|تحریر:آفتاب اشرف|
14جولائی 1789ء، ورسائی نزد پیرس
شاہی محل پردن ڈھل چکا تھا۔ فرانس کا بادشاہ لوئی شش دہم معمول کے مطابق اپنی خواب گاہ میں بیٹھا ڈائری لکھ رہا تھا۔ وہ رنجیدہ تھا کیونکہ آج اسے شکار سے خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا تھا۔ اچانک دروازے پر زور کی دستک ہوئی۔ بادشاہ نے ناگواری سے دربان کو دروازہ کھولنے کا کہا۔ ایک شاہی قاصد ہانپتا کانپتا اندر داخل ہوا اور فرشی سلام بجا لانے کے بعد لرزتی ہوئی آواز میں بولا،
”جاہ پناہ!! آج پیرس کے عوام نے باسٹیل قلعے پر دھاوا بول کر اس پر قبضہ کر لیا۔۔۔“
”کیا یہ کوئی بغاوت ہے؟؟؟“ بادشاہ نے حیرت بھر ے لہجے میں پوچھا۔
”نہیں حضور۔۔یہ انقلاب ہے۔۔“ شاید نہ چاہتے ہوئے بھی قاصد کے منہ سے سچ نکل گیا۔
ہاں، بلاشبہ وہ انقلاب ہی تھا۔ فرانس کا عظیم انقلاب جس نے بادشاہت کے صدیوں پرانے ادارے کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا، کلیسا کا طلسم توڑ ڈالا، جاگیر دار ی کا خاتمہ کیا، جس کے ”آزادی، مساوات، اخوت“ کے نعرے کی گونج نے یورپ کے ہر ایک تخت وتاج پر لرزہ طاری کر دیا، جس نے اشرافیہ کے جبر تلے نسلوں سے سسکتی انسانیت کو سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دیا اور ان کے سینوں میں ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی امنگ جگائی۔ یہ انقلابِ فرانس ہی تھا جس نے بورژوا پیداواری رشتوں کے دنیا پر غلبے کی راہ ہموار کی؛ قوم اورقومی ریاست کو تخلیق کیا؛ جمہوری نظامِ حکومت کو متعارف کرایا؛ ریاست اور مذہب کی علیحدگی کی بنیاد رکھی؛ فلسفے، سائنس، آرٹ اور تکنیک میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا، یہاں تک کہ اوزان وپیمائش کا عالمی نظام یعنی ’میٹرک سسٹم‘ بھی اسی انقلاب کی دین ہے۔ یقینا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمارے ارد گرد کی جدید دنیا کا جنم انقلابِ فرانس کے بطن سے ہی ہوا تھا۔ مگر اس انقلاب کا سیاسی، سماجی و معاشی پس منظر کیا تھا، اس کی طبقاتی حرکیات کیا تھیں، اس کے عروج وزوال کی کہانی کیا ہے، یہ وہ سوالات ہیں جن کا احاطہ ہم اس تحریر میں کرنے کی کوشش کریں گے۔ بلاشبہ انقلابِ فرانس کا تاریخی کردار بورژوا جمہوری تھا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی تاریخ کے اس عظیم واقعے کے مطالعے سے آج سوشلسٹ انقلاب کے لئے برسر پیکار سیاسی کارکنان ایسے بہت سے اہم اسباق حاصل کر سکتے ہیں جو ان کی جدوجہد میں معاون ثابت ہوں گے۔ آئیے، ایک تاریخی سفر پر چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جب عام انسان اپنا مقدر بدلنے پر آتے ہیں تو جرأت وہمت کی کیسی لازوال داستانیں رقم کرتے ہیں۔
خیالات میں تلاطم
چودہویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں سرمائے کے ابتدائی ارتکاز کے تحت یورپی بورژوازی کا جنم ہوا۔ یہ نومولود بورژوا طبقے کا بعض بڑے شہروں میں اکٹھ اور اس کے طبقاتی مفادات کاجاگیری اور کلیسائی اشرافیہ کے ساتھ ٹکراؤ ہی تھا جس نے یورپی نشاۃ ثانیہ کے لئے درکار سماجی فضا مہیا کی۔ لیونارڈو ڈاونچی، مائیکل اینجلو، تھامس مور، میکاولی، میرنڈولا، گلیلیو، کیپلر، کوپرنیکس اور فرانسس بیکن جیسے نابغوں نے قدیم یونانی علوم کو بنیاد بناتے ہوئے فلسفے، سائنس، آرٹ، علمِ سیاست وسماجیات میں گراں قدر اضافے کیے اور صدیوں سے چھائی شعوری پراگندگی کو چیلنج کر دیا۔ احیائے علوم کے ان ابتدائی علمبرداروں کو اشرافیہ کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کسی کو مذہبی عدالتوں میں گھسیٹا گیا تو کسی کو زندہ جلا دیا گیا مگر ایک طرف بورژوازی کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ اور اس کے طبقاتی مفادات کی ضرورت اور دوسری طرف یورپ کے مختلف حصوں میں جاگیری اشرافیہ کے خلاف پے در پے ہونے والی کسان بغاوتوں نے وہ سیاسی و سماجی ماحول بنائے رکھا جس میں نشاۃ ثانیہ کے خیالات پھیلتے اور دماغوں کو منور کرتے چلے گئے۔ نشاۃ ثانیہ کی فکری حاصلات سے ہی سترہویں صدی عیسوی کی آخری دہائیوں میں روشن خیالی کا جنم ہوا۔ بلاشبہ خیالات میں لگنے والی اس معیاری جست کے لئے مادی و سماجی بنیادیں فراہم کرنے میں سولہویں صدی کی آخری دہائیوں میں ہیپسبرگ شاہی تسلط کے خلاف ہونے والی ولندیزی بغاوتوں اور خاص کر1640ء کی دہائی میں برپا ہونے والے انگلستان کے بورژوا جمہوری انقلاب کا ایک کلیدی کردار تھا۔ روشن خیالی کی فلسفیانہ بنیادیں عقلیت پسندی اور تجربیت پسندی پر استوار تھیں۔ ان نظریات کی محدودیت اپنی جگہ لیکن تاریخ کے اُس عہد میں یہ ڈیکارٹ، ڈیڈہرو، ہیوم، تھامس ہابس، جان لاک، سپی نوزا، ایڈم سمتھ، نیوٹن، والٹیر اور روسو جیسے روشن خیالوں کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ثابت ہوئے جن کے ذریعے انہوں نے نظام قدیم یعنی جاگیرداری، شاہی تسلط اور کلیسائی جبر کی اخلاقی و نظریاتی بنیادوں کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی روشن خیالی کے مکمل نظریاتی غلبے کی صدی تھی۔ اس صدی میں برپا ہونے والے دیگر کئی اہم واقعات بشمول امریکہ کی تاج بر طانیہ کے خلاف جنگِ آزادی(83-1775ء) جو درحقیقت امریکہ کا بورژوا جمہوری انقلاب تھا، نہ صرف روشن خیالی کو مزید ترویج دینے کا سبب بنے بلکہ وہ خود بھی ان نظریات کی گہری چھاپ لئے ہوئے تھے۔ ایسی صورتحال میں فرانس کیسے خیالات میں برپا ہونے والے اس تلاطم سے محفوظ رہ سکتا تھا۔ انقلاب سے قبل کی دہائیوں میں فرانسیسی بورژوازی روشن خیالی کے اس سرچشمے سے سیر حاصل استفادہ کر چکی تھی۔ لیکن یہ تمام ریڈیکل نظریات بورژوازی کے ڈسکشن کلبوں اور ڈرائنگ رومز تک ہی محدود رہ جاتے اگرنظام قدیم کے ظلم و استبداد سے تنگ آئے فرانس کے عوام اپنی عملی جدوجہد کے ذریعے مخالف قوتوں کو پاش پاش نہ کرڈالتے۔ بلاشبہ ہر انقلاب کی طرح انقلابِ فرانس کی حقیقی قوتِ محرکہ بھی عوام ہی تھے۔
انقلاب سے قبل فرانس کے سماجی حالات
انقلاب سے قبل کا فرانس جاگیر داری کے فرسودہ پیداواری رشتوں، گھن زدہ بادشاہت کے ظالمانہ تسلط اور مذہب کی آڑ لے کر لوٹ مار میں مگن کلیسا کے بوجھ تلے دبے ایک تباہ حال سماج کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔ بورژوازی ہو یا عوام دونوں اس نظام قدیم سے تنگ آ چکے تھے اگرچہ دونوں کے مسائل، طبقاتی مفادات اور نظام سے تضادات مختلف تھے۔
فرانسیسی بورژوازی یہ سمجھ چکی تھی کہ جاگیردارانہ پیداواری رشتے ان کے طبقاتی مفادات کے راستے میں ایک رکاوٹ ہیں۔ وہ سمندر پار انگلستان کی بورژوازی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور درست طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ترقی کرنے کے لئے انہیں بھی انگریز بورژوازی کی طرح قدرتی وسائل تک آزادانہ رسائی، بلا روک ٹوک ایک ملکی منڈی کی تخلیق، ناپ تول کے یکساں پیمانوں، خام مال کے حصول، پیداوار اور تیار مال بیچنے پر قرون ِوسطیٰ سے چلے آنے والے بے شمار جاگیر دارانہ ٹیکسوں سے چھٹکارا اور اس افرادی قوت کی ضرورت ہو گی جو جاگیر دارانہ رشتوں تلے دبے کسانوں یا مزارعوں کی صورت میں موجود تھی۔ واضح رہے کہ وہ شعوری طور پر جاگیر دار طبقے کی زرعی ملکیت کا خاتمہ نہیں چاہتے تھے، کیونکہ اس سے بحیثیت مجموعی ”ملکیت کا تقدس“ خطرے میں پڑ سکتا تھا، بلکہ انگلستان کی طرز پر قدیم پیداواری رشتوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ان کی ملکیت کے بورژوائے جانے کے حامی تھے۔ یعنی آسان الفاظ میں وہ جاگیر دار اشرافیہ کو بورژوا زرعی مالکان میں تبدیل کرنے کے خواہاں تھے۔ اسی طرح وہ ایک جدید مرکزیت پسند ریاست کے بھی خواہاں تھے جس کی باگ ڈور بحیثیت طبقہ ان کے ہاتھ میں ہو اور وہ ان کے طبقاتی مفادات کی نگہبانی کرے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ بادشاہت کا ادارہ اپنی موجودہ ہیئت میں ایسی ریاست تخلیق کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا اور یہی وجہ تھی کہ وہ بادشاہت کو بھی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن دوسری طرف وہ ملکیت کے تقدس کو خطرے میں ڈالنے والے سماجی انتشار کی قیمت پر بادشاہت کا خاتمہ نہیں چاہتے تھے بلکہ اس ادارے میں اصلاحات کر کے اسے اپنے طبقاتی مفادات کے تابع کرنا چاہتے تھے۔ کچھ ایسی ہی خواہشات ان کی کلیسا کے متعلق بھی تھیں۔
لیکن عوام کیا چاہتے تھے؟ وہ روٹی چاہتے تھے کیونکہ وہ بھوکے تھے۔ اگرچہ فرانس کے پاس بہترین زرعی زمین کی کوئی کمی نہیں تھی مگر فرسودہ جاگیردارانہ پیداواری رشتوں کی وجہ سے زرعی پیداوار مسلسل روبہ زوال تھی۔ مزید برآں ایسے حالات میں بھی بہترین قابل کاشت اراضی کا ایک قابل ذکر حصہ جاگیر داروں کی ملکیت میں بے کار پڑا رہتا تھا۔ بھوک کا یہ عالم تھا کہ انقلاب سے پہلے کی دہائی میں آبادی کا کم از کم ایک تہائی حصہ مسلسل قحط سالی کا شکار رہتا تھا۔ رہی سہی کسر بورژوازی نے پوری کر دی تھی جس کی ذخیرہ اندوزی نے شہروں میں بھی روٹی کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح بھوک کی ماری عوام اور خصوصاً دیہی آبادی نظام قدیم کے تحت بادشاہ، جاگیر دار اور کلیسائی اشرافیہ کی جانب سے مسلط کردہ ٹیکسوں (جو نظام کے مطابق اشرافیہ کا حق تھے) کی بھر مار تلے کچلی جا رہی تھی۔ ان انواع و اقسام کے ٹیکسوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس پر ایک علیحدہ مضمون قلم بند کیا جا سکتا ہے لیکن مختصراً یہ کہنا بالکل حقیقت پر مبنی ہو گا کہ سانس لینے اور حوائج ضروریہ سے فراغت کے علاوہ باقی تقریباً ہر چیز اور ہر عمل پر مختلف قسم کے ٹیکس نافذ تھے جنہیں تلوار کی نوک پر وصول کیا جاتا تھا۔ پیداوار پہلے ہی نہایت کم تھی اور جو ہوتی تھی وہ ٹیکسوں کی صورت میں چلی جاتی تھی۔ اگر کوئی ٹیکس دینے کے قابل نہ ہوتا تو اس سے جاگیری رسم ورواج کے مطابق جبری مشقت لی جاتی تھی۔ اس تمام صورتحال کے نتیجے میں پوری کی پوری آبادیاں بھوکا مرنے یا بھکاری بننے پر مجبور تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں ان ظالمانہ ٹیکسوں سے نجات حاصل کرنے کی شدید خواہش موجود تھی۔ اس کے علاوہ کسانوں میں زمین کے حصول کی تمنا بھی شدت سے موجود تھی (واضح رہے کہ آئندہ سے اس تحریر میں ہم جب بھی ’بورژوا‘ کے سابقے کے بغیر لفظ کسان استعمال کریں گے تو اس سے مراد زمین کی ذاتی ملکیت سے محروم وہ دیہی آبادی ہے جو زراعت کے ساتھ وابستہ تھی)۔ حکمران طبقات کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے مؤرخین کے جھوٹوں کے برعکس، جو عوام کو چھینا جھپٹی کرنے والے وحشیوں سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے، کم از کم انقلاب کے ابتدائی مراحل تک بھی کسان جاگیر داروں کی براہ راست زیر کاشت اراضی کے درپے نہیں تھے بلکہ صرف جاگیر کے اس ٹکڑے کی ملکیت چاہتے تھے جسے جاگیر دار نے محنت یا پیداوار کی صورت میں موصول ہونے والے مختلف ٹیکسوں کے بدلے کاشت کی غرض سے ان کے حوالے کیا ہوا تھا، زمین کا وہ ٹکڑا جسے انہوں نے اپنی محنت سے آباد کیا تھا اور جس پر وہ نسلوں سے بیج بو رہے تھے۔ اس کے علاوہ 1669ء میں جاری ہونے والے ایک شاہی فرمان کے تحت جاگیر داروں نے آہستہ آہستہ دیہات کی مشترکہ ملکیت میں موجود زمینوں، چراگاہوں اور جنگلوں پر بھی قبضہ جمانا شروع کر دیا تھا اور انقلاب تک ان مشترکہ زمینوں کا ایک بڑا حصہ ان کے تصرف میں جا چکا تھا۔ اس عمل نے غربت اور دیہی آبادی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ غربت کے مارے کسان ان زمینوں کو واپس دیہات کی مشترکہ ملکیت میں لانے کے خواہاں بھی تھے۔
شہروں میں بھی عوام کی حالت دگرگوں تھی۔ تیزی سے پھیلتی ہوئی دیہی غربت کی وجہ سے انقلاب سے قبل کی دہائیوں میں نیم پرولتاری شہری آبادی میں قابل ذکر اضافہ ہوا تھا مگر چونکہ انگلستان کے برعکس فرانس میں صنعت کاری ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہی تھی لہٰذا اس بڑھتی ہوئی شہری آبادی کا ایک بڑا حصہ بیروزگار ی اور شدید غربت کی زندگی گزار رہا تھا۔ شہری عوام پر جاگیری ٹیکسوں کا بوجھ دیہی آبادی کی نسبت قدرے کم تھا لیکن یہاں پر یہ کسر شہر کی میونسپل انتظامیہ کی جانب سے لگائے جانے والے ٹیکسوں نے پوری کر رکھی تھی۔ جرائم، بھیک منگی اور لڑائی جھگڑے شہر کے غریب علاقوں میں معمول کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔
ایسی صورتحال میں عوام کے دل ودماغ میں نظام قدیم کے حکمران طبقات کے خلاف شدید غم وغصے کا پلنا ایک ناگزیر عمل تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ عوام روشن خیالی کے نظریات سے بالکل ہی ناواقف تھے بلکہ یہ نظریات مختلف اشکال میں ہزاروں راستوں کے ذریعے کم از کم عوام کی لڑاکا پرتوں میں کسی حد تک سرایت کر چکے تھے لیکن حتمی تجزیئے میں یہ عوام کے حالاتِ زندگی ہی تھے جنہوں نے انہیں انقلاب برپا کرنے پر مجبور کر دیا۔ مزید برآں 1789ء کا انقلاب اچانک ہی آسمان سے نہیں ٹپکا تھا۔ 1782ء سے فرانس کے مختلف دیہی علاقوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی پے در پے کسان بغاوتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل رہا تھا جو کہ حکمران اشرافیہ کے تمام تر ننگے جبر کے باوجود انقلاب تک بڑھتا ہی گیا۔ اسی طرح انقلاب سے قبل کے سالوں میں شہروں میں بھی روٹی کی قلت اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے آئے روز دنگے ہوتے رہتے تھے جنہیں قابو میں لانے کے لئے کئی بار شاہی فوج کو بھی طلب کرنا پڑتاتھا۔ 1789ء کا انقلاب ایک لمبے عرصے سے چلے آنے والے اسی سالماتی عمل میں آنے والی ایک معیاری تبدیلی کا نتیجہ تھا۔
ایک عام تاریخی مغالطہ
