فوکویاما کا تذبذب: ’’سوشلزم واپس آنا چاہیے‘‘

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: اختر منیر|

26 سال پہلے سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داری کے حامی خوشی سے پاگل ہوئے جا رہے تھے۔ وہ سوشلزم اور کمیونزم کی موت کی بات کرتے تھے۔ ان کے مطابق لبرل ازم کی جیت ہوچکی تھی اور تاریخی ارتقا نے سرمایہ داری کی صورت میں اپنا حتمی اظہار کر دیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب یوشی ہیرو فرانسس فوکویاما نے تاریخ کے خاتمے کی مشہور (یا بد نام) پیشین گوئی کی۔ اس بات سے اس کا مطلب یہ تھا: سوشلزم (سوویت یونین کی شکل میں) ناکام ہوچکا ہے، اب سرمایہ داری ہی واحد ممکن سماجی و اقتصادی نظام ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں’’آزاد منڈی کی معیشت‘‘، وہ نام جو فوکویاما اور اس کے ساتھ کے کئی اور لوگ استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے تھے۔

سرمایہ داری کا دفاع کرنے والوں نے پیشین گوئی کی کہ لبرل ازم کی فتح سے یقینی طور پر امن و آشتی کے دروازے کھل جائیں گے۔ معیشت دان امن کے نتیجے میں بچنے والی رقم کی بات کرنے لگے۔ سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سرمایہ دار حکومتیں سکولوں، ہسپتالوں، گھروں اور دوسری ایسی سہولیات پر بہت سے پیسے خرچ کرنے کے قابل ہو جائیں گی جو ایک تہذیب یافتہ زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں۔ صحراؤں کو گلستان بننا تھا، پیداوار کی بہتات ہونا تھی اور اس کے بعد انسانی نسل نے ہمیشہ کے لیے ہنسی خوشی رہنا تھا۔ آمین۔

ایک عام انسان کی زندگی میں 26 سال ایک بہت بڑا عرصہ معلوم ہوتے ہیں، مگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کی اہمیت ایک لمحے سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی انسانی تاریخ کے اتنے مختصر حصے میں سب کچھ بدل گیا اور ہیگل کے الفاظ میں چیزیں اپنے الٹ میں تبدیل ہو گئیں۔ آج اُس دور میں کی گئی پر اعتماد پیشین گوئیوں کی عمارت گر چکی ہے۔

تذبذب

یہ فرانسس فوکویاما کی بدقسمتی ہے کہ تاریخ کو اتنی آسانی سے کوڑے دان میں نہیں پھینکا جا سکتا اور اب تاریخ اس سے بدلہ لے رہی ہے۔ 1992ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داروں میں پائے جانے والے عمومی جوش وخروش سے متاثر ہو کر امریکا کے اس سیاسی مفکر نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان بہت دلچسپ تھا: ’’تاریخ کا خاتمہ اور آخری آدمی‘‘۔

26 سال قبل سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داری کے معذرت خواہان دیوانگی کی حد تک بغلیں بجا رہے تھے۔ آج ان کی ساری پیش گوئیاں ان کا منہ چڑا رہی ہیں۔

اس نے اس کتاب میں لکھا :

’’ہم اس وقت شاید انسان کے نظریاتی ارتقاء کی حد پر پہنچ چکے ہیں اور مغربی لبرل جمہوریت کی ہمہ گیریت انسانی حکومت کی حتمی شکل نظر آ رہی ہے۔‘‘

لیکن اس سال 17 اکتوبر کو نیو سٹیٹس مین (New Statesman) میں چھپنے والے ایک آرٹیکل میں وہ کوئی اور ہی راگ الاپ رہا ہے:

’’میں نے جو بات پہلے (1992ء میں) کی تھی وہ یہ ہے کہ جدید جمہوریت امن و آشتی تو فراہم کرتی ہے لیکن لوگ اس سے کچھ زیادہ چاہتے ہیں۔۔۔ لبرل جمہوریت اچھی زندگی کی تعریف کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتی۔ اس کام کو افراد پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو خود کو بیگانہ اور بے مقصد محسوس کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ شناختی گروہوں کا حصہ بن رہے ہیں جو انہیں اجتماعیت کا کچھ احساس مہیا کرتے ہیں۔‘‘

