تحریر: ریولوشن|
ترجمہ: ولید خان|
’پیلی واسکیٹ‘ احتجاجی تحریک کا بڑھتا تحرک فرانسیسی طبقاتی جدوجہد میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ کسی بھی پارٹی، یونین یا تنظیم کی عدم موجودگی میں لاکھوں افراد نے ڈیزل اور پیٹرول پر ٹیکس بڑھوتری کے خلاف اس تحریک میں حصہ لیتے ہوئے نام نہاد حکومتی رعایتوں اور دھمکیوں کو پیروں تلے روند ڈالا ہے۔ پیلی واسکیٹ تحریک کو بھاری عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔
تحریک کی ثابت قدمی سماج میں موجود غم و غصے اور تکالیف کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ متحرک عوام میں اس وقت حکومت کے خلاف شدید نفرت پنپ رہی ہے جو ایک طرف تو مزدوروں، ریٹائرڈ افراد اور درمیانے طبقے پر مسلسل ٹیکسوں کا بوجھ بڑھاتی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف امیر ترین افراد کو ہر قسم کی ’ٹیکس چھوٹ‘، سبسڈی اور دیگر مراعات سے نوازا جا رہا ہے۔ پیلی واسکیٹ والے جان چکے ہیں کہ ’ماحولیاتی تبدیلی‘ کی بحث کی آڑ میں ٹیکسوں کی بھرمار مٹھی بھر طفیلیوں کے ہاتھوں میں عوام کو لوٹنے اور برباد کرنے کا محض ایک نیا ہتھیار ہے۔
فطری طور پر یہ تحریک سیاسی و سماجی طور پر ہم آہنگ ہے! حکومت کی ایندھن کی قیمتیں بڑھانے کی رجعتی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف مزدور بلکہ ہنر مند، چھوٹے کاروباری اور کسان، سفید پوش افراد، پنشن لینے والے اور دیگر عبوری سماجی پرتیں شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہیں۔ پیلی واسکیٹ تحریک کی سیاسی اور سماجی ہم آہنگی سماج میں موجود اس کی گہری حمایت کی آئینہ دار ہے۔ یہ صرف سب سے زیادہ شعور یافتہ پرتوں کا تحرک ہی نہیں بلکہ ایک ایسی سیاسی تحریک ہے جس نے سماج کی عمومی طور پر منجمد پرتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ظاہر ہے یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ تحریک کہاں تک جائے گی۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اس کردار کی حامل تحریک ایک انقلابی کیفیت کا شاخسانہ ثابت ہو سکتی ہے۔ لا ریونین جزیرے پر تحریک کا کردار ابھی سے باغیانہ ہو چکا ہے۔
عوامی تحریک پر لینن کے تاثرات
بائیں بازو کے وہ سرگرم کارکن جو تحریک کے ’تذبذب‘ پر تنقید کر رہے ہیں، ان کے لیے لینن کے لکھے گئے 1916ء کے یہ الفاظ لمحہ فکریہ ثابت ہوں گے ؛
’’جس شخص کو ایک ’خالص‘ سماجی انقلاب دیکھنے کی تمنا ہے، وہ ساری عمر انتظار ہی کرتا رہ جائے گا۔ ایسا شخص انقلاب کو سمجھے بغیر صرف انقلابی لفاظی کرنا ہی جانتا ہے۔۔۔یورپ میں ایک سوشلسٹ انقلاب ظلم و جبر اور عدم اعتماد کا شکار عوام کی کی دیو ہیکل جدوجہد کے سوا اور کچھ ہو نہیں سکتا۔ ناگزیر طور پر پیٹی بورژوازی اور پچھڑے ہوئے مزدوروں کی کچھ پرتیں بھی اس میں حصہ لیں گی۔۔ایسی شمولیت کے بغیر عوامی جدوجہد ناممکن ہے، اس کے بغیر کوئی انقلاب ممکن نہیں۔۔