انقلابِ فرانس اپنے کردار میں ایک بورژوا جمہوری انقلاب تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کے بارے میں ذرا سا ابہام بھی بے شمار غلط فہمیوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن اس انقلاب کی حرکیات کا سرسری علم رکھنے والے لوگوں میں اس حقیقت کی جانکاری اکثر اوقات ایک تاریخی مغالطے کو بھی جنم دیتی ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ چونکہ یہ ایک بورژوا جمہوری انقلاب تھالہٰذا اس کی حقیقی قوتِ محرکہ بھی بورژوازی ہی تھی اور اسی نے جرأت کے ساتھ پہل کرتے ہوئے نہ صرف اس انقلاب کو برپا کیا تھا بلکہ اس کو منطقی انجام تک بھی پہنچایا تھا۔ اسی طرح اکثر لوگوں کو یہ غلط فہمی بھی ہوتی ہے کہ چونکہ نظام قدیم کے حکمران طبقے کی صورت میں بورژوازی اور عوام کا دشمن ایک ہی تھا لہٰذا ان دونوں نے بالکل یکجان ہو کر اس کے خلاف لڑائی لڑی اور ان کے باہم کوئی تضادات نہیں تھے۔ لیکن ایسا سمجھنا بالکل غلط ہو گا۔ یہ درست ہے کہ اس انقلاب کے نتیجے میں بورژوا پیداواری رشتوں کی بڑھوتری میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو گئیں اور بورژوازی حکمران طبقہ بن کر ابھری۔ یقینا اس عہد کی مادی حدود و قیود کے پیش نظر اس کے علاوہ اور کوئی نتیجہ نکل بھی نہیں سکتا تھا لیکن بورژوازی نہ تو انقلاب کی حقیقی قوتِ محرکہ تھی اور نہ ہی اس میں اتنی جرأت تھی کہ وہ اسے برپا کرتی یا اسے منطقی انجام تک پہنچاتی۔ یہ تاریخی کارنامہ فرانس کے عوام نے سرانجام دیا تھا۔ بلاشبہ ہم روبسپئیر، دانتون، مارات، سینٹ جسٹ،کیمیل ڈسمولنز اور ہیبرٹ جیسے بورژوا ریپبلکن ازم کے سب سے ریڈیکل نمائندوں کو انقلاب کی قیادت کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان لیڈروں کے تاریخی کردار کا اصل راز انقلاب کے ہر ایک فیصلہ کن موڑ پرعوام کی طرف سے کی گئی جرأت مندانہ پہل گامی کو زبان دینے یا پھر صورتحال کے مطابق عوام کا موڈ بھانپتے ہوئے ان سے حرکت میں آنے کی اپیل کرنے پر مشتمل تھا۔ جبکہ دوسری طرف بورژوازی، اور خصوصاً اس کی بالائی پرتوں، نے انقلاب کے ہر ایک مرحلے پر اپنی ملکیت کو زک پہنچنے کے خوف سے قدیم حکمران طبقات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اسی طرح ہمیں انقلاب کے دوران بورژوازی اور عوام کے طبقاتی مفادات کا ٹکراؤ بھی نظر آتا ہے۔ مثلاً بڑے شہروں میں بورژوازی کی بالائی پرتیں روٹی کی قلت کے بدترین عرصے میں بھی بڑے پیمانے پر خوارک کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں سٹے بازی کے ذریعے خوب مال بنا رہی تھیں جبکہ عوام فاقہ کشی پر مجبور تھے۔ ایسے ہی دیہی علاقوں میں خوشحال بورژوا کسانوں کی پرت جاگیر داروں کی طرف سے ہتھیائی گئی مشترکہ زمینوں کی واپسی کے مطالبے میں تو غریب کسانوں کے ساتھ ہم آہنگ تھی لیکن غریب کسانوں کے بر عکس ان کی خواہش تھی کہ ان زمینوں کو واپس دیہات کی مشترکہ ملکیت بنانے کی بجائے قطعوں میں بانٹ کر فروخت کر دیا جائے تا کہ وہ انہیں خرید کر اپنی ذاتی ملکیت میں اضافہ کر سکیں۔ اور اسی طرح بے شمار دیگر معاملات میں بھی بورژوازی اور عوام کے مابین موجود طبقاتی تضادات کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ عوام کی نفرت اور غم و غصے کا مرکزی نشانہ نظام قدیم کے حکمران طبقات ہی تھے لیکن وہ بورژوازی کی بالائی پرتوں کو بھی ناپسندیدگی اور شک کی نظر سے ہی دیکھتے تھے۔ جیسے جیسے انقلاب آگے بڑھا یہ ناپسندیدگی کھلی نفرت میں تبدیل ہوتی گئی۔ بورژوازی کو بھی اس حقیقت کا بخوبی اندازہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ عوامی تحرک ہمیشہ انہیں خوف میں مبتلا کر دیتا تھا اور وہ نظام قدیم کے خلاف عوام کی قیادت کرنے کی بجائے حکمران طبقات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ انقلابِ فرانس کی وہ پیچیدہ طبقاتی حرکیات ہیں جن کو سمجھے بغیر ہم کبھی بھی اس عظیم تاریخی واقعے کو اس کی کُلیت میں نہیں سمجھ سکتے۔
1۔ 1789ء: انقلابی طوفان کا پہلا ریلا
انقلابات کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بھی انقلاب سے قبل حکمران طبقہ خود تقسیم ہوجاتا ہے اور اس میں موجود دراڑیں واضح شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ حکمران طبقے کی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے یہ آپسی لڑائی سماج پر مزید گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ فرانس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ نااہلی، بدانتظامی، بے تحاشا عیاشیوں اور برطانیہ کے ساتھ سمندر پار مہنگی جنگی مہم جوئیوں کے نتیجے میں بادشاہت بے تحاشا مقروض ہو چکی تھی۔ شاہی قرضہ 1774ء میں 93ملین پاؤنڈ سے بڑھ کر 1789ء میں 300 ملین پاؤنڈ ہو چکا تھا۔ کئی سالوں سے شاہی دربار اپنے اخراجات پورے کرنے اور پرانے قرضے لوٹانے کی خاطر مسلسل نئے قرضے اٹھا رہا تھا۔ مگر 1786ء تک بادشاہت کی مالی صورتحال اتنی تشویشناک ہو چکی تھی کہ اس کے لئے نئے قرضوں کا حصول بہت مشکل ہو گیا تھا۔ عوام پہلے ہی انواع و اقسام کے ٹیکسوں کے بوجھ تلے اتنے پسے ہوئے تھے کہ ان سے مزید کچھ خاص نچوڑنا ممکن نہیں تھا۔ ایسی صورتحال میں بادشاہ نے مجبوراً جاگیر دار اشرافیہ کی بعض ٹیکس چھوٹیں ختم کرنے اور ان پر چند نئے ٹیکس عائد کرنے کا عندیہ دیا۔ بادشاہ پر اس اقدام کے لئے بورژوازی کی بالائی پرتوں کی طرف سے بھی دباؤ تھا کیونکہ انہوں نے شاہی دربار کو بڑے پیمانے پر قرضے دے رکھے تھے اور بادشاہت کا دیوالیہ نکلنے کی صورت میں ان کا تمام قرضہ بھی ڈوب جاتا۔ مگر جاگیر دار طبقہ کیونکر اپنی پاگل پن کی حد تک بڑھی ہوئی عیاشیوں میں کمی برداشت کرتا۔ انہوں نے فروری 1787 ء میں بادشاہ کی طرف سے بلائی گئی ’اسمبلی آف نوٹیبلز‘، جو جاگیری اور کلیسائی اشرافیہ کے چنیدہ نمائندوں پر مشتمل ایک ایڈوائزری کونسل تھی، میں بادشاہ کے مجوزہ اقدامات کے خلاف خوب احتجاج کیا۔ اس پر بادشاہ نے اسمبلی کو برخاست کرتے ہوئے ٹیکس اصلاحات کے متعلق شاہی فرمان جاری کر دیا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس فرمان کے لاگو ہونے کے لئے اس کا صوبوں اور شہروں کی مقامی ’پارلیمنٹوں‘ سے منظور ہونا ضروری تھا۔ واضح رہے کہ یہ پارلیمنٹس کوئی اسمبلیاں نہیں بلکہ قرون وسطیٰ کے عہد سے چلی آ رہی مقامی عدالتیں تھیں جن کے جج اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا بنیادی مقصد بادشاہ کے مقابلے میں اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ پارلیمنٹوں نے اس شاہی فرمان کو منظور کرنے سے انکار کر دیا اور خاص کر پیرس کی پارلیمنٹ اس مخالفت میں پیش پیش تھی۔ اس پر لوئی شش دہم نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے پیرس کی پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا اور بقیہ پر پابندی لگا دی۔ یوں بادشاہ اور اشرافیہ میں پیدا ہونے والے اختلافات عوام کے سامنے عیاں ہونے لگے اور انہیں ادراک ہونے لگا کہ پورا نظام قدیم ہی اپنی بنیادوں سے لرز رہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب دیہی علاقوں میں چھوٹے پیمانے کی کسان بغاوتیں اور شہروں میں روٹی کی قلت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ہونے والے مظاہرے اور دنگے روز مرہ کا معمول بن چکے تھے۔ یہاں تک کہ نوزائیدہ محنت کش طبقہ بھی احتجاج میں متحرک ہو رہا تھا۔ اس حوالے سے 1786ء میں لیونز میں ریشم کے کارخانے میں ہونے والی محنت کشوں کی طویل ہڑتال خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بادشاہ اور اشرافیہ کی اس لڑائی میں عوام اور بورژوازی کی نچلی پرتوں کی ہمدردیاں کسی حد تک پارلیمنٹوں کے ساتھ تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ اگر بادشاہ نئے ٹیکس لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اشرافیہ نے فوراً سے ان ٹیکسوں کا تمام بوجھ ان پر منتقل کر دینا ہے۔ جون1788ء میں بادشاہ کی حکم عدولی کرتے ہوئے اشرافیہ نے گرینوبل میں ایک پارلیمنٹ کا اجلاس کرنے کی کوشش کی تو بادشاہ نے وہاں فوج بھجوا کر اسے تتر بتر کر دیا۔ اس دوران فوج کی وہاں پارلیمنٹ کی حمایت میں اکٹھے ہونے والے عوام سے مڈ بھیڑ بھی ہوئی جس میں کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ اس تمام صورتحال سے جہاں ایک طرف بادشاہ اور اشرافیہ کے درمیان بدمزگی میں اضافہ ہوا وہیں عوام حکمران طبقات کے ان باہمی اختلافات سے حوصلہ پا کر مزید دلیر ہو گئے۔ اگست میں بادشاہت کا مالی بحران اتنی شدت اختیار کر گیا کہ بیرونی قرضوں کی واپسی تعطل کا شکار ہو گئی۔ ایسی صورتحال میں پورے نظام کے انہدام کے خوف سے بادشاہ پیچھے ہٹنے اور 1614ء کے بعد پہلی بار ’اسٹیٹس جنرل‘ کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اسٹیٹس جنرل بھی ایک طرح کی ایڈوائزری کونسل ہی تھی جس میں سلطنت کے تینوں طبقات یعنی جاگیر دار اشرافیہ، کلیسائی ارباب اختیار اور بورژوازی کے نمائندے شامل تھے۔ رہی بات عوام کی تو وہ نظام قدیم کے سیاسی ضابطوں کے تحت کسی گنتی میں ہی نہیں آتے تھے۔ بادشاہ اور اس کے وزیر خزانہ نیکر کو امید تھی کہ اسٹیٹس جنرل کے اجلاس میں ڈیڈ لاک سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ مگرمعاشی و سماجی صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی تھی جہاں حکمران طبقات کی منصوبہ بندی کے نتائج توقعات سے الٹ نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اسٹیٹس جنرل کی کاروائی کے آغاز کے لئے 5مئی 1789ء کی تاریخ منتخب کی گئی۔ مگر اس سے پہلے کہ ہم اسٹیٹس جنرل کے اجلاس پر مزید بات کریں یہ بتانا لازمی ہے کہ نظام قدیم کے حکمران طبقات میں پڑی ہوئی پھوٹ سے حوصلہ پاتے ہوئے دسمبر 1788ء سے دیہی علاقوں میں ہونے والی کسان سرکشیوں میں بے پناہ شدت آتی جا رہی تھی۔ پورے کے پورے صوبے کسان بغاوتوں کی لپیٹ میں تھے۔ یہ بغاوتیں نہ صرف اپنے حجم میں پہلے سے بڑی تھیں بلکہ ان کا کردار بھی ماضی کی نسبت زیادہ ریڈیکل تھا۔ کئی جگہوں پر کسانوں نے کسی قسم کا ٹیکس ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ بے شمار جگہوں پر تو کسانوں کے جتھوں نے جاگیر داروں کی حویلیوں پر حملہ کر کے ٹیکس رجسٹروں کو آگ لگا دی جن پر ان کے ذمے واجب الادا ٹیکسوں کا ریکارڈ درج تھا۔ کئی ایک جگہوں پر جاگیر داروں یا ان کے حواریوں کی مزاحمت نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور کسانوں نے ان کی حویلیوں کو ہی جلا ڈالا۔ ایسے ہی شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں بھی شدت آتی جا رہی تھی۔ ایسی صورتحال میں پیرس بھلا کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ شاہی اتھارٹی کی کمزوری کو بھاپنتے ہوئے پیرس میں شدید سیاسی ہلچل اور کھلے بحث مباحثے کی فضا بننا شروع ہو گئی۔ ہر روز درجنوں سیاسی لیف لیٹ شائع ہوتے تھے جن میں حکمران طبقات اور پورے نظام قدیم کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ سیاسی بحثیں اب بورژوازی کے ڈسکشن کلبوں سے نکل کر گلی محلوں میں پھیل چکی تھیں۔ جب بھی کوئی مقرر کسی چوراہے پر کھڑا ہو کر کوئی سیاسی تقریر شروع کرتا تو آناً فاناً سینکڑوں لوگ اس کی بات سننے اکٹھے ہو جاتے۔ ماضی میں شاہی جبر کے خوف سے زیر زمین کام کرنے والے مختلف بورژوا سیاسی کلب اب کھل کر اپنی میٹنگز کرنا شروع ہو گئے تھے اور ان کی اوپن میٹنگز کی کاروائی کو سننے عوام کی بھی خاصی تعداد اکٹھی ہو جاتی تھی۔ ان کلبوں سے تعلق رکھنے والے کئی ایک مقرر شہر کے غریب علاقوں میں جا کر بھی تقریریں کرتے جہاں انہیں زبر دست داد موصول ہوتی۔ یہ وہ سب سیاسی و سماجی ماحول تھا جس میں 5مئی کو تینوں طبقات سے تعلق رکھنے والے بارہ سو نمائندوں پر مشتمل اسٹیٹس جنرل کا اجلاس پیرس سے بارہ میل دور ورسائی میں شروع ہوا۔
بادشاہت کی واضح کمزوری کے باوجود بورژوازی بحیثیت طبقہ شاہی اتھارٹی سے براہ راست ٹکر لینے کی جرأت نہیں رکھتی تھی اور اس کی اس کمزوری کی جھلک اسٹیٹس جنرل کے اجلاس میں اس کے نمائندوں، جو زیادہ تر بورژوازی کی بالائی پرتوں سے تھے، کے رویے میں بھی دکھائی دے رہی تھی۔ اشرافیہ سے اختلافات کے باوجود بادشاہ کا رویہ پہلے ہی دن سے بورژوا زی کے نمائندوں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز تھا اور وہ یہ باور کرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا کہ حتمی تجزئیے میں وہ نظام قدیم کے حکمران طبقات کا ہی نمائندہ اور محافظ ہے۔ مگر اس کے باوجود بورژوازی کے نمائندوں نے بادشاہ کی چاپلوسی اورخوشامد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اجلاس کے پہلے ہی دن سے بحث کا محور بگڑتی مالی صورتحال، نئے ٹیکسوں کا نفاذ اور قحط سالی جیسے اہم معاملات کی بجائے ووٹنگ کا طریقہ کار بن گیا کیونکہ جاگیر دار اور کلیسائی اشرافیہ کے نمائندے ملا کر تعداد میں بورژوازی کے نمائندوں کے برابر ہونے کے باوجود ووٹنگ کا ایسا طریقہ کار اختیار کرنے پر مصر تھے جس سے ان کا ووٹ بورژوازی کے ووٹ پر بھاری پڑتا تھا۔ بادشاہ بھی اس معاملے میں ان کا حامی تھا۔ کئی دن اسی بحث اور لفاظی سے بھرپور تقریروں میں گزر گئے اور کوئی کام کی بات زیر بحث نہیں آ سکی۔ اسی اثنا میں یہ افواہیں بھی پھیلنا شروع ہو گئیں کہ بادشاہ چند روز میں اسٹیٹس جنرل کا اجلاس بر خاست کرنے والا ہے۔ بورژوازی کے نمائندوں کے لئے یہ تمام صورتحال انتہائی پریشان کن تھی کیونکہ وہ تو یہ سوچ کر آئے تھے وہ بادشاہ اور اشرافیہ کے اختلافات کا فائدہ اٹھا کر بادشاہ سے کچھ رعایتیں لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مزید برآں اشرافیہ پر نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ ہو جائے گا۔ مگر وہ شاید سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ معاملہ ٹیکسوں کے نفاذ سے آگے بڑھ چکا تھا اور بادشاہ سلطنت کے طول و عرض سے موصول ہونے والی سرکشیوں اوربغاوتوں کی اطلاعات سے خوف زدہ تھا اور ایسے وقت میں درست طور پر جاگیری اور کلیسائی اشرافیہ کو اپنے فطری اتحادیوں کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ شاید بادشاہ واقعی چند روز میں اجلاس کو برخاست کر دیتا اور بورژوازی کے نمائندے منہ لٹکا کر گھروں کو لوٹ جاتے اگر عوام اس ساری صورتحال میں مداخلت نہ کرتے۔
