|تحریر: ژغوم میتلو، ترجمہ: یار یوسفزئی|
فرانسیسی صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 10 اپریل کو منعقد کرایا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر امیدوار کون ہوں گے، مگر یہ پیشگوئی کرنا نا ممکن ہے کہ دوسرے مرحلے تک ان میں سے کون کون پہنچیں گے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ غیر یقینی صورتحال، بذاتِ خود، فرانسیسی بورژوا جمہوریت کے گہرے بحران کا اظہار ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب حکمران طبقہ صدارتی انتخابات کے نتائج کا اندازہ لگا سکتے تھے، کیونکہ سارے عمل کے دو ممکنہ نتائج ہوا کرتے تھے؛ دائیں بازو کی روایتی پارٹی (’آر پی آر‘، اور اس کے تحلیل ہونے کے بعد ’یو ایم پی‘) کی جیت، یا پھر سوشلسٹ پارٹی (پی ایس) کی جیت۔
ظاہر ہے کہ بورژوازی اپنی، یعنی دائیں بازو والی پارٹی، کی حمایت کرتے تھے۔ البتہ پی ایس کی جیت سے ان کے اقتدار اور مراعات کو کوئی بڑا خطرہ درپیش نہ ہوتا، کیونکہ ’سوشلسٹ‘ قائدین نے سر تا پا خود کو سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع کے لیے وقف کر دیا تھا۔ جب دائیں بازو کو شکست ہوئی، بڑے کاروباروں نے ٹھنڈی آہ بھری اور فلسفیانہ انداز میں کہا: ’چلو، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ دو پارٹی سسٹم میں دونوں کو مواقع دینے ہوں گے۔‘ انہیں پتہ تھا کہ پی ایس کے قائدین کی جانب سے لاگو کی گئی پالیسیاں ان کے ووٹروں کی اکثریت کو مایوس کر دے گی، جس سے دائیں بازو کے لیے اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار ہوگی۔
انتہائی عدم استحکام
یہ سلسلہ، جو فرانسیسی سیاست پر کئی دہائیوں سے غالب تھا، 2017ء کے صدارتی انتخابات میں جا کر تھم گیا۔ دائیں بازو کے امیدوار فرانسوا فیون کی کمپئین آدھے رستے میں تباہی کا شکار ہو گئی، جس کی وجہ محض بے شمار سکینڈل ہی نہیں، بلکہ یہ وجہ بھی تھی کہ نکولس سرکوزی (2007ء تا 2012ء) کا تباہ کن دورِ اقتدار 1930ء کی دہائی کے بعد سب سے بد ترین معاشی بحران پر اختتام پذیر ہوا تھا۔ دوسری جانب پی ایس کی مقبولیت میں دہائیوں تک سرمایہ داری کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور اپنے ووٹروں کی سودا بازی کرنے کے باعث کمی آئی، جو ابتدائی انتخابات میں ہی شکست سے دوچار ہوئی۔ اس اچانک انہدام سے بائیں بازو کی پارٹی فرانس آں سومیز نے فائدہ اٹھایا، جس کے امیدوار ژان لوک میلنشون کو 2012ء کی نسبت 2017ء میں 30 لاکھ ووٹ زیادہ ملے۔ جبکہ انتہائی دائیں بازو فرنٹ نیشنل کی امیدوار ماغین لوپین کو 2012ء کی نسبت پہلے مرحلے میں 13 لاکھ زیادہ ووٹ ملے، اور 2002ء میں اس کے باپ نے جتنے ووٹ حاصل کیے تھے، دوسرے مرحلے میں اس سے 50 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے۔
سیاسی منظرنامے پر مخالف رجحانات میں یہ اضافہ ایمانوئل میکرون کو جیتنے سے نہ روک پائی۔ مگر نام نہاد ’سینٹر‘ یعنی ’سٹیٹس کو‘ کی جیت سے 2017ء کے انتخابات کے ذیلی عوامل فنا نہیں ہوئے۔ پانچ سال بعد، سیاسی صورتحال آج بھی شدید عدم استحکام کا شکار ہے، جبکہ پولرائزیشن بڑھتی جا رہی ہے۔ اس عمل کی معاشی بنیادوں، سرمایہ داری کے نامیاتی بحران، کا خاتمہ نہیں ہوا۔ در حقیقت، بحران مزید گہرا ہو چکا ہے۔
یہ سچ ہے کہ یہ مضمون لکھتے وقت اس پولرائزیشن کا اظہار سیاسی منظرنامے کے دائیں جانب ہو رہا ہے، خصوصاً ایرک زیمور کے امیدوار منتخب ہونے اور سماج کی انتہائی رجعتی پرتوں میں اس کو ملنے والی حمایت کی صورت میں۔