اور ناگزیر طور پر وہ اس تحریک میں اپنے تعصبات، اپنی رجعتی خیال پرستی اور کمزوریوں پر مبنی غلطیوں کو بھی ساتھ لے کر آئیں گے۔ لیکن عمومی طور پر وہ سرمائے پر حملہ کریں گے اور انقلاب کی شعور یافتہ پرت، محنت کش طبقہ، مختلف اور متضاد، رنگا رنگ اور بظاہر پر انتشار عوامی جدوجہد کے اس عمومی اظہار کو متحد کرتے ہوئے ایک سمت عطا کرے گا، اقتدار پر قبضہ کرے گا، بینکاری کو تحویل میں لیتے ہوئے ان تما م ٹرسٹ فنڈوں پر قبضہ کرے گا جن سے سب کو نفرت ہے (اگرچہ اس کی وجوہات مختلف ہیں!) اور اس کے ساتھ دیگرفیصلہ کن اقدامات کیے جائیں گے جن کے نتیجے میں بورژوازی کا تختہ الٹتے ہوئے سوشلزم کی فتح ہو گی، جو کہ بہرحال فوری طور پر اپنے اندر سے پیٹی بورژوا غلاظتوں کی ’تطہیر‘ نہیں کر سکے گی۔‘‘
لینن کی یہ چند سطریں پیلی واسکیٹ تحریک کی تشریح ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان میں مزدور وں کی ٹریڈ یونین اور سیاسی تنظیموں کے تاریخی کردار کی جانب بھی اشارہ ہے کہ عوامی جدوجہد کو ’متحد اور ہدف سے روشناس‘ کرتے ہوئے اقتدار کے حصول اور سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کی طرف مبذول کیا جائے۔ اس حوالے سے ایک صدی قبل لکھی گئی لینن کی تحریر اور مزدور تحریک کے نام نہاد ’قائدین‘ کے درمیان ایک دیو ہیکل خلیج موجود ہے۔ درحقیقت وہ کسی چیز کی ’قیادت‘ نہیں کرتے۔ اس وقت ان کا کام یا تو پیلی واسکیٹ تحریک پر حملے کرنا ہے یا پھر اس کو نظر انداز کرنا ہے۔
مثال کے طور پر CFDT کے قائد لارینٹ برگر نے اس تحریک کو ’مطلق العنانیت‘ پر مبنی قرار دیا ہے۔ مزدور تحریک میں سرمایہ د اروں کا ایجنٹ لارینٹ برگر موجودہ نظام کے دوام کی کوشش کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، یعنی بینکاری اور بین الاقوامی اجارہ داریوں کی آمریت (ایک حوالے سے یہ ’مطلق العنان‘ ہی ہیں)۔
یونین قیادت کی فاش غلطیاں
سب سے زیادہ طاقت ور اور لڑاکا ٹریڈ یونین کنفیڈریشن CGT کے قائد فلپ مارٹینیز کا کیا خیال ہے؟ ’بورژوازی کا تختہ دھڑن‘ اور ’سوشلزم کی فتح‘ اس کے خیالات سے کوسوں دور ہیں۔ یہ صورتحال افسوسناک ہے کیونکہ سرمایہ دارنہ بنیادوں پر عوامی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ تو پھر فلپ کے کیا خیالات ہیں؟ اس کا کہنا ہے کہ پیلی واسکیٹ کے ’جائز‘ غصے کے ساتھ اسے ہمدردی ہے لیکن وہ اپنی تنظیم کو اس تحریک سے علیحدہ رکھے ہوئے ہے کیونکہ وہ CGT کوانتہائی دائیں بازو کی پارٹی ’نیشنل فرنٹ کے ساتھ مارچ‘ کرتے دیکھنا نہیں چاہتا۔ ساتھ ہی وہ اس حقیقت کا بھی معترف ہے کہ تحریک میں انتہائی دایاں بازو ’اقلیت‘ میں ہے (درحقیقت وہ عمومی طور پر ایک انتہائی قلیل منظم قوت ہیں)۔ پیلی واسکیٹ کا پہلا اور مرکزی مطالبہ ایندھن پر لاگو نئے ٹیکسوں کی فوری واپسی ہے لیکن فلپ مارٹینیز اس مطالبے کی حمایت نہیں کرتا۔ اس کے برعکس اس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کم از کم اجرت پر نظر ثانی کی جائے تاکہ دیگر اشیائے صرف کے ساتھ ساتھ مزدور ’صاف ستھری گاڑیاں‘ بھی خرید سکیں!