اسٹیٹس جنرل کے پاس کسی قسم کی قانون سازی کرنے کی کوئی اتھارٹی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود پیرس کے عوام نے اس اجلاس سے امیدیں وابستہ کر لیں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مارچ اور اپریل میں قدیم رسم کے مطابق بادشاہ نے اسٹیٹس جنرل کے اجلاس میں آنے والے تینوں طبقات کے نمائندوں کو اپنے طبقے کی گزار شات اور شکایات کے بارے میں تحریری درخواستیں تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ اگرچہ عوام کا کوئی براہ راست نمائندہ تو اسٹیٹس جنرل میں موجود نہیں تھا لیکن بورژوازی کے نمائندوں نے جو درخواستیں تیار کیں ان میں کسی نہ کسی شکل میں تھوڑی بہت ایسی باتیں ضرور تھیں جو عوام کے مفاد میں جاتی تھیں۔ سینکڑوں راستوں سے یہ معلومات عوام تک بھی پہنچ چکی تھی اور وہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ شاید اس اجلاس سے ان کے بھلے کی بھی کوئی صورت نکل آئے۔ لیکن پھر جب پیرس کے لوگوں کو یہ پتا چلا کہ جاگیر دار اور کلیسائی ارباب اختیار’ان کے نمائندوں‘(یعنی بورژوازی کے مندوبین) کی بات ہی نہیں سن رہے اور ووٹنگ کا بھی ایسا طریقہ کار اختیار کرنا چاہتے ہیں جس سے بورژوا نمائندوں کی عددی برتری بے فائدہ ہو جائے، مزید برآں بادشاہ کا رویہ بھی ان کے ساتھ انتہائی خراب ہے اور شاید وہ اب اجلاس کو برخاست کرنا چاہتا ہے، تو پھر عوامی غصہ قابو سے باہر ہونا شروع ہو گیا۔ پیرس کے عوام نے معاملات میں براہ راست مداخلت کرنے کی ٹھان لی۔ پیرس کے گلی کوچوں میں روز بڑے بڑے عوامی اکٹھ ہونے لگے جن میں بادشاہ، جاگیرداروں اور کلیسائی اشرافیہ کے رویے پر خوب تنقید کی جاتی اور اجلاس میں موجود بورژوازی کے نمائندوں کے ساتھ بھر پور اظہار یکجہتی کیا جاتا۔ ہزاروں کی تعداد میں لو گوں نے ورسائی جا کر مستقل ڈیرہ ڈال لیا اور اعلان کیا کہ جب تک بادشاہ ان کے نمائندوں کی بات نہیں سنتا وہ کہیں نہیں جائیں گے۔ آغاز میں تو اجلاس میں موجود بورژوا نمائندے اس عوامی تحرک سے گھبرا گئے۔ انہیں لگا کہ بادشاہ کہیں اس ساری صورتحال کی وجہ سے ان سے مزید ناراض نہ ہو جائے۔ وہ کسی صورت میں بھی بادشاہ کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ بپھرے ہوئے عوام کی حمایت کرتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنی تقریروں میں بادشاہ کی چاپلوسی کرنے کی انتہا کردی اور عوامی رویے کی مذمت کی۔ لیکن ان تمام کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور بادشاہ کا رویہ مزید سخت ہو گیا۔ تب کہیں جا کر بورژوا نمائندوں نے پینترا بدلا اور عوامی تحرک سے حوصلہ پاتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اب ان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ سلطنت کا ایک باقاعدہ آئین ہونا چاہئے جس کا بادشاہ بھی پابند ہو۔ یاد رہے کہ ایک ریپبلک یا جمہوریہ کا مطالبہ کرنے کہ جرأت اب بھی ان میں نہیں تھی۔ یہ ساری صورتحال دیکھتے ہوئے لوئی شش دہم نے اجلاس کو برخاست کرنے کا تہیہ کر لیا۔ پیرس میں ان اطلاعات کے پہنچنے کی دیر تھی کہ عوام غصے سے ابلنے لگے۔ 17جون کو اپنی پشت پر موجود عوامی طاقت کو محسوس کرتے ہوئے بورژوا نمائندوں نے اعلان کیا کہ وہ اب ایک ’قومی اسمبلی‘ ہیں اور صرف اپنے طبقے کے نہیں بلکہ پوری قوم کے نمائندے ہیں۔ بادشاہ تک جب یہ اطلاع پہنچی تو اس نے عندیہ دیا کہ وہ اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اسٹیٹس جنرل کی اب تک کی کاروائی کو مسترد کرے گا اور اسے برخاست کر دے گا۔ 20 جون کو جب بورژوازی کے نمائندے اجلاس میں شرکت کرنے پہنچے تو ہال کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے۔ وہ ہال سے ملحقہ ایک ٹینس کورٹ میں بطور قومی اسمبلی اکٹھے ہوئے اور انہوں نے عہد کیا کہ وہ اس وقت تک اجلاس کو بر خاست نہیں ہونے دیں گے جب تک کہ وہ فرانس کو ایک آئین نہیں دے دیتے۔ پیرس کے عوام تک جب یہ خبر پہنچی تو انہوں نے اسمبلی کے اس فیصلے کا بھر پور خیر مقدم کیا اور اس کے حق میں زبر دست مظاہرے کیے۔ عوامی دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ جاگیری اشرافیہ کے بعض لبرل نمائندے بھی قومی اسمبلی کا حصہ بن گئے۔ 23جون کو بادشاہ نے اسٹیٹس جنرل کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اب تک کی تمام کاروائی کو مسترد کر دیا اور اجلاس کو برخاست کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر اس کا حکم نہ مانا گیا تو وہ طاقت کاا ستعمال کرے گا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ بادشاہ کے پاس فوری طور پر ایسی طاقت موجود نہیں تھی۔ ان تمام واقعات کے مرکز سے دور صوبوں میں موجود شاہی فوج(فرنچ گارڈ) کے دستوں کی وفاداری پر تو اعتماد کیا جا سکتا تھا لیکن ورسائی اور پیرس میں موجود فرنچ گارڈ کے سپاہیوں کی وفاداری مشکوک تھی کیونکہ اطلاعات تھیں کہ وہ بھی عوامی تحرک سے متاثر ہو رہے تھے۔ ایسی صورتحال میں بادشاہ اور اس کے حواریوں کو قابل اعتماد فوجی دستے ورسائی بلانے کے لئے کچھ وقت درکار تھا اور یہی وجہ تھی کہ بادشاہ کو وقتی طور پر پیچھے ہٹتے ہوئے اجلاس کو جاری رہنے دینا پڑا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے ملکہ میری اینٹونٹ، شاہی خاندان اور اشرافیہ کے ساتھ مل کرفوجی طاقت کے استعمال کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس مقصد کے لئے مارشل ڈی بروگلی کی قیادت میں شاہی فوج کے وفادار دستوں اورسوئس گارڈ(کرائے کے سوئس سپاہی) پر مشتمل سپاہ کو ورسائی پہنچنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ اپنے آپ کو قومی اسمبلی قرار دینے والے اسٹیٹس جنرل کے بورژوا نمائندے زبردست عوامی حمایت کے باوجود اس ساری صورتحال سے خوفزدہ ہو گئے لہٰذا انہوں نے 27جون کو ہونے والے اسٹیٹس جنرل کے اگلے اجلاس میں بادشاہ کوٹھنڈا کرنے کی بھر پور کوششیں کیں اور یہاں تک کہ اسے خوش کرنے کے لئے پیرس کے عوام کو بلوائی کہہ کر ان کی مذمت بھی کر ڈالی۔ بادشاہ نے منہ پر تو ان باتوں پر خوشی کا اظہار کیا مگر پیٹھ پیچھے شاہی دربار کی فوجی تیاریاں تیزی سے جاری تھیں۔ ورسائی میں بیٹھے بورژوازی کے ان نمائندوں کے برعکس پیرس کے عوام کو بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ اب اسٹیٹس جنرل کے اجلاس میں قرار دادوں اور تقریروں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ اب مسلح سرکشی ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور انہوں نے اس کی تیاری کرنا شروع کر دی۔ پیرس میں موجود کچھ بورژوا سیاسی کلب جو زیادہ تر بورژوازی کی نچلی پرتوں پر مشتمل تھے، عوام کے ساتھ براہ راست تعلق میں ہونے کی وجہ سے ورسائی میں بیٹھے بورژوا نمائندوں سے زیادہ ریڈیکل تھے۔ انہوں نے بھی عوام سے سرکشی کی اپیل کرتے ہوئے ان کے مسلح ہونے کی حمایت کی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے بورژوازی کی مسلح ملیشیا بنانے کا بھی اعلان کیا۔ یوں نیشنل گارڈ کا قیام عمل میں آیا۔ واضح رہے کہ نیشنل گارڈ صرف نام کی حد تک ’قومی‘ تھی اور اس کی بھاری اکثریت بورژوا طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ چونکہ بورژوازی کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی لہٰذا نیشنل گارڈ کو ہر قسم کے جدید آتشیں اسلحے سے لیس ہونے میں کوئی خاص دشواری پیش نہیں آئی لیکن دوسری طرف عوام کی جدید اسلحے تک کوئی رسائی نہیں تھی لہٰذا انہوں نے ڈنڈوں، چھروں، برچھیوں، کلہاڑیوں اور بیلچوں سمیت جس چیز پر ہاتھ پڑا، خود کو مسلح کیا۔ عوام کے مسلح ہونے کے بارے میں بھی بورژوازی کا رویہ شدید تضادات کا شکار تھا۔ جہاں ریڈیکل بورژوا سیاسی کلب اور ان کے کیمیل ڈسمولنز اور مارات جیسے لیڈر صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے عوام کے مسلح ہونے کے حق میں تھے وہیں بورژوازی کی بالائی پرتیں اس عمل سے خوفزدہ تھیں اور اس کی مخالفت کر رہیں تھیں۔ وہ عوام کو مسلح ہونے سے روک تو نہیں سکتی تھیں لیکن انہوں نے پوری کوشش کی کہ عوام کی رسائی آتشیں ہتھیاروں تک نہ ہو۔ اسی اثنا میں پیرس میں خبریں گردش کرنے لگیں کہ مارشل ڈی بروگلی تیس ہزار وفادار سپاہ کے ساتھ ورسائی کے نزدیک پہنچ چکا ہے اور اسے بادشاہ کی طرف سے حکم ملا ہے کہ وہ ورسائی سے پہلے پیرس کی خبر لے اور ضرورت پڑنے پر شہر کو تباہ وبرباد کر ڈالے۔ سرکشی اب عوام کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی تھی۔ پیرس کے غریب علاقوں میں واقع لوہار خانوں میں دن رات برچھیاں، تلواریں اور نیزے ڈھالے جانے لگے۔ عوام کے مسلح دستے تشکیل پانے لگے۔ گلی کوچوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ عوام کے مسلح جتھوں نے دن رات حفاظتی گشت شروع کر دی اور شہر میں داخل ہونے کے تمام راستوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ پیرس انقلاب کے لئے تیار ہو چکا تھا۔
11جولائی کو بادشاہ نے اپنے وزیر خزانہ نیکر کو بر خاست کر دیا۔ نیکر کی عوام میں شہرت ایک روشن خیال بورژوا کی تھی۔ اس بر خاستگی سے عوام کو یوں لگا جیسے بادشاہ نے پیرس پر چڑھائی کرنے کا اشارہ دے دیا ہو۔ اس برخاستگی کے خلاف اگلے روز پیرس میں ایک بہت بڑا عوامی مظاہرہ ہوا جس میں شرکا کی اکثریت مسلح تھی۔ شہر کی شاہی انتظامیہ نے فرنچ گارڈ(شاہی فوج) کو مظاہرین پر فائر کھولنے کا حکم دیا لیکن اتنے بڑے مسلح ہجوم اور لوگوں کے بپھرے تیور دیکھ کر وہ محض چند ہوائی فائر ہی کر سکے اور پھر اپنے افسروں کی حکم عدولی کرتے ہوئے عوام سے گھل مل گئے۔ اس کامیابی نے عوام کا حو صلہ اور بلند کیا اور انہیں یقین ہو گیا کہ اگر وہ ایسے ہی جرأت سے کام لیں تو مارشل ڈی بروگلی کی فوج کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں۔ مگر اس مقصد کے لیے لازمی تھا کہ شہر کے اندر سے عوام کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ اور ایسا شہر کے مرکز میں واقع باسٹیل قلعے پر قبضے کے بغیر ممکن نہ تھاجس کا گورنر برنارڈ ڈی لونے بادشاہ کا وفادار تھا اور قلعے میں توپخانے کے علاوہ غیر ملکی سوئس سپاہیوں کا ایک دستہ بھی تعینات تھا۔
14جولائی1789ء کی صبح ہزاروں کی تعداد میں مسلح عوام باسٹیل قلعے کے سامنے اکٹھے ہو چکے تھے۔ ایک عام تاریخی غلط فہمی یہ ہے کہ بورژوازی بھی اس معاملے میں عوام کی حمایتی تھی اور باسٹیل پر حملہ عوام نے نیشنل گارڈ کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ بورژوازی کی بالائی پرت نہ صرف عوام کے مسلح ہونے کی مخالف تھی بلکہ عوامی تحرک سے خوفزدہ بھی تھی۔ حتیٰ کہ بورژوازی کی ریڈیکل نچلی پرتیں بھی باسٹیل قلعے جیسی شاہی استبداد کی علامت پر حملہ کر کے شاہی اتھارٹی کو کھلا چیلنج دینے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھیں۔ یہ جرأت صرف عوام میں ہی تھی اور انہوں نے یہ کر دکھایا۔ 14جولائی کے دن قلعے پر عوامی دھاوے سے پہلے بورژوازی نے گورنر ڈی لونے کے پاس مذاکرات کے لئے کئی وفد بھیجے جنہوں نے گورنر سے درخواست کی کہ اگر وہ عوام پر کوئی حملہ نہ کرنے کا اعلان کر دے اور قلعے کی توپوں کو پیچھے کر لے تو وہ عوام کو واپس لوٹنے پر راضی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے گورنر کو یہاں تک پیشکش کی کہ اگر وہ ان کی باتیں مان لے تو وہ قلعے میں نیشنل گارڈ کا ایک دستہ بھی تعینات کر دیں گے جو اس امر کو یقینی بنائے گا کہ عوام قلعے کا رخ نہ کریں۔ ڈی لونے نے توپیں تو پیچھے ہٹا لیں مگر اس کے علاوہ کوئی بھی اور بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اسی اثنا میں عوام کے مسلح جتھوں نے شہر میں واقع ہوٹل ڈی ان ویلڈز(ایک فوجی ہسپتال اور اسلحہ خانہ) پر دھاوا بول کر وہاں پڑی 32ہزار بندوقوں، 12توپوں اور بہت سے گن پاؤڈر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ ہوٹل پر تعینات فرنچ گارڈ نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ یہ تمام اسلحہ آناً فاناً باسٹیل کے سامنے جمع ہونے والے عوام تک پہنچ گیا۔ گورنر ڈی لونے نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ بورژوازی کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے پھر گیا اور اس نے عوام پر فائر کھولنے اور گولہ باری کرنے کا حکم دے دیا۔ اگلے کئی گھنٹے زبردست لڑائی جاری رہی جس میں عوام کو بھاری جانی نقصان بھی اٹھا نا پڑا لیکن ان کی جرأت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شام چار بجے تک ڈی لونے اور قلعے میں موجود گیریژن کی ہمت جواب دے گئی اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ باسٹیل پر عوام کا قبضہ ہو گیا۔ پیرس میں شاہی استبداد کی سب سے بڑی علامت گر چکی تھی۔ لوگوں نے قلعے کی جیل میں موجود تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا۔ برسوں سے قید ان نیم پاگل بھوت نما انسانوں کی جھلک جب عوام کو نظر آئی تو شاہی جبر کے خلاف ان کا غصہ پھٹ پڑا۔ بپھرئے ہوئے عوام نے گورنر ڈی لونے اور تین فوجی افسران کو قتل کر کے ان کے سر نیزوں کی انی پر سجا دیے۔ پورے کا پورا پیرس گلیوں میں امڈ پڑا۔ عوام نے باسٹیل قلعے کا ایک ایک پتھر اکھاڑ پھینکا۔ انقلاب اپنی پہلی لڑائی جیت چکا تھا۔
باسٹیل پر عوامی قبضے نے بادشاہ، ملکہ، شاہی دربار اور اشرافیہ کا حوصلہ توڑ کر رکھ دیا۔ ان کی خود اعتمادی کافور ہوگئی۔ وہ جو ابھی چند روز قبل تک اپنی نجی محفلوں میں پیرس کو خون میں نہلانے کے منصوبے تیار کر رہے تھے، اب اپنی جان بچانے کی فکر میں تھے۔ نیزے کی انی پر سجے گورنر ڈی لونے کے کٹے ہوئے سر کے قصوں نے ان کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ اپنے دعوؤں اور بڑھکوں کے برعکس جاگیر دار اشرافیہ(خصوصاً بڑے جاگیر داروں) نے پرلے درجے کی بزدلی اور طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باد شاہ اور شاہی خاندان کو تنہا چھوڑ دیا اور دھڑا دھڑ فرانس سے بھاگنے لگے۔ زیادہ تر تو اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگئے لیکن کئی ایک دیہی علاقوں میں پھیلے کسان جتھوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی جان گنوا بیٹھے۔ بعض تاریخی ماخذوں کے مطابق بادشاہ نے مایوسی کے عالم میں تاحال شمال مشرقی شہر میٹز کے نزدیک اپنی سپاہ کے ساتھ خیمہ زن مارشل ڈی بروگلی کو پیغام بھجوایا کہ وہ اسے بحفاظت ورسائی سے نکال کر میٹز پہنچانے کے انتظامات کرے تا کہ وہاں سے بیٹھ کر انقلابی پیرس کے خلاف جوابی کاروائی کی منصوبہ بندی کی جاسکے لیکن ڈی بروگلی نے ایسا کرنے سے معذرت کر لی۔ غالباً اسے اپنی سپاہ کی وفاداریوں پر شکوک شبہات تھے۔ ایسی صورتحال میں بادشاہ کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ وقتی طور پر اپنی شکست تسلیم کر لے اور خاموشی کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی کرے۔ ایسے وقت میں جب بادشاہت بالکل تنہا رہ چکی تھی، اس کا حوصلہ ٹوٹ چکا تھا، وہ کسی وفادار مسلح قوت کی کمان نہیں رکھتی تھی، نادر موقع تھا کہ ایک فیصلہ کن جھٹکے سے اس کا خاتمہ کرتے ہوئے جمہوریہ قائم کی جاتی۔ ایسا کرنے سے مستقبل میں ہونے والی قتل غارت سے بچا جا سکتا تھا۔ مگر عین اس وقت پر جب نظام قدیم کے حکمران طبقات دم دبا کر بھاگ چکے تھے، بادشاہ کو بورژوازی کی بالائی پرتوں کی شکل میں نئے اتحادی میسر آگئے۔ بلاشبہ بورژوازی باسٹیل واقعے کے نتیجے میں شاہی اتھارٹی کو لگنے والی زبر دست چوٹ سے خوش تھی مگر وہ اس صورتحال کافائدہ اٹھاتے ہوئے بادشاہت کو ختم کرنے کی بجائے اسے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنا چاہتی تھی۔ دوسرے الفاظ میں وہ ایک آئینی بادشاہت کے خواہش مند تھے۔ لیکن اس مرتبہ وہ یہ سمجھوتہ بادشاہت کے خوف سے نہیں بلکہ عوام کے خوف سے کرنا چاہتے تھے۔ 14 جولائی کے دن پیرس کی گلیوں میں امڈ آنے والے مسلح عوام فرانسیسی بورژوازی کی یاد داشت میں ہمیشہ کے لئے نقش ہوگئے تھے اور وہ دوبارہ اس قسم کا ’انتشار‘ نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ ان کی ملکیت کے لئے بھی خطرہ بن سکتا تھا۔ باسٹیل واقعے کے چند روز بعد بادشاہ نے ورسائی میں قومی اسمبلی کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ’جمہوری حقوق‘ کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی اور اعلان کیا کہ وہ پیرس پر فوج کشی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ نمائندوں نے جواب میں ’اپنے‘ بادشاہ کی شان میں قصیدے پڑھے، اس کی عظمت کے گن گائے اور اسے پیرس آنے کی دعوت دی۔ چند روز بعد جب بادشاہ پیرس کے دورے پر گیا تو اسے ہوٹل ڈی ویل(بورژوازی اور نیشنل گارڈ کا ہیڈ کوارٹر) میں زبردست استقبالیہ دیا گیا۔ نیشنل گارڈ کے ایک چاک وچوبند دستے نے اسے سلامی دی اور پیرس کے نو منتخب بورژوا میئر نے اس کے ہیٹ میں تین رنگوں والا انقلابی ربن لگایا۔ پیر س کے عوام حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ کس طرح لوئی شش دہم راتوں رات اشرافیہ سے زیادہ بورژوازی کا بادشاہ بن چکا تھا۔
