فرانس کی’’ سوشلسٹ‘‘ حکومت کی مزدور دشمن قانون سازی

ٖتحریر: | جارج مارٹن
ترجمہ: اسدپتافی |

یہ آرٹیکل انگریزی میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

nuit-debout-twitter-picگزشتہ منگل دس مئی کو فرانس کے وزیراعظم مینول والز(Manuel Valls) نے آئین کے آرٹیکل 49.3کے تحت ایمرجنسی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ’’الخمری لیبر قوانین‘‘ کی منظوری دے دی، جو کہ سوشلسٹ پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ سے کھلی بغاوت کے مترادف ہے جنہوں نے اس مزدور دشمن بل کو پارلیمان میں پاس نہیں ہونے دیا تھا۔ اس کے رد عمل میں پیرس میں پارلیمان کے باہر اور ملک کے دوسرے شہروں میں مظاہرے پھوٹ پڑے، مظاہرین اس دھونس کو پارلیمانی جمہوریت کی صریحاً خلاف ورزی قرار دے رہے تھے۔ پیرس میں اس احتجاج کی کال ’’#NuitDebout‘‘موومنٹ اور دیگر مقامی ٹریڈیونینوں نے دی تھی۔ مظاہرین نے جو نعرے لگائے اور جو بینر اٹھائے ہوئے تھے ان میں اس کالے قانون کو مسترد کیا گیا، ٹولوز میں ٹریڈیونینوں کے ایک مشترکہ ہنگامی مطالبے پر ایک ہزار مظاہرین اکٹھے ہوئے، جبکہ لیون، مارسیلز، سٹراس برگ،ٹورز، رین، نانٹ، کان، گرینوبل، مونٹ پیلیئر اور دوسرے کئی شہروں میں سینکڑوں مظاہرین نے اس پر سخت احتجاج کیا۔
تمام تر مخالفت اور احتجاج کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایمرجنسی اختیارات کے تحت اس بل کو بالآخرمنظور اور مسلط کر دیا گیا۔ جس سے حکومت کی اس قانون کے اطلاق پر شدید عوامی مخالفت کے مقابلے میں بے بسی واضح نظر آتی ہے۔ اس قانون کے خلاف 9مارچ، 31مارچ، 9اپریل اور 28اپریل کو ملک گیر مظاہرے اور احتجاج بھی کیے گئے تھے۔
فنانشل ٹائمز لکھتاہے کہ’’ مسٹر اولاندے کی حکومت کی یہ انتہائی حرکت حکومت کی سیاسی کمزوری کا اعلان ہے، صدارتی الیکشن کو جبکہ ایک سال باقی ہے، یہ اقدام اشتعال کو تقویت دینے کا باعث بن رہاہے‘‘۔ مزدور قوانین میں ردِ اصلاحات کے خلاف تحریک نے ہزاروں لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں میں اضطراب اور تحرک کو جنم دیا ہے جس کا محور ’’بائیں بازو‘‘ کی حکومت کی جانب سے مسلط کی جانے والی ’’دائیں بازو‘‘ کی کٹوتیوں کی پالیسیاں ہیں۔


