|تحریر: ریولوشن (آئی ایم ٹی فرانس)، ترجمہ: یار یوسفزئی|
اپریل 2017ء کے فرانسیسی صدارتی انتخابات میں عالمی مارکسی رجحان کے فرانسیسی سیکشن ’ریولوشن‘ نے ’فرانس آں سومیز‘ (ایف آئی) پارٹی کے امیدوار ژان لوک میلنشون پر تنقید رکھتے ہوئے اس کی حمایت کی تھی۔ آج پانچ سال بعد آنے والے انتخابات میں (جو 10 اپریل کو شروع ہوں گے) فرانسیسی مارکس وادی دوبارہ ایف آئی کی حمایت کریں گے، مگر ایسا پارٹی اور میلنشون کی محدودیت پر تنقید کرتے ہوئے کیا جائے گا۔ اس مضمون میں (جو سال کے شروع میں لکھا گیا) وہ اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ محض ژان لوک میلنشون اور فرانس آں سومیز ہی ہیں جو آنے والے صدارتی انتخابات میں صدر ایمانوئل میکرون اور انتہائی دائیں بازو کو شکست دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایف آئی کا منشور ”ایک مشترکہ مستقبل“ گرینز اور سوشلسٹ پارٹی سے زیادہ لڑاکا ہے جس میں فرانسیسی بورژوازی کے مفادات، قوت اور دولت پر انگلی اٹھائے بغیر سماج میں ’تبدیلی‘ لانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مگر ایف آئی کا پروگرام بہرحال اصلاح پسندی پر مبنی ہے۔ اس میں سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیے بغیر اکثریتی آبادی کے معیارِ زندگی میں شاندار بہتری لانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اسے مارکسی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
سرمایہ داری کی ’اصلاح‘؟
اپنے منشور کے تعارف میں میلنشون لکھتا ہے: ”ہمارے دور کی مالیاتی سرمایہ داری اس پیمانے پر سماجی تشدد کو جنم دے کر فطرت کو لوٹ رہی ہے جس کی انسانی تہذیب میں مثال نہیں ملتی۔ وہ وباؤں سمیت اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز سے منافعے کماتی ہے (۔۔۔) اور چونکہ یہ نظام اپنی تباہیوں پر خود کو شکم سیر کرتا ہے، اس لیے یہ اپنی اصلاح کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔“
مگر ایسے میں کیا کِیا جائے؟ مارکس وادی جواب دیتے ہیں: عوام کے معیارِ زندگی کا دفاع کرتے ہوئے اسے بہتر بنانے کے لیے مسلسل لڑنے کے ساتھ ساتھ مزدور تحریک کو سرمایہ دارانہ نظام کا تختہ الٹنے، محنت کشوں کو اقتدار میں لانے اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا آغاز کرنے کا اہم فریضہ بھی اپنانا ہوگا۔ فرانس اور دنیا بھر میں سرمایہ داری اپنے خاتمے تک انسانیت کو معاشی بحرانات، سماجی زوال، سامراجی جنگوں اور ماحولیاتی تباہ کاریوں کا شکار بناتی رہے گی۔
ایف آئی کا پروگرام اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام کی اصلاح پر مبنی ہے۔ میلنشون بطورِ مجموعی سرمایہ داری پر نہیں بلکہ ”مالیاتی“ سرمایہ داری پر انگلی اٹھاتا ہے۔ ”ایک مشترکہ مستقبل“ کے آٹھویں باب میں، جس کا عنوان ”حقیقی معیشت کو غیر مالیاتی بنانا“ ہے، یہ بحث کی گئی ہے کہ ”ہمیں فنانس پر قابو پا کر حقیقی معیشت کو سٹے بازوں سے بچانا پڑے گا۔“
مگر سرمایہ داری کے تحت ’حقیقی معیشت‘ کے بنیادی قوانین ناگزیر طور پر مالیاتی سرمائے کو پروان چڑھا کر اس کے غلبے کو بڑھاتے ہیں۔ مارکس نے اپنی کتاب ’داس کیپیٹل‘ میں پہلے ہی سے اس بارے میں لکھا تھا، جبکہ بعد میں لینن نے سامراجیت کے پروان چڑھنے میں اسی عمل کے بنیادی کردار پر زور دیا تھا۔ اس کے بعد سے سرمایہ داری کی پوری تاریخ نے مارکس اور لینن کے تجزیے کو درست ثابت کیا ہے۔
معاشی اور سماجی انتشار سے نجات پانے کے لیے پورے سماج کو سرمایہ داری سے صاف کرنا ہوگا، نہ کہ محض ’مالیاتی‘ سرمایہ داری سے۔ معیشت کے تمام کلیدی شعبہ جات محنت کشوں کے جمہوری قبضے میں لینے ہوں گے۔ ملازمین کو خود ’حقیقی معیشت‘ کے انتظامات سنبھالنے ہوں گے، تاکہ سب کے مفادات کی خاطر جمہوری معاشی منصوبے کا اہتمام کر سکیں۔
سرمایہ دارانہ اپوزیشن