اس کے مطابق اس کے ناقدین نے ’’شاید کتاب (تاریخ کا خاتمہ) آخر تک نہیں پڑھی، آخری آدمی والا حصہ جو درحقیقت جمہوریت کو درپیش کچھ ممکنہ خطرات کے بارے میں تھا۔‘‘

ریگن اور بش کے دور میں ایک حکومتی اہلکار ہونے کے ناطے فوکویاما دراصل نیو کنزرویٹیو (Neoconservative) تحریک کے زیادہ قریب تھا۔ شاید اس بات سے منڈی کی معیشت اور لبرل ازم سے متعلق اس کے جوش کی وضاحت ہوتی ہے۔ لیکن تلخ تجربات نے اسے اپنے خیالات تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے، کم از کم کچھ حد تک۔


فوکویاما نے عراق جنگ کی حمایت کی تھی، مگر 2003ء تک اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ امریکی پالیسی کی واضح غلطی تھی۔ وہ مالیاتی لبرلائزیشن جیسے فرسودہ نیو لبرل خیالات کا بھی مخالف ہو گیا تھا

فوکویاما نے عراق جنگ کی حمایت کی تھی، مگر 2003ء تک اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ امریکی پالیسی کی واضح غلطی تھی۔ وہ مالیاتی لبرلائزیشن جیسے فرسودہ نیو لبرل خیالات کا بھی مخالف ہو گیا تھا، جو جزوی طور پر 2008ء کے بحران کا باعث تھے۔ وہ یورو کا بھی ناقد تھا، یا کم ازکم اس کی ’’ناموزوں تخلیق‘‘ کا:

’’یہ سب اشرافیہ کی طرف سے لاگو کی گئی پالیسیاں ہیں جو کافی تباہ کن ثابت ہوئیں، عام لوگوں کے پاس ان سے نالاں ہونے کے لیے کچھ وجوہات موجود ہیں۔‘‘

مارکس درست تھا!

فوکویاما کے خیالات میں آنے والی ڈرامائی تبدیلی دکھانے کے لیے ہم یہاں نیو سٹیٹس مین میں چھپنے والے اس کے آرٹیکل کے کچھ حصے پیش کر رہے ہیں:

’’تاریخ کا خاتمہ مارکسیوں کے لیے ایک کرارا جواب تھا جو کمیونزم کو انسانیت کا حتمی نظریاتی مرحلہ قرار دیتے ہیں۔ میں نے فوکویاما سے پوچھا کہ وہ امریکہ اور برطانیہ میں سوشلسٹ بائیں بازو کے دوبارہ ابھار کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ ’اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ سوشلزم سے کیا مراد لیتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ذرائع پیداوار کی ملکیت، عوامی سہولیات کے علاوہ جہاں واقعی اس کی ضرورت ہوتی ہے، کہیں چل سکے گی۔‘‘
’اگر اس سے مراد آمدنی اور دولت میں پیدا ہونے والے اس بہت بڑے فرق کو دور کرنے کے اقدامات ہیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ نہ صرف واپس آسکتا ہے بلکہ اسے ضرور واپس آنا چاہیے۔ ریگن اور تھیچر سے شروع ہونے والے اس طویل دور، جس میں آزاد منڈیوں کا خیال غالب تھا، کے بہت سے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔‘
’سماجی برابری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کی وجہ سے مزدور یونینز کمزور ہوئی ہیں، ایک عام محنت کش کی سودے بازی کی طاقت کم ہو چکی ہے، تقریباً ہر جگہ ایک اشرافیہ کا ٹولہ طاقت پکڑ چکا ہے جو ناجائز سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتا ہے۔ مالیاتی شعبے کی بات کی جائے تو مالیاتی بحران سے اگر ہم نے کچھ سیکھا ہے تو وہ یہ ہے کہ ہمیں اس شعبے کو باضابطہ بنانے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ ہم اگر ایسا نہیں کریں گے تو یہ عام لوگوں کو اس کی قیمت چکانے پر مجبور کرے گا۔ یہ تمام نظریات یورو زون میں بہت گہری جڑیں پکڑ چکے ہیں، جرمنی کی طرف سے جنوبی یورپ پر نافذ کی جانے والی کٹوتیاں انتہائی تباہ کن ہیں۔‘