اپنے طبقاتی مفادات کے نقطہ نظر سے بورژوازی کی بالائی پرتوں کا بڑھتی ہوئی عوامی تحریک سے خوف کھانا بے جا نہیں تھا۔ باسٹیل واقعے کے بعد کے مہینوں میں فرانس کے طول عرض میں عوامی تحرک کو ایک اور مہمیز لگی تھی۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بھگوڑے جاگیر داروں کی حویلیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ زیادہ تر دیہی علاقوں میں کسان، اشرافیہ اور بادشاہ کی طرف سے مسلط کردہ ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہو چکے تھے۔ کئی جگہوں پر تو کسانوں نے اپنے زیر کاشت قطعوں پر ملکیت کا دعویٰ کرنا اور غصب شدہ مشترکہ زمینوں پر بھی قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں بھی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تعداد میں لوگ شریک ہو رہے تھے۔ پیرس کی طرح دیگر شہروں اور دیہاتوں میں بھی عوام خود کو مسلح کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ بورژوازی کے لئے مزید پریشان کن بات یہ تھی کہ باسٹیل واقعے کے بعدعوام کا غصہ نظام قدیم کے حکمران طبقات کے ساتھ ساتھ بورژوازی کی بالائی پرتوں، خاص کر وہ جو خوراک کی ذخیرہ اندوزی، اجارہ داری اور سٹے بازی میں ملوث تھے، کی جانب بھی مبذول ہو رہا تھا اور چند ایک جگہوں پر انہوں نے ایسے تاجروں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا تھا۔ ان واقعات کو بنیاد بناکر اور ’چور وں، ڈاکوؤں سے اپنا تحفظ کرنے‘ کا مؤقف اختیار کر تے ہوئے بورژوازی نے پورے فرانس میں نیشنل گارڈ کی تشکیل کے عمل کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا۔ جلد ہی لافییٹ نامی ایک سابقہ جنرل کو، جو کہ ایک لبرل جاگیر دار اور آئینی بادشاہت کا حامی تھا، نیشنل گارڈ کا مرکزی کمانڈر منتخب کر لیا گیا۔
یہ وہ تمام صورتحال تھی جس میں 4اگست کو ورسائی میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغاز ہوا۔ اس اجلاس میں بورژوا(زیادہ تر بالائی پرتوں سے)نمائندوں کے ساتھ ساتھ اشرافیہ کے لبرل دھڑوں سے تعلق رکھنے والے نمائندے بھی شامل تھے۔ کئی روز تک جاری رہنے والے اس اجلاس کا مقصد آئین سازی کی تیاری اور جاگیر داری کے خاتمے کے متعلق قانون سازی کرنا تھا۔ اس اجلاس میں بحثیں تو بہت ساری ہوئیں، بڑی جذباتی تقریریں بھی ہوئیں، اشرافیہ کے لبرل نمائندوں نے اپنے آپ کو’قربانی‘ کے لئے پیش کرتے ہوئے جاگیر داری کے خاتمے کی حمایت کی۔ مگر بورژوا مؤرخین کی تمام تر دروغ گوئی کے برعکس اجلاس میں ہونے والی زیادہ تر کاروائی محض لفاظی ہی تھی جس کا کوئی بھی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسمبلی کے بورژوا نمائندوں کو یہ خوف تھا کہ جاگیر دارانہ ملکیت کوچھیڑنا کہیں ’ملکیت کے تقدس‘ کو پامال کرتے ہوئے بورژوا ملکیت کو بھی خطرے میں نہ ڈال دے۔ لیکن ملکیت تو دور کی بات، جاگیری ٹیکسوں کے معاملے میں بھی چند ایک چھوٹے موٹے ٹیکسوں کے علاوہ عملاً کسی ٹیکس کا خاتمہ نہ کیا گیا۔ مستقبل میں ان ٹیکسوں کے خاتمے کے حوالے سے بہت ساری تجاویز تو پیش کی گئیں لیکن ساتھ ہی یہ قرار داد بھی منظور کی گئی کہ جب تک اس ضمن میں کوئی ٹھوس طریقہ کار بن کر اسمبلی سے پاس نہیں ہو جاتا، اس وقت تک عوام پر ان ٹیکسوں کی ادائیگی فرض ہے اور خلاف ورزی کرنے والے سے بزور طاقت نمٹا جائے گا۔ لیکن ایسا طریقہ کار بنانے کا کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا گیا۔ اسی طرح مستقبل میں بنائے جانے والے آئین کی بنیادی دستاویز کے طور پرمشہور زمانہ ’آدمی کے حقوق کا اعلامیہ‘ بھی اسی اجلاس میں منظور کیا گیا لیکن اس کی آزادی اور قانون کی نظر میں برابری جیسی مجرد شقوں میں بھوکے عوام کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن عوامی دباؤ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسمبلی نے آخر میں ایک اہم کام ضرور کیا۔ اس نے کسی ٹھوس لائحہ عمل کو غیر معینہ مدت کے لئے ٹالتے ہوئے کم از کم اصولی طور پر فرانس سے جاگیر داری کے خاتمے کے اعلان پر مبنی قرار داد منظور کر لی۔ اس قرار داد کی منظوری کو زبر دست عوامی حمایت ملی۔ عوام کو اس قرار داد کے مجرد کردار سے کوئی غرض نہیں تھی۔ ان کی نظر میں قومی اسمبلی نے یہ قرار داد منظور کر کے ان کی تمام اشرافیہ مخالف جدوجہد کو تسلیم کر لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب لوئی شش دہم، جو ابھی بھی فرانس کا بادشاہ تھا، نے اسمبلی کی قرار دادوں کو شاہی منظوری دینے سے انکار کیا تو عوام بپھر گئے۔
آخر بادشاہ میں باسٹیل واقعے کے بمشکل ڈیڑھ ماہ بعد اتنی ہمت کہاں سے آ گئی؟ بلاشبہ بورژوازی کے سمجھوتوں نے بادشاہت کو سنبھلنے کا وقت دے کر پھر سے حوصلہ دیا تھا۔ یہ سارا عرصہ شاہی خاندان نے ورسائی محل میں فارغ بیٹھ کر نہیں گزارا تھا۔ وہ جلا وطنی میں جانے والے بڑے جاگیر داروں اور شاہی فوج کے وفادار جرنیلوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور انقلاب کے محور ومرکز پیرس پر فوج کشی کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ بادشاہ کے جرنیلوں اور حواریوں نے میٹز میں موجود شاہی فوج کی وفاداری کو یقینی بنا لیا ہے اور اب وہ عنقریب ورسائی سے میٹز جا کر فوج کی کمان سنبھال لے گا اور پیرس کو خون میں ڈبو دے گا۔ اپنی آسٹرین ملکہ میری اینٹونٹ کے ذریعے بادشاہ کے آسٹرین شاہی خاندان سے فوجی مدد طلب کرنے کی بھی اطلاعات تھیں۔ ستمبر کا سارا مہینہ اسی صورتحال میں گزرا۔ پیرس کے عوام میں شدید بے چینی پھیلی ہوئی تھی اور وہ بخوبی سمجھ رہے تھے کہ ورسائی محل انقلاب کے خلاف سازشوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ بورژوازی بھی سراسیمگی کا شکار تھی اور منت سماجت کر کے بادشاہ کو راضی کرنے کی کوششیں کر رہی تھی لیکن بادشاہ انہیں جوتے کی نوک پر رکھ رہا تھا۔ آخر کار ایک بار پھر انقلاب کو بچانے کی خاطر عوام کو ہی حرکت میں آنا پڑا۔
5 اکتوبر کی صبح عوام کا ایک جم غفیر پیرس میں ہوٹل ڈی ویل کے سامنے اکٹھا ہو چکا تھا۔ ان میں ایک بڑی تعداد غریب عورتوں کی تھی جو روٹی کی قلت کے خلاف نعرے بازی کر رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ ہجوم میں مسلح افراد کی تعداد بڑھتی گئی اور لوگوں کا غصہ ابلنے لگا۔ پھر ’ورسائی کا رخ کرو‘ کے نعرے لگنے لگے اور یہ اکٹھ ایک بڑے جلوس کی شکل میں ورسائی کی طرف چل دیا۔ لیکن عوام کا ورسائی کی طرف رخ کرنا کوئی حادثہ نہیں تھا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتا یا کہ وہ پہلے ہی ورسائی محل میں ہونے والی سازشوں کی بو سونگھ چکے تھے۔ اس کے علاوہ دانتون، مارات اور دیگرریڈیکل ریپبلکن لیڈر بھی پچھلے چند دنوں میں عوام سے ورسائی کی طرف مارچ کرنے کی اپیلیں کر چکے تھے۔ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ ردِ انقلاب کا مقابلہ صرف عوام ہی کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ وقت کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے عوام سے حرکت میں آنے کی اپیل کرنا ہی ان شخصیات کا سب سے اہم خاصہ تھا۔ شام تک جلوس ورسائی پہنچ چکا تھا۔ بادشاہ محل کی بالکونی سے عوام کے اس بپھرئے ہوئے جم غفیر کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ قومی اسمبلی کے نمائندوں نے موقع کو غنیمت جانا اور بادشاہ سے اسمبلی کی قرار دادوں کی منظوری لے لی۔ ان کا خیال تھا کہ اب چونکہ عوام کا کام ختم ہو گیا ہے لہٰذا وہ چپ چاپ گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔ مگر عوام کا مطالبہ اب روٹی یا قرار دادوں کی منظوری سے آگے بڑھ چکا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بادشاہ اور ملکہ ان کے ساتھ واپس پیرس چلیں تا کہ وہ شاہی جوڑے کو براہ راست اپنی نگرانی میں رکھ کر انہیں انقلاب دشمن سازشوں سے باز رکھ سکیں۔ لوگ پوری رات شاہی محل کے سامنے بیٹھے رہے۔ اگلی صبح جب انہوں نے محل کے گیٹ پھلانگنے کی کوشش کی تو شاہی گارڈ(بادشاہ کا محافظ دستہ)نے فائر کھول دیا۔ عوام کی برداشت جواب دے گئی اور انہوں نے محل پر ہلہ بول دیا۔ کئی شاہی گارڈز کو آناًفاناً موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہاتھوں میں برچھیاں اٹھائے عورتیں ملکہ کی خواب گاہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں اور وہ بڑی مشکل سے ایک خفیہ دروازے سے جان بچا کر وہاں سے فرار ہوئی۔ لوگ شاید اس دن بادشاہ یا کم از کم ملکہ کو مار ہی ڈالتے لیکن ان کی قسمت اچھی تھی کہ پیرس سے لافییٹ نیشنل گارڈ کا ایک دستہ لے کر موقع پر پہنچ گیا۔ اس نے بڑے حیلے بہانوں سے عوام کا غصہ ٹھنڈا کیا اور شاہی جوڑے کو سمجھایا کہ ان کے پاس اب عوام کی بات ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں اور انہیں پیرس چلنا ہی پڑے گا۔ آخر کار بادشاہ اور ملکہ کو اپنی جان بچانے کی خاطر رضامند ہونا پڑا۔ شاہی جوڑے کو ایک بگھی میں بٹھایا گیا اور عوام کاجلوس انہیں اپنے نرغے میں لے کر پیرس کی طرف چل دیا۔ انقلاب کے خلاف ہونے والی سازشوں کا سر کچل دیا گیا تھا۔ عوام نے ایک بار پھر انقلاب کو بچا لیا تھا۔
2۔ پسپائی کے سال
5اور 6 اکتوبر کو ہونے والے واقعات کے بعد ایک بار پھر موقع تھا کہ بادشاہ کو تخت سے اتار دیا جاتا اور پست حوصلہ ردِ انقلاب کو کچلتے ہوئے جمہوریہ قائم کی جاتی۔ مگر انقلاب کے آگے بڑھنے میں ایک مرتبہ پھر بورژوازی کا طبقاتی خوف آڑے آ گیا۔ وہ بادشاہت سے زیادہ عوامی تحرک سے خوفزدہ تھے اور اب ان کی یاد داشت میں باسٹیل واقعے کے ساتھ ورسائی محل پر عوام کا ہلہ بھی نقش ہو چکا تھا۔ لہٰذا وہ شاہی جوڑ اجسے عوام اپنا قیدی بنا کر ورسائی سے پیرس لائے تھے، بورژوازی نے ایک بار پھر اس کے چرنوں میں سر تسلیم خم کیا اور نہایت عزت وتکریم کیساتھ انہیں پورے دربار اور شاہی محافظوں سمیت پیرس کے ٹوئیلری محل میں رہنے کی اجازت دے دی جہاں وہ اپنی سازشیں کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر آزاد تھے۔ دوسری طرف عوام بھی پچھلے سارے عرصے کے طوفانی واقعات کے بعد کسی حد تک تھکن کا شکار تھے۔ اس کے علاوہ بورژوازی کی تمام تر غداریوں کے باوجود انہیں ابھی بھی قومی اسمبلی سے امید تھی کہ وہ آہستہ آہستہ اپنی اگست کی قرار دادوں کو عملی جامہ پہنائے گی۔ 1789ء کے اواخر سے لے کر 1792ء کے کم وبیش وسط تک عوامی تحرک میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی۔اگرچہ اس سارے عرصے میں بھی وقتاً فوقتاً کسان بغاوتیں جاری رہیں، خاص کر ان علاقوں میں جو پہلے خاموش تھے،لیکن بڑے شہروں اور خصوصاً انقلاب کے مرکز یعنی پیرس میں یہ تمام عرصہ نسبتاً خاموشی سے گزرا۔
بورژوازی کی بالائی پرتوں نے عوام کی تھکن اور پسپائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس عرصے میں اپنے طبقاتی مفادات کو پوری شدت کے ساتھ آگے بڑھایا اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ وہ سماج کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لینا چاہتے تھے چاہے اس کے لئے انہیں انقلاب کا گلا ہی کیوں نہ گھونٹنا پڑے۔ اس پورے عرصے میں ان کی طرف سے اٹھایا جانے والا واحد بڑا ترقی پسندانہ اقدام نومبر1789ء میں قومی اسمبلی کی ایک قرار داد کے ذریعے کلیسا کی تما م جائیداد کو ضبط کرتے ہوئے اسے قومی تحویل میں لینا تھا۔ لیکن اس میں بھی ان کا طبقاتی مفاد کار فرما تھا کہ ایک تو وہ قومی تحویل میں لی گئی اس جائیداد کو فروخت کے لئے پیش کرنا چاہتے تھے تا کہ اسے خرید کر اپنی ذاتی ملکیت میں اضافہ کر سکیں اور دوسرا یہ کہ اس جائیداد کی فروخت سے خزانے میں جمع ہونے والی رقم کو سلطنت کے قرضے اتارنے کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ بادشاہت کا سب سے بڑا قرض خواہ بذات خود بورژوا طبقہ تھا اور یوں قرضوں کی واپسی میں بھی انہی کا فائدہ تھا۔ مگر اس ایک اقدام کے علاوہ انہوں نے نظام قدیم کے حکمران طبقات اور خصوصاً جاگیر دار اشرافیہ کے مفادات پر کوئی بڑی ضرب نہیں لگائی۔ اپنے طبقاتی مفادات کے تحت شاید وہ ایسا کرنے کے خواہش مند تو تھے لیکن ڈرتے تھے کہ اگر ایک دفعہ ’ملکیت کا تقدس‘ بڑے پیمانے پر چیلنج ہونا شروع ہو گیا تو پھر بات ان کی ملکیت تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ یہی وہ خوف تھاجس نے انہیں آگے بڑھنے سے روکے رکھا اور جاگیر داری کے خاتمے کے اعلانات کو عملی جامہ پہنانا تو دور کی بات، انہوں نے الٹا اس سارے عرصے میں قومی اسمبلی کے ذریعے جاگیر داری کو قانونی تحفظ دینے کی بھرپور کوشش کی۔ فروری تا جون1790ء کے دوران قومی اسمبلی میں ایسی کئی قرار دادیں منظور ہوئیں جو باتوں کی حد تک جاگیر داری کی مخالفت کرتے ہوئے عملاً جاگیر دارانہ ملکیت اور ٹیکسوں کا دفاع کرتی تھیں۔ مزید برآں ان قرار دادوں کو تسلیم نہ کرنے والے کسانوں کو سخت سزائیں دینے اور دیہی علاقوں میں ’امن وامان‘ برقرار رکھنے کے متعلق بھی سخت قوانین بنائے گئے۔ اسی طرح پسپائی کا شکار عوامی تحریک سے حوصلہ پکڑتے ہوئے بورژوازی نے سماج پر اپنی گرفت بڑھانے کے لئے اور بھی کئی رد انقلابی اقدامات کئے۔ دسمبر 1789ء میں قومی اسمبلی نے قانون سازی کے ذریعے مستقبل میں ہونے والے کسی قسم کے انتخابات میں حصہ لینے یا ووٹ ڈالنے کے لئے صاحب جائیداد ہونے کی شرط عائد کرتے ہوئے عوام کو سیاسی طور پر بالکل بے دست وپا کرنے کی کوشش کی۔ بعد کے عرصے میں اس قانون میں ترامیم کر کے ملکیت کی حد کو مزید بڑھایا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سارے عرصے میں دیہی پنچایتوں کے انتخابات سے لے کر شہری انتظامیہ کے انتخابات تک ہر جگہ بورژوازی کے نمائندوں کو غلبہ حاصل ہو گیا۔ عوام کے اظہار رائے اور اکٹھ کی آزادی پر بھی بہت سی پابندیاں عائد کر دیں گئیں۔ اس سلسلے میں جہاں نئی قانون سازی کی گئی وہیں شاہی استبداد کے بنائے گئے قوانین کو بورژوا رنگ دے کر واپس بحال بھی کیا گیا۔ بڑے شہروں اور خصوصاً پیرس پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی خاطر انقلاب کے دوران ابھرنے والی شہر کے ڈسٹرکٹس یا سیکشنز کی نمائندہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے یا انہیں شہر کی بورژوا میونسپل انتظامیہ کے زیر کنٹرول لانے کی بھر پور کوششیں کی گئیں۔ یاد رہے کہ یہ اسمبلیاں عوام کی براہ راست اور حقیقی نمائندہ تھیں اور انقلابی سرکشیوں کو منظم کرنے میں ان کا بنیادی کردار تھا۔ مزید برآں یہ اسمبلیاں الیکشن میں حصہ لینے کے لئے صاحب جائیداد ہونے کی نئی شرط کو تسلیم کرنے سے بھی صاف انکاری تھیں۔ قصہ مختصر یہ کہ بورژوازی کی بالائی پرتوں کے نزدیک چونکہ بادشاہ اقتدار میں ان کی شراکت داری برداشت کرنے کو تیار تھا، جاگیر دار اشرافیہ تحفظ ملنے پر ان کی ممنون تھی اورعنقریب ملک آئینی بادشاہت بننے والا تھا، لہٰذا انقلاب مکمل ہو چکا تھا اور اب لا اینڈ آرڈر قائم کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ عوام کو تو انقلاب سے ابھی تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا تھا، بورژوازی کی نظام قدیم کے حکمران طبقات کو زیر کر لینے کی خوش فہمی بھی لمبا عرصہ چلنے والی نہیں تھی۔
بلاشبہ صرف قومیائی گئی کلیسائی جائیدادوں کی لوٹ سیل، تجارت اور خام مال کے استعمال پر عائد جاگیری اور شاہی ٹیکسوں کے خاتمے اور قحط کی کیفیت میں ذخیرہ اندوزی اور سٹے بازی سے دن رات اپنی تجوریاں بھرنے والی بورژوازی کی بالائی پرتوں کو ہی یہ غلط فہمی تھی کہ بادشاہ اور قدیم حکمران طبقات نے اقتدار پر ان کی گرفت کو دل وجان سے قبول کر لیا ہے۔ عوام ایک دن کے لئے بھی اس دھوکے کا شکار نہیں ہوئے۔ اسی طرح بورژوازی کی نچلی پرتیں اور خاص طور پر ان سے تعلق رکھنے والے ریڈیکل ریپبلکن لیڈر بھی صورتحال کی نزاکت کو بخوبی سمجھ رہے تھے۔ اس عرصے میں انقلاب کے سب سے ریڈیکل ریپبلکن دانشور اور لیڈر مارات کی تحریروں میں ہمیں انقلاب کو لاحق خطرات کی واضح جانکاری ملتی ہے۔ مختلف ریپبلکن سیاسی کلبوں میں ہونے والی بحثوں میں بھی انقلاب کے مستقبل کے بارے میں ریڈیکل لیڈروں کو لاحق تشویش کی واضح جھلک نظر آتی ہے مگر مسئلہ یہ تھا کہ عوام کے بغیر یہ لیڈر کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے اور تھکن کی ماری بھوکی عوام فوری طور پر تحرک میں آنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔
عوامی تحریک کی پسپائی اور قومی اسمبلی کے انقلاب دشمن اقدامات سے پھیلنے والی مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹوئیلری محل میں مقیم شاہی جوڑادن رات اپنی ردِ انقلابی سازشوں میں مصروف تھا۔ وہ ایک طرف جلاوطنی میں موجود اشرافیہ کے ساتھ رابطے میں تھے تو دوسری طرف فرنچ گارڈ کے شاہ پرست جرنیلوں کے ساتھ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ برطانوی، ہسپانوی، پروشین اور خاص کر آسٹرین شاہی خاندان کے ساتھ بھی مسلسل خط وکتابت کر رہے تھے۔ ان تمام سازشوں کا مقصد ایک قابل اعتماد فوج کھڑی کرنا تھا جس کی کمان کرتے ہوئے بادشاہ انقلاب کو خون میں ڈبو سکے اور اپنا چھینا گیا ’خدائی استحقاق‘ واپس لے سکے۔ عرصے بعد منظر عام پر آنے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ نے اپنے ذاتی خزانے کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے کئی نامور اراکین، شہری میونسپلٹیوں کے مئیرز اور حتیٰ کہ نیشنل گارڈ کے کئی کمانڈروں کی وفاداریاں بھی خرید لی تھیں۔ اسی طرح جلا وطن اشرافیہ اور بیرونی شاہی خاندانوں کے پیسے سے انقلاب کی بورژوا قیادت کی عین ناک کے نیچے آبادی کے سب سے پسماندہ حصوں سے ردِ انقلابی فوج کی تشکیل کے لئے دھڑا دھڑ بھر تیاں کی جا رہی تھیں۔ اس کام میں انقلاب سے چوٹ کھائی سابقہ کلیسائی اشرافیہ پیش پیش تھی جو اس مقصد کے لئے سماج کی پسماندہ پرتوں پر اپنے مذہبی اثر ورسوخ کو خوب استعمال کر رہی تھی۔ کئی جگہوں پر فاقہ کشی سے تنگ اور انقلاب سے مایوس کسان آبادیاں بھی اس ردِ انقلابی سازش کا حصہ بن چکی تھیں۔ یہاں تک کہ بورژوازی کی بالائی پرتوں کے کچھ حصے، خاص کر ساحلی شہروں کے بڑے تاجر، بھی کامیابی کی صورت میں تجارتی رعایتوں کا وعدہ لے کر بادشاہ کی طرف ہو چکے تھے اور اپنی دولت کا استعمال کرتے ہوئے بادشاہ کے لئے کرائے کے سوئس سپاہیوں کا بندوبست کر رہے تھے۔ غرض یہ کہ ردِ انقلاب ایک مکڑے کی طرح پسپائی کا شکار انقلاب کو اپنے جالے میں پھنساتا جا رہا تھا۔ 1791ء کے وسط تک ردِ انقلاب کا حوصلہ اتنا بڑھ چکا تھا کہ بہت سے جلا وطن جاگیر دار واپس آ کر فرانس کے سرحدی شہروں میں ڈیرے ڈال چکے تھے۔ یہاں تک کہ پیرس کے گلی کوچوں میں بادشاہت کے حامی کھل کر مظاہرے کرنے لگے تھے۔ لیکن پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے پسپائی کا شکار عوام کو جھنجھوڑنے اور مستقبل کی انقلابی اٹھان کو تیار کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
21جون1791ء کو بادشاہ، ملکہ اور شاہی خاندان کے چند دیگر لوگ بھیس بدل کر آسٹریا بھاگنے کی کوشش میں وارین کے شمال مشرقی شہر کے نزدیک ریپبلکن ہمدردیاں رکھنے والے مقامی افراد کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ ان کے فرار کا منصوبہ آسٹرین سلطنت اور فرانس کی سرحد پر خیمہ زن شاہ پرست فرانسیسی جنرل فرانکوئس ڈی بوئل نے بنایا تھا جو آسٹرین اور پروشین شاہی خاندانوں سے ملنے والی مالی امداد سے دس ہزار کرائے کے سپاہیوں پر مشتمل فوج تیار کر چکا تھا۔ بادشاہ کے بیرونی ہمدردوں کا خیال تھا کہ لوئی شش دہم فرانس سے باہر بیٹھ کر ردِ انقلابی قوتوں کی تیاری کا کام زیادہ تیزی کے ساتھ کر سکتا ہے۔ لیکن عزت اور تکریم کا طلبگار اور حکمرانی کے ’خدائی استحقاق‘ کا دعویدار بادشاہ بیرونی قوتوں سے بغلگیر ہونے کے لئے چوروں کی طرح فرانس سے بھاگتا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اس واقعے نے بادشاہ کی رہی سہی اخلاقی اتھارٹی کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔ اب وہ ملک وقوم کا ایک ثابت شدہ دشمن تھا۔ اس واقعے سے جہاں ایک طرف شاہ پرستوں کے حوصلے انتہائی پست ہوگئے وہیں دوسری طرف پیرس کے عوام بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ایک بار پھر موقع تھا کہ بادشاہت کا خاتمہ کرتے ہوئے نہ صرف جمہوریہ قائم کی جا سکتی تھی بلکہ فرنچ گارڈ کے قومی اسمبلی کے ساتھ وفادار دستوں اور نیشنل گارڈ کے ذریعے پورے فرانس سے شاہ پرستوں کا مکمل صفایا کیا جا سکتا تھا۔ لیکن قومی اسمبلی نے انتہائی مجرمانہ کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف شاہی خاندان کو واپس ٹوئیلری محل بھجوا دیا بلکہ ایک قرار داد منظور کی جس کے مطابق یہ سب کچھ بادشاہ کی مرضی سے نہیں ہوا تھا بلکہ اسے اغوا کیا گیا تھا۔ پیرس میں پھر سے پروان چڑھتے عوامی تحرک سے بدحواس قومی اسمبلی اپنی انقلاب دشمنی میں اتنی آگے چلی گئی کہ اس نے قانون سازی کے ذریعے ریپبلک یعنی جمہوریہ کا لفظ بولنا بھی جرم قرار دے دیا۔ 17جولائی کو قومی اسمبلی کے حکم پر نیشنل گارڈ کے مرکزی کمانڈر لافییٹ، جو بادشاہ کے ساتھ اپنی ہمدردیوں کا کھلا اقرار کر چکا تھا، نے پیرس کے مضافات میں واقع ایک میدان میں ہونے والے عوامی اکٹھ پر گولی چلا دی کیونکہ وہاں بادشاہ کو اس کے جرائم پر سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اس سانحے میں پچاس سے زائد افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ اس کھلے دھوکے سے عوام کے حوصلے پست پڑ گئے اور وہ پھر مایوسی کی کیفیت میں چلے گئے۔ ردِ انقلاب کو ایک مرتبہ پھر سر اٹھانے کا موقع مل گیا اور اس کا غلبہ اتنی تیزی سے بڑھا کہ روبسپئیر جیسے شخص کو بھی جان بچانے کی خاطر یہ کہنا پڑا کہ وہ ریپبلکن نہیں ہے۔ سال کے آخر تک دانتون کو وقتی جلا وطنی اختیار کرنی پڑی اور مارات کو روپوش ہونا پڑا۔ لیکن اس مرتبہ انقلاب دشمنی میں بورژوازی کی بالائی پرت شاہ پرستوں سے بھی آگے نظر آ رہی تھی۔ ہاں، لیکن قومی اسمبلی نے ہمیشہ کی طرح بادشاہ کی کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ستمبر میں اس سے آئین کی منظوری ضرور لے لی۔ یوں لوئی شش دہم کو ویٹو پاور کے ساتھ فرانس کا جائز بادشاہ تسلیم کرنے والے اس آئین کے نفاذ سے فرانس ایک آئینی بادشاہت بن گیا۔
3۔ انقلاب پھر ابھرتا ہے
فروری 1792ء میں آسٹریا اور پروشیا کی بادشاہتوں نے اعلان کیا کہ وہ لوئی شش دہم کو اس کا ’جائز حق‘ دلانے کی خاطر فرانس پر فوج کشی کرنے کو تیار ہیں۔ سپین، برطانیہ اور روس کی بادشاہتیں بھی کھلے بندوں فرانس کی’ناشکری اور باغی‘ عوام کوسبق سکھانے کی باتیں کرنے لگیں۔ برطانیہ کے علاوہ باقی تمام بیرونی قوتیں نظام قدیم کی ہی نمائندہ تھیں اور انقلابِ فرانس کی وجہ سے پورے یورپ میں پیدا ہونے والی سیاسی ہلچل سے خوفزدہ تھیں۔ انہیں نظر آ رہا تھا کہ اگر آج انہوں نے لوئی شش دہم کا ساتھ نہ دیا تو کل کو انقلاب ان کے دروازوں پر بھی دستک دے گا۔ لوئی کی بادشاہت کو بحال کر کے وہ درحقیقت اپنی حکمرانی کو تحفظ دینا چاہتے تھے۔ برطانیہ کے مقاصد کچھ مختلف تھے۔ وہ فرانس کو نوآبادیاتی دوڑ میں اپنے مد مقابل کے طور پر دیکھتا تھا اور اس کی بورژوازی فرانس کے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی بندگاہوں پر قبضہ اور اس کی بحری قوت کو تباہ کرنا چاہتی تھی تاکہ فرانس کبھی برطانیہ کا مقابلہ نہ کر سکے۔
پیرس میں ٹوئیلری محل پھر سے ردِ انقلابی سازشوں کا گڑھ بن چکا تھا۔ 21جون 1791ء کے بعد دبک کر بیٹھ جانے والے شاہ پرست نہ صرف دوبارہ سر اٹھا چکے تھے بلکہ اس مرتبہ قومی اسمبلی کی غداریوں اور پیرس میں نیشنل گارڈ کے عوام پر گولی چلانے جیسے واقعات سے حوصلہ پا کر ان کے تیور پہلے سے بھی زیادہ خطر ناک تھے۔ ملک کے مغربی، جنوبی اور شمال مشرقی سرحدی علاقوں میں شاہ پرست جر نیلوں، جلاوطنی سے لوٹنے والے جاگیر داروں اور سابقہ کلیسائی اشرافیہ کی قیادت میں ردِ انقلابی افواج کی تیاری زور وشور سے جاری تھی۔ ملک کے اندر اور باہر موجود ردِ انقلابی قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھیں اور انقلاب کو خون میں نہلا دینے کے مشترکہ منصوبے بھی ترتیب پا چکے تھے۔ ملک کے سماجی طور پر زیادہ پسماندہ علاقوں میں تو شاہ پرستوں کی طرف سے انقلاب کے حامیوں اور خصوصاً ریپبلکن خیالات رکھنے والوں پر حملے بھی کئے جانے لگے تھے۔ پیرس میں تو ردِانقلاب بذات خود انقلابی’قیادت‘ میں نقب لگا چکا تھا۔ مرکزی کمانڈر لافییٹ سمیت نیشنل گارڈ کے کئی دیگر سینئر کمانڈر، جو شاہی فوج کے ہی سابقہ جنرل تھے، بادشاہ کی طرف داری کر رہے تھے۔ لافییٹ نے تو بادشاہ کو ایک خط بھی لکھ ڈالا جس میں اس نے لوئی شش دہم کو پیشکش کی کہ اگر وہ حکم دے تووہ(لافییٹ) پیرس کو تمام’انتشارپسند‘ عناصر سے پاک کر سکتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جب اس خط کے بارے میں قومی اسمبلی میں بحث ہوئی تو پہلے توزیادہ تر اراکین نے اسے جعل سازی قرار دے کر لافییٹ کی طرف داری کی لیکن جب اس نے خود یہ خط لکھنے کا اقرار کیا توپھر کوئی کاروائی کئے بغیر اس معاملے پر چپ سادھ لی گئی۔
قومی اسمبلی اس وقت تک دو واضح سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایک طرف ’لبرل‘ اشرافیہ پر مبنی دھڑا ’فیوویلنٹس‘ تھا جو لبرل ازم کا چوغہ اتار کر اب کھل کے بادشاہ کی طرف داری کر رہا تھا اوراسمبلی میں شاہ پرستوں کی آواز بن چکا تھا۔ دوسری طرف ’جیرونڈن‘ تھے جو کہ زیادہ تر بورژوازی کی بالائی پرتوں کے نمائندے تھے اور سنٹرسٹ پوزیشن رکھتے تھے یعنی آئینی بادشاہت کے حامی تھے۔ جیرونڈز اپنے آپ کو انقلابی کہتے تھے اور یہ درست تھا کہ انقلاب کے ابتدائی مراحل میں انہوں نے کسی حد تک ترقی پسندانہ کردار ادا کیا تھا لیکن اب وہ بادشاہت کی بحالی سے زیادہ عوامی تحرک سے خوفزدہ تھے یعنی عملی طور پر وہ اب انقلاب پر قدغنیں لگاتے ہوئے ایک انقلاب دشمن کردار ادا کر رہے تھے۔ روبسپئیر اور دیگر ریڈیکل ریپبلکنز اسمبلی میں انتہائی قلیل تعداد میں تھے اور اس کی کاروائی پر کوئی خاص اثر انداز ہونے سے قاصر تھے۔ انقلابی ریپبلکن سیاست کا اصل گڑھ پیرس کے وہ سیاسی کلب تھے جن کا جنم 1789ء اور اس کے بعدکے سالوں میں ہوا تھا۔ اس حوالے سے دو سیاسی کلبوں کا نام خاص طور پر قبل ذکر ہے۔ ایک تو ’جیکوبن کلب‘، جس کے ممبران میں روبسپئیر، سینٹ جسٹ اور کئی دیگر ریڈیکل ریپبلکنز شامل تھے۔ لیکن جیکوبن ایک بہت بڑا کلب تھا اور اس میں بورژوازی کی بالائی پرتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران بھی خاصی تعداد میں تھے جو جیرونڈنز کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے۔ یعنی جیکوبن کلب خود بھی دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم تھا۔ دوسرا اہم کلب ’کورڈلیرز‘ تھا۔ اس کے ممبران زیادہ تر بورژوازی کی نچلی پرتوں سے تعلق رکھتے تھے اور یہ اپنے آپ کو ایک بورژوا کلب کی بجائے پاپولر(عوامی) کلب قرار دیتا تھا۔ دانتون، مارات، ہیبرٹ اور ڈسمولنز جیسے ریڈیکل ریپبلکنز کا تعلق اسی کلب سے تھا۔ ان کلبوں میں ہونے والی ریپبلکن بحثوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن پیرس کے انقلابی تحرک کا حقیقی گڑھ عوام کی براہ راست نمائندگی پر مبنی شہر کے سیکشنز کی اسمبلیاں تھیں جنہوں نے انقلاب کی پسپائی کے سیاہ ترین دنوں میں بھی نہ صرف اپنا آزادانہ وجود قائم رکھا تھا بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں تمام تر شہری انتظامات بھی انہی کے ہاتھ میں تھے۔ کلبوں سے تعلق رکھنے والے ریڈیکل ریپبلکنز بھی زیادہ تر انہی اسمبلیوں کے ذریعے اپنے خیالات عوام تک پہنچاتے تھے۔ مئی 1792ء میں پیرس کے سیکشنز کی یہی اسمبلیاں تھیں جن کے اجلاسوں میں عوام نے انقلاب کے دفاع کی خاطر ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں اترنے کا فیصلہ کیا۔