تمام ٹی وی چینلوں پر خوشی سے بھرپور دائیں بازو کے تجزیہ کار رائے شماریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فخریہ انداز میں کہہ رہے ہیں، ”انتخابات دائیں بازو کے امیدواروں کے بیچ ہوں گے! بایاں بازو ابھی سے ہار چکا ہے!“ لگتا ہے کہ یہ سطحی اور ذہن کند کرنے والے تجزیوں کے حربے ووٹروں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے میکرون، پیکرس، لوپین اور زیمور کو بھی اپنانے چاہئیں۔ ان لوگوں کو سن کر آپ کو ایسا لگے گا کہ یہ چار بورژوا سیاستدان فرانسیسی ووٹروں کی اکثریت کے لیے آپس میں مقابلہ بازی کر رہے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ اس مرحلے پر رائے شماریوں کے مطابق دراصل اس چیز کا اظہار ہو رہا ہے؛ ممکنہ ووٹروں کی واضح اکثریت ووٹ ڈالنے کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت میں ہے، یا اگر انہوں نے ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کر بھی لیا ہے تو امیدواروں کے حوالے سے شش و پنج کا شکار ہیں۔ انتخابات کی پیشگوئی کرنا 2017ء کی نسبت زیادہ مشکل ہے۔ اسی وجہ سے اس کے نتائج کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال ہے۔
میلنشون بطور امیدوار
بہرحال، یہ دیوہیکل غیر یقینی صورتحال اس بات کا بھی اظہار کہ 2017ء انتخابات کے بعد فرانس آں سومیز (ایف آئی) بائیں جانب اپنی حمایت کو بڑھانا تو دور، مضبوط بھی نہیں کر پائی ہے۔ ایک انتہائی سطحی وضاحت جو بائیں بازو کے حلقوں سمیت کئی جگہوں پر کی جا رہی ہے، یہ ہے کہ میلنشون کو کافی عرصہ ہو گیا۔ البتہ اس قسم کی سوچ محنت کش طبقے اور سماج کی مظلوم ترین پرتوں کی بجائے پیٹی بورژوا دانشوروں میں زیادہ پائی جاتی ہے، جو مسلسل ’نئے‘ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ہم نے ایف آئی کے زوال کی حقیقی وجوہات کی نشاندہی کی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے، میلنشون اور اس کے ساتھیوں سے ایسی متعدد غلطیاں ہوئی ہیں جس سے دائیں جانب جھکاؤ نظر آتا ہے؛ پی ایس اور گرینز کے ساتھ اتحاد، پیلی واسکٹ تحریک کے بارے میں سیاسی تناظر دینے میں ناکامی، اپنی بیان بازیوں کو معتدل کرنا، اور ایف آئی کو مناسب ڈھانچے پر مبنی سیاسی پارٹی میں تبدیل کرنے سے انکار۔
یہ کہنا نا ممکن ہے کہ یہ غلطیاں میلنشون کے حالیہ کمپئین کی کامیابی کے لیے مہلک ثابت ہوں گی یا نہیں۔ اس حوالے سے اگلے چند مہینوں میں کئی عناصر اپنا کردار نبھائیں گے، جن میں خود میلنشون کا سیاسی رجحان بھی شامل ہوگا۔ البتہ ایک چیز زیادہ یقینی معلوم ہوتی ہے؛ میلنشون بائیں بازو کا وہ واحد امیدوار ہے جو میکرون سے لے کر زیمور تک دائیں بازو کے امیدواروں کو شکست دے سکتا ہے۔
اس کی ایک بنیادی وجہ ہے جس کا میلنشون کی شخصیت، یا اس سے کہ صدارتی انتخابات میں اس نے کتنی دفعہ حصہ لیا، سے کوئی لینا دینا نہیں؛ بائیں بازو کے ممکنہ ووٹروں کی بڑی تعداد کی پولرائزیشن کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ آن ایدالگو (پی ایس)، یانیک ژدو (گرینز) یا ان جیسے دیگر امیدواروں کے فرسودہ اور بیکار پروگرام کی حمایت نہیں کریں گے۔ محض اسی حقیقت، جس کے پیچھے سرمایہ داری کا گہرا بحران ہے، سے ابتدائی انتخابات کے لیے بائیں بازو کا اتحاد قائم کرنے کی سیاسی بنیادیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اگر میلنشون اس قسم کے کسی اتحاد میں جائے گا تو وہ بہت بڑی غلطی کرے گا، اور ابھی کے لیے اس نے ایسا کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
سرمایہ داری کا خاتمہ کرو!