فوکویاما کی اس بات پر میں حیران رہ گیا: 

’’اس موقع پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ کارل مارکس کی کہی ہوئی کچھ باتیں سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ اس نے زائد پیداوار کے بحران کی بات کی تھی۔۔۔ کہ محنت کش مفلس ہوتے جائیں گے اور منڈی کی طلب کم ہوجائے گی۔‘‘ 

ہم اس بات کو فی الحال ایک طرف رکھ دیتے ہیں کہ فوکویاما مارکسی معیشت کی کم تر سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے زائد پیداوار کو کم کھپت کے کینیشین تصور کے ساتھ گڈ مڈ کر رہا ہے۔ اتنے سالوں تک آزاد منڈی کی معیشت کے سکول میں دماغ شوئی کے بعد اس سے یہ امید کرنا زیادتی ہو گی کہ وہ مارکس کو سمجھے۔

یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ سرمایہ داری کے سنجیدہ حامی بھی یہ نتائج اخذ کر رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ بحران کا مارکسی تجزیہ بالکل درست تھا۔

بہرحال یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ سرمایہ داری کا ایک ممتاز حامی اور سوشلزم کا مخالف اب یہ نتیجہ نکال رہا ہے کہ سرمایہ داری کے بحران سے متعلق مارکس کا تجزیہ بنیادی طور پر درست تھا، اور آزاد منڈی کے بے قابو دھندے کے باعث ایک جانب تو بڑے پیمانے پر غربت پھیلی ہے اور دوسری جانب پوری دنیا پر ایک انتہائی امیر اور غیر ذمہ دار اشرافیہ کا تسلط قائم ہو چکا ہے۔

اور وہ بالکل درست کہتا ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا تو یہ اشرافیہ (امریکہ اور یورپ دونوں میں) ’’تمام لوگوں کو قیمت چکانے پر مجبور کرے گی۔‘‘ حقیقت میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔

فوکویاما کوئی حل نہیں بتاتا

یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ سرمایہ داری کے پکے ٹھکے حمایتی نے بھی اس کے رجعتی کردار کو سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن فوکویاما کا رویہ ایک ایسے ڈاکٹر کی طرح ہے جو مریض کی علامات کی ایک طویل فہرست تو بنا لیتا ہے مگر کوئی علاج تجویز نہیں کرتا۔

فوکویاما مالیاتی سرمائے کی تباہ کاریوں اور منڈی کے نظام کی افراتفری کے باعث پیدا ہونے والی بدترین محرومیوں سے آگاہ ہے اور بہت سارے لوگوں کی طرح اس نتیجے پر پہنچ گیا ہے کہ معیشت کو قابو میں لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن پھر وہ ناگزیر حتمی نتیجے تک پہنچنے سے ذرا پہلے ہی رک جاتا ہے۔ وہ نتیجہ یہ ہے کہ بڑی بڑی اجارہ داریوں اور بینکوں کو، جنہوں نے پوری دنیا پر ظالمانہ آمریت قائم کر رکھی ہے،نجی ملکیت سے نکالنا ہو گا۔

دوسری طرف وہ سوشلزم کی واپسی کی بات کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسے اس بات کا علم ہی نہیں کہ سوشلزم ہے کیا۔ وہ کہتا ہے کہ ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت ( عوامی سہولیات کے علاوہ) کام نہیں کرے گی۔ لیکن فوکویاما نے خود یہ نتیجہ نکالا ہے کے ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کام نہیں کر رہی، بلکہ الٹا یہ معاشی اور سماجی ترقی کو برباد کرتے ہوئے انسانیت کی اکثریت کے لیے بربادی، غربت اور اذیت کا باعث بن رہی ہے۔