21 اپریل1792ء کو سرحدوں پر بگڑتی صورتحال کے پیش نظر قومی اسمبلی نے اعلانِ جنگ کر دیا تھا۔ فیوویلنٹس نے اعلانِ جنگ کی قرار داد کی مخالفت کی تھی مگر جیرونڈنز نے اپنی عددی برتری کو استعمال میں لاتے ہوئے اسے منظور کروا لیا۔ مگر جیرونڈنز نے یہ اقدام کوئی انقلاب کی ہمدردی میں نہیں اٹھایا تھا بلکہ وہ خوفزدہ تھے کہ اگر غیر ملکی افواج فرانس پر چڑھ دوڑیں تو باغی عوام اور ریپبلکنز کے ساتھ ساتھ کہیں انہیں بھی تہہ تیغ نہ کر دیا جائے۔ مگر اپنے طبقاتی مفادات کی وجہ سے وہ اعلان جنگ کرنے کے علاوہ فرانس کے دفاع کی خاطر کچھ بھی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ظاہر ہے ملک اور انقلاب کے دفاع کی خاطر عوام سے حرکت میں آنے کی اپیل کرنا ضروری تھا، ٹوئیلری محل میں ہونے والی سازشوں کا سر کچلنا ضروری تھا، شاہی فوج کے سپاہیوں سے انقلابی دفاع کی اپیل کرتے ہوئے فوج کو شاہ پرست جرنیلوں سے پاک کرنا ضروری تھا، قومی اسمبلی اور نیشنل گارڈ سے شاہ پرستوں کا صفایا کرنا ضروری تھا اور جنگ کے اخراجات پورے کرنے کی خاطر نہ صرف جاگیر دار اشرافیہ کی ملکیت پر ہاتھ ڈالنا بلکہ بورژوازی کی بالائی پرتوں پر خصوصی ٹیکس کا نفاذ بھی ضروری تھا۔ جیرونڈنز اس میں سے کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان اقدامات سے ان کے اپنے طبقے کو زک پہنچ سکتی تھی۔ لہٰذا شمال مشرقی سرحد پر آسٹرین اور پروشین فوجیں اکٹھی ہوتی رہیں، بر طانیہ نے فرانس کی سمندری ناکہ بندی کر دی، ملک کے اندر مسلح شاہ پرست جتھے تعداد میں بڑھتے چلے گئے مگر قومی اسمبلی اور اس میں بیٹھے جیرونڈنز چپ کر کے تماشا دیکھتے رہے۔ بلکہ تاریخی ریکارڈ بتاتا ہے کہ انہوں نے بادشاہ کی منت سماجت کی کہ وہ اپنے حامیوں کو مسلح کار وائیوں سے روکے لیکن اپنے سابقہ جاہ و جلال کی بحالی کے خوابوں میں مست لوئی شش دہم نے ان کی ایک نہ سنی۔ یہی وہ تمام صورتحال تھی جس نے انقلاب کے دفاع میں عوام کو حرکت میں آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ 20جون کوٹوئیلری محل کے باہر ایک بہت بڑا عوامی مظاہرہ ہوا۔ عوام نہ صرف غیر مسلح تھے بلکہ بالکل پر امن بھی تھے۔ جب لوگوں نے محل کے اندر گھسنے کی کوشش کی تو شاہی گارڈز نے ہوائی فائر کئے اور محل کے دروازوں کو اندر سے بند کر دیا۔ اس پر بادشاہ کے خلاف خوب نعرے بازی ہوئی اور اسے ملک وقوم سے غداری کرنے پر سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی مظاہرے میں قومی اسمبلی کے نافذ کردہ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ریڈیکل ریپبلکنز نے کھل کر جمہوریہ کے قیام کے حق میں تقریریں کیں۔ قریب تھا کہ لوگ تمام رکاوٹیں توڑ کر محل میں گھس جاتے لیکن قومی اسمبلی کے حکم پر آنے والے نیشنل گارڈ کے دستوں نے اپنی بندوقوں کا رخ ان کی طرف کر لیا۔ عوام کے ذہنوں میں 17جولائی 1791ء کی یاد ابھی تازہ تھی لہٰذا وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے اور واپس گھروں کو لوٹ گئے۔ آنے والے دنوں میں قومی اسمبلی میں فیوویلنٹس اورجیرونڈنز، دونوں کی جانب سے اس پر امن عوامی مظاہرے کے خلاف لاتعداد زہر بھری تقریریں کی گئیں۔ مظاہرے کے لیڈروں کو چوراہوں میں پھانسی دینے کے مطالبات کئے گئے۔ لافییٹ نے اعلان کیا کہ اگر اسمبلی ابھی اسے حکم دے تو وہ دو دن میں پیرس کے عوام کو ’راہ راست‘ پر لا سکتا ہے۔ شاہ پرستوں نے بھی شہہ پا کر بادشاہ کے حق میں مظاہرے کرنا شروع کر دیے۔ ہر طرف مسلح ردِ انقلاب کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ 30 جولائی کو آسٹرین اور پروشین افواج نے فرانس کا بارڈر عبور کر لیا۔ ان حالات میں عوام کے پاس سرکشی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
پیرس کے سیکشنز کی اسمبلیوں نے عوام سے مسلح ہونے کی اپیل جاری کر دی۔ ایک بار پھر لوہار خانے دن رات کے لئے آباد ہو گئے جہاں ہزاروں کی تعداد میں تیز دھار ہتھیار ڈھالے جانے لگے۔ اگست کے اوائل میں قومی اسمبلی کی طرف سے جنگ پر بھیجے گئے فرنچ گارڈ کو محاذ پر پے رد پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سپاہیوں کے پست حوصلے، اسلحے اور خوراک کی کمی اور بد انتظامی اپنی جگہ لیکن ان شکستوں کی سب سے اہم وجہ شاہ پرست جرنیلوں کی غداریاں تھیں۔ کئی ایک محاذوں پر تو انہوں نے بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال دیے بلکہ دشمن افواج کو اپنی خدمات پیش کر دیں۔ یہ سب دیکھ کر انقلاب سے ہمدردی رکھنے کے باوجود سپاہیوں کا حوصلہ بالکل ٹوٹ گیا اور وہ بڑی تعداد میں بھگوڑے ہونا شروع ہو گئے۔ دشمن کی فوج تیزی سے پیرس کے قریب آتی جا رہی تھی اور اسی حساب سے شہر کے اندر مسلح ردِ انقلاب بھی سر اٹھا رہا تھا۔ ایسی صورتحال میں مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ 8اور 9 اگست کو پیرس کے سیکشنز نے سرکشی کی کمان کے لئے ہر سیکشن کے تین نمائندوں پر مشتمل ایک جنرل کونسل تشکیل دی۔ یوں پیرس کے انقلابی کمیون کا جنم ہوا جس نے مستقبل میں بھی انقلاب کو آگے بڑھانے میں کسی اور ادارے یا لیڈر کی نسبت کہیں اہم کردار ادا کیا۔ 10اگست کی صبح کو ہزاروں کی تعداد میں مسلح عوام ٹوئیلری محل کے گرد اکٹھے ہو چکے تھے۔ مسلح ہونے کے باوجود وہ بالکل پر امن تھے۔ انہوں نے محل پر تعینات نیشنل گارڈ کے ذریعے بادشاہ کو یہ پیغام بھجوانے کی کوشش کی کہ وہ باہر آ کر ان کی بات سنے لیکن بادشاہ اور ملکہ بزدلوں کی طرح شاہی محافظوں سمیت محل سے بھاگ کر قومی اسمبلی میں پناہ لے چکے تھے۔ یہ پتا لگنے پر عوام نے محل کے گیٹ اکھاڑ پھینکے اور اس پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ نیشنل گارڈ کے دستے مسلح عوام کا یہ جم غفیر دیکھ کر چپ چاپ ایک طرف ہو گئے۔ لیکن محل کے داخلی حصے میں تعینات کرائے کے سوئس سپاہیوں کے دستے نے اپنے شاہ پرست فرانسیسی افسران کے حکم پر عوام پر گولی چلا دی۔ چند ہی منٹوں میں ایک ہزار سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس واقعے نے بادشاہت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ چند ہی گھنٹوں میں پورا پیرس ’بادشاہ کے لئے موت، آسٹرین عورت (ملکہ) کے لئے موت۔۔جمہوریہ زندہ باد‘کے نعروں سے گونج اٹھا۔ عوام نے ہلہ بول کر ٹوئیلری محل پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود قاتل سوئس سپاہیوں کو ان کے فرانسیسی افسروں سمیت گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکا۔ پیرس کمیون نے قومی اسمبلی سے بادشاہ اور ملکہ کی گرفتاری مطالبہ کیا اور اسمبلی کو عوامی ردِ عمل کے خوف سے کمیون کی بات ماننا پڑی۔ یوں شاہی جوڑاٹیمپل ٹاور کے قید خانے پہنچ گیا۔
پیرس میں ہونے والے یہ واقعات پورے فرانس کے عوام کو انقلابی تحرک میں لے آئے۔ ہر بڑے شہر کے سیکشنز نے پیرس کی طرز پر انقلابی کمیونز تشکیل دیے۔ اسی طرح دیہاتوں میں بھی بورژوا عناصر کا غلبہ رکھنے والی پنچایتوں کو بائی پاس کرتے ہوئے نئے دیہی کمیونز ابھرئے جو غریب کسانوں کے نمائندہ تھے۔ ان تمام کمیونز کو ریپبلکن پاپولر سوسائٹیوں، کورڈلیرز اور ریڈیکل جیکوبنز کی حمایت بھی حاصل تھی بلکہ ان سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ کمیونز کے عہدیدار بھی منتخب ہوئے۔ یہ کمیونز آپس میں بھی بہت حد تک رابطے میں تھے اور سیاسی راہنمائی کے لئے پیرس کمیون کی طرف دیکھتے تھے۔ یوں انقلاب کو آگے بڑھانے کے لئے درکار سیاسی و انتظامی ڈھانچے کی تعمیر ہوئی۔
پیرس کمیون اور ریڈیکل کلبوں کے دباؤ کے تحت قومی اسمبلی کو نہ چاہتے ہوئے بھی10اگست کے فوراً بعد کئی قوانین پاس کرنے پڑے۔ ان قوانین کے تحت تمام جلا وطن اشرافیہ کی جاگیریں ضبط کر کے انہیں قطعوں کی صورت میں بیچنے کا فیصلہ ہوا، کئی ایک جاگیری ٹیکسوں کا خاتمہ کر دیا گیا، ابھی بھی واجب الادا جاگیری ٹیکسوں کو فوری ادا نہ کرنے پر سزائیں ختم کر دی گئیں، دسمبر 1789ء میں منظور ہونے والے الیکٹورل قانون کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تمام شہریوں کے برابر سیاسی حقوق کو تسلیم کیا گیا اور اس قانون کی بنیاد پر ایک نیشنل کنونشن منتخب کرنے کا فیصلہ ہوا جو اسمبلی کی جگہ لے گا، آئین سے وفاداری کا حلف نہ اٹھانے والے کلیسائی اراکین کو سخت سزائیں دینے کا فیصلہ ہوا۔ یہ بات درست ہے کہ ابھی بھی ان قوانین سے جاگیر داری کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا تھا اور دوسرایہ کہ ان میں سے زیادہ تر اقدامات وہ تھے جن پر عوام پہلے ہی سے عمل پیرا تھے۔ لیکن بہر حال قومی اسمبلی سے ان قوانین کا منظور ہونا عوام کے اپنے تحرک سے جیتی گئی حاصلات پر مکمل قبولیت کی مہر ضرور ثبت کرتا تھا اور اس امر نے عوام کے انقلابی جوش وخروش کو راتوں رات ایک معیاری جست دے ڈالی۔ پورے ملک کے عوام انقلاب کے دفاع کی خاطر اٹھ کھڑے ہوئے۔ فوجی تنظیم نو کے اختیارات عملی طور پر انقلابی کمیونز نے اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ صرف پیرس کمیون نے چند ہفتوں میں 60 ہزار افراد کو مسلح کر کے محاذ پر بھیجا۔ عوام کا جذبہ دیدنی تھا۔ لوگوں نے اپنے گھروں کے برتن تک ہتھیار سازی کے لئے درکار لوہے کی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر دان کر دیے۔ فرنچ گارڈ کے وفادار دستوں میں انقلابی ہمدردیاں رکھنے والے افسران کو تعینات کیا گیا اور انہیں خوراک، اسلحہ و گولہ بارود کی فراہمی کویقینی بنایا گیا۔ 20ستمبر کو والمی کے محاذ پر فرانسیسی فوج کو پہلی فتح نصیب ہوئی۔ سال کے آخر تک محاذِ جنگ پر صورتحال نسبتاً بہتر ہو چکی تھی۔ مگر اسی دوران پیرس کو ایک مرتبہ پھر خون ریزی سے گزرنا پڑا۔
10اگست کے بعد قومی اسمبلی نے عوامی دباؤ میں آ کرمتذکرہ بالا قانون سازی تو کر دی تھی لیکن بادشاہ کو تخت سے اتارنے اور اس پر مقدمہ چلانے پر وہ کسی صورت راضی نہیں تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسمبلی میں اکثریت رکھنے والے جیرونڈنز کو بیرونی حملہ آوروں سے جنگ میں انقلاب کی فتح کے متعلق ذرا بھی یقین نہیں تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ کچھ ہی عرصے میں بیرونی افواج پیرس کے دروازے پر ہوں گی۔ لہٰذا وہ سب سے پہلے اپنی بقا کے بارے میں فکر مند تھے اور جانتے تھے بادشاہ کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانا انہیں بیرونی طاقتوں اور شاہ پرستوں کی نظر میں باغی عوام کے ساتھ کھڑا کر دے گا اور پیرس کی متوقع شکست(ان کی نظر میں) کے بعد انہیں معافی نہیں ملے گی۔ بلکہ صرف بادشاہ اور شاہی خاندان ہی نہیں، جیرونڈنز انہی وجوہات کی بنا پر پیرس میں موجود شاہ پرستوں کے خلاف بھی کوئی کاروائی کرنے پر آمادہ نہیں تھے باوجود اس کے کہ 10اگست کے بعد ان کے حوصلے خاصے پست پڑ چکے تھے، کئی ایک شاہ پرست شہر چھوڑ چکے تھے، محاذ سے روزانہ کسی نہ کسی شاہ پرست جنرل کے بھگوڑے ہونے کی اطلاعات آ رہی تھیں، حتیٰ کہ بادشاہ کا ہمدرد نیشنل گارڈ کا مرکزی کمانڈر، لافییٹ بھی چپکے سے جلاوطنی میں جا چکا تھا۔ ایسی صورتحال میں کمیون کو معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پیرس میں شاہ پرستوں کیخلاف ایک شدید کریک ڈاؤن کرنا پڑا۔ 29اگست کی شام کو کو شہر میں کمیون کے حکم سے کر فیو لگا دیا گیا اور عوام کے مسلح جتھوں نے شاہ پرستوں اور ان کے ہمدردوں کے تمام مشتبہ ٹھکانوں پر چھاپے مارے۔ پوری رات جاری رہنے والی اس کاروائی میں لگ بھگ تین ہزار شاہ پرستوں کو گرفتار کیا گیا اور دو ہزار بندوقوں کو ضبط کیا گیا۔ اگلی صبح کمیون نے اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ گرفتار شدہ افراد پر مقدمے چلائے جائیں اور جو قصور وار ہیں انہیں سزا دی جائے لیکن اسمبلی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ دوسری طرف محاذ سے ابھی تک ہر روز صرف بری خبریں ہی آ رہی تھیں۔ پیرس کے عوام میں اضطراب بڑھتا جا رہا تھا اور وہ درست طور پر سمجھ رہے تھے کہ اگر بادشاہ اور شاہ پرستوں کو سزا دی جائے تو اس سے کم از کم ملک کے اندر سے اٹھنے والے ردِ انقلاب کے خطرے کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ آخر کار تنگ آ کر انہوں نے کمیون کو بھی بائی پاس کرتے ہوئے معاملات کو براہ راست اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ 2ستمبر کو عوام کے مسلح جتھوں نے ان قید خانوں پر حملہ کر دیا جہاں گرفتار شاہ پرست قید تھے۔ یہ حملے دو دن تک جاری رہے۔ کمیون کے عہدیداروں نے اس قتل وغارت کو روکنے کی پوری کوشش کی لیکن جب تک وہ عوام کو سمجھا بجھا کر اس میں کامیاب ہوئے، تقریباً ایک ہزار سے زائد شاہ پرست عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بن چکے تھے۔ عوام دشمن مؤرخین آج تک اس واقعے کی بنیاد پر انقلاب کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اسمبلی عوامی منشا کے مطابق بادشاہ کو تخت سے اتار کر اس پر مقدمہ چلانے اور شاہ پرستوں کے خلاف کاروائی کرنے پر رضامند ہو جاتی تو یہ نوبت کبھی نہ آتی۔لیکن اس واقعے سے ایک بات بالکل واضح ہو گئی کہ عوام کو اب بادشاہت کسی صورت قبول نہیں تھی۔
21 ستمبر 1792ء کو قومی اسمبلی کی جگہ لینے والے نو منتخب شدہ نیشنل کنونشن کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں بادشاہت کے خاتمے اور جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ اگرچہ یہ انتخابات 10اگست کے بعد بننے والے قانون کے مطابق یونیورسل حق رائے دہندگی کے مطابق ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ان کا مرحلہ وار طریقہ کار کچھ ایسا تھا کہ گو قومی اسمبلی سے کم لیکن پھر بھی قابل ذکر تعداد میں جیرونڈنز منتخب ہو کر کنونشن کے رکن بنے۔ دوسری طرف اس مرتبہ ریپبلکنز اور خصوصاًریڈیکل جیکوبنز کی خاصی تعداد بھی منتخب ہوئی۔ مگر عوام کے انقلابی تحرک نے ایسا سیاسی ماحول بنا دیا تھا کہ جمہوریہ کے قیام سمیت دیگر معاملات کی راہ میں جیرونڈنز فوری طور پر روڑے اٹکانے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور ریپبلکنز کے لئے آگے بڑھنے کی راہ نسبتاً ہموار تھی۔
