|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|
21 دسمبر 2023ء کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام نام نہاد آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع اور شہروں میں احتجاجی جلسے اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔
مہنگائی کے خلاف 6 ماہ سے جاری عوامی تحریک آٹے پر سبسڈی، بجلی بلوں پر ٹیکسز کے خاتمے اور دیگر مطالبات کے گرد منظم ہونے والی اس خطے کی سے بڑی تحریک بن کر ابھری ہے، جسے ریاست جبر سمیت مختلف حربے استعمال کرنے کے باوجود ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
دو ماہ سے جاری طویل مذاکراتی سلسلہ ابھی تک بے نتیجہ ثابت ہوا ہے۔ ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان جاری ہر مزاکراتی نشست کے بعد مطالبات پورے کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے مزید کچھ وقت مانگ لیا جاتا ہے۔
20 دسمبر کو ہونے والے مزاکرات میں حکومت نے مزید دو ہفتوں کا وقت مانگ لیا ہے۔ ایکشن کمیٹی نے حکومت کو دو ہفتوں کا وقت دینے کے ساتھ بجلی بلوں کا بائیکاٹ جاری رکھتے ہوئے 21 دسمبر کو پورے ”آزاد“ کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کی کال دی تھی۔
مسائل کی دلدل میں دھنسے کشمیر بھر کے محنت کش عوام اپنے مسائل کے خاتمے کیلئے آج بھی پرعزم ہیں لیکن لاحاصل مذاکرات کا طویل عمل، مایوسی اور تھکاوٹ کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ ابھی تک حکومت مکمل بے حسی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہی کرتی نظر آئی ہے۔ بجلی کی پیداواری لاگت کے تعین کے لیے کتنا وقت درکار ہو سکتا ہے؟ جبکہ نام نہاد وزیر اعظم آزاد کشمیرنے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمیت مختلف فورمز پر خود بارہا یہ بتایا ہے کہ ہمارے خطے میں پیدا ہونے والی بجلی فی یونٹ 2.59 روپے میں پیدا ہوتی ہے۔ حکومت جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے تاکہ تحریک کو کمزور کیا جا سکے۔ بلا شبہ اس خطے کے محنت کش عوام نے مزاحمتی جدوجہد کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔ اسے ٹھوس حاصلات لئے بغیر ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
5 جنوری 2024ء کی ڈیڈ لائن کے بعد اگر حکومت کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں کرتی تو عوامی ایکشن کمیٹی کو بغیر وقت ضائع کیے جدوجہد کو آگے بڑھانے کیلئے فیصلہ کن اقدامات کی طرف بڑھنا ہو گا۔ ایک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال حکمرانوں کے غرور کو توڑنے اور عوامی حقوق کو تسلیم کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