ایف آئی کے پروگرام میں متعدد لڑاکا پالیسیوں کی بات بھی کی گئی ہے: اجرتوں میں بڑا اضافہ، پنشن اور سماجی ضمانتوں میں اضافہ، پبلک سروسز کی توسیع، سرکاری ملازمین کی بھرتیاں، اوقاتِ کار میں کمی (ہفتہ وار 32 گھنٹے)، چھٹے ہفتے میں تنخواہ سمیت چھٹی، مفت تعلیم اور علاج، اور ضرورت مند افراد کے لیے دس لاکھ گھروں کی تعمیر۔
اس میں ”فوری طور پر ماہانہ کم از کم اجرت میں 14 سو یوروز کا مزید اضافہ کرنے“، ”پنشن میں کم از کم اجرت کے پیمانے کا اضافہ کرنے“، اور تمام سماجی امداد (بیروزگاری، بڑی عمر وغیرہ کی امداد) کو ”غربت کی لکیر (1 ہزار 603 یوروز ماہانہ) تک بڑھانے“ کی بات کی گئی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ: جو نوجوان اپنے والدین کے گھروں کو چھوڑ گئے ہیں، ان کو اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے وظیفہ دیا جائے گا۔ اگر فقط یہی اقدامات لیے جائیں تو یہ لاکھوں لوگوں کو شدید غربت سے نکالنے کے لیے کافی ہوں گے۔
پروگرام میں مزید کہا گیا ہے: ”لمبے عرصے سے نوکری تلاش کرنے والے افراد کو (ریاست کی جانب سے) ایکولاجیکل ٹرانزیشن (نئے سماجی و معاشی ماڈل اپنانے کا سلسلہ) یا سوشل ایکشن (ضروری ترجیحی شعبہ جات) میں ان کی اہلیت کے مطابق، اور رضاکارانہ بنیادوں پر نوکری دی جائے گی۔“ یہ نوکریاں کرنے والوں، جن کی تعداد 10 لاکھ تک ہو سکتی ہے، کو اضافہ شدہ کم از کم اجرت یا 1400 یوروز کی اجرت دی جائے گی۔ مزید برآں، تمام سروسز اور انتظامیہ میں بڑے پیمانے پر سرکاری ملازمین کی بھرتیوں کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔
ایف آئی کی حکومت ان پالیسیوں کے اخراجات کیسے برداشت کرے گی؟ ان کے منشور میں جواب دیا گیا ہے کہ: قرضے لینے (یورپی مرکزی بینک کے رحم و کرم سے) اور ٹیکس لگا کر (بڑی آمدنی والے گھرانوں اور منافع بخش کارپوریشنز پر)۔ مجموعی طور پر، پروگرام میں ہر سال بڑے کاروباروں کی جیبوں سے کم از کم کئی ارب یوروز لے کر محنت کشوں، بیروزگاروں، طلبہ اور پنشنروں کو دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
کیا حکمران طبقہ ایف آئی کا پروگرام قبول کرے گا؟ ماضی کے تمام تجربات اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں، جیسا کہ 2015ء کے یونانی بحران میں دیکھنے کو ملا جب اصلاح پسند الیکسس سپراس نے یورپی بورژوازی کے دباؤ میں آ کر اپنے سماجی اصلاحات کے پروگرام کو ترک کیا اور عوام دشمن پالیسیاں نافذ کیں۔
اگر میلنشون آنے والے انتخابات جیت جائے، فرانسیسی حکمران طبقہ سرمایہ داری کے گہرے بحران کے پیشِ نظر مزید جارحیت کے ساتھ ایف آئی کے پروگرام پر حملہ کرے گا۔ مزید یہ کہ پچھلی کچھ دہائیوں سے فرانسیسی سرمایہ داری عالمی منڈی میں اپنے حریفوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ مسلسل زوال کا شکار ہے۔ یورپی مرکزی بینک سے لیا گیا قرضہ بورژوازی کا وہ ہتھیار ہوگا جس کے ذریعے وہ حکومت پر حملہ کریں گے۔ اور ایف آئی کے ترقی پسند ٹیکس پروگرام کو سماج کی امیر ترین پرتوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایسے حالات میں ایف آئی حکومت کے سامنے محض دو راستے ہوں گے: دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنا ترقی پسند پروگرام ترک کرے؛ یا جارحانہ قدم اٹھا کر معیشت کے کلیدی شعبوں کو قومیا لے تاکہ بورژوازی کو حکومتی اقدامات سبوتاژ کرنے کے ذرائع سے محروم کیا جا سکے۔ اسے پیداوار اور تبادلے کے اہم شعبہ جات یعنی صنعت، بینکوں، تقسیم کار، ٹرانسپورٹ اور دوا سازی کا شعبہ وغیرہ پر قبضہ کرنا پڑے گا۔
بورژوازی کو حکمرانی کے تمام ذرائع سے محروم کرنے کے بعد ہی ”ایک مشترکہ پروگرام“ میں بیان کی گئی پالیسیاں نافذ کی جا سکتی ہیں۔ مگر میلنشون اس قسم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، جو اس کے تمام سیاسی پروگرام کی بنیادی کمزوری ہے۔
شعبہ صحت کا بحران
منشور کے چھٹے باب کا عنوان ”مستقل وباء کی حالت میں زندگی“ ہے۔ اس میں ان اقدامات کی تجویز پیش کی گئی ہے جو بڑے کاروباروں کے منافعوں کی ترجیحی بنیادوں پر حفاظت کرنے والی میکرون حکومت کے ہاتھوں کرونا وباء کے دوران ہونے والی تباہ کاریوں سے کافی مختلف ہیں۔
