|تحریر: آدم پال|

ٹرمپ کے دو اپریل کے اقدامات نے پوری دنیا میں بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ دنیا بھر کی منڈیاں تہہ و بالا ہو چکی ہیں اور ہر طرف قیامت کے منظر ہیں۔ تجارتی جنگ کا اب تک کا سب سے بڑا حملہ پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں میں زلزلہ برپا کر چکا ہے اور عالمی کساد بازاری کے امکانات پوری توانائی کے ساتھ روشن ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ نے امریکہ میں آنے والی بیشتر مصنوعات پر بڑے پیمانے پر ٹیکس لگا دیے ہیں جس سے گلوبلائزیشن اور عالمی سطح پر آزادانہ تجارت کا دور اختتام پذیر ہو گیا ہے اور تحفظاتی پالیسیوں کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ امریکہ میں امپورٹ ہونے والی ان مصنوعات پر دس فیصد ٹیکس عائد ہوگا جو ہر ملک سے آنے والی اشیا پر لاگو ہو گا اس کے علاوہ دنیا کے ہر ملک کے لیے الگ سے بھاری ٹیکس بھی نافذ کیا گیا ہے۔ جس میں چین پر 34فیصد، یورپی یونین پر 20 فیصد، جاپان پر 24 فیصد، انڈیا پر 26 فیصد اور پاکستان پر 29 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ ویت نام پر 49 فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے۔
عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام میں امریکی منڈی کی کھپت ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ عالمی معیشت کا دوسرا اہم ستون چین کی پیداواری صلاحیت اور برآمدات ہیں۔ یہ دونوں ستون گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے ڈگمگا رہے تھے لیکن اب ٹرمپ کے فیصلے نے انہیں دھڑام سے گرا دیا ہے۔ پاکستان جیسی کمزور معیشت کی بیس فیصد کے قریب برآمدات امریکہ بھیجی جاتی تھیں جن پر پہلے ڈیوٹیاں اور ٹیکس صرف ڈھائی فیصد تھے۔ ان برآمدات کے لیے یہاں پر بہت بڑی ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کی صنعت موجود تھی جہاں سے یہاں کا سرمایہ دار طبقہ ہر سال اربوں روپے کے منافع کماتا تھا۔ اب ان برآمدات پر 39 فیصد تک ٹیکس ادا کرنے پڑے گا۔ 2024ء میں پاکستان نے امریکہ کو 5.1 ارب ڈالر کی برآمدات کی تھیں جن کا مستقبل اب داؤ پر لگ چکا ہے۔اسی طرح چین نے 2024ء میں 3,580 ارب ڈالر کی برآمدات امریکہ بھیجی تھیں، جاپان نے 141.52 ارب ڈالر، ویت نام نے 119 ارب ڈالر، انڈیا نے 77.5 ارب ڈالر اور یورپی یونین نے 532 ارب یورو کی برآمدات امریکہ بھیجی تھیں۔ اب اس تمام تجارت پر کئی گنا زیادہ ڈیوٹی لگا دی گئی ہے جس کا اطلاق فوری طور پر کر دیا گیا ہے۔
ٹرمپ کے اعلان کے بعد پوری دنیا کی سٹاک ایکسچینج بد ترین گراوٹ کا شکار ہو گئیں اور صرف پہلے دو دنوں میں 5,400 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ امریکی کمپنیاں جو اپنی مصنوعات امریکہ کے باہر سے سستی لیبر سے تیار کروا کر امریکہ میں بیچتی تھیں ان کے حصص کی قیمتوں میں تیز ترین گراوٹ ہوئی۔ صرف ایپل کمپنی کو تین سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ عالمی معیشت کے مستقبل کے بارے میں بے یقینی مزید عدم استحکام پیدا کر رہی ہے اور ہر کوئی اپنے حصص بیچ کر سونے یا دیگر محفوظ اجناس میں سرمایہ کاری کر کے نکل رہا ہے۔ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ وہ یہ اقدامات اس لیے کر رہا ہے تاکہ امریکی معیشت کا احیا کر سکے اور اس کو بحران سے نکال سکے اور ساتھ ہی امریکی مزدوروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرسکے تاکہ صنعتیں دوسرے ملکوں سے نکل کر امریکہ میں لگیں۔ لیکن ان اقدامات سے پوری دنیا کی معیشت کا پہیہ رک سا گیا ہے اور آنے والے عرصے میں یہ زیادہ بڑے بحرانوں اور سرمایہ داری کے زوال پر منتج ہوگا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے بننے والا ورلڈ آرڈر دھڑام سے گر چکا ہے اور اس کی کرچیاں پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہونے والی گلوبلائزیشن اور نام نہاد آزاد تجارت کو دنیا میں پھیلانے میں امریکی سامراج کا ہی کلیدی کردار تھا۔ اسی مقصد کے لیے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے ادارے بنائے گئے اور پوری دنیا کے ممالک کو مجبو ر کیا گیا کہ وہ اپنے ملک میں امپورٹ پر کم سے کم ڈیوٹیاں اور ٹیکس لگائیں۔ اسی نظام کے تحت امریکی سرمایہ داروں سمیت دنیا بھر کے سرمایہ د اروں نے تاریخ کے سب سے بڑے منافع کمائے۔ ان ممالک کی معیشتوں کے بحرانوں کو ٹالنے میں بھی عالمی تجارت کے پھیلاؤ نے کلیدی کردار ادا کیا اور نئی منڈیوں کی تلاش اور ان میں اپنے مال کی کھپت سے عالمی سرمایہ داری کو وقتی سنبھالا بھی ملا۔2024ء میں عالمی تجارت کا حجم 33ہزار ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا جو 1950ء میں 63ارب ڈالر کے قریب تھی۔اسی طرح سستی لیبر کے لیے بھی دنیا کے پسماندہ ممالک کا انتخاب کیا گیا اور وہاں سے مال تیار کروا کر امیر ممالک میں فروخت کیا جاتا رہا۔امیر ممالک میں بیروزگاری اور قوت خرید میں کمی کو سستے قرضوں اور سرکاری طور پر نوٹ چھاپ کر پورا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اورمعیشتوں کو مصنوعی بنیادوں پر چلایا جاتا رہا۔ لیکن یہ تمام گھن چکر اب اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔
امریکی تحفظاتی پالیسیوں کے رد عمل میں دنیا کے تمام ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ چین نے امریکی مصنوعات کی درآمد پر 34فیصد ٹیکس لگا دیا ہے جبکہ یورپی یونین، جاپان اور دیگر معیشتیں بھی اسی قسم کے اقدامات کرنے پر مجبور ہیں۔اس کانتیجہ سرمایہ داری کے مزید بحران اور کساد بازاری میں نکلے گا اور پہلے ہی اس کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں اور اس صورتحال کا موازنہ 1929ء کے گریٹ ڈیپریشن کے ساتھ کیا جا رہا ہے جب انہی تحفظاتی پالیسیوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور سرمایہ داری کی تاریخ کے سب سے بڑے بحران نے جنم لیا تھا۔

اس صورتحال عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن اور سیاست میں بھی زلزلہ برپا کر دیا ہے اور پوری دنیا میں طاقتوں کا توازن بڑے پیمانے پر تبدیل ہو چکا ہے۔ یورپی یونین کا سامراجی کردار عالمی سطح پر محدود ہو چکا ہے اور امریکہ کے بعد چین اور روس بڑی طاقتیں بن کر ابھری ہیں۔ براعظم یورپ میں اس وقت روس سب سے بڑی فوجی طاقت ہے اور یوکرائن کی جنگ میں اس نے اپنے سامراجی عزائم کے دفاع میں نیٹو اور اس کے اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ اسی طرح چین ایک عالمی سامراجی طاقت بن کر ابھرا ہے جبکہ امریکی سامراج گو کہ ابھی بھی سب سے بڑی سامراجی طاقت ہے لیکن اس کا زوال اب پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکا ہے اور وہ دنیا کی تھانیداری سے دستبردار ہو کر اب صرف براعظم امریکہ پر ہی توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ کو عالمی اداروں سے باہر نکالنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے اور اقوام متحدہ سمیت ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کی فنڈنگ میں کمی کے ساتھ ساتھ ان میں دلچسپی کو بھی محدود کر دیا ہے۔ٹرمپ کی سب سے بڑی لڑائی امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے اور وہ اس پر بڑے حملے کرتے ہوئے اس کو کمزور کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ کا ریاستی اور سیاسی بحران بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔
عالمی سیاست اور طاقتوں کا توازن