اندھوں کو بھی یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ غیر منصوبہ بند سرمایہ دارانہ معیشت بڑے پیمانے پر افراتفری، ضیاع، بدانتظامی اور بدعنوانی پیدا کرنے کا نسخہ ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ منافع کی بے قابو ہوس، جو اس نظام کی واحد قوت محرکہ ہے، ماحول کو تباہ کر رہی ہے، اس ہوا میں زہر گھول رہی ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں، اس خوراک میں زہر گھول رہی ہے جو ہم کھاتے ہیں، ان سمندروں اور جنگلات کو برباد کر رہی ہے جو اس سیارے پر موجود زندگی کی بنیاد ہیں۔

سنجیدہ مسائل سنجیدہ حل کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ہسپانوی سوشلسٹ لارگو کبالیرو نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ کینسر کا علاج اسپرین سے نہیں کیا جا سکتا۔ فوکویاما عوامی سہولیات کو قومیانے کی حمایت کرتا ہے کیونکہ ’’صاف نظر آتا ہے کہ اس کی ضرورت ہے‘‘۔ ہم اس سے مکمل طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن، مثال کے طور پر، بینکوں کے معاملے میں یہ ضروری کیوں نہیں جنہوں نے عوام کی ایک بڑی رقم سنبھالنے کے معاملے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا؟

بینکوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر سٹے بازی، بدعنوانی اور نااہلی 2008ء کے بحران کی فوری وجہ تھی، جس کے نتائج کا ہم ابھی تک سامنا کر رہے ہیں۔ بالآخر آزاد منڈی کی معیشت کے ان پُر جوش حامیوں کو، جو معیشت میں ریاست کی کسی بھی قسم کی مداخلت کی مخالفت کرتے تھے، عوامی ٹیکس کے پیسوں کے بڑے بڑے ٹیکے لگا کر بچانا پڑا۔


بینکوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر سٹے بازی، بدعنوانی اور نااہلی 2008ء کے بحران کی فوری وجہ تھی

جیلوں میں پھینکے جانے کی بجائے، جس کے وہ حقدار تھے، انہیں ان کی نااہلی کے عوض قومی خزانے سے چرائی گئی بڑی بڑی رقوم سے نوازا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیوہیکل قومی خساروں کے نیچے دبے ہوئے ہیں، جس کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ چکانا پڑے گا۔ غریب امیروں کی امداد کر رہے ہیں۔ یہ سب رابن ہڈ کا الٹ ہے۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ سکولوں، ہسپتالوں، ضعیفوں کے تحفظ، پینشن، تعلیم، سڑکوں اور صفائی کے نظام جیسی فضول چیزوں کے لیے کوئی پیسے نہیں ہیں، یہ تمام چیزیں جن کی برطانیہ سمیت دنیا کے امیر ترین ملکوں میں حالت اس وقت ناگفتہ بہ ہے۔

اگر کوئی شعبہ ہے جسے فوری طور پر قبضے میں لینے کی ضرورت ہے تو وہ بڑے بینک ہیں۔ جناب فوکویاما کیوں انہیں نجی ہاتھوں میں رہنے دینا چاہتے ہیں؟ اگر ہم نیشنلائزیشن کو عوامی سہولیات تک محدود رکھتے ہیں تو معیشت کے سب سے اہم شعبے جوں کے توں رہیں گے، اسی اشرافیہ کے ہاتھوں میں جس کے خلاف فوکویاما دوہایاں دیتا ہے۔ اس قسم کے ’’سوشلزم‘‘ سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