مثال کے طور پر اس میں ”ہسپتال میں چارپائیوں کی تعداد بڑھانا“ اور ”شعبہ صحت اور سوشل کیئر کے پروفیشنلز (ڈاکٹر، نرسز، نرسنگ اسسٹنٹ اور انتظامی عملہ) کی بھرتی کا منصوبہ“ شامل ہے۔ مزید برآں، علاج مکمل مفت ہوگا اور دوائیوں کے اخراجات 100 فیصد واپس کیے جائیں گے۔
اگر علاج کے اخراجات 100 فیصد واپس کیے جائیں گے تو پھر شعبہ صحت کو بھی 100 فیصد قومی ملکیت میں لینا چاہیے۔ وباء کے دوران شعبہ صحت اور منافع خوری کے بیچ بنیادی تضاد کا مکمل اظہار ہوا ہے، جس کے نتیجے میں مارچ 2020ء کے بعد سے بہت سارے لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ اس کا حل محض شعبہ صحت کے تمام نجی اداروں (کلینک، ہسپتال، نرسنگ ہوم وغیرہ)، دواسازی کی پوری صنعت، اور علاج معالجے سے وابستہ سارے شعبہ جات کو محنت کشوں کے جمہوری قبضے میں لے کر قومیانے کی صورت ہی ممکن ہے۔
2020ء میں فرانس میں دواسازی کی صنعت کی مجموعی آمدنی 62 ارب یوروز سے زیادہ رہی، جو 2019ء کے مقابلے میں 2.4 فیصد کا اضافہ ہے۔ محض یہ اعداد و شمار ہی اس صنعت کو قومیانے کے جواز کے طور پر کافی ہیں۔ مگر اس کے باوجود ایف آئی کے منشور میں اس قسم کے اقدامات کا کوئی ذکر نہیں، اس میں محض طبی سامان (ماسک، ٹیسٹ، پیوریفائر) بنانے والی کمپنیوں سے پیداوار کا مطالبہ کرنے کی بات کی گئی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ رعایتیں دیے بغیر سارے شعبہ صحت کو قومیا لیا جائے؛ شراکت داروں کے پنجوں سے چھین کر۔ ایسا کرنے سے ہسپتالوں، نرسنگ ہومز اور علاج کے دیگر شعبوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی اجرتیں اور حالاتِ کار بہتر بنانا بھی ممکن ہو سکے گا، جو سالوں سے عوام دشمن پالیسیوں کے باعث اپنے بدتر ہوتے حالاتِ کار سے نالاں ہیں۔ ایف آئی نہ صرف ایسے اقدامات تجویز کرنے میں ناکام ہے، بلکہ وہ ویکسین اور طبی تحقیقات کے لیے نجی کمپنیوں کو شرائط و ضوابط کے تحت قرضے دینے کا ارادہ بھی رکھتی ہے!
ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام نجی ڈاکٹروں کو ایک ہی جھٹکے میں سرکاری شعبہ صحت کا ملازم بنا لیا جائے۔ اس کی بجائے نجی شعبہ صحت بتدریج سرکاری شعبہ صحت میں ضم ہوتا جائے گا جب ریاست مناسب سرمایہ کاری سے خود میں بہتری لائے گی، جو ملک بھر میں اپنے ملازمین کو بہتر حالاتِ کار اور اجرتیں فراہم کرنے کی اہل ہوگی۔
ماحولیاتی منصوبہ بندی
”مالیاتی سرمایہ داری جو انسانوں کا خاتمہ کر کے سیارے کو تباہ کر رہی ہے“ کا سامنا ہوتے ہوئے، ایف آئی منصوبہ بندی کی حمایت کرتی ہے ”کیونکہ منڈی اور مقابلہ بازی نے (ماحولیاتی) خطرات سے نمٹنے میں اپنی نا اہلیت ثابت کر دی ہے۔“ یہ مؤقف اس ’ماحول دوست سرمایہ داری‘ سے انتہائی مختلف ہے جس کا پی ایس اور گرین قائدین سختی سے دفاع کرتے ہیں۔ ایف آئی کے منشور میں ایسے خصوصی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جس کا مقصد سرمایہ داروں پر دباؤ ڈال کر آلودگی کو کم کرنا ہے۔ مگر اس میں ”ماحولیاتی اور سماجی طور پر کار آمد سرگرمیوں کے لیے 200 ارب یوروز کے دیوہیکل منصوبے“ کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔
ان تجاویز میں دو مسئلے ہیں۔ پہلا، کیا یہ واقعی ممکن ہے کہ سرمایہ داروں پر دباؤ ڈال کر ان کی انتہائی منافع بخش سرگرمیوں کو روکا جا سکے؟ دوسرا، قابلِ تجدید توانائی، پبلک ٹرانسپورٹ کی توسیع اور بالعموم ایکولاجیکل ٹرانزیشن کے لیے درکار دیوہیکل سرمایہ کاری کون فراہم کرے گا؟
ان دو مسائل کا حل ایک ہے؛ محنت کشوں اور عوام کے اختیارات کے تحت بڑے ذرائع پیداوار کو سرکاری ملکیت میں لینا اور معیشت کی جمہوری منصوبہ بندی کرنا۔ آپ اس چیز کی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے جس پر آپ کے اختیارات نہ ہوں، اور اس چیز پر آپ کے اختیارات نہیں ہو سکتے جو آپ کی ملکیت نہ ہو۔ مگر ایف آئی کے پروگرام میں سرکاری ملکیت میں لینے کی منصوبہ بندی بہت محدود ہے۔ اس میں موٹر ویز، ریل، آریان اسپیس، فغاسیز دی ژو، آلستوم کی ”بحری توانائی“ والی برانچ، حالیہ طور پر نجکاری شدہ ایئر پورٹ، ای ڈی ایف، انژی، اور ”بعض جنرلسٹ بینک“ کے قومیانے کا ذکر کیا گیا ہے۔