اپنے پہلے اجلاس کے دوماہ بعد کنونشن نے بے تحاشابحث مباحثے کے نتیجے میں بالآخر سابقہ بادشاہ لوئی شش دہم پر ’قوم کی آزادی اور ریاست کی سیکیورٹی کے خلاف مجرمانہ کاروائیاں‘ کرنے کے الزام میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ 11دسمبر کو لوئی پہلی دفعہ کنونشن کے سامنے پیش ہوا۔ اسے اپنے دفاع کا پورا حق دیا گیا لیکن اس کے خلاف اتنے ثبوت تھے کہ دنیا کا کوئی وکیل بھی اسے بچا نہیں سکتا تھا۔ 15جنوری کو ہونے والے ووٹنگ میں کنونشن کے 749حاضر اراکین میں سے716نے اسے مجرم قرار دیا۔ ان جرائم کی سزا موت تھی لیکن جیرونڈنز نے اس کے خلاف خوب واویلا مچایا اور لوئی کو تختہ دار سے بچانے کی پوری کوشش کی۔ مگر اس کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ 53ووٹوں کی برتری سے کنونشن نے لوئی کو سزائے موت سنا دی۔ 21جنوری 1793ء کو لوئی شش دہم کوقومی استرے(گلوٹین) کے حوالے کر دیا گیا۔ انقلاب نے اپنی کشتیاں جلا دیں تھیں۔ دانتون کے تاریخی الفاظ میں:
”ہمیں دھمکانے والے بادشاہوں کے اکٹھ پر ہم، اعلانِ جنگ کے طور پر،ایک بادشاہ کا کٹا ہوا سر اچھالتے ہیں۔“
4۔ فیصلہ کن مرحلہ
انقلاب اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا تھا لیکن اس پر مزید بات کرنے سے قبل ایک دفعہ اس صورتحال اور ان چیلنجز کا احاطہ کرنا ضروری ہے جو فروری 1793ء میں انقلاب کو درپیش تھے۔
محاذ جنگ پر صورتحال اگرچہ اگست1792ء سے نسبتاً بہتر تھی لیکن یہ بہتری نہایت عارضی اور غیر مستحکم تھی۔ بیرونی افواج چند شکستیں کھانے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ قوت کے ساتھ جوابی حملوں کے لئے تیار ہو رہیں تھیں۔ کمیونز کی طرف سے فوجی تنظیم نو کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک ریپبلکن فوج اسلحے اور گولہ بارود کی شدید قلت کا شکار تھی۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر کمی افرادی قوت کی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق فرانس کے دفاع کی خاطر کم از کم تین لاکھ سپاہیوں کی مزید ضرورت تھی۔ کئی شاہ پرست جر نیلوں کے بھگوڑے ہونے یا تبدیل کئے جانے کے باوجود فوج میں ابھی بھی ڈھکے چھپے شاہ پرست افسروں کی کمی نہیں تھی۔ مزید برآں جیرونڈن ہمدردیاں رکھنے والے افسران پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کب دشمن کے ساتھ مل جائیں۔ اسی طرح بادشاہ کی موت کا اشرافیہ پر دوہرا اثر ہوا تھا۔ جہاں ایک طرف ان میں سراسیمگی پھیل گئی تھی وہیں دوسری طرف انہیں بخوبی نظر آ رہا تھا کہ اگر انہوں نے ایک فیصلہ کن جوابی وار کر کے انقلاب کو نہ کچلا تو وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے۔ اگرچہ پیرس اور اس کے گردو نواح میں تو شاہ پرست ردِ انقلاب پسپائی کا شکار تھا لیکن وینڈی، بریٹنی، لیونز، ٹیولون، نانٹ اور دیگر کئی علاقوں میں شاہ پرست بیرونی فوجی و مالی امداد کے ساتھ رد انقلابی سرکشیوں کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ لیکن یہ سب کچھ بھی انقلاب کو درپیش چیلنجز کا محض ایک حصہ تھا۔
سماجی اتھل پتھل، غیر یقینی صورتحال، جنگ، دیہی علاقوں میں کسانوں اور اشرافیہ کے بیچ ہونے والی مسلسل کھینچا تانی اور خراب موسم کے باعث1792ء میں زرعی پیداوار میں شدید کمی واقع ہوئی تھی اور نتیجتاً پیرس سمیت دیگر بڑے شہروں میں بھی قحط کی سی صورتحال تھی۔ عوام کو روٹی کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے سخت سردی اور برف میں پوری پوری رات لائن میں کھڑے ہونا پڑتا تھا۔ جمہوریہ کے مالی حالات بھی نہایت دگرگوں تھے۔ خزانہ خالی تھا۔ افراطِ زر آسمان کو چھو رہا تھا۔ ملک کی بحری ناکہ بندی کی وجہ سے بیرونی تجارت بالکل ٹھپ ہو چکی تھی۔ صورتحال اتنی خراب تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ انقلاب اپنی بقا کی جنگ ہار جائے گا۔ اس تمام تر کیفیت سے باہر نکلنے کا واحد راستہ یہ تھا کہ انقلاب ایک فیصلہ کن جست لگائے اور اپنے ادھورے تاریخی فرائض کو پورا کرے۔ صرف اسی طرح انقلاب وہ شکتی حاصل کر سکتا تھا جو ان تمام مشکلات سے نپٹنے کے لئے درکار تھی۔
یہ وہ تمام سماجی پس منظر تھا جس کی روشنی میں 1793ء کے اوائل میں نیشنل کنونشن میں مندرجہ ذیل نکات کے گرد بحث کا آغاز ہوا۔
1۔ جاگیری ٹیکسوں اور دیگر قدیم حقوق کا بغیر ادائیگی مکمل خاتمہ۔ کسانوں کے زیر کاشت جاگیری اراضی پر بغیر ادائیگی ان کا حق ملکیت تسلیم کرنا۔ جلاوطن اشرافیہ کی جاگیروں کی ضبطگی کے متعلق قانون سازی کو عملی جامہ پہنانااور ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا۔
2۔ جاگیر داروں کی طرف سے ہتھیائی گئی مشترکہ زمینوں کی ضبطگی اور ان کے مستقبل کے حوالے سے قانون سازی۔
3۔ ذخیرہ اندوزوں، اجارہ داروں اور سٹے بازوں سے عوام کے تحفظ کی خاطر خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں کی اوپری حد مقرر کرنا۔
5۔ وقتی طور پرجنگی ضروریات پوری کرنے کی خاطر بورژوازی کی بالائی پرتوں پر ایک خصوصی ٹیکس لگانا۔
ان نکات کے گرد کنونشن میں واضح طور پر تین دھڑے تشکیل پائے۔ جیرونڈنز، جو اکثریت میں تو نہیں تھے لیکن اپنی دولت کے سہارے خاصا اثر ورسوخ رکھتے تھے۔ کنونشن کے بعد بننے والی پہلی ریپبلکن حکومت میں تقریباً تمام وزارتیں ان کے پاس تھیں۔ یاد رہے کہ جمہوریہ کے قیام کے بعد انہوں نے بھی اپنے آپ کو ریپبلکن کہنا شروع کر دیا تھا لیکن یہ محض ایک فریب تھا۔ وہ آج بھی آئینی بادشاہت کی حامی بورژوازی کی بالائی پرتوں کے ہی نمائندے تھے اور سمجھتے تھے کہ انقلاب کو مزید آگے نہیں بڑھنا چاہئے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے بورژوا ملکیت کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ وہ مطلق العنان بادشاہت کی بحالی کے حامی تو نہیں تھے لیکن عوامی تحرک کو شاہ پرستوں کی ہی طرح نفرت اور تشویش کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ دوسرا دھڑا ’مونٹیگنارڈ‘ کہلاتا تھا جوبائیں بازو کے جیکوبنز، کورڈلیرز اور دیگر ریڈیکل ریپبلکنز پر مشتمل تھا۔ روبسپئیر، دانتون، مارات، سینٹ جسٹ وغیرہ اس کے مرکزی لیڈر تھے۔ یہ دھڑا بورژوازی کی نچلی پرتوں اور عوام کا نمائندہ تھا اور اسے انقلابی کمیونز، ریڈیکل کلبوں اور پاپولر سوسائٹیوں کی حمایت بھی حاصل تھی، لیکن کنونشن میں ان کی تعداد جیرونڈنز سے بھی کچھ کم تھی۔ مونٹیگنارڈز سمجھتے تھے کہ انقلاب کو اپنی بقا کی خاطر آگے بڑھتے ہوئے جاگیر داری کا مکمل خاتمہ کرنا پڑے گا۔ یہاں بالکل واضح رہے کہ شومیٹ اور ہیبرٹ کی قیادت میں ایک چھوٹے سے انتہاپسند ذیلی گروپ کو چھوڑ کر بحیثیت مجموعی مونٹیگنارڈز بورژوا ملکیت کے بھر پور حامی تھے لیکن سمجھتے تھے کہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر بورژوازی کی بالائی پرتوں کی اندھا دھند لوٹ مار کی روک تھام اور خصوصاً ذخیرہ اندوزوں، اجارہ داروں اور سٹے بازوں کی سرکوبی کرنا لازمی ہے۔ بعض مؤرخین کی غلط فہمی کے برعکس مونٹیگنارڈز میں موجود انتہا پسند بھی جدید معنوں میں سوشلسٹ یا کمیونسٹ ہر گز نہ تھے بلکہ دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کی روک تھام کے لئے ملکیت کی یکساں تقسیم جیسے مبہم یوٹوپیائی خیالات رکھتے تھے۔ عددی اکثریت کے حامل، کنونشن میں موجود تیسرے دھڑے کو طنزاً ’دلدل‘ کہا جاتا تھا۔ یہ زیادہ تر چھوٹے شہروں اور قصبوں کی بورژوازی اور خوشحال بورژوا کسانوں کے نمائندے تھے۔ سیاسی طور پر خام، قدامت پسند اور پسماندہ ذہنیت کے ساتھ ان کا کسی بھی معاملے میں اپنا کوئی واضح مؤقف نہیں ہوتا تھا۔ زیرِ بحث موضوع کی نوعیت اور مجموعی سیاسی ماحول کے زیر اثر یہ اپنے تنگ نظر طبقاتی مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جیرونڈنز یا مونٹیگنارڈز میں سے کسی کی بھی طرفداری کر لیتے تھے۔ لیکن اپنی عددی بر تری کی وجہ سے کسی بھی معاملے میں ان کا جھکاؤ یقینا انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔
مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہے کہ کنونشن میں ہونے والی تمام بحث میں اصل ٹکراؤ جیرونڈنز اور مونٹیگنارڈز کے مابین تھا۔ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جس میں ان دونوں کے بیچ شدید اختلاف رائے موجود نہ ہو۔ جیرونڈنز کے مطابق چونکہ جمہوریہ قائم ہو چکی تھی اورکنونشن کی صورت میں قومی نمائندوں کی حکومت تھی لہٰذا ’ا نقلابی انتشار‘ کو مزید برقرار رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تھی۔ اسی طرح وہ شاہ پرستوں اور بیرونی طاقتوں سے بھی ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر سمجھوتے کے حامی تھے۔ مزید برآں وہ ملکیت کے تقدس کو زک پہنچنے کے خوف سے جاگیر داری کے مکمل خاتمے کے بھی مخالف تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کے بھی خواہش مند تھے کہ کلیسا ئی جائیداد کی لوٹ سیل کی طرح جلا وطن اشرافیہ کی ضبط کی جانے والی جاگیروں کو بھی بڑے قطعوں کی صورت میں فروخت کیا جائے تا کہ اس کا پورا فائدہ بورژوازی کی بالائی پرتیں اٹھا سکیں۔ اسی طرح وہ جاگیر داروں کی طرف سے ہتھیائی گئی مشترکہ زمینوں کی ضبطگی کے مخالف تھے لیکن چاہتے تھے کہ ایسی جن زمینوں کو دیہی کمیونز پہلے ہی جاگیر داروں سے چھین چکے ہیں، انہیں کمیونز سے لے کر قومی تحویل میں لیا جائے اور پھر بڑے قطعوں کی صورت میں فروخت کر دیا جائے۔ اسی طرح وہ ذخیرہ اندوزوں، اجارہ داروں اور سٹے بازوں کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدامات کرنے اور بنیادی اشیائے ضرورت پرحکومتی پرائس کنٹرول قائم کرنے کے بھی مخالف تھے کیونکہ ان کے مطابق اس سے ’منافع کمانے کا جائز حق‘ متا ثر ہوتا تھا۔ جنگی اخراجات کے لئے بھی وہ اپنے طبقے کی بجائے عوام پر ہی مزید ٹیکس لادنے کے حامی تھے۔ وہ فرانس کے طول و عرض میں ابھرنے والے انقلابی کمیونز اور خصوصاً پیر س کمیون کے بھی شدید مخالف تھے اور انہیں انتشار کی جڑ قرار دیتے تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ان تمام کمیونز کو یا تو ختم کر دینا چاہئے یا پھر سختی سے حکومت کے کنٹرول میں لے لینا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے کمیونز پر حملہ کرنے کا کوئی بہانہ ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ کبھی کمیونز کو آمرانہ قرار دے کر ان میں نئے انتخابات کرائے جانے کا مطالبہ کیا جاتا تو کبھی ان پر مالی بے ضابطگیوں کا الزام لگا کر انہیں آڈٹ کرانے کا حکم دیا جاتا۔ اسی طرح مونٹیگنارڈز کے لیڈر، خاص کر روبسپئیر، مارات اور دانتون بھی مسلسل جیرونڈنز کے سیاسی حملوں کی زد میں تھے۔ کبھی انہیں ستمبر1792ء میں ہونے والی قتل وغارت کا ذمہ دار قرار دے کر سزا دینے کا مطالبہ کیا جاتا تو کبھی انتشار پسندی اور مالی خرد برد کا الزام لگا کر۔ انقلاب کے مرکز و محور پیرس سے بھی وہ نفرت کرتے تھے اور ان کی مسلسل کوشش تھی کہ ’وفاق پرستی‘ کا سہارا لے کر دیگر علاقوں کے عوام کو پیرس کے خلاف ورغلا سکیں تا کہ پیرس کو تنہا کیا جا سکے۔
ظلم تو یہ تھا کہ جیرونڈنز اپنے طبقاتی مفادات کے پیش نظر موقع پرستی، دروغ گوئی، بہتان تراشی اور سازشوں کے ذریعے انقلاب کا راستہ عین اس وقت روکے کھڑے تھے جب ایک طرف مارچ، اپریل1793ء میں محاذِ جنگ پر صورتحال پھر بگڑتی جا رہی تھی اور دوسری طرف ملک کے مختلف حصوں میں شاہ پرستوں نے انتہائی خون ریز ردِ انقلابی بغاوتوں کا آغاز کر دیا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود مونٹیگنارڈز اور کسی حد تک پیرس کمیون کی قیادت بھی عوامی حمایت رکھنے کے باوجود جیرونڈنز کے خلاف کوئی عملی اقدامات کرنے کی بجائے کنونشن میں بحث مباحثے کے ذریعے ان کے ساتھ کوئی بہتر معاہدہ کرنے کی خواہش مند تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ہنگامی صورتحال کے عین وسط میں قومی کنونشن میں کھلی پھوٹ سے گھبرا رہے تھے اور ڈرتے تھے کہ اس کا فائدہ بیرونی حملہ آوروں اور شاہ پرستوں کو ہو گا۔ مگر پیرس کے عوام کا صبر جواب دے رہا تھا۔ اس نازک وقت پر اپنے سب سے ریڈیکل نمائندوں سے بھی زیادہ دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ بخوبی سمجھ رہے تھے کہ حتمی تجزئیے میں جیرونڈنز شاہ پرستوں اور بیرونی حملہ آوروں کے ہی اتحادی ہیں اور انقلاب کے آگے بڑھنے اور اس کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ اس ’قومی وحدت‘ کے سراب کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں کنونشن سے نکال باہر کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے وہ ایک مرتبہ پھر مسلح سرکشی پر آمادہ تھے۔
عوامی موڈ کا اظہار سیکشنز کی اسمبلیوں کے ذریعے پیرس کمیون کی جنرل کونسل میں ہونے لگا اور کمیون کی قیادت نے آخر کار مونٹیگنارڈ قیادت کو بھی قائل کر لیا کہ آگے بڑھنے کے لئے انہیں جیرونڈنز پر حملہ کرنا پڑے گا۔ لیکن روبسپئیر، مارات اور دانتون نے کمیون کی قیادت سے وعدہ لیا کہ سرکشی کے دوران پیرس میں بورژوازی کی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے کیونکہ یہ عمل فوری طور پر پورے ملک میں بورژوازی اور اس کی نیشنل گارڈ کو کمیونز اور مونٹیگنارڈز کے مد مقابل لا کھڑا کرے گا۔ سرکشی سے قبل کے دنوں میں مونٹیگنارڈ لیڈروں نے پیرس کے نیشنل گارڈ کے ایسے دستوں کو جو بورژوازی کی نچلی پرتوں پر مشتمل تھے، نہ صرف سرکشی کی حمایت کرنے پر رضامند کر لیا بلکہ کمیون کی رضا مندی سے عوام کے مسلح جتھوں کو بھی ان میں شامل کرتے ہوئے ایک نئی نیشنل گارڈ کی تشکیل کی جس کی قیادت فرانکوئس ہینرئیٹ نامی ایک عوامی لیڈر کے پاس تھی۔ 31 مئی کو ہزاروں لوگ کنونشن ہال کو گھیرے میں لے چکے تھے۔ وہ بالکل پر امن تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ جیرونڈنز کے 27سرکردہ لیڈروں کو کنونشن سے نکال باہر کیا جائے۔ مگر جیرونڈنز نے عوام کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ اس پر عوام نے وہیں ہال کے گرد ہی ڈیرے ڈال لئے اور اگلا پورا دن بھی وہیں بیٹھے رہے۔ 2جون کو لیونز سے شاہ پرست ردِانقلابی بغاوت میں ہزاروں لوگوں اور کئی ایک ریڈیکل ریپبلکنز کے مارے جانے کی اطلاع موصول ہوئی۔ لوگوں کا صبر جواب دے گیا۔ گھنٹوں میں ایک لاکھ مسلح عوام کنونشن ہال کے گھیراؤ میں شامل ہو گئی۔ ہینرئیٹ نے بھی اپنے نو تشکیل شدہ نیشنل گارڈ کے دستے توپخانے سمیت ہال کے گرد تعینات کر دیے۔ مسلح عوام کا یہ جم غفیر اور توپوں کا رخ دیکھ کر ہال پر حفاظت کے لئے تعینات جیرونڈنز کے ہمدرد نیشنل گارڈ بغیر لڑے تتر بتر ہو گئے۔ جب ہال کے اندر یہ اطلاعات پہنچیں تواب تک اکثر معاملات میں جیرونڈنز کا ساتھ دینے والے’دلدل‘ کے زیادہ تر اراکین نے ہواؤں کا رخ دیکھ کر سائیڈیں بدل لیں اور مونٹیگنارڈز کے ساتھ ہو گئے۔ ستائیس جیرونڈن لیڈروں کی رکنیت منسوخ کرنے اور انہیں کنونشن سے نکال باہر کرنے کی قرار داد اکثریت کے ساتھ منظور ہو گئی۔ لیکن طاقت رکھنے کے باوجود سرکشی کا رویہ جیرونڈنز کے ساتھ پر امن تھا۔ نہ ہی فوری طور پر انہیں کالعدم قرار دیا گیا اور نہ ہی ان کے نکالے جانے والے لیڈروں کو گرفتار کیا گیا۔ صرف ان کے پیرس چھوڑنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے انہیں نظروں میں رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ یوں جیرونڈن حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ عوام کے تحرک اور پہل گامی نے ایک بار پھر انقلاب کے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کر دی تھی۔