واضح طور پر اصل مسئلہ یہ ہے کہ فوکویاما سوشلزم اور ریاستی ملکیت کو اس افسر شاہانہ اور آمرانہ حکومت سے ملا رہا ہے جو سوویت یونین میں موجود تھی۔ وہ یقیناًناکام ہوئی اور اسے ناکام ہی ہونا تھا۔ ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کے قومی منصوبہ بند معیشت کو بالکل اسی طرح جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح انسانی جسم کو آکسیجن کی۔

قومی ملکیت میں موجود منصوبہ بند معیشت اور بھرپور جمہوریت میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں بنتا۔ حقیقی سوشلزم کی بنیاد ہی منصوبہ بنانے اور اس پر عمل کرنے میں محنت کشوں کی بھرپور شرکت پر ہے۔ محنت کشوں سے ہماری مراد صرف صنعتی مزدور ہی نہیں بلکہ ان میں سائنسدان، معیشت دان، تکنیکی مہارت رکھنے والے لوگ اور منتظم بھی شامل ہیں۔

محنت کشوں کے اختیار اور انتظام کے بغیر معیشت لازمی طور پر ایک جگہ رک جائے گی، اور سوویت یونین میں بالکل یہی ہوا۔ وینزویلا کے تجربے میں ہمیں قومیائی گئی صنعتوں کو افسر شاہی کے ذریعے چلانے کے جرم کی پہلے سے بھی بڑی سزا ملتی نظر آ رہی ہے۔

چین کا راستہ؟

آرٹیکل سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فوکویاما کے خیال میں لبرل جمہوریت کا واحد قابل عمل متبادل سوشلزم نہیں بلکہ چین کا ریاستی سرمایہ داری کا ماڈل ہے:

’’چینی کھل کر یہ دلیل دے رہے ہیں کہ یہ افضل ہے، کیونکہ اس سے استحکام اور معاشی بڑھوتری کو ایک لمبے عرصے تک اس طرح سے یقینی بنایا جاسکتا ہے جیسے جمہوریت میں ممکن نہیں ہے۔۔۔ اگر آنے والے تیس سالوں میں یہ امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیں، چینی لوگ زیادہ امیر ہوں اور ملک قائم رہے، تو میں کہوں گا کہ ان کی یہ دلیل درست ہے۔‘‘

لیکن اس نے خبردار کیا کہ ’’حکومت کا اصلی امتحان‘‘ یہ ہوگا کہ معاشی بحران کے دوران وہ کیسی کارکردگی دکھاتی ہے۔

ان جملوں سے فوکویاما کی الجھن واضح ہوجاتی ہے۔ 26 سال پہلے وہ ایک تاثراتی تجربیت پسند (Impressionistic Empiricist) تھا، جب اس نے منڈی کی معیشت سے خوش فہمیاں وابستہ رکھی تھیں کیونکہ تب وہ مسلسل ترقی کرتی نظر آ رہی تھی۔ وہ آج بھی ایک تاثراتی تجربیت پسند ہی ہے، فرق بس اتنا ہے کہ اب وہ چین کی بھی ویسے ہی پزیرائی کر رہا ہے جیسے وہ مغربی سرمایہ داری (لبرل ازم) کی کیا کرتا تھا۔

فوکویاما کے نزدیک سرمایہ داری کا اصل مدمقابل سوشلزم نہیں بلکہ چین کا ریاستی سرمایہ داری کا ماڈل ہے

یہ سچ ہے کہ پچھلی کچھ دہائیوں میں چین کی معیشت تیزی سے آگے بڑھی ہے۔ مگر عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کا حصہ بننے کی و جہ سے اسے سرمایہ داری کے تضادات بھی وراثت میں مل گئے ہیں۔ چین اب زائد پیداوار کا شکار ہے جس سے اس کی شرح نمو میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال چین کی شرح نمو 6.5 فیصد ہے، لیکن صرف بڑھتی ہوئی آبادی کو ہی جذب کرنے کے لیے چین کو کم ازکم سالانہ 8 فیصد شرح نمو کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ فوکویاما نے اشارہ دیا ہے کہ چین کی معیشت کو عالمی معیشت میں ہونے والی ہلچل سے بھی خطرہ ہوسکتا ہے، جبکہ اسے اپنی زائد پیداوار کھپانے میں مشکل ہو رہی ہے اور امریکہ کے ساتھ بھی ایک کھلی تجارتی جنگ جاری ہے۔