یہ مؤقف بالکل غلط اور حقیقی صورتحال سے مکمل طور پر کٹاہوا ہے۔ ہاں ہمیں کم از کم اجرت اور عمومی اجرت میں اضافے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ لیکن یہ مطالبہ نہ تو پیلی واسکیٹ تحریک کے مرکزی مطالبے سے متصادم ہے اور نہ ہی اس کی نفی کرتا ہے۔ اس مطالبے کی مخالفت میں تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے کے بجائے CGT کے قائدین کو تحریک کے مرکزی (اور جائز) مطالبے کی حمایت کرنی چاہیے جبکہ قوت خرید میں اضافے کے عمومی پروگرام کا دفاع بھی کرنا چاہیے جس میں ظاہر ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔
CGT کو بتانا چاہیے کہ ایندھن ٹیکسوں میں اضافے کا ماحولیات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس اقدام کا مقصد بین الاقوامی اجارہ داریوں کے لیے لوٹ مار کرنا ہے تاکہ عوام سے یہ پیسہ لوٹ کر حکومت ان کو سبسڈیاں اور ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی رہے۔ اگر حکومت کو واقعی بجٹ کے لیے چند ارب یورو درکار ہیں تو وہ عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالنے کے بجائے ان اجارہ داریوں سے لیں! اس سادہ اور واضح حقیقت کو سامنے رکھنے کے بجائے فلپ مارٹینیز نے اشارہ دیا ہے کہ درحقیقت مالکان پیلی واسکیٹ تحریک کے پیچھے ہیں(اور اس حرکت کی وجہ سے بداعتمادی پھیل رہی ہے)۔
ایندھن ٹیکسوں میں کمی کی جدوجہد کو چھوڑنے کے فیصلے پر CGT نے میدان دائیں اور انتہائی دائیں بازو تنظیموں کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے جن کے جعلساز مقررین کو چند دن پہلے ہی پتہ لگا ہے کہ وہ ٹیکس اضافے کے خلاف ہیں اور یہ بات ہر کان تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خوش قسمتی سے CGT کے عام ممبران نے فلپ مارٹینیز کی باتیں سنی ان سنی کر دی ہیں۔ وہ پیلی واسکیٹ تحریک کے ساتھ متحرک ہیں۔ ان دونوں میں رابطے بنے ہیں اور مشترکہ اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے!
پیلی واسکیٹ کی حمایت کرو۔۔ جعلسازوں کو ننگا کرو!
یہاں ایک سوال ہے کہ CGT کیسے حکومت اور مالکان سے کم از کم اجرت میں 300یورو کا اضافہ کروائے گی؟ کیا یہ قیاس کیا جا ئے کہ ایک نیا ’متحرک دن‘ منظم کیا جائے گاجس کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا، اس حقیقت کے برعکس کہ پچھلے دس سالوں میں اس لائحہ عمل سے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوئے؟ اس وقت مارٹینیز کا طریقہ کار یہی ہے کہ اس عوامی تحریک سے علیحدہ رہتے ہوئے اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کیا جائے۔
ہم نے بارہا دہرایا ہے کہ ’متحرک دن‘ کا طریقہ کار قابل عمل نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے 2010ء، 2016ء اور 2017ء کی دیو ہیکل عوامی تحریکوں(اور دیگر تحریکوں) کو مایوس کن شکست ہوئی۔ فرانسیسی سرمایہ داری کا بحران اس قدر خوفناک ہے کہ جبری کٹوتیوں کو لاگو کرنے اور حاصلات کو چھیننے کی دوڑ میں ماکرون حکومت کسی بڑے سے بڑے تحرک دن کے خوف سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ موجودہ حالات میں اگر ہمارے طبقے نے کوئی قابل ذکر فتح حاصل کرنی ہے تو لازم ہے کہ معیشت کے مختلف شعبوں میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے ایک مزدور تحریک کو مہمیز دی جائے۔
بورژوازی اور اس کی ملازم حکومت کو یہی ڈر ہے کہ پیلی واسکیٹ تحریک سلسلہ وار ہڑتالوں کی تحریک کھول سکتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے کہ جب فلپ مارٹینیز نے اعلان کیا ہے کہ ’’تم یہ کام میرے بغیر نہیں کر سکتے! میں (انتہائی دائیں بازو کی)FN کے ساتھ تحریک میں شامل نہیں ہوں گا‘‘۔ یہ رویہ گھٹیا اور غیر معقول ہے۔ پیلی واسکیٹ تحریک نے عیاں کر دیا ہے کہ مزدوروں کی وسیع تر پرتیں شدید بے چین اور جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے میدان چھوڑ کر بھاگنے کے بجائے CGT قیادت کو ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے اس تحریک کی حمایت کرنی چاہیے اور تحرک کو آگے بڑھاتے ہوئے حکومت کی رجعتی پالیسیوں کے خلاف محنت کش طبقے کو متحرک کرنا چاہیے۔ CGT اپنے ممبران کو فوری کال دے کہ وہ پیرس میں 24 نومبر کو منعقد ہونے والے پیلی واسکیٹ احتجاج میں بھرپور شرکت کریں۔ واکوئز، لی پین اور دیگر بورژوا جعلساز کوشش کریں گے کہ تحریک کو لگام ڈالی جائے۔ اور یہی وہ موقع ہو گا جب ان کے چہروں پر پڑا مزدور ہمدردی کا مکروہ نقاب اتر جائے گا۔