اگلے چند ماہ میں اب مونٹیگنارڈز کا غلبہ رکھنے والے کنونشن نے عوامی امنگوں کے مطابق بے شمار قوانین پاس کئے۔ ان قوانین کے نتیجے میں بلا ادائیگی جاگیر داری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ غریب کسانوں کو اپنی زیر کاشت اراضی کے مالکانہ حقوق مل گئے۔ اشرافیہ کی ضبط شدہ جاگیروں کے ایک قابل ذکر حصے کو چھوٹے قطعوں میں تقسیم کر کے بے زمین کسانوں میں مفت یا انتہائی آسان اقساط پر بانٹ دیا گیا۔ سابقہ شاہی دربار کے براہ راست زیر انتظام جاگیروں کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔ اگرچہ ابھی بھی ضبط شدہ جاگیروں کی فروخت میں زیادہ فائدہ بورژوازی کی بالائی پرتوں اور پہلے سے موجود خوشحال بورژوا کسانوں نے ہی اٹھایا لیکن پھر بھی غریب اور بے زمین کسانوں کی بھی ایک بڑی تعداد کو اس سے فائدہ ہوا اور یوں چھوٹے اور درمیانے ملکیتی کسانوں کا ایک پورا طبقہ وجود میں آیا جو مستقبل میں کسی ردِ انقلاب کے ذریعے جاگیر داری کی بحالی کے راستے میں ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ بن گیا۔ اسی طرح پرانے آئین کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ایک نیا ریپبلکن آئین منظور کیا گیا۔ ہنگامی صورتحال کے دباؤ کے تحت کنونشن نے ذخیرہ اندوزوں، سٹے بازوں اور اجارہ داروں پر بھی زبردست کریک ڈاؤن کیا اور خوراک سمیت دیگر بنیادی اشیائے ضرورت پر حکومتی پرائس کنٹرول نافذ کر دیا۔ یہاں تک کہ خوراک کی رسد کو بھی بہت حد تک ریاست نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ جنگ کے اخراجات برداشت کرنے کی خاطر بورژوازی کی بالائی پرتوں پر ایک وقتی ٹیکس بھی عائد کیا گیا۔ ان تمام اقدامات نے عوام میں ایک نئے حوصلے اور عزم کو جنم دیا اور وہ انقلاب کے دفاع میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے رضامند ہو گئے۔ اسی بنیاد پر ریپبلکن افواج کی انقلابی بنیادوں پر تعمیر نو کی گئی۔ مختصر عرصے میں لاکھوں سپاہیوں کی بھرتی کی گئی۔ فوج کی کمانڈ کو مشکوک ہمدردیاں رکھنے والے تمام افسروں سے پاک کر دیا گیا۔ سرما 1793ء کے آغاز تک نہ صرف محاذ جنگ پر ریپبلکن افواج حاوی ہو چکیں تھیں بلکہ ملک کے اندر سر اٹھانے والی ردِ انقلابی بغاوتوں کو بھی کچل دیا گیا تھا۔
مندرجہ بالا تمام اقدامات کرتے ہوئے انقلاب اپنے تاریخی فرائض پورے کر چکا تھا بلکہ ہنگامی صورتحال کے دباؤ کے تحت اسے اپنی مادی حدود سے چند قدم باہر نکالتے ہوئے وقتی طور پربورژوازی کے بعض حصوں پربھی قدغنیں لگانا پڑی تھیں۔ یہ عرصہ انقلاب کے حتمی ابھار کا عرصہ تھا اور اب اس کا زوال ناگزیر تھا۔
5۔دہشت کا راج اور زوال
2جون1793ء کے بعد نیشنل کنونشن میں ہونے والی قانون سازی کو عملی جامہ پہنانا کو ئی آسان کام ہرگز نہ تھا۔ اس مقصد کے لئے فرانس کے تیس ہزار سے زائد انقلابی کمیونز، ریڈیکل سیاسی کلبوں اورپاپولر سوسائٹیوں نے مونٹیگنارڈز کا ساتھ دیا۔ مگر اس سارے عمل میں انہیں نظامِ قدیم کی باقیات اور اکثر اوقات بورژوازی کی بالائی پرتوں کی جانب سے بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ، ردِ انقلابی بغاوتوں اور قحط کی صورتحال میں ہنگامی بنیادوں پر یہ سب کرنے کے لئے طاقت کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جانا نہ صرف ناگزیر بلکہ ایک ترقی پسندانہ قدم تھا۔ آسان الفاظ میں بورژوا ریپبلکن ازم کے سب سے ریڈیکل اور مستقل مزاج نمائندوں کی آمریت کے بغیر انقلاب کے تاریخی فرائض کی عملی تکمیل ناممکن تھی۔ اس آمریت کا اوزار کنونشن کی جانب سے اپریل میں تشکیل کردہ’کمیٹی آف پبلک سیفٹی‘ بنی۔ 10 جولائی کو کمیٹی کی تشکیل نو کی گئی اور اب اس کی دوتہائی اکثریت مونٹیگنارڈز پر مبنی تھی۔ 13جولائی کوایک جیرونڈن ہمدردیاں رکھنے والی عورت نے مارات کو قتل کر دیا۔ ردِ انقلاب نے انقلابی قیادت پر براہ راست حملہ کیا تھا۔ اس پس منظر میں 27جولائی کو روبسپئیر کنونشن کی منظوری سے نہ صرف کمیٹی کا ممبر بلکہ اس کا سربراہ بھی بن گیا۔ کمیٹی نے پوری تندہی اور انقلابی سفاکی کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی کا آغاز کیا اور جلد ہی اس کے مثبت نتائج سب کے سامنے آنے لگے۔ اپنی کامیابیوں کی وجہ سے بننے والی سیاسی اتھارٹی کے بلبوتے پر کمیٹی نے کنونشن کی منظوری سے نہ صرف دیگر دو کمیٹیوں یعنی ’کمیٹی آف جنرل سکیورٹی‘ اور ’کمیٹی آف پبلک ویلفیئر‘ کو اپنے تابع کر لیا بلکہ پیرس کمیون کی جنرل کونسل کو بھی اپنے ماتحت کر لیا۔ اسی طرح کمیٹی کا انتظامی اثر ورسوخ پاپولر سوسائٹیوں، ریڈیکل کلبوں اور نوتشکیل کردہ نیشنل گارڈ تک بھی پھیل گیا۔ 5 ستمبر کو کمیٹی کی ایک مرتبہ پھر تنظیمِ نو کی گئی اور اب اس کے بارہ میں سے دس ممبران مونٹیگنارڈ تھے جن کی اکثریت ریڈیکل جیکوبنز پر مبنی تھی۔ یوں کمیٹی آف پبلک سیفٹی کے ذریعے فرانس پر جیکوبنز کی حکومت قائم ہو گئی۔
جلد ہی کمیٹی کو یہ احساس ہونے لگاکہ انقلاب دشمن عناصر کی مکمل سرکوبی کے لئے محض انتظامی اقدامات ناکافی ہیں اوران کی ردِ انقلابی سرگرمیوں سے نجات پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان کا خاتمہ کر دیا جائے۔ 19ستمبر کو روبسپیئر نے کنونشن سے ایک نیا قانون منظور کرایا جس کے تحت انقلاب دشمنی میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے ان کا سمری ٹرائل کیا جا سکتا تھا۔ اکتوبر1793ء کے وسط میں ٹاور ٹیمپل میں قید سابقہ ملکہ میری اینٹونٹ اور شاہی خاندان کے کئی دیگر افراد کو انقلاب دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں سزائے موت سنادی گئی۔ اسی ماہ کے آخر میں پیرس میں موجود تمام سرکردہ جیرونڈن لیڈروں کو بھی سمری ٹرائل کے بعد گلوٹین کے حوالے کر دیا گیا۔ یوں ’دہشت کے راج‘ کا آغاز ہوا۔
فروری 1794ء تک ہزاروں شاہ پرستوں، سابقہ جاگیر داروں، پادریوں، جیرونڈنز، فوجی بھگوڑوں، ذخیرہ اندوزوں، کرپٹ ٹھیکیداروں، اجارہ داروں اور سٹے بازوں کے سر گلوٹین سے قلم کر دیے گئے۔ رجعتی مؤرخین اور یہاں تک کہ بعض انارکسٹ مؤرخ بھی کمیٹی میں موجود ریڈیکل جیکوبنز کے گروپ کو خون آشام درندوں اور بدترین آمروں سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے۔ لیکن انہوں نے وہی کیا تھا جو اس وقت انقلاب کے دفاع کے لئے ضروری تھا۔ بلاشبہ آگے چل کر دہشت کا راج انقلاب کی اپنی قیادت کو بھی کھا گیا لیکن کم از کم ابتدائی مراحل میں اس کا کردار صورتحال کی مناسبت سے ناگریز اور ترقی پسندانہ تھا۔
1794ء کے اوائل میں ہی جنگی، معاشی و سماجی صورتحال میں بہتری اور شاہ پرست ردِ انقلاب کے فوری خطرے کے ٹل جانے پر مونٹیگنارڈز کے اپنے اندر موجود پھوٹ واضح ہو چکی تھی۔ اب دائیں جانب دانتون،کیمیل ڈسمولنز اور ان کے ساتھیوں کا دھڑا تھا جو شدید تھکن کا شکار تھا اور کمیٹی کی آمریت کا خاتمہ کرتے ہوئے صورتحال کو واپس معمول پر لانا چاہتا تھا۔ لیکن روبسپیئر اور اس کا گروپ درست طور پر سمجھ رہا تھا کہ اگرچہ دانتون اور اس کا گروپ دل وجان سے ریپبلکن ہے لیکن اس وقت وہ پس پردہ رہ کر سازشیں کرنے والے جیرونڈنز اور دیگر انقلاب دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں جو ان کی تھکن اور مایوسی کا فائدہ اٹھا کر اپنے مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ جبکہ بائیں جانب ہیبرٹ اور شومیٹ کی قیادت میں انتہا پسند دھڑا تھا جوبورژوا ملکیت پر مزید حملے کرنے کی وکالت کر رہا تھا۔ واضح رہے کہ ہیبرٹ اور شومیٹ پیرس کمیون کی جنرل کونسل کے منتخب اعلیٰ عہدیدار بھی تھے اور کمیون پر کمیٹی کے کنٹرول کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مزید برآں پیرس کے مختلف سیکشنز کی اسمبلیوں میں جیکوئس روکس اور گیلارڈ جیسے یوٹوپیائی سوشلسٹ خیالات رکھنے والے عوامی لیڈر بھی موجود تھے جو بائیں بازو کے مونٹیگنارڈز سے بھی زیادہ ریڈیکل تھے۔ ہم ان تمام افراد کی عوام دوستی اور انقلابی جذبات کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایک غیر طبقاتی سماج قائم کرنااس عہد کی مادی حدود وقیود میں ممکن نہیں تھا۔ جبکہ روبسپیئر اور اس کا گروپ انقلاب کے بورژوا جمہوری تاریخی کردار کا مکمل شعور تو نہیں رکھتا تھا لیکن وہ اتنا ضرور سمجھتے تھے کہ اب مزید آگے بڑھ کر بورژوا ملکیت پر حملہ کرناصرف انتشار اور انقلاب کی بربادی کو جنم دے گا۔ یوں مونٹیگنارڈز کے مختلف دھڑوں میں ڈیڈ لاک کی سی کیفیت پیدا ہو گئی اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب عوام بھی اپنا انقلابی پوٹینشیل خرچ کر کے تھک چکے تھے اور مزید برآں ان کی ایک بڑی تعداد انقلاب کی حاصلات سے خاصی حد تک مطمئن ہو کر تحرک سے باہر ہو چکی تھی۔ آخر کاراس تمام کیفیت کا انت مزید قتل و غارت کی صورت میں ہی نکلا۔
روبسپیئر اور اس کے گروپ نے پہلے دانتون کے دھڑے اور ہیبرٹ کے دھڑے کو اپنے ساتھ ملایا اور کمیٹی کے پاس مرتکز اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سیکشنز میں موجود انتہا پسندوں پر حملہ کیا۔ روکس اور گیلارڈ کو جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا گیا جہاں ان دونوں نے ہی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر کچھ ہفتوں کے وقفے سے خودکشی کر لی۔ پھر روبسپیئر کے گروپ نے دانتون کے دھڑے کو ساتھ رکھتے ہوئے مونٹیگنارڈز کے انتہا پسند دھڑے کو نشانہ بنایا۔ 24مارچ کو ہیبرٹ اور شومیٹ کو ان کے دیگر کئی ساتھیوں سمیت سزائے موت دے دی گئی۔ اس کے بعد اگلی باری دانتون اور اس کے دھڑے کی تھی۔ 30مارچ کو دانتون، ڈسمولنز اور ان کے دیگر کئی ساتھیوں کو جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور ایک شو ٹرائل کے بعد 5اپریل کو انہیں گلوٹین کے حوالے کر دیا گیا۔ مونٹیگنارڈز کے دائیں اور بائیں بازو کے خاتمے کے بعد روبسپیئر اور اس کے گروپ نے مزید اختیارات اپنے پاس مرتکز کر لئے لیکن درحقیقت انقلاب کی باقی تمام قیادت کے خاتمے کے بعد وہ بالکل تنہا رہ چکے تھے۔ انقلاب نے بورژوازی کی طاقت اور تعداد میں بے پناہ اضافہ کیا تھا۔ خصوصاً اس کی بالائی پرتیں انقلاب کے دوران ہر قسم کی لوٹ مار کے ذریعے نہایت امیر ہو چکی تھیں۔ وہ اب ہر صورت میں سماج کو معمول پر لانا چاہتے تھے تاکہ اپنی ملکیت ودولت کو کھل کر استعمال میں لا سکیں۔ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ جیسے ہی حالات واپس اپنی ڈگر پر آئے، تو سماج پر ان کا ہی راج ہو گا۔ بس وہ اس عمل کا آغاز کرنے کی خاطر ایک موقع تلاش کر رہے تھے اور وہ اب انہیں مل چکا تھا۔ کنونشن میں موجود دلدل اور غیر جانبدار مونٹیگنارڈز، روبسپیئر اور اس کے گروپ سے شدید خوفزدہ تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر قتل وغارت کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو جلد ان کی باری بھی آ جائے گی۔ بورژوازی کی بالائی پرتوں نے اپنے سینکڑوں روابط کے ذریعے ان متزلزل عناصر کی ہمت بڑھائی کہ وہ روبسپیئر کے گروپ سے چھٹکارا حاصل کریں۔ 26جولائی کو جب روبسپیئر نے سازش کی بو سونگھتے ہوئے کنونشن میں اپنی تقریر کے دوران اراکین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں تو پورا کنونشن اس کے خلاف کھڑا ہو گیا۔ اسے اپنی تقریر ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اگلے دن یعنی 27جولائی(نئے کیلنڈر کے مطابق 9تھرمیڈور) کو روبسپیئر اور اس کے کئی ساتھیوں کو کنونشن ہال سے انقلاب دشمن سرگرمیوں اور آمریت کو فروغ دینے کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ پورے پیرس میں کوئی نہیں تھا جو ان کا دفاع کرتا۔ صرف ہینرئیٹ نے نیشنل گارڈ کے ایک چھوٹے سے دستے کے ساتھ انہیں قید سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن اس دوران وہ خود گرفتار ہو گیا۔ اگلی سہ پہر روبسپیئرکو اس کے بیس ساتھیوں سمیت کسی ٹرائل کے بغیر گلوٹین کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ یوں تاریخِ انسانی کے اس عظیم کھیل کا حتمی انت ہوا۔
اختتامیہ
روبسپیئر اور اس کے گروپ کی موت کے بعد دہشت کے راج کا فوری طور پر خاتمہ نہیں ہوا بلکہ روبسپیئر کے ریڈ ٹیرر کی جگہ تھرمیڈورین ردِ انقلاب کے وائیٹ ٹیرر نے لے لی۔ ردِانقلاب نے چن چن کر ہر اس شخص کو موت کے گھاٹ اتارا جس نے کبھی کسی سرکشی میں کوئی بھی سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ جیکوبن اور کورڈلیرز کلب سمیت تمام ریپبلکن کلبوں اور پاپولر سوسائیٹیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ سیکشنز کی اسمبلیوں اور پیرس کمیون کو بزور طاقت تحلیل کر دیا گیا۔ یوں ردِ انقلاب کے ایک طویل دور کا آغاز ہواجس کے مختلف مراحل کے نتیجے میں نومبر 1799ء میں نپولین بونا پارٹ ایک فوجی کُو کے ذریعے برسرا قتدار آیا۔ 1803ء میں نپولینائی جنگوں کا آغاز ہوا جن میں پورا یورپ فرانسیسی افواج کے بوٹوں کی دھمک سے گونج اٹھا۔ 1815ء میں واٹر لو کی جنگ میں نپولین کی فیصلہ کن شکست کے بعد فرانس میں بوربن شاہی خاندان(لوئی شش دہم کا خاندان) کی آئینی بادشاہت پھر بحال ہو گئی۔
اس تمام عرصے میں اگرچہ انقلاب کی زیادہ تر سیاسی حاصلات کا خاتمہ ہو گیالیکن اس کا اہم ترین کارنامہ یعنی جاگیر داری کا خاتمہ نہ صرف قائم رہا بلکہ فرانس سمیت پورے یورپ میں بورژوا پیداواری رشتوں کے فیصلہ کن غلبے کا سبب بن کر جدید دنیا کی تخلیق وتعمیر کی بنیاد بنا۔