اس صورتحال میں ، جیسا کہ پہلے ہم یونان میں دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ظالمانہ انداز میں کٹوتیوں کی پالیسیاں مسلط کی گئیں اور محنت کشوں کو سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کر دیا گیاتھا، جس کی وجہ سے محنت کشوں کو بورژوا جمہوریت کے خلاف مزاحمت میں آنا پڑا۔سوال یا مسئلہ یہ نہیں کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کو اس کے پورے مطلب و مقاصد کے ساتھ دوبارہ بحال کیا جائے بلکہ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی جمہوریت کا مالیاتی سرمائے کی آمریت سے قطعی کوئی تال میل نہیں ہو سکتا۔
اب اس الخمری اصلاحاتی بل کوقانون بننے سے روکنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ دائیں بازو کی طرف سے پیش کی جانے والی اور زیرِبحث لائے جانی والی تحریک کے مقابلے میں حکومت کے خلاف سنسر شپ کی تحریک لائی جائے۔’’سوشلسٹ‘‘ حکومت کو امید ہے کہ وہ اپنے پارلیمانی گروپ کے اندراس قانون کی مخالفت کرنے والے لیفٹ کے نقادوں اور باغیوں کو بلیک میل کر کے اس قانون کے خلاف ووٹنگ سے روک لے گی۔ لیکن تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ آگے کیا ہوناہے! ڈی گاشے فرنٹ کے لیڈرجین لوک میلنشوں نے کہا ہے کہ وہ لیفٹ کی جانب سے سنسرشپ تحریک لائے جانے کا ساتھ دے گالیکن اگر ایسا ممکن نہ ہوا تووہ سبھی ارکان سے اپیل کرے گا کہ وہ دائیں بازوکی طرف سے پیش کیے جانے والے قانون کے حق میں ووٹ نہ دیں۔ کچھ سوشلسٹ باغی ارکان نے بھی کہا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف ووٹ دیں گے۔سوشلسٹ پارٹی کی قیادت نے اعلان کیا ہے کہ اگر کسی بھی رکن نے مخالفت میں ووٹ دیا تو نہ صرف اس کی رکنیت ختم کر دی جائے گی بلکہ اگلے الیکشن میں ٹکٹ بھی نہیں دیا جائے گا۔
اس دوران ٹریڈیونینوں اور طلبہ تنظیموں نے اس قانون کے خلاف12مئی کو مظاہروں اور احتجاج کی کال دی تھی جس کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔اب 17اور19مئی کو مزید مظاہرے اور احتجاج کیے جائیں گے۔ تاہم یونینوں کی قیادت جو حکمت عملی سوچ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ایک نہ ختم ہونے احتجاجی سلسلے کی کال دی جائے اور ساتھ ہی چوبیس گھنٹے کی ہڑتالیں بھی ۔جس سے ساری تحریک کے بیٹھ جانے کا اندیشہ ہے۔اس نوعیت کے پہلے بھی چار ڈے آف ایکشن کیے جا چکے ہیں اور یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ جب تک آپ ایسا ایکشن نہیں لیتے کہ جو حکومت کی طاقت سے زیادہ موثر ہو، آپ حکومت کو شکست نہیں دے سکتے۔
سی جی ٹی،ایف او،ایف ایس یو، سالیڈیریز اور ٹریڈ یونین تنظیموں سمیت ،ایف آئی ڈی ایل،یو این ای ایف اوریو این ایل طلبہ یونینوں کی جانب سے متفقہ طور پر پیش کیے جانے والا بیان اپنے مضمون اور مقاصد میں ابہام سے بھرپور ہے۔اس میں کہا گیاہے کہ قانون کے خلاف تحریک کو شدیداور مضبوط کیا جائے گا۔ لیکن یہ سب کیسے کیا جائے گا ، اس کا بیان میں کوئی ذکر نہیں۔ بیان میں مقامی برانچوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ عوامی اجلاس منعقد کریں اور بحث اتاریں کہ کس طرح سے ایکشن، ہڑتالیں وغیرہ منظم کی جائیں۔ ایک واضح رہنما لائن دینے کی بجائے یہ ٹریڈیونین قیادتیں اپنے کارکنوں سے کہہ رہی ہیں کہ وہ ایک ٹوکری لے کر جگہ جگہ جائیں اور تجاویز لائیں۔ قیادت ایسے نہیں ہو ا کرتی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ہم آنے والے ہفتوں میں بڑے مظاہروں کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے،حتیٰ کہ ایک ملک گیر احتجاج کو بھی‘‘۔کہا گیاہے کہ ’’ہم اگلے ہفتے ایک بڑی میٹنگ کریں گے اور آئندہ کے فیصلے لیں گے‘‘۔یہ سب بیکار ہے کیونکہ حکومت اس قانون کو زبردستی منظور اور مسلط کر چکی ہے۔اور اس کا مستقبل سنسرشپ پر ووٹنگ سے منسلک ہے۔’’اگلا ہفتہ‘‘ بہت دور ہے ۔
ایک مکمل کام بند تحریک ہی اب مسئلے کا واحد حل ہے۔محنت کشوں اور خاص طور پر نوجوانوں میں اضطراب اور غم وغصہ انتہاپر ہے۔اس قانون کے نفاذسے یہ غم وغصہ اور اضطراب ایک شعلہ بن کرآگ کو بھڑکا سکتاہے۔

Comments are closed.