امریکہ سامراج کے اس محدود کردار کے دنیا بھر کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان سمیت وہ تمام ممالک جو امریکی آشیر باد سے اپنا وجود قائم رکھے ہوئے تھے اور اس کے اشاروں پر ناچتے تھے اب کشمکش میں مبتلا ہو چکے ہیں۔دوسری جانب امریکہ اور چین کی سامراجی جنگ میں دنیا کے ہر ملک کا حکمران طبقہ اپنے مفاد کے تحت توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر ملک کے حکمران طبقے کی خواہش ہے کہ چین کے ساتھ بھی تعلقات نہ بگاڑے جائیں جبکہ امریکہ کو بھی راضی رکھا جائے۔ لیکن اس پالیسی کو زیادہ عرصے جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ چین کی معیشت کا عالمی سرمایہ داری کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ امریکی منڈیوں میں گراوٹ کے اثرات چین پر بھی پڑے ہیں اور وہاں بھی پہلے سے زوال پذیر معیشت گہرے بحرانوں میں داخل ہو رہی ہے۔ چین میں اتنی سکت نہیں کہ وہ امریکہ کی چھوڑی ہوئی جگہ کو پر کرسکے اور نہ ہی وہ عالمی معیشت کو سنبھالا دینے اور دنیا کا تھانیدار بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایسے میں علاقائی طاقتیں اپنے اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کی کوششیں کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں خانہ جنگیوں اور نئی جنگوں کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اس کی ایک واضح مثال ہے جہاں اب شام میں ترکی اور اسرائیل کا براہ راست ٹکراؤ بن رہا ہے۔
جنوبی ایشیا میں بھی طاقتوں کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک طرف انڈیا اپنے سامراجی عزائم کا کھل کر اظہار کر رہا ہے جبکہ اس کی معیشت ایک بہت بڑے بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ، مالیاتی دیوالیہ پن اور سیاسی ہیجان شدت اختیار کر چکا ہے اور اب معیاری طور پر ایک مختلف سطح پر پہنچ چکا ہے۔
پاکستان
پاکستان کی موجودہ صورتحال کا مکمل موازنہ ماضی کے کسی بھی دور سے نہیں کیا جا سکتا۔عالمی سطح پر طاقتوں کے ایک نئے توازن نے یہاں بھی ایک بالکل مختلف کیفیت کو جنم دیا ہے جس کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہوئے درست تجزیہ کرنا اور تناظر تخلیق کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایک طرف ملکی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے اور حکمران طبقہ عوام پر تاریخ کے سب سے بڑے حملے کر رہا ہے۔مہنگائی، بیروزگاری اور نجکاری کے حملے گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہیں لیکن آج یہ جس انتہا تک پہنچ چکے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لاکھوں سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے کاعمل جاری ہے اور صحت اور تعلیم کی جو تھوڑی بہت سہولیات بیس سے پچیس فیصد عوام کی پہنچ تک موجود تھیں انہیں تیزی سے ختم کیا جارہا ہے۔عالمی معیشت کے بحران کے باعث ہزاروں صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور لاکھوں مزدور بیروزگار ہورہے ہیں۔ بجلی، پانی، گیس کے بل سمیت ہر شے پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے اور عوام سے تمام بنیادی ضروریات بھی چھین لی گئی ہیں۔ زراعت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ایک جانب آٹے، چینی اور دیگر بنیادی اجناس کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور صارفین کو لوٹ کرذخیرہ اندوز اربوں روپے کماتے ہیں دوسری جانب ان اجناس کے کاشتکاروں سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے اور ان سے لاگت سے بھی کہیں کم قیمت پر پیداوار خرید کر سرمایہ داروں کی منافع کی ہوس کو تسکین دی جاتی ہے۔ اس تمام تر گھناؤنے عمل میں ریاستی ادارے کلیدی کردار کرتے ہیں اور ہر سال عوام دشمنی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔
اس صورتحال میں آبادی کی اکثریت نقل مکانی کے بارے میں سوچ رہی ہے یا عملی طور پر اس کاوش میں سرگرم ہے۔ہر سال سینکڑوں لوگ یورپ جانے کی کوشش میں زندگی گنوا بیٹھتے ہیں لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ لاکھوں لوگ اپنی تمام تر جمع پونجی خرچ کر کے اس ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور جلد از جلداس پاک سر زمین سے اپنی جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔اس ملک کی سات دہائیوں کی تاریخ کا یہی نچوڑ ہے۔
اس تمام صورتحال میں قومی جبر بھی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے اور مظلوم قومیتوں کے وسائل کی لوٹ مار اور ان کی قتل و غارت بھی اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔اس کیخلاف بغاوتیں بھی موجود ہیں اور عوامی تحریکیں بھی ایک کے بعد دوسرے خطے سے ابھر رہی ہیں جن میں لاکھوں لوگ شامل ہیں۔ اس وقت بلوچوں کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی تحریک موجود ہے جس نے اس ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس تحریک کی قیادت کو گرفتار کرکے اور کارکنان پر بد ترین جبر کر کے ریاست اس تحریک کو کچلنا چاہتی ہے لیکن اس عمل سے تحریک اور بھڑک چکی ہے اور قیادت کی رہائی کے لیے لاکھوں کے احتجاج ہو چکے ہیں۔ پر امن سیاسی جدوجہد کرنے والوں نے مسلح جدوجہد کے غلط طریقہ کار کی محدودیت کو بھی عیاں کیا ہے، لیکن قیادت کے قوم پرست نظریات اور سرمایہ دارانہ نظام پر کامل یقین نے تحریک کو دیگر مظلوم قومیتوں اور مزدور تحریک سے دور رکھنے میں نقصان دہ کردار ادا کیا ہے۔

اس ملک کے حکمرانوں نے چین سے سامراجی قرضوں کی بھیک مانگتے وقت ترقی اور خوشحالی کے بہت بڑے دعوے کیے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ سی پیک کے منصوبے سے یہاں پر دودھ اور شہد کی نہریں بہنی شروع ہو جائیں گی۔ لیکن کمیونسٹوں نے اس وقت بھی واضح کیا تھا کہ یہ چین کا سامراجی منصوبہ لوٹ مار کے مقاصد کے لیے لایاگیا ہے اور اس سے جہاں ملکی معیشت دیوالیہ ہو گی وہاں مظلوم قومیتوں کے وسائل کی لوٹ مار اور ان پر جبر اپنی انتہاؤں کو پہنچ جائے گا۔ آج یہ تناظر حقیقت بن چکا ہے۔ بلوچستان میں تاریخ کا سب سے ظالمانہ فوجی آپریشن جاری ہے جس میں ہزاروں سیاسی کارکنان کو پہلے سے زیادہ شدت سے جبری طور پر گمشدہ کیا جا رہا ہے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف شہروں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ صورتحال اتنی بد تر ہو چکی ہے کہ اب ورثا کو ان مسخ شدہ لاشوں کو حاصل کرنے کے لیے بھی تحریک چلانی پڑتی ہے۔ان احتجاجوں پر بھی کوئٹہ میں گولی چلائی گئی اور مزید کئی لوگ شہید کر دیے گئے جن میں کم عمر نوجوان بھی شامل تھے۔یہ صورتحال اس سماج ہی نہیں بلکہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ایک طرف لوگ بھوک، بیروزگاری اور علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے باعث خود کشیاں کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ایک انتہائی بنیادی حق کے لیے بھی احتجاج کرنے پر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ اس سے زیادہ بربریت اور کیا ہو گی۔