یہ بھی ایک انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک ایسا شخص جو لبرل جمہوریت کا علمبردار بنتا ہے وہ چین کو ایک مثال کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ چینی حکومت انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے زیادہ اچھی شہرت نہیں رکھتی۔ دراصل چین میں سٹالنسٹ آمریت کی بد ترین خصوصیات کو سرمایہ داری کے سب سے منفی پہلوؤں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اس راستے پر چین اور دنیا کے کسی بھی ملک کے محنت کشوں کے لیے کوئی امید نہیں ہے۔

سرمایہ داری کا مطلب جنگ

دنیا کبھی بھی ایسی غیر مستحکم صورتحال سے دوچار نہیں ہوئی۔ یہ بات سچ ہے کہ سوویت یونین کے ہوتے ہوئے دنیا میں کسی حد تک استحکام موجود تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ روس اور امریکہ کے درمیان نسبتاً طاقت کا توازن قائم تھا۔ لیکن اب پرانا عالمی نظام بکھر چکا ہے اور اس کی جگہ لینے کے لیے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔

دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد امن وآشتی کی خوشگوار پیشین گوئیاں کیے کافی عرصہ بیت چکا ہے۔ آج کی حقیقی دنیا کا اس تناظر سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے برعکس جنگوں پر جنگیں ہو رہی ہیں۔ عراق، شام اور یمن جیسے ممالک کو چیر پھاڑ دینے والے ہولناک تنازعات کے علاوہ افریقہ میں بھی بھیانک جنگوں کا ایک سلسلہ جاری ہے۔

کانگو میں خوفناک خانہ جنگی کے نتیجے میں کم ازکم 50 لاکھ مرد، عورتیں اور بچے لقمہ اجل بن گئے۔ انہیں اخبارات کے پہلے صفحے پر بھی جگہ نہ مل سکی۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ کیا گیا معاہدہ پھاڑ کر پھینک دیا ہے جو اسے ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے تھا۔ اب اس نے ریگن اور گورباچوف کے درمیان ہونے والے معاہدے کو بھی ختم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے جس میں امریکہ اور روس کے ایٹمی پروگراموں پر قدغن لگائی گئی تھی۔

فوکویاما امریکہ اور چین کے درمیان ہونے والی ممکنہ جنگ کو لے کر پریشان ہے:

’’میرا خیال ہے کہ جو اس سے انکار کرے گا وہ انتہائی بیوقوف ہو گا۔ میرے ذہن میں ایسے بہت سے ممکنہ حالات ہیں جن کے نتیجے میں یہ جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ کسی ایک ملک کے دوسرے ملک پر جان بوجھ کر حملے کی صورت میں ہو گی، جیسے 1939ء میں جرمنی نے پولینڈ پر چڑھائی کردی تھی۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ تائیوان، شمالی کوریا یا جنوبی چین کے سمندر کی طرح کے کسی مقامی جھگڑے سے اسکا آغاز ہو سکتا ہے۔‘‘