سرمایہ داروں کے پاس ایک بھی بڑا ”جنرلسٹ“ بینک کیوں چھوڑا جائے؟ یہ ایسے ادارے ہیں جو سیارے کے وسائل پر سٹہ بازی کرنے اور اس کی لوٹ مار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایک حقیقی منصوبہ بندی مکمل سرکاری اور مرکزیت پر مبنی بینکاری کے شعبے پر مشتمل ہوگی جس میں مناسب سرمایہ کاری کی اہلیت ہو۔
ای ڈی ایف اور انژی جیسی توانائی کی بڑی کمپنیوں کو قومیانا ضروری ہے۔ مگر اس کے علاوہ کئی دیگر شعبے بھی ماحول کو تباہ کرنے کے ذمے دار ہیں۔ مثال کے طور پر، ٹرانسپورٹ کے شعبے میں مٹھی بھر سرمایہ دار لاکھوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلانے والی (مگر انتہائی منافع بخش) گاڑیاں پیدا کرتے ہیں، جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ منافع خوری کے بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کی نجی صنعت کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کے لیے ٹرانسپورٹ کے شعبے کو محنت کشوں کے اختیارات میں لینا ہوگا، اور اس کا مطلب ان خونخواروں کو محروم کرنا ہے جو اس کے مالک ہیں۔
ایکولاجیکل ٹرانزیشن کا ایک اور اہم پہلو ہاؤسنگ انسولیشن (گھروں میں موسموں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے اقدامات) ہے۔ نہ صرف موجودہ گھروں کو انسولیٹ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ تعمیر ہونے والے نئے گھروں میں بھی اس کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ بالکل ممکن ہے! فرانس میں بیروزگاروں کی تعداد 50 لاکھ سے ذائد ہے، مسئلہ اس کام کے لیے درکار تعداد یا مہارت کا نہیں ہے۔ پراپرٹی کمپنیوں کو منافعے دینے کی بجائے بڑی تعمیراتی کمپنیوں کو قومیا کر مرکزیت پر مبنی سرکاری صنعت میں ضم کرنا چاہیے، تاکہ تعمیرات اور مرمت کے ان بڑے اور ضروری کاموں کو پورا کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ خوراک کی صنعت اور بڑے پرچون فروشوں کو بھی سرکاری شعبے میں شامل کرنا چاہیے، تاکہ سب کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے زراعت کی ترتیبِ نو کر کے اس کی ترقی ہو سکے، جبکہ فطرت، ہماری صحت اور ہماری جیبوں پر زراعت کے برے اثرات ختم ہو سکیں۔
معیشت کی جمہوری منصوبہ بندی سے انسانیت اور قدرت کے بیچ تعلقات میں شاندار ہم آہنگی پیدا ہوگی۔ اس قسم کے اقدامات کا مکمل نفاذ محض عالمی سطح پر ممکن ہے؛ آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی سرحدوں کی تمیز نہیں کرتی۔ یہ بحران عالمی نوعیت کا ہے، جس کو آخری تجزیے میں بین الاقوامی سوشلزم ہی ختم کرنے کا اہل ہے۔
چھٹا جمہوریہ
”ایک مشترکہ مستقبل“ کے آغاز میں چھٹا جمہوریہ کے قیام کا عزم کیا گیا ہے، جس کی قانون ساز اسمبلی کے پاس نیا آئین بنانے کے لیے دو سال ہوں گے، جس کے اوپر پھر ریفرنڈم کیا جائے گا۔
مارکس وادی باقی تمام سوالات کی طرح اس سوال کو بھی طبقاتی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ فرانسیسی بورژوازی جانتی ہے کہ پانچویں جمہوریہ کے ادارے دن بہ دن اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔ اس سے اقتدار پر ان کی گرفت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، جیسا کہ پیلی واسکٹ تحریک کے دوران دیکھنے کو ملا جب قوانین کے بننے اور منسوخ ہونے کے عمل میں عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ البتہ حکمران طبقہ، ابھی کے لیے، نئی جمہوریہ کے ذریعے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش نہیں کر رہا کیونکہ وہ خوفزدہ ہے کہ ایسی تبدیلی سے عوام کی امنگوں میں شدید اضافہ ہوگا اور جمہوری و سماجی اصلاحات کی ایسی تحریک جنم لے گی جو ان کے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