اس صورتحال میں ریاست کا داخلی بحران بھی شدت اختیار کر چکا ہے اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑے ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں۔اس کا سب سے بڑا اظہار پختونخواہ میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر سے ہورہا ہے۔ریاست عملی طور پر ناکام ہو چکی ہے اور طالبان کا اثر و رسوخ پھیلتا جا رہا ہے۔درحقیقت طالبان ریاست کے ایک دھڑے کی حمایت سے متوازی ریاستی بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دہشت گردی کواب ایک منظم انداز میں خانہ جنگی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا کردار اس میں مشکوک ہے اور وہ بظاہر دونوں جانب ہی لڑکھڑاتی نظر آتی ہے۔ عمران خان بطور وزیر اعظم طالبان کی کھل کر حمایت کر چکا ہے اور جرنیلوں میں اس کے حامی دھڑے کا سربراہ فیض حمید امریکی انخلا کے دوران کابل میں چائے پیتا ہوا دیکھا گیا تھا۔اسی باعث امریکی آقاؤں کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے جس کا خمیازہ وہ ابھی تک بھگت رہا ہے۔اس دوران عمران خان اور اس کے حامی امریکی آشیر باد حاصل کرنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں اور اب افغانستان کی بگرام ائیر بیس دوبارہ امریکی تحویل میں جانے پر شادیانے بجا رہے ہیں۔دوسری جانب موجودہ حکمران بھی ٹرمپ کے احکامات کی بجا آوری کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں اور اس کے لیے ہر حد عبور کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس دوران امریکی امداد اور توجہ کے حصول کے لیے لاکھوں افغان مہاجرین کو بیدخل کرنے کا ظالمانہ اقدام مسلط کیا جا رہا ہے۔ جب امریکی آشیر باد سے ڈالر جہاد مسلط کیا جا رہا تھا تو انہی افغانی مہاجرین کی مظلومیت کو بنیاد بنا کر اپنے سامراجی عزائم کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور ان کے ساتھ بھائی چارے کا ڈھونگ رچایا جاتا تھا لیکن اب انہی پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور اپنی ناکامیوں کا ملبہ ان پر ڈالا جا رہا ہے۔لیکن اس ظالمانہ کاروائی کے باوجود ابھی تک امریکی آشیر باد پہلے والی سطح پر حاصل نہیں ہو سکی بلکہ ڈالروں کی آمدکا سلسلہ بند ہوتا جا رہا ہے۔اس سلسلے میں یہاں کے حکمران سعودی عرب اور امریکی تعلقات میں موجود گرمجوشی سے بھی استفادہ حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن اس دوران چین کے یہاں پر موجود مفادات کا تحفظ کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ انڈیا کے خطے میں بڑھتے تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے چین کی حمایت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے جو ابھی بھی پاکستان کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرتا ہے۔
اس تمام صورتحال میں فیصلہ کن کردار اس ملک کا محنت کش طبقہ ہی ادا کرے گا اور اس کے پاس ہی وہ قوت ہے جو اس ساری بساط کو مکمل طور پر الٹ سکتی ہے۔اس وقت ملک میں عملی طور پر بد ترین آمریت ہے جو ماضی کی تمام آمریتوں سے زیادہ خونی اور جابرانہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ماضی کی نسبت سب سے کمزور بھی ہے اور مسلسل عدم استحکام اور بحران کا شکار ہے۔ ماضی میں جو تھوڑے بہت جمہوری تقاضوں کا تکلف کیا جاتا تھا وہ بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ، عدالتیں اور دیگر ریاستی ادارے مکمل طور پر مفلوج ہو چکے ہیں اور ان نوآبادیاتی طرز کے اداروں کی بنیادیں ہی بوسیدہ ہو کر زمین بوس ہو رہی ہیں۔ ایسے میں بظاہر لگتا ہے کہ جرنیل سب سے زیادہ طاقتور ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن درحقیقت وہ بھی سرمایہ دار طبقے اور سامراجی طاقتوں کے مفادات کے نگہبان ہیں اور انہی کی خدمت پر مامور ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کو موجودہ بحران زدہ شکل میں چلانے اور سرمایہ داروں کی منافع کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے اس وقت ننگے جبر اور خونریزی کی ہی ضرورت ہے اور جب تک یہ نظام اور یہ ریاست موجود ہے یہ ننگی جارحیت جاری رہے گی۔ مشرقی پاکستان میں ہونے والے مظالم اور خونریزی کی تاریخ بہت سے سیاسی کارکنان کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہے۔ اس وقت بھی ایک انقلابی تحریک کو کچلنے کے لیے یہ خونزیری برتی گئی اور خطے کی سامراجی طاقتوں نے مل کرعالمی طاقتوں کی مدد سے اس انقلاب کو پوری قوت کے ساتھ کچلا۔