2017ء کی طرح اس دفعہ بھی ریولوشن (عالمی مارکسی رجحان) کے فرانسیسی مارکس وادی دائیں اور انتہائی دائیں بازو کے امیدواروں کے خلاف، اور میلنشون کی جیت کے لیے مہم چلائیں گے۔ البتہ، 2017ء کی طرح ہم ایسا اپنے مارکسی نظریات اور پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کریں گے۔
اگر اگلے اپریل میں میلنشون منتخب ہو جاتا ہے، اسے حکمران طبقے، یورپی یونین، مالیاتی منڈیوں اور میڈیا کی سخت اور مسلسل دشمنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ ایف آئی حکومت کو ترقی پسند اصلاحات سے روکنے کے لیے جس حد تک ممکن ہو جائیں گے، کیونکہ، میلنشون چاہے جو دعوے کرے، مگر یہ اصلاحات بڑے کاروباروں کے مفادات کے خلاف ہوں گی۔ سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی، سرمایہ کاری سے انکار، آؤٹ سورسنگ، روزگار نہ دینے کی دھمکیاں؛ میلنشون کو روکنے کے لیے ان کے پاس یہی کچھ ہے، جیسا کہ 2015ء میں سپراس یا 1982ء میں میتراند کے ساتھ کیا گیا۔
ایسے حملوں کا سامنا ہوتے ہوئے ایف آئی حکومت کے سامنے محض دو راستے ہوں گے؛ ہتھیار ڈال دے، یا جارحانہ جواب دے۔ یعنی بڑے معاشی اداروں کو قومیانا پڑے گا تاکہ بورژوازی کو حکومت کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ذرائع سے محروم کیا جا سکے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میلنشون ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اور اس کے منشور، ’مشترکہ مستقبل‘، میں محض چند اداروں کو قومیانے کی بات کی گئی ہے، جس کے بعد بھی پیداوار کا اکثریتی حصہ نجی ملکیت میں رہے گا۔ مختصراً، منشور میں غیر ممکنہ بات کی گئی ہے؛ بحران زدہ سرمایہ داری کی بنیاد پر عوام کے معیارِ زندگی بہتر بنانا۔ یہ اس کی بنیادی کمزوری ہے۔
ہم اعداد و شمار اور حقائق کو لے کر انتخابات کی مہم میں اسی چیز کی وضاحت کریں گے۔ عالمی مارکسی رجحان کے فرانسیسی سیکشن، ریولوشن، کا پروگرام اگر ایف آئی سے مختلف نہ ہوتا تو اسے بطورِ علیحدہ تنظیم برقرار رہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ ہم دائیں بازو اور چار رجعتی امیدواروں کے اس ٹولے کے خلاف میلنشون کی حمایت کریں گے جو عوام کے استحصال اور ماحولیاتی بحران کو بڑھانا چاہتے ہیں، تاکہ ارب پتیوں کی دولت میں مزید اضافہ ہوتا رہے اور فرانسیسی سٹاک ایکسچینج میں نئے ریکارڈ قائم ہوتے رہیں۔ ہم درست سمت میں لیے جانے والے ایف آئی کے سارے اقدامات کی حمایت کریں گے۔ مگر ہم انقلابی انٹرنیشنل تعمیر کرنے کی ضرورت پر بھی اصرار کریں گے، جس کا منشور سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے پر مبنی ہو، سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا منشور، کیونکہ انسانیت کو بربریت میں دکھیلے جانے سے روکنے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