پانچواں جمہوریہ اپنی بنیادوں تک کرپٹ اور بوسیدہ ہو چکا ہے۔ بہرحال، آخری تجزیے میں، اس کے اداروں کا بحران دراصل اس سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا اظہار ہے جس کے اوپر وہ کھڑے ہیں۔ درحقیقت اقتدار کی طاقت منتخب شدہ اسمبلیوں کے پاس نہیں ہے، نہ وزراء کے کونسل کے پاس، اور نہ ہی صدارتی یا شاہی محلات کے پاس۔ اصل طاقت بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بورڈز آف ڈائریکٹرز کے پاس ہے۔ فرانس کے اندر ہر آنے والی حکومت کی پالیسیوں کے اوپر سو سرمایہ دار خاندانوں کا فیصلہ کن اثر و رسوخ ہوتا ہے۔
سابقہ صدور کی طرح، موجودہ ’صدارتی بادشاہ‘ ایمانوئل میکرون بھی سرمائے کی عظیم طاقت کے سامنے سرنگوں ہے۔ اسی وجہ سے، اگر چھٹے جمہوریہ میں سرمائے کی حکمرانی کا تختہ الٹا نہیں جاتا تو وہ بھی اسی طرح کا ہی ایک بورژوا جمہوریہ ہوگا۔ ایف آئی کے پروگرام میں سرمائے کی آمریت ختم کرنے کے لیے درکار اقدامات شامل نہیں ہیں۔ اگر چھٹے جمہوریہ کے مطالبے میں سے کھوکھلا پن ختم کرنا ہے تو ایف آئی کو یہ نعرہ لگانا ہوگا: ”پانچواں جمہوریہ مردہ باد! نیا سوشلسٹ جمہوریہ زندہ باد!“
ریاستی مشینری
”ایک مشترکہ مستقبل“ میں غم و غصّے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ”امیروں کی خدمت پر مامور مراعات یافتہ طبقہ ریاست کو تباہ کر رہا ہے۔“ مگر بورژوا ریاست اپنی فطرت میں ہی ”امیروں کی خدمت پر مامور“ ہوتی ہے۔ سوشلسٹ تعلقاتِ پیداوار کی بنیاد پر قائم مزدور ریاست کی ضرورت کا نتیجہ اخذ کرنے کی بجائے ایف آئی کے منشور میں ”پیسہ اور ریاست کو الگ کرنے کا منصوبہ“ پیش کیا گیا ہے، جس سے کھلے عام ہونے والی کرپشن اور اقربا پروری کا صحیح معنوں میں خاتمہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر کو چمچ سے خالی کرنے کی کوشش کرنا۔
منشور کے دوسرے باب، جو عدالتی نظام اور پولیس سے متعلق ہے، میں کچھ اقدامات ایسے ہیں جو درست ہیں، مثال کے طور پر سب سے عام قانونی کارروائیوں (بشمول طلاق) کو مفت کرنا۔ مگر اس کے علاوہ اس باب میں عدالتی نظام اور پولیس کے طبقاتی کردار پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
اس میں لکھا ہے کہ ”جمہوریہ میں عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے انصاف کیا جاتا ہے۔“ مگر فرانسیسی جمہوریہ میں پیلی واسکٹ تحریک کے 400 سے ذائد مظاہرین کو قید کیا جا چکا ہے۔ ان کے ساتھ ان وائٹ کالر بدمعاشوں میں سے ایک کو بھی قید نہیں گیا جو ہر سال مکمل آزادی کے ساتھ بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کرتے ہیں۔
مزید برآں، منشور میں جمہوریائی پولیس کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے جو قانون کی بالادستی کو اپنا فرض سمجھیں گے، کیونکہ ”پولیس کو انفرادی اور اجتماعی آزادیوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔“ جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی، بورژوا پولیس ”سرمایہ دارانہ تعلقاتِ پیداوار کا دفاع کرنے والے مسلح افراد“ میں سے ایک ہیں، جو بورژوا ریاست کی اساس میں شامل ہیں۔ پولیس کے ادارے کی اصلاح نہیں کی جا سکتی؛ اسے محض سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے، جس کی جگہ ”مسلح عوام“ کی ملیشیا قائم کی جائے گی، جیسا کہ مارکس نے 1871ء کے پیرس کمیون کے تجربے سے سیکھتے ہوئے کہا تھا۔
کمیونارڈز (پیرس کمیون کے انقلابیوں) نے مزدور ریاست کے قیام کے لیے اس کے علاوہ بھی دو اصول پیش کیے: 1) تمام اعلیٰ افسران انتخابات کے ذریعے مقرر ہوں گے اور انہیں کسی بھی وقت (مناسب کارکردگی نہ دکھانے پر) عہدے سے برطرف کیا جا سکتا ہے؛ 2) ان کی اجرت ایک ماہر محنت کش کی اجرت سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایف آئی کے منشور میں پیش کیے گئے اقدامات کی بجائے یہی دو اقدامات ہی ”ریاست اور پیسے کو الگ کرنے“ کے حوالے سے زیادہ با اثر ہوں گے۔ مگر ان اقدامات کو سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین
ایف آئی کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں یورپی یونین کے قائدین کا رویہ کافی حریفانہ ہوگا۔ بالخصوص جرمن حکمران طبقہ، جو معاشی طور پر یورپی یونین کے اوپر غالب ہے، فرانسیسی حکومت کو ترقی پسند اصلاحات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کے لیے بے تحاشا دباؤ ڈالے گا۔
میلنشون کا اس بارے میں کیا خیال ہے اور وہ کیسے جواب دینے کا منصوبہ رکھتا ہے؟ اس حوالے سے اس کا مؤقف پچھلے کچھ سالوں میں تبدیل ہوا ہے۔ 2017ء کے منشور میں لکھا تھا: ”پلان اے، تمام موافق ممالک کو ساتھ ملا کر موجودہ اصولوں کو مسترد کرنا اور نئے اصولوں پر بات چیت کرتے ہوئے یورپی معاہدوں سے خارج ہونا ہے۔ پلان بی، یورپی معاہدوں سے فرانس کے اکیلے اخراج کا ہے تاکہ نئی شراکت داریوں کا آغاز کیا جا سکے۔ ہم یا یورپی یونین کو تبدیل کریں گے یا پھر اسے چھوڑ دیں گے۔“
اس دفعہ ایف آئی کے پروگرام میں پلان اے وہی پرانا ہے، مگر پلان بی کو یوں لکھا گیا ہے: ”تمام صورتوں میں، ہم فوری طور پر اپنا پروگرام ملکی سطح پر نافذ کریں گے اور یورپی اداروں کی مخالفت کا سامنا کریں گے۔ ایسا کرنے کے لیے، ہم یورپی کونسل میں برتری حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کریں گے اور جب بھی ضرورت پڑے تو دخل اندازی کرنے والے اصولوں کی نافرمانی کریں گے۔“ چنانچہ یورپی یونین کو چھوڑنے کی بجائے وہ اس کا حصہ رہتے ہوئے یورپی قائدین کے احکامات کی نافرمانی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ایف آئی کے پروگرام میں اس تبدیلی کے حوالے سے ’لڑاکا بائیں بازو‘ کے ایک (بہت چھوٹے) دھڑے میں غم و غصّہ پایا جا رہا ہے جو مسلسل دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’یورپی یونین کو چھوڑنا‘ بذاتِ خود ملک بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی جدوجہد میں آگے کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔ مگر جب تک بوئیگ، داسو، بولوغے، لاگغدیغ جیسی کمپنیاں فرانسیسی معیشت کے اوپر غالب رہتی ہیں، محنت کشوں اور نوجوانوں کی نجات کا کوئی راستہ میسر نہیں آئے گا، چاہے یورپی یونین میں رہا جائے یا اس سے علیحدگی اختیار کی جائے۔ اس حوالے سے برطانیہ کی مثال موجود ہے، کیا بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے استحصال زدہ اور مظلوم عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری آئی ہے؟
بہرحال، ایف آئی کے پروگرام میں یہ تبدیلی بہتری نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پلان اے، جس میں ”یورپی مرکزی بینک کی حیثیت تبدیل کرنے“ کے حوالے سے بات چیت کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، ایک دیوانے کا خواب ہے جس سے جرمن حکمران طبقے پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب، پلان بی میں ایف آئی حکومت اور یورپی یونین کے قائدین کے بیچ ناگزیر ’تصادم‘ کی بات ہوئی ہے مگر جیتنے کی کوئی حکمتِ عملی بیان نہیں کی گئی ہے۔
ہم ایک دفعہ پھر بتاتے چلیں کہ واحد حل فرانس میں سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے یورپی محنت کش طبقے سے فرانسیسی نقشِ قدم پر چلنے کی اپیل کرنا ہوگا، اس ہدف کے ساتھ کہ یورپی ملٹی نیشنلز کی خدمت پر مامور یورپی یونین کے دیوہیکل آلے کی جگہ یورپ کی متحدہ سوشلسٹ ریاستیں قائم کی جائیں گی۔
جنگیں اور امن
ایف آئی کے منشور میں خارجہ پالیسی اور جنگ پر لکھے گئے باب ’اینٹی گلوبلسٹ سفارتکاری‘ میں لکھا گیا ہے کہ ”امن اور تعاون کی خاطر ایک آزاد حیثیت حاصل کرنا ضروری ہے۔“ اس مقصد کے لیے منصوبہ بنایا گیا ہے کہ ”فرانس فوری طور پر نیٹو کے مربوط کمانڈ سے خارج ہوگا اور پھر، بتدریج، نیٹو سے بھی اخراج کرے گا۔“ اس کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ ”نیٹو جیسے مستقل عسکری اتحاد، جو امریکہ نے خود اپنے لیے بنائے ہیں، ہمارے ملک کے مفادات اور اصولوں کے خلاف ہیں۔“ میلنشون نے ماضی میں یہ بھی کہا تھا کہ ایف آئی حکومت کے تحت فرانس کو ”مزید ان تصادموں میں نہیں کھینچا جائے گا جو محض زوال پذیر امریکہ کے مفاد کے لیے شروع کیے جاتے ہیں۔“