آج بھی ملک بھر میں تحریکیں ابھر رہی ہیں جن میں لاکھوں لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ سندھ، بلوچستان، پختونخواہ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں قومی جبر کیخلاف تحریکوں سے لے کر پنجاب، پختونخواہ کے لاکھوں سرکاری ملازمین کے شاندارا احتجاجوں تک ہر طرف تحریکیں پھیل رہی ہیں۔آنے والے عرصے میں ان سے بھی بڑی تحریکیں ابھریں گی اور پورے ملک کا مزدور طبقہ اپنی بقا کے لیے احتجاجی تحریکوں میں ابھرنے پر مجبور ہو گا۔ ریاست اپنے بد ترین جبر کے باوجود ان تحریکوں کو ابھرنے سے نہیں روک سکے گی۔ اس کے علاوہ مذہبی بنیاد پرستی، فرقہ واریت، قومی و لسانی تعصب سمیت دیگر تعصبات کا زہر سماج میں پوری قوت سے انڈیلا جائے گا لیکن مزدور تحریک ان تمام تر تعصبات کو رد کرتے ہوئے طبقاتی جڑت کا اظہار کرے گی اور بنگلہ دیش، سری لنکا اور دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی انقلاب کی للکار محسوس ہو گی۔نا امیدی، پژمردگی اور مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے اور سماج پر حاوی نظر آنے والی سماجی اور سیاسی غلاظتیں اس طرح صاف ہو جائیں گی جیسے بہتا ہوا پانی غلاظت کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے اور اپنی شفافیت کو دنیا پر عیاں کرتا ہے۔
اس ملک کے مزدور طبقے میں اتنی طاقت ہے کہ اگر وہ متحد ہوجائے تو اس ریاست کے تمام تر جبر کو پاش پاش کر سکتا ہے۔مزدور طبقے کے اجتماعی عمل میں اتنی بصیرت ہے کہ وہ سامراجی طاقتوں کی سازشوں کو بے نقاب کرے اور مظلوم قومیتوں پر جبر کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوا ان کے حق خود ارادیت کے لیے عملی اقدامات کرے۔مزدور طبقہ اگر ایک دفعہ تحریک میں سرگرم ہو جائے تو پھر اس ملک کی تعفن زدہ سیاست کو ملیا میٹ کر سکتا ہے اور انقلابی سیاست کا نیا جنم ہو سکتا ہے۔اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی ترجمان ہیں اور اسی نظام میں لوٹ مار ان کا نصب العین ہے۔ ایسے میں مزدور طبقے کی تحریک نئی پارٹیوں اور نئی سیاست کو پروان چڑھائے گی اور وہی پارٹیاں مقبولیت حاصل کریں گی جو مزدور طبقے کے مفادات کو سب سے بہترین انداز میں آگے لے جا سکیں گی۔دوسری جانب اس طبقاتی جنگ میں سرمایہ دار طبقے کو بھی اپنے حملوں کا رخ براہ راست مزدور طبقے اور اس کے نظریات کی جانب کرنا ہوگا اور اسے سیاست سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ ٹرمپ نے امریکہ میں کمیونزم کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے اور یہ درست بھی ہے کہ ٹرمپ اور اس کی پالیسیوں کو امریکہ میں صرف کمیونسٹ ہی شکست دے سکتے ہیں۔لبرل تو مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور آجکل صف ماتم بچھائے اپنے نظریے کی قبر کھود رہے ہیں۔
ایسے میں پاکستان میں بھی اس انقلابی تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے واحد ہتھیار کمیونزم کے نظریات ہی ہیں۔انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے پاس ہی وہ پروگرام اور لائحہ عمل ہے جس کے تحت دہشت گردی، مذہبی بنیاد پرستی، قومی جبر، مہنگائی، بیروزگاری اور نجکاری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت ان تمام بیماریوں کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کی جراحی کے ذریعے ہی اس نظام کے کینسر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور کروڑوں افراد پر مشتمل اس سماج کو ترقی اور خوشحالی کے سفر پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