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان تضادات کافی سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ ان کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یکطرفہ طور پر شروع کی جانے والی تجارتی جنگ کی صورت میں ہوا ہے، جو بآسانی ایک گھمبیر شکل اختیار کرتے ہوئے عالمی معیشت کو گرانے کا باعث بن سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح ایشیاء میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت، خاص طور پر اس کی علاقے کے سمندروں پر تسلط جمانے کی کوشش، کو امریکہ ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں، کہ تیسری عالمی جنگ ہونے جا رہی ہے۔ جدید حالات میں عالمی جنگ تمام فریقین پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گی۔ اور سرمایہ دار محض مزے کے لیے جنگ نہیں کیا کرتے، بلکہ ان کا مقصد منڈیوں کی تلاش، منافع اور اپنے اثرورسوخ کے علاقے حاصل کرنا ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ بھلے ہی ٹرمپ اپنی تقریروں میں گولہ بارود پھینکتا رہے، لیکن حقیقت میں ایک عالمی جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اس کے باوجود ہمیں چھوٹی چھوٹی جنگیں دیکھنے کو ملیں گی۔ اسی طرح کی ’’چھوٹی‘‘ جنگیں جو ہمیں عراق اور شام میں دیکھنے کو ملیں۔ جدید دنیا میں یہ بھی کم خوفناک نہیں ہیں۔ لیکن جنگیں محض ممالک کے درمیان سرمایہ داری کی بنیاد پر ناقابل برداشت تضادات کی جھلک ہوتی ہیں۔ انہیں منڈیوں کے لیے ایک دوسرے سے اس طرح لڑنا پڑتا ہے جس طرح بھوکے کتے گوشت کے ٹکڑے کی خاطر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ سرمایہ داری کا مطلب جنگ ہے، اور جنگ سے بچنا ہے تو اس کی بنیادی وجہ کو ختم کرنا پڑے گا۔

تاریخ کا پہیہ

1940ء میں جب ہٹلر کی فاتح افواج پیرس میں داخل ہوئیں تو ایک جرمن اور ایک فرانسیسی افسر کے درمیان دلچسپ گفتگو ہوئی۔ جرمن افسر نے جیت کے غرور میں شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ بالآخر اس کی قوم نے پہلی عالمی جنگ میں ہونے والی شکست کی ذلت کا بدلہ لے ہی لیا۔ فرانسیسی افسر نے اس کی جانب مڑ کر کہا: ’’ہاں! تاریخ کا پہیہ گھوم گیا ہے۔ یہ دوبارہ بھی گھومے گا۔‘‘
کچھ سال بعد اس کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد تاریخ کا پہیہ گھومتے ہوئے اپنا چکر پورا کر چکا ہے۔ سرمائے کے منصوبہ سازوں کی پیشین گوئیوں کے باوجود تاریخ اپنا انتقام لینے لوٹ آئی ہے۔ دنیا اچانک عجیب و غریب اور ان دیکھے مظاہر سے دوچار ہو گئی ہے، سیاسی ماہرین جن کی وضاحت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

ایک ریفرنڈم میں برطانیہ کے لوگوں نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا، ایک ایسا نتیجہ جس کی کوئی امید بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اس سے عالمی پیمانے پر ہلچل مچ گئی۔ لیکن یہ امریکی صدارتی انتخابات کے نتیجے میں آنے والے سونامی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک اور نتیجہ، اور جیتنے والا شخص بھی، جس کی کسی کو بھی امید نہیں تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب ایک اور زلزلہ تھا۔ یہ واقعات پوری دنیا کو متاثر کرنے والے عدم استحکام کا ڈرامائی ثبوت ہیں۔ راتوں رات ہی پرانے یقین ہوا ہو گئے۔ معاشرے میں ایک عمومی ہیجان پایا جاتا ہے، حکمران طبقے کو بے یقینی کی کیفیت نے گھیرا ہوا ہے ان کے نظریہ سازوں کو برے شگون نظر آ رہے ہیں۔


سیاسی تجزیہ کار ’’پاپولزم‘‘ کے ابھار کو لے کر کافی خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں: ایک ایسا لفظ جو جتنا بے معنی ہے اتنا ہی لچک دار بھی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار ’’پاپولزم‘‘ کے ابھار کو لے کر کافی خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں: ایک ایسا لفظ جو جتنا بے معنی ہے اتنا ہی لچک دار بھی ہے۔ ایسی بے ڈھنگی اصطلاحات سے صرف یہی پتہ چلتا ہے کہ انہیں ا ستعمال کرنے والوں کو خود بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔

اگر خالصتاً لسانی بنیادوں پر دیکھا جائے تو پاپولزم محض یونانی لفظ ’’Demagogy‘‘ کا لاطینی ترجمہ ہے۔ اس اصطلاح کو بالکل اسی طرح استعمال کیا جاتا ہے جیسے کوئی برا پینٹر اپنی غلطی چھپانے کے لیے دیوار پر رنگ کی ایک موٹی تہہ لیپ کر دیتا ہے۔ یہ اتنے مختلف سیاسی مظاہر کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ اس کا کوئی اصل مطلب بچتا ہی نہیں ہے۔

سیاسی اور سماجی ہیجان جو پوری دنیا کو اس کی بنیادوں تک ہلا رہا ہے، بہت گہرے بحران کی محض ایک علامت ہے۔ وہ بحران نیو لبرل ازم کا بحران نہیں ہے، جو صرف سرمایہ داری کی ایک شکل ہے، بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حتمی بحران ہے۔

یہ بحران ابھی کافی عرصہ رہنے والا ہے۔ سرمایہ داری کی بنیادوں پر اس کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔ حکومتیں آتی اور جاتی رہیں گی اور سیاسی منظرنامہ بائیں سے دائیں اور پھر دائیں سے بائیں جھولتا رہے گا۔ اس سے ہمیں بحران سے نکلنے کے لیے لوگوں کی بے چینی کا پتہ چلتا ہے۔

نام نہاد ’’پاپولزم‘‘ بھی اسی حقیقت کی ایک جھلک ہے۔ عوام تجربے سے سیکھتے ہیں، ان کے پاس سیکھنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ تجربہ ایک سخت استاد کا کام کرے گا اور انتہائی کڑوے اسباق ملیں گے۔ لیکن آخر کار وہ سیکھ لیے جائیں گے۔

ایک بات بہت واضح ہے۔ سرمایہ دار طبقے کے پاس اس بحران سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔ ان کے سیاسی اور معاشی نمائندوں میں الجھن اور حواس باختگی کی وہ تمام علامات پائی جاتی ہیں جو ایک ایسے طبقے کا خاصہ ہوا کرتی ہے جو اپنی تاریخی افادیت کھو چکا ہو، ایک ایسا طبقہ جس کا کوئی مستقبل نہ ہو اور اسے اس بات کا کسی حد تک اندازہ بھی ہو۔

سرمایہ دارانہ لبرل ازم کے معذرت خواہان ڈونلڈ ٹرمپ جیسے سیاستدانوں کے ابھار کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں جو ’’لبرل اقدار‘‘ کے بالکل الٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ سب ایک بھیانک خواب جیسا لگتا ہے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ ایک دن وہ صبح اٹھیں گے اور انہیں پتہ چلے گا کہ یہ سب ایک خواب تھا اور آنے والا دن پہلے سے بہتر ہو گا۔ لیکن بورژوا لبرل ازم کے لیے دوبارہ جاگنے کا کوئی موقع اور آنے والا کوئی کل نہیں ہے۔

اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو فرانسس فوکویاما کے بیانات علامتی طور پر کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سابق لبرل کا سرمایہ داری کے مستقبل سے اعتماد اٹھ چکا ہے، لیکن اسے کوئی قابل عمل متبادل دکھائی نہیں دے رہا۔ سرمایہ داری کے تمام منصوبہ سازوں کی طرح اسے بھی ’’واضح طور پر تاریک مستقبل‘‘ دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی نظریاتی ناامیدی بذات خود اس نظام کی ناامیدی کا اظہار ہے۔

مستقبل فرسودہ اور دیوالیہ بورژوازی کا نہیں ہے جو اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی۔ بلکہ مستقبل تو معاشرے کی اس واحد ترقی پسند قوت کا ہے جو اپنے ہاتھوں سے معاشرے کی تمام دولت پیدا کرتی ہے، وہ قوت محنت کش طبقہ ہے۔ اپنے تجربات سے ہی یہ طبقہ ایک دن اس نتیجے پر پہنچے گا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ سوشلزم اور محنت کشوں کے اقتدار کا راستہ ہے۔

Comments are closed.