یہ سچ ہے کہ فرانسیسی سامراجیت دوسرے درجے کی قوت ہے اور میکرون کی حکومت (اگرچہ شور شرابا کرتی رہتی ہے) امریکی سامراجیت کی ماتحت ہے۔ بہرحال، امریکہ سے فرانس کی آزادی کس طرح ”عالمی امن میں مددگار“ ثابت ہوگی؟ ظاہر ہے کہ ہم اس کی حمایت نہیں کرتے کہ فرانس نیٹو کا حصہ بنا رہے؛ البتہ، نیٹو چھوڑنے کے بعد فرانسیسی سرمایہ داری کا سامراجی کردار کس معجزے کے تحت ختم ہونے کی طرف جائے گا؟ مزید برآں، امریکہ کی سربراہی میں موجود نیٹو کی دیگر قوتوں کو یہ کس معجزے کی مدد سے سامراجی جنگیں جاری رکھنے سے منع کر پائے گا؟
”ایک مشترکہ مستقبل“ آخری سوال کا جواب یہ تجویز پیش کرتے ہوئے دیتا ہے کہ فرانس کو ”اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کے بغیر ہونے والی تمام فوجی مداخلتوں کو مسترد“ کرنا چاہیے، جس کا مطلب مینڈیٹ کے ساتھ ہونے والی مداخلتوں کو قبول کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا کام جنگ کی روک تھام نہیں ہے۔ اس نے ترقی پسند کردار کبھی ادا نہیں کیا۔ یہ ایک ایسے پلیٹ فارم کے علاوہ کچھ نہیں جہاں بڑی سامراجی قوتیں ثانوی اہمیت کے حامل سوالات زیرِ بحث لاتی ہیں۔
جب واقعی میں کوئی اہم سوال پر بحث کی جا رہی ہو تو آخری فیصلہ اقوامِ متحدہ کا نہیں ہوتا بلکہ وہ بڑی قوتیں اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتی ہیں۔ جیسا کہ 2003ء میں عراق کے اوپر حملے کے سلسلے میں دیکھنے کو ملا۔ فرانسیسی سامراجیت کے مفادات کو دیکھتے ہوئے فرانس نے اقوامِ متحدہ کے اندر فوجی مداخلت کی مخالفت کی تھی۔ مگر امریکی سامراجیوں نے مینڈیٹ کے بغیر ہی عراق کے اوپر حملہ کر دیا۔
یہ سچ ہے کہ بعض اوقات اقوامِ متحدہ کے سیکیورٹی کونسل کے پانچ اراکین بعض فوجی مداخلتوں کے حوالے سے متفق ہوتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس قسم کی مداخلت کسی طرح سے کم سامراجی یا کم رجعتی ہوتی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے پہلی جنگِ خلیج (1990ء) کی حمایت کی تھی، 1991ء اور 2003ء کے بیچ عراق کے اوپر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کی طرح جس کے نتیجے میں 5 لاکھ سے 15 لاکھ تک افراد متاثر ہوئے، جن کی اکثریت بچوں پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد لیبیا کے اندر بھی 2011ء میں فوجی آپریشن کیا گیا، جس نے ملک کو ایسی حالتِ انتشار میں دھکیلا جس سے وہ ابھی تک نہیں نکل سکا ہے۔ اور ہیٹی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ایک ایسا ملک جو سامراجیت کے ہاتھوں مسلسل عذاب میں مبتلا ہے، جسے 2004ء سے 2007ء تک اقوامِ متحدہ کے امن محافظ افواج کی آمریت سہنی پڑی تھی۔
اقوامِ متحدہ کے فرائض میں سے ایک بلاشبہ سامراجی جنگوں کو ’عالمی جواز‘ مہیا کرنا ہے۔ ہمارا کام اس پراپیگنڈے کو بے نقاب کرنا اور اس کی وضاحت کرنا ہے کہ ان جنگوں کے پیچھے اصل وجوہات کیا ہیں۔ اکثر اوقات جنگ سے حواس باختہ ہو کر بائیں بازو کے کارکنان چلا اٹھتے ہیں: ”ہمیں کچھ کرنا پڑے گا، ابھی کے ابھی!“ اور اس لیے اکثر اوقات وہ آخر میں سامراجی مداخلت کی حمایت کرنے لگ جاتے ہیں، خاص کر جب مداخلت کو اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ حاصل ہو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ جدید سرمایہ داری کی بنیادی اور نا گزیر خصوصیت ہے۔ جب تک سرمایہ داری موجود ہے، ایسی جنگیں ہوتی رہیں گی۔ اگر ہم واقعی میں سامراجی جنگوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمارا پہلا فریضہ ہے کہ جب بھی ہمیں موقع ملے تو جنگ کے حقیقی طبقاتی کردار اور اس میں شامل مختلف قوتوں کے حقیقی اہداف کی وضاحت کریں۔ سامراجی جنگوں کے خلاف عوامی تحرک ہمیشہ طبقاتی مؤقف کے ساتھ منظم کرنا چاہیے۔
