنی کمزوری میں ہے۔ لہٰذا اگر وہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر طاقتور کر لیں تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ یعنی کہ ایک زخمی آدمی زخمی نہ ہو تو وہ زخمی نہیں ہوگا۔
ایسے میں کچھ موٹی ویشنل سپیکروں کا کہنا ہے کہ بیروزگاری کی وجہ نوجوانوں کے دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگی نہ ہونا ہے۔ یہ لوگ آج کل فری لانسنگ کو بڑھا چڑھا کر بھی پیش کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے نوجوان آزادانہ اپنی مرضی سے جو چاہیں کر سکتے ہیں اور بیروزگاری سے بھی بچ سکتے ہیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کہ اب وہ اپنی زندگیوں کے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔ یہ سراسر فراڈ ہے۔ اس کا مقصد نوجوانوں کو سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے رکھوالے حکمرانوں کے خلاف بغاوت سے روکنا ہے۔ فری لانسنگ بظاہر کافی انقلابی پیش رفت معلوم ہوتی ہے جس میں ہر نوجوان ٹیکنالوجی سے جڑی مہارت حاصل کر کے روزگار حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح ایسا کام کر کے جس میں اس کی دلچسپی ہو وہ بیگانگی سے بھی چھٹکارہ حاصل کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی نفسیاتی بیماریوں سے بھی۔ مگر تھوڑا گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ بھی دھوکہ ہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فری لانسنگ کی سماجی ساخت روایتی روزگار کے طریقہ کار سے مختلف ہے، مگر اس کا جوہر بالکل باقیوں جیسا ہی ہے۔ یعنی کہ فری لانسنگ میں بھی ایک شخص اُجرت کے عوض اپنی محنت ہی بیچتا ہے۔ لہٰذا وہ آخری تجزیے میں مزدور ہی بن جاتا ہے۔ اسی طرح اس کی خدمات (Services) خواہ وہ وڈیو، آڈیو، ڈیزائن یا کسی کمپنی یا دکان کا کھاتہ سنبھالنے کی صورت میں ہوں، کا اس کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ یہ سب کسی اور کیلئے کر رہا ہوتا ہے۔ اس طرح ہو سکتا ہے آغاز میں کسی نوجوان کو کسی کام میں دلچسپی ہو مثلاً ڈیزائن بنانے میں، مگر وہ دلچسپی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتی کیونکہ وہ یہ سارا کام بالآخر مجبوری کے تحت یعنی پیسوں کیلئے کر رہا ہوتا ہے۔ اس طرح اسے روزانہ یہ کام کرنا پڑتا ہے جو کہ ایک وقت آنے پر ایک شدید بیزاری کو جنم دیتا ہے۔ یہ بیزاری آئے روز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ درحقیقت کئی حوالوں سے فری لانسنگ باقی شعبوں سے زیادہ خوفناک ہے کیونکہ اس میں انسان باقی انسانوں سے مکمل طور پر کٹ کر رہ جاتا ہے اور کام کے اوقات کار بھی لا محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔
کیا اس ساری بحث سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ نوجوانوں کے پاس مستقبل میں سوائے ذلت، محرومی اور خودکشیوں کے اور کوئی راستہ ہی نہیں؟ ہر گز نہیں! جس طرح اوپر یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ان نفسیاتی بیماریوں اور خودکشیوں کی وجوہات اس سماج میں موجود ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چل رہا ہے۔ یعنی کہ ان سب کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اور پاکستان میں موجود تمام سیاسی پارٹیاں اور حکمران طبقے کے دیگر حصے اس نظام کے رکھوالے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنت ہی ایسی ہے کہ اس میں تمام تر دولت تو محنت کش پیدا کرتے ہیں مگر چونکہ ذرائع پیداوار سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے کنٹرول میں ہوتے ہیں لہٰذا ساری پیدا کردہ دولت بھی انہی کے کنٹرول میں ہوتی ہے جس سے وہ منافعے کماتے ہیں۔ اسی لیے امیر امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے اور غریب غریب سے غریب ترہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی لیے دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہو جاتا ہے اور عوام کی اکثریت بیروزگاری، مہنگائی، لاعلاجی اور ذلت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اسی لیے معاشی بحران میں سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ پیکج دیے جاتے ہیں مگر محنت کش عوام پر ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، تنخواہوں میں کٹوتیاں کی جاتی ہیں اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ چونکہ تمام سیاسی پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام کی رکھوالی کرتی ہیں لہٰذا سب ہی ایسی معاشی پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں جن سے سارا بوجھ محنت کش عوام پر ڈال کر سرمایہ داروں، جاگیرداروں، جرنیلوں اور حکمران طبقے کے دیگر حصوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ جب تک سرمایہ دارانہ نظام باقی رہے گا اس ذلت میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا، اور ڈپریشن، دیگر نفسیاتی بیماریوں کے ساتھ خودکشیوں میں بھی اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔
لہٰذا نوجوان ساتھیو! سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی صورت میں مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی اور ذلت سے بھری اس زندگی کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ مگر اس کیلئے رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، سرداروں، ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں، عالمی سامراجی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف کے خلاف علَم بغاوت بلند کرنا ہوگا۔ حکمران طبقے کی تمام پارٹیوں کے فراڈ سے خود بھی آگاہ ہونا ہوگا اور باقی نوجوانوں اور طلبہ کو بھی آگاہ کرنا ہوگا۔ وقتاً فوقتاً میڈیا اور ریاستی وسائل کے استعمال سے حکمران طبقہ مصنوعی لیڈر تیار کرکے نوجوانوں کے سامنے آپشن کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں۔ مگر جھوٹ آخر جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ یہ مصنوعی لیڈر تمام تر انقلابی لفاظی کے باوجود کبھی بھی سرمایہ دارانہ نظام کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ ان کی تقریروں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک لفظ تک نہیں ہوتا۔ آج صرف ایک انقلابی جدوجہد ہی ذلت و رسوائی سے چھٹکارے کا واحد رستہ ہے۔ ایک ایسی انقلابی جدوجہد جو سرمایہ ادرانہ نظام کے خاتمے کیلئے کی جائے، جو صرف سوشلزم کے انقلابی نظریات کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت ہی سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، باقی تمام نظریے اور حکمت عملیاں جھوٹ، فراڈ اور دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کیلئے طلبہ اور نوجوانوں کو سوشلزم کے انقلابی نظریات سے روشناس ہوکر ملک گیر سطح پر منظم ہونا ہوگا۔ یہی وہ نظریات ہیں جنہیں دنیا بھر کی طرح پاکستان کے حکمران طبقے نے بھی یہاں کے نوجوانوں کی دسترس سے دور رکھنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے۔
اسی پاکستان میں 1968-69ء میں انقلابی بغاوت ہوئی تھی جس میں سوشلزم کے نظریات کالجوں، یونیورسٹیوں، فیکٹریوں، کھیتوں اور کھلیانوں تک پہنچ چکے تھے۔ ایک ایسی سوشلسٹ انقلابی پارٹی کے فقدان کے باعث جس کے پاس اُس بغاوت کو سوشلسٹ انقلاب کی جانب لے کر جانے کا سائنسی پروگرام ہوتا، وہ بغاوت اپنے حتمی مقصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔ مگر پھر بھی اُس نے اُس وقت کے حکمران جنرل ایوب خان کا تختہ اُلٹ ڈالا۔ اسی لیے آج بھی پاکستان کے حکمران سوشلزم کے نظریات سے خوف کھاتے ہیں اور انہیں نوجوانوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقیناً ایک سوشلسٹ معاشرے میں ہی حقیقی انسانی آزادی ممکن ہے، جہاں ذاتی ملکیت اور مقابلے پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی صورت میں نفسیاتی بیماریوں کی بنیادیں ہی ختم ہو جائیں گی۔ مگر ہم یہ بھی یقین سے کہتے ہیں کہ جب پاکستان کے نوجوان سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک انقلابی جدوجہد کا حصہ بنیں گے تو انہیں زندگی میں پہلی بار خود اعتمادی اور اپنی ذات کا احساس بھی ہوگا۔ جب ایوانوں میں بیٹھے جاہل، نا اہل، کرپٹ، مغرور، اور عوام دشمن گٹر کے کیڑوں کو کروڑوں کے مجمع کی صورت میں وہ پہلی بار للکاریں گے تو سالہاسال کی ذلت و رسوائی کی گَرد، انقلابی سرشاری کے جذبے کی تازہ ہوا کے جھونکے سے اسی لمحے جھڑ جائے گی۔ اس کے بعد کروڑوں طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں کا انقلابی کارواں ایک تازہ دم انقلابی نفسیات کے ساتھ انقلابی ترانوں کی گونج میں حکمرانوں کے ایوانوں کی جانب بڑھے گا، اور ان گٹر کے کیڑوں کو ان ایوانوں سے نکال باہر پھینکے گا۔