فرانس کے اندر ہماری ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ فرانسیسی سامراجیت کے جرائم کو بے نقاب کریں اور ان جرائم کے خلاف مزدور تحریک کو منظم کریں۔ ہمیں تھکے بغیر وضاحت کرنی ہوگی کہ حقیقی اور پائیدار عالمی امن تب ہی ممکن ہوگا جب دنیا سے سرمایہ داری کا صفایا کیا جائے، جس کے نتیجے میں ہی سامراجیت کا خاتمہ ہو سکے گا۔
سوشلزم، اجتماعیت اور باہمی تعاون
جیسا کہ لینن نے لکھا تھا: ”سوشلزم کے علاوہ آگے کا کوئی راستہ نہیں۔“ بنیادی مسئلہ یہی ہے؛ ایف آئی سوشلزم کی جانب بڑھنے سے انکار کرتی ہے۔ میلنشون نے ماضی میں کہا تھا کہ وہ ’سوشلزم‘ کی بجائے ’اجتماعیت‘ کے لفظ کو ترجیح دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم اس بات سے اختلاف کرتے ہیں، مگر مسئلہ دراصل الفاظ کے چناؤ کا نہیں بلکہ عمل کا ہے۔ سوشلزم کا ہدف، مارکسی اعتبار سے، ملک کی تمام بڑی کمپنیوں کو اجتماعی ملکیت میں لینا ہوتا ہے۔ ایف آئی کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ پھر ایف آئی قائدین کا ’اجتماعیت‘ سے کیا مطلب ہو سکتا ہے؟
اس کا ایک جواب ’دولت کو تقسیم کرنا‘ کے عنوان سے لکھے گئے باب میں دیا گیا ہے۔ اس میں عوام کے باہمی تعاون کی سوسائٹیوں کی توسیع کرتے ہوئے سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے والی معیشت قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے ”تاکہ ایسے پبلک سروسز کو پروان چڑھایا جائے جہاں شہری، صارفین، ملازمین، اور نجی اور سرکاری شراکت دار مل کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔“ اس تجویز کو ”لبرل معیشت کے متبادل“ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ لبرل معیشت کا متبادل تو ہے مگر سرمایہ دارانہ معیشت کا نہیں۔ درحقیقت باہمی تعاون سرمایہ داری کا متبادل نہیں ہے، کیونکہ تعاون کرنے والی کمپنی منڈی کے اندر دیگر کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ بازی کرتی ہے، دیگر کمپنیاں تعاون کرتی ہوں تب بھی۔ اس مقابلہ بازی کو پیداواری صلاحیت اور محنت کی شدت بڑھانے، اجرتوں کو محدود رکھنے یا ان میں کٹوتی کرنے، اور مجموعی اجرتوں کو جتنا ممکن ہو کم رکھنے وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، محنت کش کمپنی کے ’مالک‘ ہوتے ہیں، مگر آخر میں روایتی سرمایہ دارانہ کمپنیوں کی طرح یہاں بھی ان کا استحصال ہوتا ہے۔ اکثر اوقات اس کے نتیجے میں کمپنی کے اندر عہدیدار محنت کشوں اور کام کرنے والے محنت کشوں کے بیچ فرق بڑھتا جاتا ہے۔
مزید برآں، چونکہ باہمی تعاون منڈی کے انتشار کو ختم نہیں کرتا، اس کے ہوتے ہوئے معاشی منصوبہ بندی ممکن نہیں ہوتی۔ منصوبہ بندی کے لیے ملک کے بڑے معاشی وسائل کو مرکزیت کے تحت اجتماعی ملکیت میں لینے اور ان کے جمہوری انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقلی اور جمہوری بنیادوں پر وسائل کی منصوبہ بندی کے لیے لازمی ہے کہ وہ تمام محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت میں ہوں۔
آج فرانس اور تمام بڑی سرمایہ دارانہ قوتوں کے اندر آبادی کی بھاری اکثریت محنت کش طبقے پر مشتمل ہے۔ تاریخ میں ان کا کردار یہ ہے کہ اقتدار پر قابض ہوں اور معیشت کی سوشلسٹ اور جمہوری منصوبہ بندی کی بنیاد پر سماج کو نئے سرے سے ترتیب دے۔ ذرائع پیداوار کے اجتماعی مالکوں کے طور پر وہ باہمی تعاون کے اہل ہوں گے، جو پوری آبادی کے کام کا بوجھ کم کرتے ہوئے ان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پیداوار کو منظم کر سکیں گے۔
یہ تناظر آج بھی اتنا ہی درست ہے جتنا کہ تب تھا جب مارکس اور اینگلز نے پہلی مرتبہ اسے سائنسی ڈھانچے میں پیش کیا تھا۔ یہ اس بربریت پر قابو پانے کا واحد ذریعہ ہے جس میں عالمی سرمایہ داری انسانیت کو دھکیل رہی ہے۔